Zanjeer by Ayna Baig

Accused Based | After marriage | Innocent heroin based |Haveli Based |Rude Hero | Wani Based 

“آپ نے بلایا؟”۔ وہ ڈوپٹے کو گھونگھٹ کے انداز میں پہنی ہوئی تھی۔ شرجیل نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

“بیٹھو”۔ اس نے نگاہوں سے برابر بیٹھنے کا اشارہ ساتھ دیا۔ اس کے کہنے پر رفاہ لرزتی پلکوں اور دھڑکتے دل سے اس کے برابر بیٹھ گئی۔ لمبی کی خاموشی چھا گئی۔ باغ میں صرف ایک مدھم سا بلب جل رہا تھا۔ اس کی روشی اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ ایک دوسرے کے چہرے کے نقوش کا اندازہ کرپاتے۔

“اپنے بابا سے کیوں نہیں ملی؟”۔ اس نے ٹہھر کر پوچھا۔
“کیونکہ میں ان سے ملنا ہی نہیں چاہتی”۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی تھوڑا سخت ہوگئی۔ شرجیل نے اس کے چہرے کے نقوش غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔

“وہ باپ ہے تمہارا”۔ اس نے بتایا جیسے وہ جانتی ہی نہیں۔

“مگر میں نہیں ملنا چاہتی”۔ اس نے سختی سے لفظ ادا کیا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
“اگر آپ کو یہی بات کرنی تھی تو میں اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی”۔ غصہ میں وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ کس سے بات کررہی ہے۔ شرجیل نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے دیکھا۔ وہ سر جھکا کر کہتی مڑنے لگی تھی کہ شرجیل نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اپنے قدموں کے ساتھ ساتھ رفاہ کو اپنی سانس بھی رکتی محسوس ہوئی تھی۔

“میں نے جانے کا کہا کیا؟”۔ وہ سختی سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا مگر رفاہ نے اسے مجبور کردیا تھا۔ “بیٹھ جاؤ”۔ اس نے اپنی آنکھیں اس کے چہرے پر گڑا کر بلند آواز میں حکم دیا۔ وہ اس کی آواز پر سہمتی برابر میں پھر سے بیٹھ گئی۔

“جو پوچھ رہا ہوں آرام سے بتادو ورنہ اس چھت کی منڈیر پر کھڑا کردوں گا”۔ وہ حویلی کی چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ رفاہ نے اس کے اشارے کے تعاقب میں دیکھا تو لرز اٹھی۔ اندھیرے میں حویلی اور خوفناک لگ رہی تھی۔

“کیوں نہیں ملی ان سے؟”۔ اس نے سوال پھر سے دہرایا۔

“میرا دل نہیں چاہ رہا تھا”۔ وہ خود پر ضبط کرتے ہوئے مضبوطی سے بولی۔

“کیوں نہیں چاہ رہا تھا؟”۔ اس نے اسی کے انداز میں پوچھا تو وہ لب بھینچ گئی۔

“بس دل نہیں کررہا تھا شرجیل صاحب”۔ کہتے کہتے اس کی آواز رندھ گئی۔

“پہلی بات! شرجیل صاحب میں آپ کے سوا ہر کسی کے لیے ہوں!”۔ شرجیل نے سنجیدگی سے اسے ٹوکا۔ وہ گھبراگئی جیسے کوئی بہت بڑی غلطی کردی ہو۔ اس نے حلق میں تھوک نگل کر اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو سردی کے باعث سفید ہورہے تھے ار ناخن ہلکے نیلے۔

“کک۔کیا کہوں آپ کو”۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔ شرجیل نے اس کے سوال پر اس کی طرف رخ موڑا جو اپنی مخروطی انگلیاں چٹخ رہی تھی۔ ہاتھوں کی سفیدی دیکھ کر شرجیل نے بےساختہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور غور سے دیکھنے لگا۔

“شرجیل کہہ سکتی ہو مجھے۔۔۔ اب شوہر کو صاحب بولتی اچھی لگو گی؟”۔ سنجیدگی سے گفتگو وہ اس سے کررہا تھا مگر نظریں اس کے ہاتھوں کے ناخنوں پر تھیں۔ رفاہ کو اس کی باتیں عجیب لگی تھیں۔ اسے شرجیل سے ایسی گفتگو کی امید نہیں تھی۔ وہ چہرے سے بردبار اور سخت لگتا تھا مگر وہ اندر سے اتنا ظالم نہیں تھا وہ یہ جان گئی تھی۔

“تمہیں ٹھنڈ لگ رہی ہے؟۔ کوئی گرم کپڑے نہیں ہے پہننے کے لیے؟۔ یہ کیا اتنے ہلکے کپڑے پہنی ہوئی ہو؟ اس سے بھلا کوئی ٹھنڈ رکے گی؟”۔ وہ اسے بلکل بچوں کی طرح ڈانٹ رہا تھا۔ رفاہ اسے بنا کسی تاثر کے تک رہی تھی۔

“کچھ کہو گی بھی یا یوں ہی مجھے غصہ دلاتی رہو گی؟”۔ وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولا۔اس بندے کو سوائے ماتھے پر بل ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ رفاہ نے اس کے ماتھے پر آئے بل کو دیکھ کر دل میں سوچا۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *