Novel: Teri Qurbatain Sarab Si
Writer: Sundus Sheikh
Genre: Second Marriage Based, Step mother & daughter Love….
دن میں سونے کے وجہ سے اکثر اسے رات میں نیند نہیں آتی تھی ۔ وہ چپ چاپ چھت پر آگئی نجانے سارے اداس لوگوں کو چھت کیوں اتنی پسند ہوتی ہے ۔
رات کے اندھیرے اور ہلکی ہلکی دھند میں آس پاس کا ماحول بہت بھیانک لگ رہا تھا ، نجانے کیوں اسے خوف آیا ،حالانکہ اس کی تو پوری زندگی اندھیرا تھی اسے اندھیرے سے خوف کھانے کی کیا ضرورت تھی۔۔
وہ ڈر کی وجہ سے نیچے جانے کا سوچنے لگی ۔
خیریت ہے سالی صاحبہ یہاں مراقبے میں بیٹھی کسے یاد کر رہی ۔ پیچھے سے کامران کی آواز پر وہ جم سی گئی ،اس کا وجود برف سا ہوگیا نا اس سے اٹھا جارہا تھا نا پیچھے مڑ کر دیکھ پارہی تھی ۔
بڑی مشکل سے خود کو سنبھالتی وہ مضبوط قدموں سے مڑ کر اس کے پاس سے گذرنے لگی۔
ارے لگتا ہے ہم نے مخل ہو کر غلطی کردی،آپ برا مان گئیں تو ہم ابھی چلے جاتے ہیں ۔ وہ بڑی بیباکی سے اس کا جائزہ لے رہا تھا
اسے لگ رہا تھا کہ دوپٹہ اسے ڈھکنے کے لئے ناکافی ہورہا ہے ، اس نے چھت پر بنے اسٹور روم کے دروازے پر پڑے پرانے بدرنگ اور گندے پردے کو کھینچ کر خود پر لے لیا۔
کامران خباثت سے ہنسنے لگا ، اسے اس کی بےبسی اچھی لگ رہی تھی
وہ تیز رفتاری سے سیڑھیوں کی طرف بڑھی اور اگلے ہی پل لڑکھڑاتی ہوئی نیچے آگئی۔
اس کی زور دار چیخ سے گھر کے کئی لوگ اٹھ کر آگئے ،کامران گھبرا گیا ،چھت سے اترنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔
وہ میں پانی پینے جارہا تھا ، اس نے مجھے آواز لگا کر بلایا مجھے لگا کچھ کام ہوگا میں گیا تو میرے ساتھ زبردستی کرنے لگی ،میرا ہاتھ لگ گیا تو یہ نیچے گر گئی۔ اگلے ہی پل وہ سیڑھیاں اتر کر جلدی جلدی وضاحت کررہا تھا ۔
کمینی ،آوارہ۔ تمہیں ڈورے ڈالنے کے لئے میرا ہی شوھر ملا تھا ۔ انعم غصے کی شدت سے اس پر ٹوٹ پڑی
جیسی ماں ویسی بیٹی ، اسی لیے اس کے آتے ہی میں نے اپنے بچوں کو ہاسٹل بھیج دیا ۔ مامی نے بھی اس کے بال کھینچے
پردے میں لپٹا وجود بنا کچھ بولے ہی چیخ چیخ کر اپنی گناہی کی گواھی دے رہا تھا لیکن وہاں موجود ہر فرد نگاہیں چرا رہا تھا ۔ کیوں کہ اپنی ماں جیسی عورت کی بیٹی صرف وہ تھی اور کوئی نہیں ۔
اب اسکی اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ مامی نے حقارت سے اسے دیکھتے ہوئے قطعیت سے کہا
گرینی نے التجائیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا لیکن وہ پتھر بنے ہوئے تھے
وہ چپ چاپ اٹھیں اور اندر جاکر ایاز مرزا کو فون ملایا ، تھوڑی دیر پس و پیش کے بعد وہ آگئے
یہ کون ہے ؟ سہیل صاحب نے ماں سے پوچھا
یہ اس کے باپ کا دوست ہے ۔ گرینی نے تھکے تھکے لہجے میں جواب دیا
باپ کا دوست یا ماں کا گاہک ۔ انعم نفرت سے بولی ، اس کی آنکھوں سے انگارے نکل رہے تھے
یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے ، اس بچی کی بربادی کی ذمہ دار میں ہوں ۔ گرینی زور زور سے رونے لگیں
ایاز کے لئے یہ ماحول برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا اس لىے وہ عینَز کو لئے گھر سے باہر نکل آئے ۔۔
بیٹی کے شوہر ہو اس لئے مجبور ہوں ، لیکن صبح ہوتے ہی یہاں سے چلے جاؤ آج کے بعد میرے گھر انعم کو لینے یا پہونچانے کے لئے بھی مت آنا ، اس کو جب آنا جانا ہوگا میں لے آؤں گا ۔ سب کے اندر جانے کے بعد سہیل صاحب نے زہریلے لہجے میں کامران کو وارن کیا
لیکن میری کیا غلطی ؟ ۔ اس کی زبان لڑکھڑائی
کوئی لڑکی کسی مرد کو لبھانے کے لئے ،گندہ پرانا بوسیدہ پردہ اوڑھ کر نہیں جاتی ہے۔ وہ اس آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے
کامران ایک دم سن ہوگیا ۔وہ اندر جا چکے تھے ۔
*******
Click here to download novel

Related Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *