Novel Code: LNRID-001-MK-NOVELISTAN
Lamiya Nei Rahwa Ishq Diya by mirha khan
“Arrogant Saleh Yousaf’s Aura ”
انتظار کرتے کرتے وه اونگھنے لگی تھی کہ وه ستمگر دروازه کھول کر اندر آیا۔۔
دروازه بند ہونے کی آواز پر اسکی دھڑکنیں بےترتیب ہوئیں۔۔
“آپ کو یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے اٹھیں یہاں سے” وه ماتھے پر بل ڈالے بولا۔۔
مشائم کی آنکھوں میں نمی چمکی۔۔ وہ آہستہ سے بیڈ سے نیچے اتری اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔۔
اپنے بددماغ یوسف سے تو اسے کوئی امید نہیں تھی کہ وه اس کا گھونگھٹ اٹھائے گا سو اس نے آہستہ سے خود ہی گھونگھٹ اٹھا دیا
اور سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔۔ مکمل سفید رنگ اس نے پہلی بار پہنا تھا شاید جو اس پر بہت جچا تھا۔۔
سكن شال کندھوں پر آگے کی طرف گر رہی تھی۔۔
پہلی بار اسکے یوں بےحجاب ہونے پر صالح یوسف ساکت ہوا تھا۔۔ اس نے بے حسین چہرے دیکھے تھے لیکن ایسا حسن؟ واللہ!!!
بڑی بڑی بھوری غزالی آنکھوں سے اسکی نظر پهسلتی اس کے ناک میں پہنی نتھ سے ٹکرائی
اور نتھ میں لٹکتے موتی سے مہرون لپ سٹک سے رنگے تراشیده لبوں پر آ کر ٹھہر گئی۔۔ سرد رات بند خاموش كمره اور جائز رشتہ!!!
اس سے پہلے کہ وہ اس ہوشربا کے حسین نازک سراپے کے آگے بہکتا وه خود پر قابو پا گیا۔۔
اس نے ماتھے پر بل ڈالے اور پلٹ کر شال اتار کر دور صوفے پر اچھال دی۔۔
آ۔۔آپ ایسا کیوں کررہے ہیں میرے ساتھ ؟ اسکا کہنا ہی تھا کہ وه پلٹ کر اس تک آیا اور
اسکے نازک بازوؤں میں اپنی سخت انگلیاں گاڑ کر خود سے قریب کر گیا۔۔ مشائم نے ڈر کر آنکھیں موندی تھیں۔۔
اسکی اتنی سخت گرفت پر دو آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے۔۔
صالح نے سختی سے لب بھینچ کر اسکے چہرے کو دیکھا۔۔
“بہت شوق تھا نہ آپ کو صالح یوسف کی زندگی میں آنے کا،، اب سہیں میرے مزاج کے سرد پن کو!!!
وہ اسکے منہ پر درشتگی سے بولا۔۔
درد ۔۔۔ ہور۔۔۔ہا۔۔ ہے!!! مشائم اس کی آہنی گرفت پر روتے ہوئے کہنے لگی۔۔ صالح کی تیوری چڑھی۔۔
او ہو درد ہورہا ہے آپ کو ؟ ارے رو کیوں رہی ہیں؟ آپ کو تو یوسف سے عشق تھا نہ؟
تو پھر گھبرا کیوں رہی ہیں اتنے سے درد پر۔۔ کیا آپ جانتی نہیں ” درد جتنا شدید ہوتا ہے عشق اتنا مزید ہوتا ہے”
اسکے کان کے پاس جھک کر سرگوشی میں کہتا وه جھٹکے سے اسے چھوڑ کر ہٹا۔۔
وه منہ پر ہاتھ رکھتی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔ صالح نے کوفت سے اسے دیکھا اور چینج کرنے چلا گیا۔۔
جب وه واپس آیا تو ڈھیلی سی سلیو لیس شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس تھا۔۔
کیا اب یہیں جمے رہنے کا اراده ہے؟ وہ ہلکی آواز میں کہتا بیڈ کی جانب بڑھا۔۔ وه شوں شوں کرتی لهنگا اٹھا کر باتھروم میں جانے لگی کہ رک گئی۔۔
میرے کپڑے؟ اسے نئے سرے سے رونا آیا۔۔ “ابھی
الماری سے کچھ نکال کر پہن لیں” وه چت لیٹتا گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا تو وه خفگی سے اسے دیکھتی الماری تک آئی
اور دونوں پٹ کھول کر کھڑی ہوگئی۔۔ الماری میں صرف صالح کے کپڑے تھے۔۔
یہ پہنوں میں؟ اس نے دل میں سوچا۔۔ اور کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔۔ اسکا سامان پتہ نہیں کہاں رکھا تھا۔۔
اس نے درميانے خانے میں رکھی ٹی شرٹس میں سے بلیک ٹی شرٹ نكالی اور بلیک ٹراؤزر نکال کر
لهنگا مشکل سے سنبهالتی آہستہ آہستہ چلتی باتھروم میں گئی اور زور سے دروازه بند کیا۔۔
وه جو اسکی ساری کروائی ملاحظہ کررہا تھا اسکے زور سے دروازہ بند کرنے پر ایک پل کو آنکھیں میچ گیا۔۔
يقیناً یہ آواز انجم کے کمرے تک بھی گئی تھی۔۔
ایک منٹ بعد پھر دروازه کھلا اور وه غصے سے اسے دیکھتی باہر آئی۔۔
کیا؟ صالح اسکی غصے سے پھولتی ناک کو دیکھ کر بھنویں اچکا گیا۔۔
یہ سب نہیں اتر رہا۔۔ پنیں بہت لگی ہیں!!! وه غم و غصے کی ملی جلی کیفیت سے بولی۔۔ اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ ابھی رو دے گی۔۔
تو میں کیا کروں؟؟ صالح لا پرواہ انداز میں کہتا کروٹ بدل گیا۔۔
میں امی جان سے مدد لے لیتی ہوں پھر!!! وه تن فن کرتی دروازے کی جانب بڑھی۔۔
صالح کا لاپرواہی بھرا انداز پل میں اڑن چھو ہوا۔۔
وه اٹھ بیٹھا اور بھنویں سکیڑ کر جلدی سے بیڈ سے اترا اور اس کی کلائی تھام کر کمرے کے بیچوں بیچ لے آیا۔۔
پاگل ہوگئی ہیں آپ؟ وه خفگی سے بولا۔۔