KHBJN-001-UMHN
Novel: Khwab E Junoon by Umme Hania
Genre: Rich Hero| Middle Class Heroine| Sudden Nikkah| Suspense| Family| Cousin Marriage Based | Love At First Sight| Friendship| Secrets| Most Caring Hero| Innocent Heroine| Happy Ending Based Marvellous Novel.
Download Link
ساری رات صلہ ایک پل کو نا سوئی تھی۔۔۔ ایسی صورتحال میں بھلا اسے نیند آتی بھی کیسے۔۔۔ صبح کے کسی پہر اسکی آنکھ لگی تھی۔۔۔ دوبارہ اسکی آنکھ بچیوں کے شور سے کھلی تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔ کچھ پل لگے تھے اسے حواسوں میں لوٹنے میں۔۔۔
باہر سے ہلکا ہلکا شور آ رہا تھا۔۔۔ اسنے بے ساختہ وقت دیکھا صبح کے دس بج رہے تھے۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
بس بہت ہوا۔۔۔ بہت دیر وہ رو لی چھپ کر اب اپنے قدموں پر وزن ڈالنے کی باری تھی۔۔۔
ایک گہری سانس خارج کرتی وہ سٹور سے باہر نکلی اسکا رخ اپنے گزشتہ کمرے کی جانب تھا۔۔
باہر لاوئنج میں اسکا ٹاکرا کسی سے نا ہوا۔۔۔
کمرے کا دروازہ مقفل تھا۔۔۔ صلہ نے بنا ناک کئے ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ وا کیا۔۔۔
اور یہ اسکی سب سے بڑی غلطی تھی۔۔۔ اندر کا منظر اسے سبھی زخموں کو ایک ہی بار میں بے دردی سے نوچ گیا تھا۔۔۔
جن سے بے طرح خون رسنے لگا تھا۔۔۔۔
بیڈ پر سرخ دیدہ زیب فراک ذیب تن کئے بنی سنوری مشل اور اسکی گود میں سر رکھے لیٹا بالاج۔۔۔۔
وہ اس سے مسکرا کر کوئی بات کر رہا تھا جبکہ مشل ہستی ہوئی اسے سن رہی تھی۔۔۔
اس منظر کو دیکھتے ہی صلہ کی آنکھوں میں مرچی سی بھرنے لگی۔۔۔
آواز پر وہ دونوں دروازے کی جانب متوجہ ہوئے۔۔۔ اور سامنے صلہ کو دیکھ کر بالاج کرنٹ کھا کر مشل سے دور ہوا۔۔۔
اسکے چہرے کی رنگت تک بدل چکی تھی شاید وہ اس وقت صلہ کی وہاں موجودگی کی توقع نہیں رکھتا تھا۔۔۔
تمہیں تمیز نہیں کسی کے کمرے میں آنے کی۔۔۔ مشل بدمزہ ہوتی چیخی۔۔۔
مگر صلہ اسے سن کہاں رہی تھی وہ تو شاکی نگاہوں سے محض اس بے وفا کو دیکھ رہی تھی جو اب پشیمان سا بستر سے اترا اسکی جانب آ رہا تھا۔۔۔
صلہ کی سوجی سرخ آنکھیں اسکے ساری رات روتے رہنے کی نشاندہی کر رہی تھیں۔۔۔
الجھے بال اور شکن آلود کپڑے اسکے اوپر گزر چکی قیامت کی چیخ چیخ کر نشاندہی کر رہی تھیں۔۔۔
صلہ تم۔۔۔ بالاج نے بے ساختہ تھوک نگلا۔۔۔
اس سے پہلے کے بالاج اس تک پہنچتا مشل سرعت سے اسکے پاس پہنچتی بالاج کی بازو تھام گئ۔۔۔
لیکن بالاج اسکی پکڑ کو نظر انداز کرتا اپنی بازو چھڑوا کر صلہ کی جانب بڑھا۔۔۔۔
نئ زندگی کی پہلی صبح تمہیں بہت بہت مبارک ہو بالاج۔۔۔ وہ پلکوں کو جھپکتی تمسخرانہ ہسی۔۔۔ شاید خود کا ہی مذاق اڑا رہی تھی۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو یار۔۔۔ میں تمہارے پاس آنے ہی والا تھا۔۔۔ کوئی کام ہے کیا ۔۔۔ وہ اسکے پاس آتا نرمی سے گویا ہوا۔۔۔
اور مشل ۔۔۔ کب برداشت تھا اسے بالاج کا یہ انداز وہ غصے سے کھولتی سرعت سے کمرے سے باہر بھاگی ۔۔۔۔۔
وہ دونوں آپس میں اسقدر کھوئے تھے کے اسکا جانا محسوس ہی نا کر سکے۔۔۔
ایک آنسو صلہ کی آنکھ سے ٹوٹ کر پھسلا۔۔۔
نا کرو یار۔۔۔ تم مجھے تکلیف دے رہی ہو۔۔۔ بالاج نے سرعت سے اسکے آنسو صاف کئے۔۔۔
وہ تمسخرانہ ہستی نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔
صلہ تمہاری زندگی میں اسقدر بے وقعت چیز ہے جو اگر مر بھی جائے تو کم از کم بالاج پر تو کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔۔۔
اس لئے اپنی یہ الفاظی اپنی دوسری بیوی کے لئے سمبھال کر رکھو۔۔۔
میں اب اس خوبصورت سیراب کے پیچھے نہیں بھاگنے والی۔۔۔ اسکا لفظ لفظ اذیت میں ڈوبا تھا۔۔۔۔
مت کرو ایسا صلہ۔۔۔ یقین رکھو مجھ پر میں سب ٹھیک کردوں گا۔۔۔
اسنے مفاہمت سے کہتے صلہ کا کملایا چہرا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔۔۔
تم صرف اپنی زندگی کو سیٹ کر لو مسٹر بالاج ۔۔۔
اپنا لئے میں اب۔۔۔ اسنے اب پر زور دیا۔۔۔۔ کافی ہوں۔۔۔۔ کہتے ہی اسنے بالاج کے ہاتھ غصے سے جھٹکے۔۔۔
مجھے امی والا پورشن ابھی ۔۔۔ وہ حتمی انداز میں اسکی آنکھوں میں دیکھتی ابھی پر زور دے کر گویا ہوئی۔۔۔ ابھی خالی چاہیے۔۔۔
مجھے مزید تمہاری کرم نوازیاں نہیں چاہیے۔۔۔ میں نیچے شفٹ ہو رہی ہوں اس لئے تم۔۔۔
اے منحوس لڑکی تو صبح ہی صبح یہاں کیا کر رہی ہے۔۔۔
ابھی اسکی بات بھی مکمل نہیں ہوئی تھی جب تائی اور انکی تینوں بیٹیاں مشل کے ہمراہ وہاں داخل ہوئیں۔۔۔
غالباً مشل انہیں ہی لینے گئ تھی اور اب وہ خود پرسکون سی بیڈ کراوں پر بیٹھتی ان سب کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔
منحوس ہیں آپ اور آپکی یہ تینوں بیٹیاں۔۔۔۔ وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔
جب کچھ بچا ہی نا تھ تو کیسی عزت اور کیسا لحاظ۔
آپ سب کی منحوسیت کھاگئ میری خوشیاں۔۔۔ اجاڑ گئ میرا گھر۔۔۔
مگر یاد رکھنا میرا اللہ ہے۔۔۔ جو سب دیکھ رہا ہے۔۔۔ وہ سینے پر ہاتھ باندھے غرا کر گویا ہوئی۔۔۔۔
لہجہ آپو آپ بھیگنے لگا تھا۔۔۔
کس قدر ظالم تھے وہ لوگ کے ظلم کی انتہا بھی کر دی اور انہیں اس چیز کا احساس تک نا تھا۔۔۔
صلہ کا دل پھٹ رہا تھا۔۔۔ مگر اب ہمت تو کرنی ہی تھی نا
ارے بکواس کر رہی ہو۔۔۔ منحوس تو تم ہو۔۔۔
ثانیہ غراتے ہوئے اس پر جھپٹی تھی جب سرعت سے بالاج نے اندر کودتے ثانیہ کو صلہ کی پہنچ سے دور رکھا۔۔۔
ہاتھ کے استعمال سے گریز کرنا ثانیہ ورنہ میں سب بھول جاوں گا۔۔۔
بالاج میں جیسے اس وقت سب نے پرانے بالاج کی جھلک دیکھی تھی۔۔۔۔
لیکن صلہ اسکے اس روپ کو دیکھتی تمسخرانہ مسکرا دی۔۔۔ اب کوئی جھانسہ نہیں۔۔۔ نو نیور۔۔۔
وہ اس فریب کی دلدل سے نکل آئی تھی۔۔۔
منحوس تو ہے جو جس دن سے اس گھر میں آئی ہے گھر میں سکون نام کو نہیں۔۔۔ تائی بیٹے کو دیکھ حلق کے بل چیخی۔۔۔
کیا کبھی کسی نے چڑیا گھر میں بھی سکون دیکھا ہے۔۔۔ نا کبھی اس گھر میں سکون تھا
اور انشااللہ میرے اللہ نے چاہا تو نا کبھی یہاں سکون ہوگا۔۔۔۔
آج دل کی بھراس جسے وہ ہمیشہ مصلحت کے تحت پی جاتی تھی باہر لے آئی تھی۔۔۔
تو بددعائیں دے رہی ہے ہمیں۔۔۔ بدکردار عورت۔۔۔ جس سے میرے بھائی کو ایک خوشی نصیب نا ہوئی۔۔۔
ایک وارث تک تو تم سے اسے نصیب نا ہوا اور تو۔۔۔
تم کتنے کی وارثوں کی لائنیں لگا چکی ہو محترمہ بات کرتی ہو میری۔۔۔
میری تو پھر بھی دو بیٹیاں ہیں تم تو بانجھ ہو بانجھ جو ایک بیٹی تک بھی پیدا نا کر سکی۔۔۔
غصے سے کھولتے دماغ کیساتھ صلہ چیخی تھی۔۔۔ اور یہیں پر وہ سب غرا اٹھی تھیں۔۔۔
دوسروں کے عیب گنوانے والیاں خود پر ایک بات تک برداشت نا کر سکی تھیں۔۔۔۔تو نے مجھے بانجھ کہا۔۔۔
ماں سن رہی ہے تو۔۔۔ اسنے مجھے۔۔۔ تانیہ وہیں زمیں پر بیٹھتی سینہ کوبی کرنے لگی تھی۔۔۔
تجھے کیڑے پڑیں صلہ۔۔۔ میرے بیٹے کی خوشی تم سے دیکھی نا گئ۔۔۔ تو۔۔۔۔
تائی کے واویلوں پر سبھی مہمان وہاں اکھٹے ہونے لگے تھے۔۔۔
صورتحال گھمبر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔
صلہ فلحال جاو یہاں سے ہم بعد میں اس معاملے پر بات کریں گے۔۔۔ بالاج نے صلہ کو منظر سے ہٹاتے بات دبانی چاہیے۔۔۔
ہرگز نہیں۔۔۔ جبکہ بالاج کی بات سن کر صلہ بھوکے شیر کی مانند غرائی۔۔۔
مزید یہ لوگ اپنے واویلے مچا کر مجھے دبا نہیں سکتے اور نا ہی تم۔۔۔
مجھے میری ماں کا گھر خالی چاہیے تو ابھی چاہیے۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔
تمہاری کمائی سے مجھے جو نصیب ہونا ہے وہ میں دیکھِ چکی ہوں ۔۔۔۔ ماں کی جانب سے ملا اپنا حق کیوں چھوڑوں میں۔۔۔
تمہارا بس چلے نا بالاج تو تم تو مجھے زندہ زمین میں دفن کر دو اور جب میرے لئے سٹینڈ لے نہیں سکتے تو میری اپنی چیزیں بھی مجھ سے مت چھینو۔۔۔۔
آج وہ کسی سے نہیں دبنے والی تھی۔۔۔ آج اس میں شادی سے پہلے والی منہ زور صلہ کی جھلک دکھائی دے رہی تھی
جو رشتوں کے تقاضے نبھاتی کہیں ختم ہو گئ تھی۔۔ مگر آج اسے نا کسی کا خوف تھا نا لحاظ۔۔۔۔
روح پر زخم اتنے گہرے تھے کے وہ ہر خوف سے آزاد ہوتی بے خوف ہو گئ تھی۔۔۔
ارے توبہ توبہ اتنی زبان دراز لڑکی۔۔۔
حوصلہ ہے بھئ بالاج کا جسنے اسے رکھا ہوا ہے۔۔۔
اور نہیں تو کیا میری بہو ہوتی تو کب کا بیٹے سے تین بول بلوا کر گھر سے نکال باہر کرتی۔۔۔
تائی کی ہی رشتہ دار خاتوں اپنی اپنی بولیاں بولنے لگیں تھیں۔۔۔
تائی کے بین بڑھنے لگے تھے۔۔۔ تانیہ مزید شدت سے آہ و بکار کرنے لگی۔۔۔
کس چیز کا انتظار ہے تمہیں بالاج طلاق دے کر فارغ کرو اس بے ہودہ لڑکی کو۔۔۔
یہ ثانیہ کا شوہر تھا جسے اب ہنگامی صورت پر نچلہ پورشن خالی کرنا پڑ رہا تھا۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ یہ کیوں دے گا طلاق۔۔۔ یہ تو جوتے پڑوائے گا ماں بہنوں کو اس منحوس کے ہاتھوں۔۔۔
تانیہ اپنی جگہ سے اتھتی بالاج کی جانب بڑھتی شدت سے بین کرتی گویا ہوئی۔۔۔۔
صورتحال بالاج کو بوکھلائے دے رہی تھی۔۔۔
ہر جانب سے اس پر اکٹھا اٹیک ہوا تھا۔۔۔
صورتحال تو صلہ کی بھی توقع سے الٹ روپ اختیار کر گئ تھی وہ تو یہاں شوہر سے بات کرنے آئی تھی مگر یہ سب۔۔۔
اسنے خاموشی سے کمرے سے باہر نکلنا چاہا۔۔۔
جب ثانیہ نے اسے دکھا دیتے زمین پر پٹخا۔۔۔
نچلہ پورشن چاہیے نا تجھے۔۔۔ دیتے ہیں ابھی دیتے ہیں۔۔۔
پہلے تو۔۔۔ اسنے بالاج کی جانب اشارہ کیا ۔۔۔ اس منحوس کو طلاق دے۔۔۔
دے طلاق اسے تا کے یہ اپنی منحوسیت لے کر یہاں سے جائے۔۔۔ آئی بڑی یہ میرے سر سے چھت کھینچنے والی۔۔۔
اسے میں بتاتی ہوں دربدر ہونا کیا ہوتا ہے۔۔۔ ثانیہ تع غصے سے پاگل ہوتی نفرت و حقارت کی آخری سیڑھی پر کھڑی تھی شاید
بالاج میں کہہ رہی ہوں دے طلاق اس کلموہی کو ورنہ میں تجھے دودھ نہیں بخشوں گی۔۔۔
تائی بالاج کے دوہتر مارتے گویا ہوئی۔۔۔ جبکہ وہ متوحش سا ماں کو دیکھنے لگا۔۔۔
تم اتنے بے غیرت کب سے ہوگئے بالاج کہ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نے تمہارے پورے خاندان کو آگے لگایا ہوا ہے اور تم یوں خاموشی سے کھڑے تماشا دیکھ رہے ہو۔۔۔۔
تانیہ کے شوہر نے بالاج کو جھنجھوڑتے ہوئے کاغذات بالاج کے سامنے کئے۔۔۔ ۔
