- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Zakhame Zest By Haleema Sadia
Genre: Romance | Family Saga | Revenge | Tragedy | Social Issues
Discription
کبھی طاقت سب کچھ جیت لیتی ہے… مگر کبھی ایک ٹوٹا ہوا دل پوری سلطنت ہلا دیتا ہے۔”
یہ کہانی ہے ایک بااثر خاندان کی، جہاں محبت اور نفرت، انا اور قربانی، سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہیں۔ کبھی کوئی کردار اپنی چاہت کے لیے روکتا ہے تو کبھی تقدیر اسے آگے بڑھا دیتی ہے۔ یہ صرف ایک عشق کی کہانی نہیں بلکہ خاندان، گناہوں، بدلے اور وقت کے انصاف کی داستان ہے۔
SNEAK PEAK
تمہارے ساتھ وہ لڑکا کون تھا
ارمینہ کچھ ٹائم خاموش رہی پھر دھیرے سے بولی کون لڑتا ہے
واسق دانت پیستے ہوئے بولا:
“جو پوچھ رہا ہوں، اُس کا جواب دو۔ یونیورسٹی کے گیٹ پر تمھارے ساتھ جو لڑکا کھڑا تھا۔”
ارمینہ کی نظریں لرزتی انگلیوں پر جم گئیں۔ پل بھر کو چپ رہی، پھر آہستہ بولی:
“وہ… اُس نے مجھ سے نوٹس لیے تھے۔”
وسِیق نے ایک تلخ ہنسی کے ساتھ سر جھٹکا۔
“نوٹس؟ یا کچھ اور؟”
ارمینہ نے چونک کر دیکھا، آنکھوں میں ہلکی نمی ابھر آئی، آواز میں خفگی اور دکھ کی ایک ہلکی لرزش:
“آپ کا ہر سوال الزام کیوں ہوتا ہے؟”
واسِق نے اب گاڑی کی رفتار کچھ اور بڑھا دی۔ سرد لہجے میں بولا:
“لڑکی کیونکہ تمھارے اطراف ہر چیز مشکوک لگتی ہے… تمھاری خاموشی بھی۔ تمھاری صفائی بھی۔”
ارمینہ نے آہستہ سے سر جھکا لیا۔ اُس کے چہرے پر دکھ کی ایک گہری جھلک تھی۔ گاڑی کے شیشے پر پڑتی روشنیوں نے آنسو چپکے سے چھپا لیے۔
“آپ مجھ سے بات تو کرتے نہیں… اور جب کرتے ہیں تو ایسے جیسے میں کوئی مجرم ہوں۔”
واسق نے سانس روکا، جیسے کچھ کہنا چاہا، مگر خاموش ہو گیا۔
ایک لمحے کو گاڑی کے اندر مکمل خاموشی چھا گئی — صرف دلوں کی دھڑکن باقی تھی… اور ایک انجانی کشمکش۔
واسق نے گاڑی کے گیئر پر گرفت سخت کی اور ایک نظر ارمینہ پر ڈالی جو اب مکمل خاموش تھی۔ اُس کے چہرے پر بیزاری، تھکن، اور دکھ واضح جھلک رہا تھا۔
گاڑی آخر کار شیرازی محل کے آہنی دروازے پر رکی۔ پہرے دار نے گیٹ کھولا اور گاڑی آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئی۔
واسق نے اچانک سخت لہجے میں کہا:
“باہر نکلو۔”
ارمینہ نے دروازہ کھولا، بیگ سنبھالا اور بغیر کچھ کہے گاڑی سے باہر آ گئی۔ اُس کے قدم سست تھے، دل جیسے بوجھ سے لبھرا ہو۔
جیسے ہی وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی، واسق نے گاڑی سے اتر کر پیچھے سے ایک اور بات کہی، آواز اب نسبتاً دھیمی تھی مگر پھر بھی سخت:
“آئندہ اس لڑکے سے بات نہ کرنا… شیرازی خاندان کی بیٹیاں مشکوک سایوں کے قریب نہیں جاتیں۔”
ارمینہ رُک گئی۔ پیٹھ واسیق کی طرف تھی، مگر اُس کی آواز میں ٹوٹا ہوا ضبط تھا:
“اور شیرازی خاندان کے مرد… وہ بھی تو بیٹیوں کے زخم سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے، ہے نا؟”
ارمینہ بغیر پلٹے سیڑھیاں چڑھتی رہی۔ اُس کا قد چھوٹا تھا، مگر اُس لمحے وہ واسق کو بےحد بڑا لگ رہا تھا — اپنی خاموش جیت میں، اپنی ٹوٹی ہوئی خودداری میں۔
واسِق نے مٹھیاں بھینچی ا
“بےوقوف لڑکی…” اُس نے ہولے سے کہا، مگر یہ جملہ شکوے سے زیادہ… شاید کسی انجانے احساس کا اعتراف تھا۔