DGKBH-001-HW-NOVELISTAN

Dil Ghalti Kir Betha hai by Huma Waqas

 

چلو نکلو۔۔۔ چلو شاباش۔۔۔ اب تو باقاعدہ زرداد ۔۔دانین کا بازو پکڑے اسے باہر نکال رہا تھا۔۔۔

اس نے اسے باہر نکالا اور تیزی سے پلٹا جالی کے دروازے کے پٹ دھماکے سے بند ہوۓ تھے۔۔۔

وہ دو قدم چلی لیکن پھر رک گٸی تھی۔۔۔ آنکھ سے اس بے دردی پہ آنسو چھلک پڑے تھے۔۔۔

وہ وہیں کھڑی تھی ابھی جب زرداد کی آواز اس کے کانوں میں پڑی اور وہ زمین میں گڑتی ہی چلی گٸی۔۔۔

وہ سمجھا تھا وہ اب تک جا چکی ہو گی۔۔۔ لیکن وہ وہیں دروازے کے پاس کھڑی تھی۔۔

اور جالی کے دروازے کی وجہ سے اندر ہونے والی ساری گفتگو باآسانی سن سکتی تھی۔۔۔

ایک تو نے مجھے اس عذاب میں ڈال دیا ہے۔۔۔ اس سے اب کیسے جان چھڑواٶں۔۔۔ زرداد جھنجلا کے بول رہا تھا۔۔

کیسے اسے بتاٶں کہ نہیں کرتا میں تم سے کوٸی محبت ۔۔ وحبت۔۔ میں نے تو بس تمھاری اکڑ ختم کرنی تھی۔۔۔

تیری وجہ سے پھنسا بیٹھا ہوں میں آج اس کلو کے ساتھ۔۔ ایک نظر نہیں بھاتی مجھے۔۔۔

چپک ہی گٸی ہے میرے ساتھ۔۔۔وہ بدر کو بیزاری سے اپنے دکھڑے سنا رہا تھا۔۔۔

تو بول دے نا اس کو۔۔۔ مجھے کیوں سنا رہا ہے۔۔۔ بدر نے بھی ترکی با ترکی جواب دیا۔۔

کیا۔۔کیسے ۔۔ بول دوں ۔۔ اتنا آسان ہے کیا سب۔۔ زراد کی ناگواری اور بےزرای عروج پہ تھی۔۔۔

تو نے ہی یہ گھٹیا مشورہ دیا تھا مجھے۔۔۔ مجھے کوٸی شوق نہیں تھا اس کلو سے جھوٹی محبت کا ناٹک بھی کروں۔۔۔

اتنی نفرت بھری تھی زرداد کے لہجے میں کہ باہر کھڑی دانین کا دل کٹ کے رہ گیا تھا۔۔دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔۔

جالی کا دروازہ ایک دھما کے سے کھلا تھا ۔۔۔ اور دانین زرداد کے بلکل سامنے کھڑی تھی۔۔ وہ کرسی پہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔

زرداد اور بدر کا ایک دم سے رنگ پیلا پڑ گیا تھا۔۔

دانین کا ہاتھ ہوا میں اٹھا تھا۔۔ اور اپنی پوری قوت لگا کے زرداد کے گال پہ ایک دھماکے دار تھپڑ کی صورت میں پڑا تھا۔۔۔

شرم تو نہ آٸی تمہیں۔۔۔ رونے سے دانین کی آواز بھاری ہوگٸی تھی ۔۔

پر وہ چیخ رہی تھی۔ چہرہ کرب سے ذلت۔۔۔اور تزلیل کے احساس سے سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ ۔

اس ۔۔اس۔۔ کی تو میں کچھ نہیں لگتی تھی۔۔ پر تمھاری تو چچا زاد تھی نا۔۔۔ دانین نے انگلی سے بدر کی طرف اشارہ کیا۔۔

آواز رونے کی وجہ سے بھاری اور پھٹی ہوٸی لگ رہی تھی۔۔۔

اپنے سامنے کھڑے اس شخص کو اس نے حقارت سے دیکھا تھا۔۔۔

جو کچھ دن پہلے اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔۔۔ دانین کی آنکھوں میں ذلت کی وجہ سے خون اتر آیا تھا۔۔

محبت کا بھوت ساری تزلیل بھری باتیں سن کہ بھک سے اڑ گیا تھا۔۔۔

اتنی گری ہوٸی حرکت کی تم نے اپنی اس چچا کی بیٹی کے ساتھ جو تمہیں اتنا پیار کرتے ہیں تم پہ جان چھڑکتے ہیں۔۔۔

لعنت ہو تم پہ زرداد ہارون۔۔۔ لعنت ہو تم پہ۔۔۔۔ وہ زور سے چیخی تھی۔۔۔

گلا درد کی شدت سے پھٹی ہوٸی آواز باہر نکال رہا تھا۔۔۔ ناک اور آنکھوں سے پانی رواں تھا۔۔

ماتھے اور گردن سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔۔۔

زرداد دم سادھے کھڑا تھا۔۔ اسے اندازہ بھی نہیں تھا۔۔ کہ دانین کو یوں حقیقت کا پتہ چلے گا۔۔

مجھے گھن آ رہی تمھارے وجود سے۔۔۔ تم کیا مجھ سے اپنی جان چھڑواٶ گے میں تھوکتی ہوں تم پہ۔۔۔

وہ غصے سے مڑی دروازے کہ پاس گٸی ۔۔ اور پھر پلٹی تھی۔۔ ایک دم سے ۔۔۔ اب اس کا رخ بدر کی طرف تھا۔۔۔

ایک زناٹے دار تھپڑ اب بدر کی گال کی زینت بنا تھا۔۔۔

جالی کا دروازہ ایک دھماکے سے بند ہوا تھا۔۔۔

اس کا دل گھبراہٹ سے پھٹ جانے کو تھا۔۔ من من بھاری قدم اٹھاۓ کو نہیں اٹھ رہا تھا۔۔۔

آنسو ایسے تھے کے گلی کا تھوڑا سا راستہ میلوں کا راستہ دکھاٸی دے رہا تھا۔۔۔ اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔۔۔

زلت۔۔۔ تزلیل۔۔۔ کیا کچھ نہیں ساتھ لے کر لوٹ رہی تھی وہ۔۔ لینے کو تو صرف اسے گٸی تھی۔۔۔ پر ۔۔۔

تیر کی سی تیزی سے وہ بیٹھک کے کھلے دروازے میں داخل ہوٸی اور کنڈی چڑھاتے ساتھ ہی دروازے کے ساتھ بیٹھتی ہی چلی گٸی۔۔۔

 

Click here to Download novel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *