SCMR-CNVL-UMHN
Novel: Scammer: The Art of Deception Writer: Umme Hania
Genre: |Scammers| |Crime| |Thriller| |Team Dynamics| |Con Artists| |Technology| |Deception| |Trust| |Betrayal| |Greed| |Morality| |Hacking| |Social Engineering|
Scammers have existed for centuries, evolving with time and technology. In this novel, we delve into the lives of a group of scammers, each with their own unique skills, who form a team to execute elaborate schemes and deceive their unsuspecting victims. *Plot Summary:* The story revolves around a master scammer, Rayan, who leads a team of skilled con artists. Their primary target is middle Class Families….
عائزل ہنوز وہیں دیوار کے ساتھ لگی کانوں پر ہاتھ رکھے سہمی سی بیٹھی تھی۔۔۔
اسکے پیچھے فانوس کا کانچ ویسے ہی بکھرا ہوا تھا۔۔ اسکا دل ابھی تک خوف کے زیر اثر ڈھرک رہا تھا۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے یہاں جو بھی ہوا۔۔۔ دائم کا یوں آپے سے باہر ہو کر گولی چلانا ۔۔۔
وہ ہنوز شاک میں تھی۔۔۔ زرا جو گولی ہل جاتی تو ابھی اسکے آر پار ہوتی۔۔۔
یہ زندگی اتنی تلخ کیوں تھی۔۔۔ وہ ہنوز اس سارے معاملے میں اپنا قصور تلاش کر رہی تھی۔۔۔
خوف زدہ نگاہوں میں کئ عکس ابھرنے اور مٹنے لگے تھے۔۔۔ کئ حالات و واقعات۔۔۔۔
پھر دھند کے مرغولوں میں ایک منظر بننے لگا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں موجود حور کے بال بنا رہی تھی۔۔۔
حور ڈریسنگ ٹیبل پر بیٹھی تھی اور وہ اسکے سامنے کھڑی مسکرا کر اسکے چھوٹے چھوٹے بالوں میں چھوٹی سی پونی بنا رہی تھی۔۔۔
پونی بنا کر اسنے مطمیں ہوتے دو قدم پیچھے ہٹ کر اپنی ننھی گڑیا ہو دیکھا۔۔۔
پنک کلر کی خوبصورت فراک میں وہ واقعی باربی ڈول لگ رہی تھی۔۔۔ عائزل نے اسکے چہرے کا بوسہ لیا ۔۔۔
ڈریسنگ کے شیشے سے بیڈ پر پڑے اسکے عروسی جوڑے اور جیولری کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔۔۔
ارے عائزل بچے ابھی تیار ہونا شروع نہیں ہوئی۔۔۔ بیوٹیشن تو کب سے آگئ ہے ۔۔۔
دفعتاً پھوپھو بعجلت اندر داخل ہوتی اسے ہنوز ایسے ہی بیٹھا دیکھ گویا ہوئی۔۔۔
جی جی پھوپھو وہ میں دراصل حور کو تیار کر رہی تھی۔۔۔ اسنے حور کو گود میں اٹھاتے اسکے گال کا بوسہ لیا۔۔۔
چلو اچھا ہوا یہ تیار ہوگئ۔۔ لاو اسے مجھے دو اسے اسکے باپ کے حوالے کرتی ہوں۔۔۔
تم جلدی سے تیار ہو جاو۔۔۔ ظہر کے بعد نکاح ہے اور تم ابھی تک تیار ہونا شروع بھی نہیں ہوئی۔۔ تم بیٹھو میں بیوڑیشن کو بھیجتی ہوں۔۔۔۔
وہ حور کو گود میں اٹھاتیں باہر نکل گئیں تو عائزل ڈریسنگ مرر کے سامنے ہی بیٹھتی آئینے میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔۔۔
وہ ابھی تک کل والے ملگجے کپڑوں میں ملبوس تھی بالوں کا رف سا جوڑا بنا رکھا تھا۔۔۔ لیکن اس حلیے میں بھی اسکی رنگت دمک رہی تھی۔۔۔
یہ ہی تو روپ تھا جس سے مامی خار خاتی تھیں۔۔۔ آج اسے مامی بھی پوری جزئیات سے یاد آئی تھیں۔۔۔
عفیفہ کی شادی کے بعد انکے تعلقات کافی بہتر ہو گئے تھے۔۔۔
وہ اداسی سے مسکرائی۔۔۔ یقیناً ابھی بیوٹیشن آتی تو مزید اسکی نوک پلک سنوار دیتی۔۔۔
آج اس نکاح کے وقت اسکے اندر کچھ نہیں تھا صرف خاموشی تھی۔۔۔
یقیناً وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا۔۔۔ اسکی گڑیا ہمشہ اسکے ساتھ رہتی۔۔۔۔
وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی جب اسے بایر سے شور کی آوازیں سنائی دینے لگی۔۔۔
جیسے کوئی چلا رہا ہو۔۔۔ اسکا دل زور سے ڈھرکا۔۔۔ لڑائی جھگڑوں میں ویسے بھی وہ کپکپا اٹھتی تھی۔۔۔
اسنے پورا دھیان لگا کر آوازوں کو سمجھنے کی کوشیش کی۔۔۔
دیکھیں مسٹر آپکو کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔
آج ہمارا نکاح ہے۔۔ یہ آواز داود کی تھی ناجانے وہ کسے کہہ رہا تھا۔۔۔
بڑھتی آوازوں اور تو تو میں میں کے دوراوں وہ سرعت سے دوپٹہ اورھتی باہر نکلی۔۔
سامنے کا منظت ناقابل یقین تھا۔۔۔
گو کے نکاح سادگی سے ہو رہا تھا جبکہ اسکے باوجود سبھی قریبی رشتہ دار اس نکاح میں مدعو تھے۔۔۔
سبھی رشتہ دار اس وقت لاوئنج میں ایک مجمع کی صورت کھڑے تھے
جنکے بیچ و بیچ ایک ہنڈسم سا نوجوان بکھرے بال اور سرخ پڑتی نگاہوں کے ساتھ غصے سے چلا رہا تھا۔۔۔
جبکہ داود اور پھوپھو اسکے پاس ہی کھڑے کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔
عائزل کے خاک پلے نا پڑا۔۔۔
وہ دو قدم مزید آگے بڑھی۔۔۔ دفعتاً اس شخص کی عائزل پر نظر پڑی۔۔۔
عائزل نے واضح اسکی آنکھوں میں جنون کو جنم لیتے دیکھا۔۔۔
عائزل کی ریڈھ کی ہڈی تک سنسا اٹھی۔۔۔
یہ دیکھیں آگی یہ بھی۔۔۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اسکی جانب بڑھا اور
اسکی نازک بازو کو اپنی وحشانہ گرفت میں جھکڑتا کھینچ کر اس مجمع کے درمیان میں لے آیا۔۔۔
اسکی گرفت بازو پر محسوس کر کے عائزل کپکپا اٹھی۔۔۔ بے تحاشہ غصے سے اسنے اس سر پھرے کو دیکھا۔۔۔
پوچھے اس سے۔۔۔ کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے یہ۔۔۔ اگر یہ اس شادی سے اتنا ہی خوش اور مطمئں تھی تو مجھے کیوں خواب دکھائے اسنے ۔۔۔
کیوں آدھی آدھی رات تک مجھ سے باتیں کرتی رہی۔۔۔ کیوں میرے ساتھ محبت کے اتنے دعوے کئے اسنے۔۔۔
وہ شخص اسے داود کے سامنے لائے غرایا۔۔۔ جب عائزل اسکا ہاتھ بے طرح جھٹکتی پیچھے ہٹی۔۔۔
کیا بکواس ہے یہ۔۔۔ کون ہو تم۔۔۔ میں تو تمہیں جانتی تک نہیں اور تم بکواس کر رہے ہو۔۔۔۔۔
غصے سے عائزل کی آواز تک کپکپا رہی تھی۔۔۔ سب لوگوں کی مشکوک نگاہوں کا مرکز بننا اسکے لئے موت کے مترادف تھا۔۔۔
پتہ نہیں کون پاگل تھا جو اس سے اتنا گھٹیا مذاق کر رہا تھا۔۔۔ اسکا تو دل چاہا کے زمین پھٹے اور اس میں سما جائے۔۔۔
اوہ۔۔۔ ویری گڈ۔۔۔ تو اب محترمہ عائزل صاحبہ مجھے پہچاننے سے بھی انکاری ہے۔۔۔ مجھے مطلب داود خان کو۔۔۔ گریٹ۔۔۔ وہ تالی بجاتا داد دینے والے انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔
لیکن تمہیں کیا لگتا ہے یہ اتنا آسان ہے۔۔۔ جو شخص تمہارا ایڈریس ڈھونڈ کر تم تک پہنچ سکتا ہے وہ تمہیں تمہارے دھوکے سے انکاری ہونے دے گا۔۔۔
وہ اسکے قریب آتا پھر سے غرایا۔۔۔
عائزل ڈر کر دو قدم پیچھے ہٹی۔۔۔
کک۔۔ کیا فضول بول رہے ہیں آپ۔۔۔ کیا آپ پاگل ہیں۔۔۔ آپکو اندازہ بھی ہے کیا بکواس کر رہے ہیں۔۔۔
آنسو عائزل کی آنکھوں سے ٹوٹنے لگے تھے۔۔۔
صورتحال گھمبیر ہونے لگی تھی اور عائزل کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے اس پاگل سے جان کیسے چھڑوائے۔۔
دا۔۔داود۔۔۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ آپکو تو یقین ہے نا مجھ پر۔۔۔
دفعتا وہ آس سے داود کی جانب لپکی اور اسے بازو سے تھام کر اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا وہ شاک کی کیفیت میں کھڑا تھا۔۔۔
واہ۔۔۔کیا بات ہے تمہاری عائزل۔۔۔ مجھے تو لگا میں واحد ہوں۔۔۔ مگر پتہ نہیں تم نے اس معصوم صورت سے کتنوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔۔
مجھ سے تو اس معصوم صورت کے عوض چار لاکھ کا گھپلا کیا ہے تم نے۔۔۔ اس شخص سے کیا مفاد لے رہی ہو۔۔۔
وہ شخص نفی میں سر ہلاتا تاسف زدہ سا تھا۔۔۔ جبکہ عائزل کا دل چاہ رہا تھا
کہ یہاں سے کچھ اٹھا کر اس شخص کے سر پر دے مارے۔۔۔ کیا دشمنی تھی اسکے ساتھ اس شخص کی جو یوں اسے بھرے مجمعے میں رسوا کر رہا تھا۔۔۔
تھا ہی کیا اسکے پاس سوائے عزت کے جسکی بھی وہ شخص دھجیاں اڑا رہا تھا۔۔۔
وہ بے بسی کے احساس کے تحت پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔
وہ لوگوں کی ایسی نگاہیں نہیں برداشت کر سکتی تھی۔۔۔
داود یہ۔۔۔ یہ ۔۔جج۔۔ جھوٹ ۔۔۔ بول رہا ہے۔۔۔۔ سرا۔۔سر۔۔۔ جھوٹ۔۔۔ ہچکیوں سے روتے اسکے لفاظ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔
یہ رسوائی برداشت سے باہر تھی۔۔۔ وہ نہیں سہہ سکتی تھی اپنے کردار پر داغ۔۔۔
مجھ۔۔۔ پر ۔۔۔۔ اعتبار۔۔۔ کریں۔۔۔۔ میں۔۔۔ سچ۔۔۔
آنکھوں کا حشر ہو گیا تھا مگر وہ مسلسل بہہ رہی تھی۔۔۔ آج اسے حقیقتاً لگ رہا تھا کے وہ بھری دنیا میں اکیلی رہ گئ ہے۔۔۔
اور اردگرد محض بھیڑے ہی بھیڑے ہیں۔۔۔ جو کبھی بھی اسے نوچ کھائیں کے۔۔۔ اسنے خوف زدہ نگاہوں سے سب کی جانب دیکھا۔۔۔ دل خوف سے بند ہو رہا تھا۔۔۔۔
جبکہ سامنے کھڑا شخص پرسکون سا سینے پر بازو باندھے ستائشی طنزیہ نگاہوں سے اسے دیکھتا داد دے رہا تھا۔۔۔
تم تو بہت بڑی ایکٹر ہو لڑکی۔۔۔
مگر تمہیں لگتا ہے کہ میں اتنی دور بنا کسی ثبوت کے آ جاوں گا۔۔۔ وہ تاسف سے سر ہلاتا جیب سے موبائل نکالتا اس پر انگلیاں چلانے لگا۔۔۔
اور پھر اسکے بعد اسنے اس بھرے مجمعے میں جو کچھ بھی دکھایا عائزل کا دماغ ماوف ہونے لگا۔۔۔
عائزل کی تصویریں۔۔ مختلف انداز اور مختلف جگہوں کی۔۔ کبھی یونیفام تو کبھی گھریلو لباس میں ملبوس۔۔۔ انکی چیٹ اور آخر میں انکی وائس ریکارڈنگ۔۔۔
عائزل کا جسم جھٹکے کھانے لگا تھا۔۔ سمجھ ہی نا آ رہا تھا کے اسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔۔۔
اسنے متوحش نگاہوں سے داود کو دیکھا۔۔ اسکی نگاہوں میں بے اعتباری و شکوے ہی شکوے تھی۔۔۔
عائزل کو اپنی روح فنا ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔
داود یہ۔۔۔ جج۔۔۔ جھوٹ۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کے وہ کوئی صفائی پیش کرتی داود کے جانب سے پڑنے والے بھاری تھپڑ سے اسکا دماغ تک جھنجھنا اٹھا تھا۔۔۔۔
چہرے پر ہاتھ رکھے اسنے بے یقین نگاہوں سے داود کو دیکھا۔۔۔
تمہیں یہی سب کرنا تھا عائزل تو ایک بار کہہ کر تو دیکھتی۔۔۔ یہاں کوئی تمہارے ساتھ زبردستی نہیں کر رہا تھا۔۔۔ مگر یوں رسوا تو نا کرتی۔۔۔۔
کب کسی نے اس نکاح کے لئے تمہیں مجبور کیا تھا۔۔۔ مجھے تو بتاتی۔۔۔ داود کے لہجے میں بے یقینی و دکھ تھا۔۔۔۔
اسنے بے یقینی سے ارد گرد دیکھا۔۔۔ پورا مجمع اس پر تھو تھو کر رہا تھا۔۔۔ طرح طرح کی باتیں کرتا توبہ توبہ کر رہا تھا۔۔۔
دیکھیں مسٹر میں آپکے چار لاکھ جلد سے جلد لوٹانے کی کوشیش کروں گا۔۔۔ داود نے شرمندگی سے دائم کو دیکھتے کہا۔۔۔
میرے ساتھ فراڈ اس لڑکی نے کیا ہے۔۔۔ تم سے مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔
مجھے یہ لڑکی چاہیے جس نے میرے پرخلوص اور سچے جزبوں کی توہین کی ہے۔۔۔
مذاق بنایا ہے میری محبت کا۔۔۔ مجھے صرف یہ چاہیے۔۔۔
تا کے اسے پتہ ہو کے کسی کے ساتھ اس حد تک جا کر راہ بدلنے کا کیا انجام ہوتا ہے۔۔۔ وہ سرخ نگاہوں سے عائزل کے جھکے سر کو دیکھتا سرد لہجے میں گویا ہوا۔۔۔
جبکہ عائزل کو تو داود کے تھپڑ کے بعد سے چپ لگ گی
تھی۔۔۔
ٹھیک ہے آپ دونوں کا ابھی نکاح ہو گا۔۔۔ داود کی بے تاثر آواز پر عائزل نے جھٹکتے سے سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔۔۔
اندر جیسے غصے کی شوریدہ سر لہر نے سر اٹھایا تھا۔۔۔
ہرگز نہیں۔۔۔ میں اس شخص سے کبھی نکاح نہیں کروں گی ۔۔۔
خبردار جو کسی نے میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشیش کی تو۔۔۔ وہ ٹرپ کر کہتی داود کے مقابل آئی۔۔۔
توبہ توبہ۔۔۔ خدا ایسی لڑکی کسی کو نا دے۔۔۔ اچھا ہوا جو ماں باپ اسے پیدا کرتے ہی مر گئے۔۔۔
آج اس بے حیا کے یہ کرتوت دیکھتے تو جیتے جی مر جاتے۔۔۔ خدا اچھا ہی کرتا ہے۔۔۔
لوگ توبہ توبہ کرتے کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے۔۔۔ عائزل نے لب بھینچتے دل میں اٹھتی درد کی ٹیسوں کو دبانا چاہا۔۔۔
اسے لگا وہ پاگل ہو جائے گی۔۔۔ کاش وہ لوگ سمجھ سکتے کے انکی باتیں عائزل کے دل کو کس انداز میں زخمی کر رہی تھیں۔۔۔
تماشہ مت بناو عائزل۔۔۔ اس شخص کے ساتھ نکاح کرو اور دفع ہو جاو یہاں سے۔۔۔ داود اسکی ہٹ دھرمی دیکھتا غصے سے چلایا۔۔۔
وہ ٹرپ ٹرپ گئ۔۔۔۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے میرے ساتھ میری کوئی غلطی نہیں۔۔۔
تو کیا تم اب بھی انکاری ہو۔۔۔ ان تصویروں اور اس آواز سے انکاری ہو۔۔۔ کیا وہ تمہاری تصویریں نہیں یا وہ آواز تمہاری نہیں۔۔۔ داود کی آواز میں تنفر تھا۔۔۔
وہ سب میرا ہے ۔۔۔ لیکن میرا ہو کر بھی میرا نہیں۔۔۔
میں نہیں جانتی۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔۔۔ بے بسی ہی بے بسی تھی۔۔۔ اسنے بے بسی سے چکراتا سر تھاما۔۔۔
یہ دیکھو عائزل میرے جڑے ہوئے ہاتھوں کی لاج رکھ لو۔۔۔
اگر تمہارے دل میں عفیفہ کے حوالے سے میرے لئے زرا سی بھی عزت ہے نا تو آج اسکی لاج رکھ لو۔۔۔
اور اس شخص کے ساتھ نکاح کر کے یہاں سے چلی جاو۔۔۔ داود جھکے سر سمیٹ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ گیا تھا۔۔۔
جبکہ عائزل کے الفاظ اندر ہی اندر دم توڑنے لگئے تھے۔۔۔۔
کب بوا نے اسے پکڑ کر پیچھے کیا۔۔۔ کس نے اسکے سر پر دوپٹہ دیا۔۔۔ کب مولوی آیا۔۔ کیسے اسکا نکاح ہوا ۔۔۔
اسے کچھ سمجھ نا آیا۔۔۔ حسیات مفلوج تھیں۔۔۔ اور دماغ کام ہی نا کر رہا تھا۔۔۔ اسنے کسی رویورٹ کے مترادف نکاح نامے پر سائں کیا۔۔۔۔
کبھی معاف نہیں کروں گی آپکو داود بھیا۔۔۔ میرا یقین نہیں کیا آپ نے۔۔۔ وقت رخصت وہ داود کے سامنے آتی تڑپ تڑپ گئ۔۔۔
داود نے چہرا موڑ لیا۔۔۔
دیکھ رہی ہوں گی عفیفہ بجو۔۔۔ دیکھنا وہ بھی آپکو معاف نہیں کریں گی۔۔۔۔ آپ نے میرے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا۔۔۔ کبھی معاف نہیں کروں گی آپکو۔۔۔
وہ ہچکیاں لیتی رو رہی تھی جبکہ دائم ایک ہی جست میں اس تک پہنچا اور اسکا بازو سخت گرفت میں جھکڑتا کھینچتے ہوا دروازے کی جانب بڑھا۔۔۔
پیچھے حور رونے لگی تھی۔۔ وہ اسکی گرفت میں مچلی۔۔۔ حورررر۔۔۔
لیکن دائم پرواہ کئے بنا آگے بڑھ رہا تھا۔۔۔ گڑیا۔۔۔ میری گڑیا۔۔۔ پیچھے داود نے اسے اٹھاتے سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔
وہ اسے لئے باہر نکل آیا اور اندر کا منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔۔۔