William Wali ولـیـــم ولـــی Complete Episodes Link
Noor Rajput
WALI-000-NORJ-NOVELISTAN
“William Wali” unfolds the story of a rebellious girl driven by passion,
battling for love, faith, and justice.
A gripping tale of revenge, unveiling the harsh truths of society,
with a bold protagonist who defies norms.
Packed with thrilling twists, buried secrets from the past,
enigmatic characters, and a captivating connection to a foreign man,
this story promises an unforgettable journey through mystery, suspense, and raw emotions.
”ایم سوری فجر۔۔۔“ وہ بولا بھی تو کیا۔ فجر کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ انہونی کا احساس جو روح سلب کر لیتا ہے۔
”میں یہ نہیں کر سکتا میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔“
روح سلب کر لی گئی۔ فجر کا چہرہ سفید پڑگیا کفن کی مانند۔
”وہ کہتے ہیں انہیں ایک شرعی پردہ کرنے والی بہو چاہیے جبکہ تم فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہو۔“
کیا یہ جواز تھا؟؟ وہ نظریں چرائے ہوئے تھا۔
”وہ تجھے آسمان سے زمین پر پٹخ دے گا۔۔۔“ اماں کے الفاظ گونج گئے۔
اس نے آسمان سے زمین پر پٹخ دیا تھا۔ اور اتنی اونچائی سے گرنے کی تکلیف کوئی فجر سے پوچھتا۔
وہ بےیقینی سے ارسل کو دیکھ رہی تھی جو کسی مجرم کی طرح چہرہ جھکایا بیٹھا تھا۔
وہ جانتی تھی ارسل اپنی بات کا پکا تھا۔ اس نے کہا تھا وہ اپنے ماں باپ کو اس سے ملوائے گا وہ لے آیا تھا
اب وہ کہہ رہا تھا وہ اسے چھوڑ دے گا تو وہ چھوڑ دیتا۔ وہ پلٹ کر نہ دیکھتا۔
”وہ میرے ماں باپ ہیں فجر“
”ماں باپ کے سامنے ساری محبتیں دم توڑ جاتی ہیں۔۔۔“
اماں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔
”میں اُنہیں نہیں چھوڑ سکتا میں اپنے بابا کے خلاف نہیں جا سکتا۔۔۔“
”وہ تجھے کبھی نہیں اپنائے گا۔۔۔“
اماں کی کہی ایک ایک بات سچ ہورہی تھی۔
”ایم سوری۔۔۔“ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسی پل فجر کسی برے خواب سے جاگی۔
”نہیں ارسل۔۔۔“ اُس نے تڑپ کر ارسل کا ہاتھ پکڑ لیا گرفت مضبوط تھی۔ وہ ٹھہر گیا۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھے لڑکے ٹھٹک گئے۔ وہ فارنر الجھی نظروں سے اُنہیں دیکھنے لگا۔
ابھی کل ہی لڑکا اس لڑکی کو رنگ دے کر پرپوز کر رہا تھا اور آج۔۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ چھڑائے جارہا تھا۔ کیوں؟؟؟
اس کے ساتھ بیٹھے دوسرے لڑکے نے بڑے نامحسوس سے انداز میں کیمرے کا رخ ارسل اور فجر کی جانب کرکے ویڈیو ریکارڈنگ کا بٹن دبا دیا۔
”ارسل پلیز۔ آپ مجھے نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ ایسے نہیں جا سکتے۔۔“
وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کا ہاتھ کسی متاع جاں کی طرح پکڑا ہوا تھا جیسے وہ چھوٹ گیا تو سب ختم۔
ارسل نے اپنا بازو چھڑانا چاہا۔ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا جانتا تھا اگر دیکھے گا تو پگھل جائے گا۔ وہ رخ موڑے کھڑا تھا۔
”ارسل مجھے آپ کے بنا جینا نہیں آتا۔ آپ مجھے لے جائیں میں انکل کو منا لوں گی میں وہ سب کروں گی جو وہ چاہتے ہیں
میں اُنکی ہر بات مانوں گی مم۔۔میں۔۔۔“ وہ بولتے بولتے سسکیوں سے رودی۔
ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھا وہ فارنر لڑکا بےچین ہوا۔ اس کے جبڑے بھنچ سے گئے۔ اپنی کرسی پر بلاوجہ ہی پہلو بدلنے لگا جبکہ دوسرا لڑکا بڑے مزے سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا بلکہ سب دیکھ رہے تھے۔
”فجر پاگل مت بنو لوگ دیکھ رہے ہیں۔۔“ اسکا لہجہ سخت تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کوئی انکی ویڈیو بنائے اور گردیزی خاندان پر کوئی بات آئے۔
”آپ مجھے دیکھ لیں پلیز۔ ایک بار دیکھ لیں۔ میں آپکی فجر ہوں آپ نے کہا تھا آپ میرے ہیں۔
آپ نے کہا تھا ہم ساتھ رہیں گے۔ مجھے چھوڑیں مت ارسل۔۔۔“
لڑکوں کو جوتے کی نوک پر رکھنے والی فجر معراج کی انا اُسکا غرور سب دور جا سوئے۔
اُس سے بچھڑنے کا خیال روح فرساں تھا۔ وہ اُسے چھوڑ رہا تھا یہ ناقابل یقین تھا۔ یہ ناقابل بیان تھا۔
”فجر چھوڑو مجھے۔“ ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑایا۔
وہ اُس کی پہنچ سے دور جانا چاہتا تھا اِس سے پہلے کہ وہ لڑکی اُسے اپنے فیصلے ڈگمگانے سے مجبور کردیتی
پر اگلے پل جو ہوا وہ ناقابل یقین تھا۔ وہ اُسکے قدموں میں بیٹھتی اس کا پاؤں پکڑ چکی تھی۔
لوگوں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھے۔ ”ہاہ ہائے“ کی آوازیں گونج گئیں۔
”کتنی بےشرم لڑکی ہے۔۔۔“ کسی خاتون نے تجزیہ کیا۔
”اپنی سیلف ریسپیکٹ کا ذرا سا خیال نہیں۔۔“ کسی نازک حسینہ نے نخوت سے بال لہرائے۔
”کوئی مجھے یوں ٹھکرائے میں تو اسے مڑ کر نہ دیکھوں۔۔“ تبصرہ کیا گیا۔
”ارسل مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔“
کیسی آہ بکا تھی۔ ارسل کا برہان کا دل ساکت ہوا۔ یہ سب کرنے کا فجر معراج نے بھی کبھی تصور نہیں کیا ہوگا۔ اس کا دوپٹہ سر سے پھسل گیا۔
اُس کی کل کائنات ارسل تھا۔ وہ اُس کے لیے پاگل تھی۔ اُسے لگتا تھا
ابا مرجائے گا تو وہ جی لے گی۔ اماں مرگئی تو بھی وہ جی لے گی پر ارسل بچھڑ گیا تو وہ مرجائے گی۔۔۔۔۔!!
اور اس پل فجر معراج کو اپنی موت چاروں طرف نظر آرہی تھی پر وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ جینا چاہتی تھی۔
”مجھے بھول جاؤ۔۔۔۔“ گلے میں اٹکے آنسوؤں کے گولے پر قابو پاتا وہ پوری قوت سے اپنا پاؤں چھڑائے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
ایک آنسوں آنکھ سے پھسل کر گال پر بہتا چلا گیا تھا۔
گلاس ڈور کھلا اور بند ہوگیا۔ ونڈ چارم کی آواز پھر سے گونج گئی۔
رستوران میں موت جیسی خاموشی تھی۔ لوگ دم سادھے بیٹھے تھے۔
پیچھے وہ بیٹھی رہ گئی اکیلی۔ خالی ہاتھ خالی دامن!
وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔ اس کا وجود ہچکیوں کی زد میں تھا۔ اماں کی بددعائیں قبول ہوچکی تھیں۔
ارسل برہان، فجر معراج کو چھوڑ کر جاچکا تھا۔ اُس نے اپنے ماں باپ کو چن لیا تھا۔
ایک بار پھر ایک محبت ماں باپ کے ہاتھوں دم توڑ گئی تھی۔ وہ رو رہی تھی ہچکیوں سے۔۔۔۔۔
Download Episode 01
Download Episode 02
Episode 03 Part 01