Baat Umar Bhar Ki Hai By Warda Sultan

Forced Marriage | Rude hero | Innocent Heroin | Romantic Novel 

“مہرداد، کیا ہوا ہے، کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟” وہ حواس باختہ ہو کر اس سے پوچھ رہی تھی۔

وہ لب بھینچے چپ کر کے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔

“مہرداد رضا، تم میری آواز سن رہے ہو؟ کہاں لے جا رہے ہو مجھے۔ گاڑی روکو۔

مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ تم میری آواز سن رہے ہو؟” وہ اب چلا رہی تھی۔ لیکن اس پر تو جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔

“مہرداد گاڑی روکو، تم ایسے نہیں کر سکتے، میری مرضی کے بغیر تم مجھے کہیں نہیں لے جا سکتے۔

مہرداد!” جب اس پر کوئی اثر ہوتے نہ دیکھا تو افسانے نے سٹئیرنگ وہیل ہر جھپٹتے خوف گاڑی روکنے کی کوشش کی۔

اس کی اس حرکت سے گاڑی کا بیلنس خراب ہوا، گاڑی تھوڑا سا ڈگمگائی۔

مہرداد نے ایک ہاتھ سے اسے پیچھے دھکیلتے دوسرے ہاتھ سے گاڑی کنٹرول کی۔

پھر گاڑی کو بریک لگائے۔ افسانے نے فوراً دروازہ کھول کر نیچے اترنے کی کوشش کی۔

لیکن مہرداد نے جلدی سے اس کے دونوں ہاتھ اپنی گرفت میں لئے۔

ڈیش بورڈ کھول کر اپنا مفلر باہر نکالا اور افسانے کے دونوں ہاتھ کمر سے پیچھے لے جا کر کس کے پشت پر باندھ دیے۔

اور گاڑی دوبارہ سٹارٹ کی۔ اس دوران افسانے پوری مزاحمت کرتی رہی تھی۔

مہرداد پتا نہیں کن راستوں سے گاڑی بھگاتا اسے شہر سے باہر کسی سنسان علاقے میں لے آیا تھا۔ وہ پورا راستہ چیختی آئی تھی۔

ٹانگیں مارنے کی کوشش کی تو مہرداد نے اس کے پاؤں بھی باندھ دیے۔

اس سنسان علاقے میں بنے فارم ہاؤس پر گاڑی روکتے وہ باہر آیا اور افسانے کی سائیڈ کا دروازہ کھولا۔

جھک کر اسے کندھے پر اٹھایا اور فارم ہاؤس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

مختلف راہدریوں سے گزرتے وہ اسے ایک کمرے میں لایا۔ اسے پٹخ کر بیڈ پر پھینکا۔

وہ منہ کے بل بیڈ پر گری۔ مہرداد نے جھک کر اس کے ہاتھ پاؤں قید سے آزاد کیے۔

وہ تیزی سے پلٹی اور مہرداد پر جھپٹی۔ وہ اس کے حملے کے لئے تیار تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اس کی کلائیاں تھامتے اس کا وار روکا۔

“تم جنگلی انسان کیوں لے کر آئے ہو مجھے یہاں؟”

حلق کے بل چلاتے وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔

“جنگلی، ایگزیکٹلی، یہی کہا تھا نہ تم نے، تو آج میں تمہیں یہی بتانے کے لئے یہاں لایا ہوں

کہ جنگلی اصل میں ہوتا کون ہے۔” چبا چبا کر کہتے اس کی کلائیوں کو جھٹکتے واپس بیڈ پر پھینکا۔

“تم پاگل ہو گئے ہو، کیا بکواس کر رہے ہو۔ میں نے کب تمہیں ایسا کہا۔” بیڈ سے اٹھ کر وہ پھر سے اس کے مقابل کھڑی ہوئی۔

“میں نہیں لیکن تم ضرور پاگل ہو گئی تھی جب تم مجھے جنگلی، کریکٹر لیس ،

اور لڑکیوں کے جزبات سے کھیلنے والا جیسے القابات سے نوازا رہی تھی۔

اب بھگتو اس کریکٹر لیس انسان کو جو جنگل سے اٹھ کر آیا ہے۔ “

سنگین لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کی طرف بڑھا۔ وہ اس کے تیور دیکھتے چند قدم پیچھے ہٹی۔

“دیکھو تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے تمہیں ایسا کچھ نہیں کہا۔ اور یہ سب۔۔”

بولتے ہوئے اسے فلیش بیک کی صورت وہ سکرپٹ یاد آیا جو حلیمہ نے اسے پڑھنے کے لیے دیا تھا۔

مہرداد جو الزام اس پر لگا رہا تھا وہ سب تو اس سکرپٹ میں لکھا تھا۔

“او ہاں اب تم کہو گی کہ تم نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ میرے ماتھے پر لکھا ہے نہ کہ میں بے وقوف ہوں۔”

درشتی سے کہتے وہ دو قدم مزید اس کی طرف بڑھا۔

“تم میری بات تو سنو، ایسا کچھ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔”

وہ ابھی بول رہی تھی جب مہرداد نے اسے بازو سے دبوچ کر اپنے سامنے کیا۔

“میں جو سمجھ رہا ہوں بالکل ٹھیک سمجھ رہا ہوں۔ تم اب اپنے لئے دعائیں مانگنا شروع کر دو۔

تمہاری زندگی کو موت سے بد تر نہ بنا دیا تو کہنا۔” ایک جھٹکے سے

اس کا بازو چھوڑتے وہ دروازہ لاک کرتے کمرے سے باہر نکل گیا۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *