Mujhe Masat Ko Bha Gi Wo Sanwali By S Merwa Mirza
Genre : Forced Marriage | Wani Base | Rude Hero | Innocent Heroin | Fedual Base
Download Link
اک سانولی اور اک مست شہزادے، بادشاہ وقت کی کہانی۔ ونی اور ریپ کے غیر انسانی
اور جانور رویوں جیسے ناسوروں کو ختم کرنے کئ تگ و دو کرتا سادان حق،
جس نے اپنی ہمت اور حوصلے سے اپنے گاوں کی تقدیر بدل دی۔
اک ایسے طبیب کی کہانی جو شفا ہی شفا تھی۔ اک ایسا سائبان جس نے خود سے جڑے ہر فرد کو سایہ دیا۔
“تم اپنی زندگی اپنے پاس رکھو، یہ بانٹنے کی چیز نہیں” سادان اسے خفا سا بہت پیارا لگا تھا۔
وہ اسکے چہرے پر آئی بالوں کی لٹیں اب منہ پھلا کر نرمی سے اسکے کان کے پیچھے کر رہا تھا،
فلذہ تو یہ لمحے اپنی زندگی کو بڑھانے کے لیے اپنے اندر اتار رہی تھی۔
“پر میں نے بانٹی نہیں واری ہے” فلذہ نے معصومیت سے درستگی فرمائی تو سادان نے
اسکی بڑی بڑی پیاری اور پرکشش آنکھیں دیکھیں جو سادان کو ہمیشہ سے پیاری لگی تھیں۔
آج تو وہ تھیں بھی سادان کی آنکھوں سے چند انچ کے فاصلے پر، یوں تھا کہ سادان کوئی گہرا پراسرار سمندر دیکھ رہا ہو۔
“وارنا ہے تو اپنا ساتھ وارو، یہ یقین دو مجھے کہ تم میرے جانے کے بعد خود ک
و سنبھال لو گی” سادان کے لہجے میں شکوہ سا تھا جو خواہش بن گیا اور وہ جو
اپنے دونوں ہاتھ اپنی گال کے نیچے دبائے ہوئے تھی اب اسکا ہاتھ سادان کے ہاتھ میں پوری دلفریبی سے جکڑا جا چکا تھا۔
“ٹھیک ہے میں سنبھال لوں گی” فلذہ مزید سادان کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی تبھی
فرمابرداری سے مان گئی اور اب وہ بھی متاثر کن انداز میں مسکرا دیا تھا۔
“تمہیں پتا ہے فلذہ ہے، حسین وہ نہیں ہوتا جو خوبصورت دیکھائی دیتا ہو۔ حسین وہ ہوتا ہے
جو کسی کی چاہت ہو۔ تم کسی سے کم نہیں، تمہارا دل نازک ہے اور وجود پاکیزہ ہے۔
تم سانولی ہو مگر خدانخواستہ بدصورت تو نہیں ہو جو خود کو ایسا حقیر جانتی ہو۔ اور
میں نے تو تمہارا دل دیکھا ہے، جو کسی قیمتی ہیرے جیسا ہے” سادان اسے دیکھتا ہوا
حیران کر رہا تھا اور وہ تو یہ سب سن کر یوں تھی جیسے کسی خواب میں ہو۔ پھر
ناجانے کیا ہوا کہ فلذہ کے چہرے پر دوبارہ درد ابھرا۔
“آپ ایسا سب نہ کہیں، میں تو کچھ بھی نہیں ہوں” وہ پھر سے تڑپ اٹھی تھی اور
اب وہ سادان کی موجودگی خود پر بھاری محسوس کر رہی تھی۔ وہ اسکی سوچ کے ہر عروج سے زیادہ بڑھ کر پیارا تھا۔
“فلذہ، مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے۔ اور یہ وہ سچائی ہے جو میں تمہیں ابھی
نہیں بتانا چاہتا تھا مگر تمہارا یوں خود کو کمتر جاننا میری جان پر بھاری ہے۔ ہاں
وہ محبت جو مجھے اللہ نے سونپی، نکاح کے بعد ہوئی پہلی اور آخری جائز محبت۔
تم وہ واحد لڑکی ہو جسے سادان نے یوں قریب سے چھوا، محسوس کیا اور اپنا دل دھڑکتا
محسوس کیا” شاید سادان کے پاس فلذہ کی تکلیف میں کمی کو یہی آخری حل بچا تھا اور
آج شہزادہ اس سے اعتراف محبت کر بیٹھا اور شکر گزار تھا کہ اللہ نے اتنی جلدی اسے یہ کہنے کا موقع اور حوصلہ دیا۔
وہ بے حد محبت سے اپنا ہاتھ اسکی گال اور گردن پر دھرے، دوسرا ہاتھ جو فلذہ کے سر
کے نیچے تھا اس سے وہ اسے مزید اپنے وجود میں جکڑ کر فلذہ کی حقیقی تکلیف ختم کر گیا۔
بابا کے بعد یہ پہلا مرد تھا جس کے چھونے سے اسے کوئی برا تاثر نہ ملا بلکے وہ تو خود کو کوئی مقدس شے سمجھ رہی تھی۔
کئی آنسو فلذہ کی آنکھوں سے اس خوش قسمتی پر بہے جنکو سادان نے بہت نرمی سے
اپنی انگلیوں کی پوروں سے ہٹا کر اسکے ماتھے پر پیار دے کر بازو سے پکڑے رہی
سہی دوری ختم کرتے ہوئے کسی آخری کل اثاثے کی ماند خود سے ، اپنے سینے سے
پوری شدت سے لگا لیا اور وہ بھی سادان کے سینے سے لگی پتھرا سی گئی۔
وہ بس چاہتا تھا فلذہ کو کسی طرح خوشی کا لمحہ سونپے اور سانولی تو جی اٹھی تھی۔
♡♡♡♡♡♡♡