صلہ کو اپنے قدموں تلے سے زمین نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ایک لمحہ لگا تھا اسے سارا کھیل سمجھنے میں۔۔۔ یہ سب پری پلین تھا۔۔۔
وہ لوگ تو بس صلہ کے ایک قدم اٹھانے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔ ورنہ طلاق کے کاغذات پہلے سے تیار کروانے کی بھلا کیا تک تھی۔۔۔
ایک گلٹی اسکی گردن میں ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔
اسنے سب سوچا تھا مگر یہ نہیں۔۔۔
وہ تڑپ کر بالاج کی جانب بڑھی۔۔۔۔
بالاج نہیں۔۔۔ اسکی آواز کہیں حلق میں ہی دب گئ تھی جب ثانیہ نے اسکے آگے اپنا پاوں کیا اور وہ الجھ کر بے طرح بالاج کے قدموں میں جا گری۔۔۔
کہنیاں چھل گئ تھیں جہاں سے ننھی ننھی خون کی بوندیں ابھرنے لگی تھیں۔۔۔۔
اسنے دھندلائی نگاہوں سے اوپر کی جانب دیکھا جہاں بالاج کی بازو تھامے کھڑی مشل اسے تمسخرانہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
صلہ کو اپنا آپ ہواوں میں معلق ہوتا محسوس ہوا کیونکہ وہ ستم گر بے وفا ان کاغذات پر دستخط کر رہا تھا۔۔۔۔
اسکے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔۔۔
اسے لگا شاید اسکی روح ہرواز کر گئ ہے۔۔۔ لیکن نہیں وہ سب دیکھ پا رہی تھی محسوس کر پا رہی تھی سن پا رہی تھی مگر کچھ کرنے سے قاصر تھی۔۔۔
دماغ عقل سمجھ جیسے سب مفلوج ہو گئ تھی۔۔۔
کیسے اور کون کس انداز میں اسے نیچے چھوڑ کر گیا۔۔۔
بچیاں اسکے پاس کیسے آئیں۔۔۔ وہ ماں کے کمرے میں کیسے پہنچی اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔۔
پتہ تھا تو بس اتنا کہ اسکے اردگرد اسکی بچیاں رو رہی تھیں۔۔ شاید بھوک سے کیونکہ انہوں نے تو ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔۔۔۔
اسے پتہ تھا تو یہ کہ یہ اسکی چار سالہ ازواجی زندگی کا انجام تھا۔۔۔
یہ حق کے لئے کھڑے ہونے کی سزا تھی۔۔۔
نوچ کھائیں گی وہ ماں بیٹیاں تمہیں صلہ۔۔۔ جلا کر بھسم کر دیں گی۔۔۔
ہوا کے دوش پر ایک نحیف آواز اسکے کان کے پردوں سے آ کر ٹکرائی۔۔۔
کوئی کسی کو نہیں کھاتا ماں۔۔۔ آج کے دور میں جو جیسا کرے گا ویسا بھر بھی لے گا۔۔۔
اسے آج اپنی ہی آواز اپنے چہرے پر تماچے کی مانند لگی تھی۔۔۔
آج جس محبت پر اسے غرور تھا وہ غرور محض ایک بیٹے کی خاطر پاش پاش ہو گیا تھا۔
اس شخص نے محبت تو اس سے بہت کی تھی شاید مگر وہ اسکی قدر نا کر سکا۔۔۔۔
اسے ہنوز بچیوں کے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں جبکہ اسکی اپنی آنکھیں رفتہ رفتہ بند ہو گئ تھیں۔۔۔
*****
Khoob