Novel: Guman sy Agy
Writer: Umme Hania
Genre: Rural girl | education struggle | perseverance | overcoming obstacles | empowerment | societal barriers | dreams | Hostel Life | hard work | intelligence | success story | village girl | education fight | determination | societal restrictions | empowerment journey | dream pursuit | overcoming challenges | determination | success | rural background | societal challenges | higher education | career success |
Click here to Download Novel
Guman sy Agy by Umme Hania
اسے اپنے سر اور آنکھوں پر ایک نا محسوس سا بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرتے اسنے نہایت دقت سے آنکھیں وا کئیں۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے ماحول سے مانوس ہوتے۔۔۔ لیکن سب یاد آتے ہی وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔۔۔ اسنے ہراساں نگاہوں سے ارد گرد دیکھا وہ ایک ویران جگہ تھی جس میں ایک خستہ ہال اور سیلن زردہ دیواروں کے حامل کمرے میں وہ سخت پتھریلی زمین پر موجود تھی ساتھ ہی کچھ لکریوں کے گھٹھر پڑے تھے۔۔۔
وہ خوفزدہ نگاہوں سے کسی سہمی ہوئی ہرنی کی مانند اردگرد دیکھ رہی تھی جب اپنے پیچھے پڑنے والے قہقے کی آواز پر اسنے جھٹکے سے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ آپ۔۔۔ سامنے موجود کرسی پر کروفر سے بیٹھے شخص کو دیکھتے اسکی آنکھیں حیرت سے وا ہوئی تھیں۔۔۔۔۔
ہاں میں۔۔۔ کیسا محسوس ہو رہا ہے تمہیں میری قید میں آ کر جان من ۔ تمہیں کیا لگا تھا کہ میں اپنی بے عزتی اتنی جلدی بھول جاوں گا۔۔ تمہیں حساب دینا پڑے گا۔۔۔ ایک ایک چیز کا حساب۔۔۔ تم سے تمہاری ذات کا مان نہ چھین لیا نہ تو کہنا ۔۔۔ آج یہاں سے تم نکلو گئ تو تمہارے چہرے پر نصیب کی وہ کالک اور سیاہی ثبت ہو گئ کہ کسی سے تو کیا تم خود سے بھی نگاہیں نہیں ملا پاو گئ۔۔۔ تم جیسی بدبخت بیٹی کے باعث لوگ تمہارے باپ پر تھو تھو کریں گئے۔۔۔ ذلیل و خوار نہ کر کے رکھ دیا نا تمہیں تو کہنا کہ میرا نام۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔
وہ شخص متکبرانہ التقابات سے اسے نوازتا کرسی سے اٹھتا اسکی جانب بڑھا تھآ۔۔۔ اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھا وہ سہمی ہوئی ہرنی سرعت سے اٹھی تھی۔۔۔ سفید کالج کے یونیفارم پر جگہ جگہ مٹی لگ چکی تھی۔۔۔ لمحوں میں اسکی آنکھیں پانیوں سے بھری تھی۔۔۔ جب موت تہہ ہے تو لڑ کر مروں گی نہ پہلے ہی کیوں ہتھیار ڈال دوں اس طاقتوار فرعون کو دیکھتے اس دھان پان سی لڑکی کی اندرونی انا اور عزت نفس نے انگرائی لی تھی نہتہ بنا لڑے مرنے کے احساس نے اس کے حوصلوں کو وسعت دیتے پرواز بخشی تھی۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ شخص اس پر جھپٹتا اس لڑکی نے اپنی پوری قوت سے ٹانگ اس شخص کے پیٹ کے نچلے حصے پر ماری تھی وہ شخص درد سے بلبلاتا جھک کر دونوں ہاتھ مخصوص جگہ پر رکھتا کچھ قدم پیچھے ہٹا تھا وہ اس دھان پان سی لڑکی سے اتنی جرات کی امید نہیں رکھتا تھا۔۔۔
وقت کے فرعون کیا تو نہیں جانتا کہ وہی اللہ ہے جو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے پھر تو نے کیا سوچ کر آج میری تقدیر میں سیاہیاں بھرنے کا خدائی دعوی کیا۔۔ وہ خون آشام نگاہوں سے اسے دیکھتی بنا اسے سمبھلنے کا موقع دیئے پاس پڑے لکڑیوں کے گھٹھر سے ایک مضبوط لکڑی اٹھائے بنا پوری قوت سے اس پر پے در پے وار کر رہی تھی۔۔۔ اس لڑکی کا سانس بری طرح پھولنے لگا تھا ماتھے پر پسینے کے ننھنے قطرے چمک اٹھے تھے۔۔۔
اندر سے سوکھے پتے کی مانند تھر تھر کانپتی بظاہر وہ خود پر بہادری جرات اور حوصلے کا لبادہ اوڑھے مقابل سے اپنا ڈر و خوف چھپائے کھڑی تھی۔۔۔ اسقدر جرات اور حوصلے کا مظاہر کرتے بھی متوقع صورتحال کے پیش نظر اس پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔۔۔ کپکپاتے ہاتھوں میں تھامی مضبوط لکڑی کو مزید تھامے رکھنا دشوار ثابت ہو رہا تھا مگر وہ سب کچھ اپنے اندر دبائے ثابت قدم کھڑی تھی۔۔۔۔جبکہ اس خستہ حال کمرے میں اس شخص کی کراہیں گھونج رہی تھیں۔۔۔
بیٹی ہوں تو کیا ہوا اب مجھ سے جینے کا حق تک بھی چھینوں گے۔۔۔ میرے باپ کا سر ہمیشہ میرے باعث فخر سے بلند ہوگا۔۔۔۔میرے باپ کو رسوا کرنے اور نیچ دکھانے کی خواہش تم قبر کی مٹی میں ہی ساتھ لے کر جاو گئے کیونکہ میرے ہوتے ہوئے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔۔۔۔ بیٹیوں کے متعلق تم جیسے گھٹیا شخص اور انکی گھٹیا سوچ کو تیل ڈال کر آگ لگانے کے لئے ہی میرا نزول ہوا ہے۔۔۔ اسنے ایک اور ضرب پوری قوت سے اسکے سر پر لگائی تھی۔۔۔ لمحوں میں وہ فرش خون سے لال ہوا تھا۔۔ نجانے کون کونسی محرومیوں کے بدلے آج وہ قدرتی طور پر وقت کی جانب سے ملے موقع پر اس سے لے رہی تھی۔۔۔ بلآخر ہانپتی ہوئی وقت کی نزاکت کا احساس کرتی وہ اسے وہیں چھوڑے اپنا کالج بیگ اٹھاتی بعجلت وہاں سے بھاگی۔۔۔ اسکے کالج کی چھٹی دو بجے ہوتی تھی اب نجانے کیا وقت تھا اور وہ نجانے کہاں تھی اسے جلد از جلد اپنے گھر پہنچنا تھا جہاں نا جانے اسکی گمشدگی کے باعث کیاحالات تھے
Post Views: 216
Love it🫶🏻
Bhot jandar content tha . Larkio ko moom hona chaye har halat me dhal jaye likn ha na chory apna. . it’s a amazing concept. Umme Haina ney impress kar dea umera or Nemrah Ahmad k bad