- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Az-e-Sar-e Nau Zindagi by Maham Shakeel
Genre: Fictional | Emotional Drama | Psychological | Philosophical | coming of age (Self discovery)
ازِ سرِ نو زندگی
ایک جذباتی و فکری ناول
کہانی کا خلاصہ
“ازِ سرِ نو زندگی” ایک ایسی داستان ہے جو انسان کی زندگی کے نئے آغاز، خود شناسی، اور جذباتی کشمکش کو نہایت خوبصورتی اور گہرائی سے بیان کرتی ہے۔ یہ ناول محبت، درد، اور امید کی باریک لپیٹ میں انسانی روح کی پیچیدگیوں کو کھوجتا ہے۔ مرکزی کردار زندگی کی تلخیوں اور جذباتی زخموں سے گزر کر اپنے اندر ایک نئی روشنی اور مقصد تلاش کرتا ہے۔
ناول میں انسانی نفسیات، احساسِ تنہائی، اور خود کو پہچاننے کے عمل کو نہایت باریک بینی اور دل کو چھو لینے والے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ہر کردار کے دل کی بات اور اندرونی جدوجہد کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ قاری خود کو ان کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔
Sneak Peak
“ہم نے پوری کوشش کی… مگر….. ۔”
یہ جملہ اُس کے دل پر ہتھوڑے کی طرح لگا۔ جیسے کسی نے اندر موجود تمام جذبات کو ایک جھٹکے میں مسخ کر دیا ہو۔
وہ فرش پر گر گئی، ماں کے قدموں میں، سر رکھ کر زور زور سے رونے لگی۔
“ماں… پلیز… واپس آ جاؤ… میں بہت اکیلی ہو جاؤں گی… کوئی نہیں ہے میرا…”
“اکیلی بیٹیوں کی سب سے بڑی کمزوری اُن کی ماں ہوتی ہے — اور سب سے بڑا سہارا بھی۔”
تبھی کسی نے آہستہ سے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
وہ پیچھے مڑی — وہی اجنبی شخص، سیاہ قمیص، پریشان چہرہ، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سکون۔
“یہ دکھ… لفظوں میں نہیں آتا… میں جانتا ہوں۔”
وہ کچھ نہ بول سکی۔ بس آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔
“میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ کم از کم آج نہیں۔”
“کیوں؟ تم کون ہو؟”
اُس نے رندھی آواز میں پوچھا۔
“بس ایک اجنبی… جو جانتا ہے، خاموش رونا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔”
وہ پاس آ کر زمین پر بیٹھ گیا۔
“اپنے آنسو روکنے کی ضرورت نہیں۔”
“مجھے لگ رہا ہے جیسے… میرے اندر کچھ مر گیا ہے۔”
اُس نے ہاتھ سینے پر رکھا، جیسے اپنی کھوئی ہوئی زندگی کو دوبارہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
“کبھی کبھی اندر کے جنازے باہر کے جنازوں سے زیادہ وزنی ہوتے ہیں۔”
“تم… سمجھ رہے ہو؟”
وہ حیران تھی۔
“میں تمہارے درد کا دعویٰ نہیں کرتا — لیکن میں اُس سناٹے کو جانتا ہوں، جو کسی عزیز کے چلے جانے کے بعد چھا جاتا ہے۔”
“پہلی بار کوئی… میرے درد کو لفظوں کے بغیر سمجھ پایا ہے…”
اس نے آہستہ سے سر اُس اجنبی کے کندھے پر رکھ دیا۔