Jaan e Sitamgar By Farwa Khalid

Kidnaping Base | Forced Marriage | Rude Hero | Innocent Heroine | Romantic Urdu Novels 

“مجھے اغوا کیوں کیا؟؟؟”
پریسا کو بے اختیار اُس کی گھورتی آنکھوں سے گھبراہٹ ہوئی تھی۔۔۔۔
“کسی کو سبق سکھانے کے لیے۔۔۔۔”
شاہ ویز سگریٹ سلگھاتے پلٹا تھا۔۔۔۔
“تو اُنہیں اغوا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔۔۔ جو ایک کمزور لڑکی پر ہاتھ ڈالا۔۔۔۔۔”
پریسا اُس سے جتنا خوف کھاتی تھی زبان بھی اُسی سے چلاتی تھی۔۔۔۔
“کمزور۔۔۔ تو تم خود کو کمزور سمجھتی ہو۔۔۔۔”
شاہ ویز اُس کا مذاق بناتے طنز کیا تھا۔۔۔۔
“اُن لوگوں کو بھی اُن کے انجام تک بہت جلد پہنچاؤں گا۔۔۔ تمہاری آنکھوں کے سامنے۔۔۔۔۔”
شاہ ویز اُس کی جانب آگ اُگلتی نگاہوں سے دیکھتا باہر کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔
“مجھے کھانا کھانا ہے۔۔۔۔۔”
پریسا جس سے بھوک برداشت کرنا ناممکن سی بات تھی۔۔۔۔ شاہ ویز کو باہر جاتا دیکھ جلدی سے بول اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
اُس کی اِس فرمائش پر شاہ ویز نے پلٹ کر اُسے جن نگاہوں سے گھورا تھا وہ سہم کر نگاہیں جھکا گئی تھی۔۔۔۔۔۔
پنک کلر کے خوبصورت سے ڈریس کا دوپٹہ شانوں پر پھیلائے، کیچر سے جھانکتے گلابی گالوں سے

ٹکراتے بالوں کو بار بار کان کے پیچھے اڑستی وہ نازک سی دوشیزہ بلیک بیسٹ کا ضبط بُری طرح آزما رہی تھی۔۔۔۔
جو اپنے مزاج کے خلاف کسی کی بات سننا تک پسند نہیں کرتا تھا. وہ نجانے کیوں اِس لڑکی کے اوٹ پٹانگ سوالوں کے جواب دیئے جارہا تھا۔۔۔۔
شاہ ویز کو اپنے اِس بنگلے میں بلیک کلر کے علاوہ کوئی کلر برداشت نہیں تھا۔۔۔۔ مگر یہ لڑکی بڑے دھڑلے سے یہ لباس پہنے ہوئے تھی۔۔۔۔
“وہ سامنے پڑا تو ہے۔۔۔ کھا لو۔۔۔۔۔”
شاہ ویز کہتے واپس جانے لگا تھا۔۔۔
“نہیں۔۔۔۔ یہ بہت سپائسی ہے۔۔۔ ایک نوالے سے ہی میرا منہ جلنے لگ گیا تھا۔۔۔۔ مجھے یہ کھانا نہیں کھانا۔۔۔۔ کوئی اور بنوا کر دیں۔۔۔۔”
پریسا کی اِس فرمائش پر شاہ ویز کا خون کھول اُٹھا تھا۔۔۔
یہ شخص جتنا اُسے خود سے ڈرانے، خود سے بدظن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔۔ وہ اتنا اُس کے ساتھ کمفرٹیبل ہورہی تھی۔۔۔۔
“دیکھو لڑکی یہ نہ تو تمہارا آفندی مینشن ہے اور نہ ہی کوئی فائیو سٹار ہوٹل۔۔۔۔ اِس لیے جو دیا ہے وہ چپ کرکے کھا کو یا پھر ایسے ہی رہو۔۔۔۔”
شاہ ویز نے اپنے مخصوص سرد اور بے لچک انداز میں کہتے اُسے خاموش کروا دیا تھا۔۔۔۔ مگر ابھی اُس کی بات ختم ہوئی ہی تھی۔۔۔۔ کہ پریسا آنسو بہاتی وہیں زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔
شاہ ویز نے غصے سے مُٹھیاں بھینچ لی تھیں۔۔۔۔ آخر کیا تھی یہ لڑکی۔۔۔۔
“اب یہ کیا نیا ڈرامہ ہے۔۔۔۔؟؟؟”
شاہ ویز اُس کے سر پر پہنچتا دھاڑا تھا۔۔۔ جو گود میں سر رکھے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے رونے کو تیار بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
“مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔ اگر یہ اتنا سپائسی کھانا کھایا تو بے ہوش ہونا میں نے اور اگر نہ کھایا تا بھوک کی وجہ سے۔۔۔۔”
پریسا نے موٹے موٹے آنسو گراتے شاہ ویز سکندر کو زچ کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔ اُسے آنسو جتنے بُرے لگتے تھے یہ لڑکی اُتنا ہی آنسو بہانے کی شوقین تھی۔۔۔
“خیر بے ہوش تو تم بغیر کسی ریزن کے ہوسکتی ہو، یہ بتانے والی کوئی نئی بات نہیں ہے۔۔۔۔”
وہ اُس پر ایک خونخوار نگاہ ڈالتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔۔ جبکہ اُس کے جاتے ہی پریسا کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔۔۔ اُس جیسی زہین لڑکی چند ہی

ملاقاتوں میں اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ یہ شخص اُسے مارنا تو نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اور یہ اگر کسی چیز سے ڈرتا تھا تو وہ ایموشنز تھے۔۔۔۔ اُسے اگر کسی بات سے کمزور

کیا جا سکتا تھا تو وہ تھے جذبات اور احساسات۔۔۔۔ غصہ کرنے سے یہ شخص ڈبل غصہ کرتا تھا۔۔۔ مگر رونے دھونے سے وہ اور زیادہ چڑھتا تھا۔۔۔ اور یہی بات پریسا کو مزا دے گئی تھی۔۔۔۔
وہ اب اِسے اتنا زچ کرنے والی تھی کہ وہ خود ہی اُس سے جان چھڑوانے کے لیے اُسے واپس چھوڑ آتا۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *