Novel: Hakem e Mann

Writer: Umaima

Genre: abusive childhood | father beat mother | trauma | unforgettable trauma | emotional story | healing journey | overcoming abuse | strength | resilience | support | compassionate partner | healing together | love and care | supportive relationship |

Click here to download novel

Download Link

Read Online

“صرف پانچ منٹ ہیں جو بات کرنی ہے جلدی کرو۔ “
اقراء کو پھانسی تک بڑی جیل میں بھیجا جارہا تھا اس سے پہلے بڑی منت سماجت کے بعد عمیر دیوان کے حکم کے بعد ہی صدیق حسین کو اقراء سے ملوایا گیا تھا۔ یہ سب محض ایک ہفتے میں ہوا تھا۔
عمیر دیوان بہت خوش تھا۔ لیکن یہ خوشی ادھوری تھی وہ اقراء کے ساتھ فراز سے بھی انتقام لینا چاہتا تھا۔
” اق۔۔۔اقراء”
نم آواز پر اقراء نے نظر اٹھا کر دیکھا ۔ اقراء کے چہرے پر جابجا نیل کے نشان تھے ۔ ان نشانوں میں کچھ نشان نمیر دیوان کے داغے ہوئے تھے اور کچھ لیڈیز پولیس والیوں کے۔
اپنے باپ کو جیل کی سلاخوں کے اس پار دیکھتے وہ کھڑی ہوئی۔ آج اسکی اس حالت کا زمہ دار صدیق حسین کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
” مجھے معاف کردو میری بیٹی مجھے معاف کردو”
وہ سلاخیں پکڑے نیچے بیٹھے تھے کھڑا ہونا مشکل ہو چکا تھا۔
” میرے حاکم تھے آپ۔۔۔ آپ کہاں سے کہاں لے آئے مجھے۔
آپکی ضد اور انا نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا آج میری بیٹی بھی ظالموں کے ہاتھ میں ہے۔ نجانے وہ کیسے یہ ظلم برداشت کریگی”
اقراء سسک پڑی اور پہلی بار صدیق حسین سے شکوہ کیا۔
” مجھے معاف کردو”
کانپتے ہاتھوں سے وہ بار بار بس یہی بول رہے تھے۔
” کس کس چیز کے لے معاف کروں ؟ میرے جسم پر لگے زخموں کے لیے یا روح پر لگے زخموں کے لیے ؟ میرے کردار کے قتل کے لیے یا خوشیوں کے۔ ؟ میرا سب چھین لیا آپکی ضد نے میری خوشی , میری ماں , میرا مان اور میری محبت بھی”
محبت بولتے ایک بار پھر فراز کے جملے اسکے کان میں گونجے تھے۔
” م۔۔ممم۔مجھے۔۔۔مجھے معاف کردو”
بےتحاشہ روتے آج صدیق حسین کے پاس بولنے کو کچھ نہیں تھا۔
” جانتے ہیں مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا۔ مجھے اللہ پر یقین ہے کہ وہ مجھے موت اتنے خوبصورت چہرے میں دےگا کہ میں دنیا کہ زخم بھول جاؤنگی۔
لیکن دنیا میں جو میرے ہی وجود کا حصہ ہے وہ مجھے مرنے نہیں دے رہا۔ میں آج اس سزائے موت پر خوش ہوتی اگر میری خنساء اس دنیا میں نا ہوتی تو۔۔ مجھے نکال لیں یہاں سے۔۔ یا میری خنساء کو بھی میرے ساتھ مار دیں۔ وہ نہیں برداشت کرپائے گی میری بچی معصوم ہے۔ وہ۔۔۔وہ بہت معصوم ہے۔۔ وہ لوگ اسکی۔۔۔۔زندگی جہنم کردینگے”
روتے ہوئے اسنے سلاخوں پر رکھے صدیق حسین کے ہاتھوں کو پکڑ لیا۔
” اسے میرے پاس لادیں۔۔ اسے میرے ساتھ ہی مار دیں۔۔ میری۔۔ میری بچی۔۔ میری بچی معصوم ہے ابو۔۔۔ وہ بہت معصوم ہے۔۔ وہ لوگ ظالم ہیں۔”
اقراء ہچکیوں سے روتے لرزنے لگی تھی۔
اسکا رونا جاری ہی تھا جب کانسٹیبل نے صدیق حسین کو ساتھ چلنے کاکہا۔
” مجھے معاف کردو اقراء۔۔ تم میری اولاد تھی ۔ واحد اولاد۔۔
میں نے جتایا نہیں پر میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا عبدالباری انسان نہیں درندہ ہے”
صدیق حسین نے اسکے ہاتھ مضبوطی سے تھامتے کہا۔ اقراء نے انکو دیکھا اور ہاتھوں پر ماتھا ٹکا دیا ۔
” میں نے آپکو معاف کیا۔ آپ پر سے اپنا حساب آج میں ختم کرتی ہوں۔ اللہ کو گواہ رکھ کر کہتی ہوں میں نےآپکو معاف کیا۔ “
صدیق حسین اقراء سے کئی بار معاف مانگ چکے تھے۔ اور اقراء کئی بار زبانی اقرار بھی کرچکی تھی کہ معاف کردیا۔ پر وہ معافی کبھی صدیق حسین کو سکون نہیں دے پائی تھی اور حقیقت یہی تھی کہ اقراء نے صرف زبانی اقرار کیا تھا۔ کبھی دل سے معاف کیا ہی نہیں تھا۔
پر آج اسنے صدیق حسین کو دل سے معاف کیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *