Novel: Hala

Writer: Umme Hania

Genre: Rich Hero| Middle Class Heroine| Sudden Nikkah| Suspense| Family| Cousin Marriage Based | Love At First Sight| Friendship| Secrets| Most Caring Hero| Innocent Heroine| Happy Ending Based Marvellous Novel

Click here to download Novel

Hala by Umme Hania

سبھی مہمانوں کے جانے کے بعد دریاب نے ندھال سی ماں کو زبردستی کمرے میں لیجانے کے لئے اٹھایا۔۔۔
دریاب کے ساتھ لگی اپنے کمرے میں جاتی زہرا بیگم کی نظر جیسے ہی دیوار کے ساتھ گھٹری بن کر بیٹھی نور پر پڑی
تو گویا انکے جسم میں پھریری سی ڈور گئ۔۔۔۔ غصے کی زیادتی سے وہ ہانپنے لگی تھیں۔۔۔۔
یہ۔۔۔ یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔ ی۔۔۔ یہ ہے کمال کی موت کی وجہ۔۔۔۔
وہ ہاتھ سے دریاب کو پیچھے کرتی لڑکھڑاتی ہوئی نور کے سر پر پہنچی۔۔۔۔
نور نے متوحش رو رو کر سوجھی نگاہیں اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی زہرا بیگم کو دیکھا۔۔۔
سیدھا ہونے پر اسے محسوس ہوا کہ رات بھر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے سے اسکی کمر اکڑ گئ ہے۔۔۔
یہ ہے تمہارے باپ کی موت کی وجہ۔۔۔ اسکی وجہ سے سب ہوا ہے۔۔۔
زہرا بیگم دریاب کو اسکی جانب متوجہ کرتیں چیخی ۔۔۔ نور اس ساری صورتحال میں خود کو سمبھالتی ہاتھ پر وزن ڈالتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
کیوں آئی یہ ہم سب کی زندگیوں میں۔۔۔ کاش یہ ہماری زندگیوں میں کبھی نا آئی ہوتی۔۔۔ یہ میرے اور کمال کے درمیان اختلاف کی واحد وجہ تھی۔۔۔
نہیں چھوڑوں گی ۔۔۔ نہیں چھوڑوں گی میں اسے۔۔۔ زہرا بیگم نے بے دردی سے اپنے آنسو صاف کرتے
اسے بالوں سے تھام کر کئ ایک جھٹکے دیئے جس سے بے ساختہ نور کے منہ سے کئ چیخیں بلند ہوئیں۔۔۔
امی۔۔۔ امی۔۔۔ آپ یہ کیا کر رہیں ہی۔۔۔ امی چھوڑیں اسے۔۔
۔ دریاب نے سرعت سے مداخلت کرتے بامشکل ماں کے ہاتھوں سے نور کے بال آزاد کرواتے اسے اپنے پیچھے چھپایا۔۔۔
امی کیا ہو گیا ہے آپکو ۔۔ دریاب نے بے بسی سے ماں کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھاما۔۔

نکالو اسے اس گھر سے۔۔۔ طالاق دو اسے ۔۔۔ ابھی اور اسی وقت۔۔۔ میں مزید اس لڑکی کا وجود اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔

دو طلاق اسے ۔۔۔۔ زہرا بیگم جھٹکے سے دریاب کے ہاتھ جھٹکتی جنونی انداز میں چلائیں۔۔۔

نور کو آسمان اپنے سر پر گرتا محسوس ہوا۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے زہرا بیگم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ایک بار پہلے بھی انہوں نے ایسا ہی مطالبہ کیا تھا تب بھی کمال انکل ہی اسکی ڈھال بنے تھے۔۔ مگر آج۔۔۔۔
آج تو وہ اس روز کی طرح یہ بھی نہیں بول سکتی تھی کہ دیں مجھے طالاق۔۔۔۔
وہ تو ابھی تک صدمے کی پہلی چوٹ کی زد میں تھی۔۔۔ خواہ کتنا بھی خود کو مضبوط ظاہر کرتی۔۔۔
مگر سمبھلنے کے لئے بھی تو کچھ وقت درکار تھا نا۔۔۔۔
امی آپ۔۔۔ دریاب نے آگے بڑھتے بپھری ہوئی ماں کو سمبھالنا چاہا۔۔۔۔

بس دریاب اسے طلاق دو۔۔۔۔ طلاق دو اسے ورنہ میرا مرا ہوا منہ دیکھو گئے۔۔۔۔

دریاب کا دل دھک سے رہ گیا تھا جب زہرا بیگم نے کچن سے چھڑی اٹھا کر اپنی کلائی پر رکھی۔

نور کو اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔ دو اسے طلاق ورنہ۔۔۔ زہرا بیگم چلائی۔۔۔۔
دریاب نے تھوک نگلتے ایک نظر نور کو دیکھا جو دونوں ہاتھ منہ پر رکھے بے آواز روتی متوحش نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی
اسکا سارا جسم جھٹکوں کی زد پر تھا۔۔۔ اسے دیکھتے ہی دریاب نے بے بسی سے نظریں چرائیں۔۔۔
میں نور کو طلاق۔۔۔۔۔ طلاق نہیں دے سکتا امی۔۔۔ وہ ماں کے سامنے نظریں جھکائے بے بس سا گویا ہوا۔۔۔
نور نے حیرت سے اسکی جانب دیکھا دل کو کچھ ڈھارس ملی تھی۔۔۔ جبکہ زہرا بیگم کی نگاہوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔۔۔۔
تم اسے طلاق نہیں دو گئے۔۔ تم اسے اس گھر سے نہیں نکالو گئے۔۔۔
بے یقینی سے چھڑی پکڑے ہاتھ پر گرفت کمزور ہوئی تھی وہ تاسف زدہ نگاہوں سے اپنے فرمابردار بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔
امی میں اسے گھر سے نہیں نکال سکتا کیوں بابا نے اس گھر کا ایک چوتھائی حصہ نور کے نام کروا دیا ہے

قانونی طور پر اب یہ اس گھر کے ایک چوتھائی حصےکی مالکن ہے میں تو کیا اسے کوئی بھی اس گھر سے نہیں نکال سکتا۔۔۔

دریاب کے اس انکشاف پر جہاں نور پر حیرتوں کے پہاڑ گرے تھے وہیں حیرت کی زیادتی سے
زہرا کے ہاتھ میں تھامی چھڑی اسکے ہاتھ سے پھسلتی نیچے جا گری تھی ۔۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ کیا کیا کمال نے۔۔۔ میرے بچوں کا حق اس لڑکی کے نام کر دیا وہ خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئیں۔۔۔
سارا گھر نہیں صرف ایک چوتھائی حصہ امی دریاب ماں کی خود کلامی سن چکا تھا اسی لئے توصیح کرنے کو گویا ہوا۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگر کمال ایسا چاہتے ہیں تو ایسا ہی صحیح۔۔۔ یہ لڑکی یہیں اسی گھر میں رہے مگر بنا کسی رشتے کے۔۔۔
میں اسے تمہاری بیوی کی حیثیت سے یہاں اس گھر میں قطعاً نہیں رہنے دوں گئ۔۔۔ تم فوراً طلاق دو اسے ۔۔۔
اور پھر یہ بے غیرت مان کی بے غیرت بیٹی رہے اس گھر میں بنا کسی رشتے کے۔۔۔۔
زہرا بیگم کے لہجے میں اتنی حقارت و تپش تھی کہ نور کو اپنا آپ جھلستا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
پہلے سے ہی سوجی اور سرخ آنکھوں میں مزید سرخی کے ڈورے ابھر آئے تھے۔۔۔ سر یکدم ہی مزید بھاری ہونے لگا تھا۔۔۔
دو طلاق اسے۔۔۔ زہرا بیگم پھنکاری۔۔۔

امی میں اسے طلاق بھی نہیں دے سکتا کیونکہ۔۔۔۔ کیونکہ بابا کی وصیت کے مطابق اگر میں نور کو طلاق دیتا ہوں

یا کسی بھی طرح ہماری علیحدگی کی کوئی صورت بنتی ہے تو بابا کی ساری جائیداد نور کے نام ہو جائے گئ
اور ایسا محض ہماری علیحدگی کی صورت ہی ہوگا۔۔۔۔
دریاب نے لبوں پر زبان پھیرتے ماں پر نیا انکشاف کرتے گویا دھماکہ کیا تھا۔۔۔
زہرا بیگم کو اپنے ارد گرد دھماکے ہوتے محسوس ہوئے۔۔۔ مطلب کمال صاحب جاتے جاتے بھی
نور کی اس گھر سے وابستگی کے سبھی انتظامات پکے کر کے گئے تھے۔۔۔
یکدم ہی انہیں اپنی نگاہوں کے سامنے زمین و آسمان گھومتے دیکھائی دیئے۔۔۔ اپنے چکراتے سر کو تھامتی زہرا وہیں ڈھیر ہو گئ تھی۔۔۔
امی ی ی ۔۔۔ زہرا کو نیچے گرتا دیکھ دریاب بھاگ کر انکی جانب لپکا۔۔۔
*****
آئتل کی پرسکون زندگی میں ہلچل تب مچی جب ایک روز گھر واپسی پر عمران کا بری طرح کار ایکسیڈینٹ ہوا۔۔۔
اکیلی آئتل دس سالہ نور کے ساتھ ان حالات میں بے طرح گھبرا گئ تھی۔۔۔
کیونکہ پچھلے دس سالوں میں عمران کی ماں کیساتھ ساتھ ممانی بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔۔۔
اس ایکسیڈنٹ میں عمران نے اپنی دونوں ٹانگیں کھو دیں تھیں۔۔
وقت اور حالات کی یہ گردش آئتل کے اعصاب بے طرح جھنجھوڑ گئ تھی۔۔۔
تب گاوں سے عمران کا بھائی امداد اپنی بیوی اور سترہ سالہ بیٹے فہد کے ہمراہ بھائی کی بیمار پرسی کو آیا
اور پھر بھائی کی معذوری دیکھتے وہیں کا ہو کر رہ گیا۔۔۔ جلد ہی آئتل اور عمران کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی
کہ اسکے بھائی کو عمران سے کوئی ہمدردی نا تھی بلکہ وہ عمران کے قائم کئے بزنس پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا تھا۔۔۔
اور عمران کی محتاجی کے باعث اب یہ اس کے لئے کچھ مشکل بھی نا تھا۔۔۔۔

عمران بے بسی سے سب ہاتھوں سے پھسلتا دیکھ رہا تھا مگر معذوری کے باعث کچھ کرنے سے قاصر تھا

کیونکہ رفتہ رفتہ امداد اسکے سبھی مخلص اور پرانے ورکرز کو کام سے نکال کر انکی جگہ نئے ورکز کام پر لگا چکا تھا

بڑی ہوشیاری سے وہ دن بہ دن عمران کے گرد گھیرا تنگ کر رہا تھا۔۔۔

دن بہ دن عمران کی طبیعت سمبھلنے کی بجائے مزید خراب ہوتی جا رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے

امداد اور فہد اسکے پورے بزنس پر یوں قابض ہوئے تھے کہ

اب آئتل کو گھر کے خرچ اور عمران کی دوائیوں کے خرچے کے لئے بھی انکے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑتے تھے۔۔
پورے گھر پر فرحین کی حکومت تھی۔۔ آئتل اور نور اپنے ہی گھر پر محکوموں سی زندگی بسر کرنے لگے تھے۔۔۔
آئتل تو وقت کے تقاضوں کو نبھاتی خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی مگر نور نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی
ہر مصلحت بالائے طاق رکھتی سارا حساب بے باک کر ڈالتی تھی۔۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کر ایک دن
عمران نے خاموشی سے یہ گھر اور اپنا سب کچھ وکیل کے مشورے سے نور کے نام کروا دیا اور آئتل کو سختی سے اسے صیغہ راز میں رکھنے کی تاکید کی۔۔۔۔
اب صورتحال یہ تھی کہ سب کچھ نور کے نام تھا مگر سارا حساب کتاب ان باپ بیٹے کے ہاتھ میں تھا۔۔۔
وہ جب تک چاہتے اس دولت سے مستفید تو ہو سکتے تھے مگر اس پڑاپڑتی کو آگے بیچ نہیں سکتے تھے۔۔۔
حالات مزید سے مزید خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے
جب ایک روز عمران خاموشی سے بیٹی کی ذمہ داری آئتل کے ناتواں کندھوں پر ڈالتا خود ہر بوجھ سے آزاد ہو کر اپنے دائمی سفر پر چل دیا۔۔۔
وہ دن آئتل کی زندگی کا سب سے بھیانک دن تھا جس کے بعد اس پر اور نور پر زندگی کے دروازے مزید تنگ ہوگئے۔۔۔

One thought on “Hala by Umme Hania

  1. Hira Mustafa says:

    Bat sari itbar ki hey . Sahi Kehty hein shak insan ko kha jata h . It’s a very well definite in this novel . Agr insan sekhna chaye to bhot acha sekha deti Hein yeah kitaben . Khobsurt Kahani

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *