- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Akhri Musafat by Roshanay Arshad
Social Issues Base | Inspirational Fiction | Islamic base
“کیوں پکا رہی ہیں اتنا سب کچھ؟”
“ارے بھئی وہ اپنے پڑوس میں جو بڑے شریف سے امام صاحب رہتے ہیں نا ان کا بڑا شریف سا بیٹا اسلم آیا ہوا ہے استنبول سے تو میں نے سوچا ان کی دعوت کر لوں۔”
وہ بڑے مصروف سے انداز میں کہہ کر مسور کی دال چننے لگیں۔
“ماشاءاللہ ! اتنے شریف ہیں کہ دونوں کے ساتھ الگ سے شریف لگانا پڑ رہا ہے آپ کو۔ زبردست!”
آنکھیں گھما کر کہتی اس نے ہاتھ کمر پر رکھ لیے۔
رحمت بی جو بڑی پھرتی سے ہاتھ چلا رہی تھیں ہاتھ روک کہ اسے دیکھنے لگیں۔
“ہاں تو کیا ہے جتنے منہ اتنی باتیں۔ ہو سکتا ہے وہ واقعی شریف ہوں۔”
وہ ایک کرسی کھیچ کر کچن کاؤنٹر کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں اور ہاتھ پھر سے پھرتی سے چلنے لگے۔
“جی ہاں بلکل اتنے شریف کہ ایک دفعہ شریف کہنے سے کام نہیں بنا تو دوسری دفعہ شریییففففف۔۔۔ لگانا پڑ گیا”۔
اس نے شریف کو کچھ اتنا لمبا کھینچا کہ آنے ذرا اکتا کر اسے دیکھنے لگیں۔
“اب کیا ہے؟ ان دونوں کے ساتھ بھی کوئی اللہ واسطے کا بیر ہے تمہیں؟”
وہ تیزی سے آکے گھٹنوں کے بل ان کے سامنے بیٹھی۔
“بیر نہیں ہے لیکن کیوں بلا لیا ہے ان کو؟ جن کو گاؤں بھر میں کوئی منہ نہیں لگاتا ان کیلئے اتنے پکوان ہمارے گھر میں کیوں بن رہے ہیں؟”
انہوں نے دال کی پلیٹ پرے رکھی اور اس کے سر پر ایک چپت لگائی۔
“کیونکہ ہمارے نبیؐ نے ہمسایوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی ہے۔”
عرشیہ نے آنکھیں گھمائیں۔
“اف اللہ! آنے کیا ہوگیا ہے انہوں نے تو کبھی جھوٹے منہ پانی بھی نہیں پوچھا ہوگا آپ کو اور یہ بڑے بڑے دیگچے چڑھا دیے ہیں آپ نے۔ یہ دوسروں کیلئے جینے کا دور نہیں ہے آنے اب دنیا صرف اپنے لیے ہی جیتی ہے۔”
اس کا انداز ذرا شکایتی تھا۔
“ہاں تو تم سے کس نے کہا ہے کہ تم دنیا کیلئے جیو؟ تم اللہ کیلئے جیو۔”
“تو پھر آپ نے کیوں ان کیلئے یہ اتنا کچھ چولہے پہ چڑھا دیا ہے۔”
اب کہ لہجہ سادہ تھا خفگی نا تھی۔
“کیونکہ اس بار اسلم کی ماں نہیں ہے جو اسے طرح طرح کے پکوان ایک ہفتے کی چھٹیوں میں بنا کر کھلائے۔ ماں کے بعد اس کا یہ پہلا پھیرا تھا گاؤں کا تو میں نے سوچا اسے دعوت کے بہانے کچھ اچھا کھلا پلا دوں”۔
وہ مزید کچھ کہنے کو تھی کہ رحمت بی نے فوراً سے دال کی پلیٹ دوبارہ اٹھا لی۔
“اب بس بھی کرو جاؤ منہ ہاتھ دھو کر آؤ میں تمہیں کچھ کھانے کو دیتی ہوں”۔
وہ بھی مزید بحث میں پڑے بغیر اٹھ گئی۔