- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Sanwar Gaya Mera Roop Angan By Shazia Mustafa
Forced Marriage | Happy Ending | Social Romantic Novel
اری نیک بخت کبھی تو موقع محل دیکھ لیا کرو۔ چا جان کو بیدی کی تلخ کلامی ہمیشہ سے
ہی ناگوارگزرتی تھی مگر وہ اتنی تیز طرار عورت تھی کہ اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتی۔
ہائے ہائے میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے۔ سکندر کی اولاد کو ہم یہاں نہیں رکھ سکتے کر دیا
اس نے بیاہ اپنے مالک کے بیٹے سے ۔ وہ تو اسی دن سے ہی جلی ہوئی تھیں کہ اقصیٰ ایک کروڑ پتی خاندان کی بہو جو بن گئی تھی ۔
آنٹی میں انہیں لے جاؤں گا لیکن تھوڑا مجھے وقت تو دیں ۔ فان کلر کے کرتے شلوار میں
لمبے چوڑے عمل خاصے چارمنگ لگ رہے تھے ۔ اندر کے کمرے سے تحریم پردے کی اوٹ سے انہیں دیکھ رہی تھی۔
کتنا وقت دیں، مجھے اوپر کا حصہ کرائے پر دینا ہے۔ ان باپ بیٹی کو میں نے رکھا ہوا تھا
صرف رحم کھا کے کہ لڑکی کو لے کے وہ کہاں جائیں گے ۔ چھی جان تخت پر بیٹھی ہاتھ
کا پنکھا زور زور سے جھل رہی تھیں جب کہ شمل برآمدے میں پڑی ایک کرسی پر سر جھکائے مودب انداز میں بیٹھے تھے۔
ایک تو تمہارے اماں با وابھی اس نکاح میں شریک نہ ہوئے بتاؤ رکھو گے کہاں اسے وہ استفسار کرنے لگیں ۔
اچھا میں ذرا اقصی سے ملنا چاہوں گا ۔ انہوں نے تیز لہجے میں کہتے ہوئے ان کی بات ہی کاٹ دی۔
کب سے وہ ان سے ترش روی سے ہی بول رہی تھیں اور
وہ ویسے بھی کم کو سے تھے اتنا بولنا کسی کا ان کی طبیعت پر گراں ہی گزرتا تھا۔
اسے الو بیٹا ! میں بات کیا کر رہی ہوں تمہیں بیوی سے ملنے کی پڑ گئی ۔ انداز ان کا خاصا فہمائشی تھا۔
پنکھا انہوں نے زور سے تخت پر پیچ دیا ۔ دیکھئے یہ میر امسئلہ ہے وہ کہاں رہے گی؟“ وہ بھی بھنا ہی گئے ۔
ٹھیک ہے پھر میر امسئلہ سلجھاؤ۔ ابھی تم اس سے نہیں مل سکتے جاؤ یہاں سے ۔
انہوں نے بدلحاظی کی حد ہی کر دی۔ شہل احمد اب بھینچ کے رہ گئے بس ایک تیکھی نگاہ ڈالی اور تیزی سے با ہر نکل گئے ۔