- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Maatam Sang Shehnai ke By Parisha Mahnoor Khan
Sad Novel | Short Novel | Family Story | Social Issues
رانیہ ہمدانی زندگی کارنگ زندگی کی ترجمان مر چکی تھی۔۔
کوئی سہیل ہمدانی سے پوچھتا دکھ کیا ہوتا ہے۔۔ ؟ کوئی اس ماں کا کلیجہ دیکھتا جو جوان اولاد کی ڈولی کا خواب سجائے تابوت سجارہی تھی۔۔ کوئی ان بہنوں کا درد سمجھتا جنہیں رانیہ کے بغیر خوف آتا تھا۔ ؟؟ اور کوئی تو اس شخص کا دکھ جان پاتا جس کے گھر اس کی من پسند دو مہینے بعد دلہن بن کر اتر نے والی تھی۔۔ ؟؟ وہ اڑتیس سالہ میچوڑ شخص تابوت سے لگا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔
محبت کو پاگل پن کہنے والے آج پاگل پن دیکھ رہے تھے۔ زندگی تب من اپن دیکھ رہے تھے۔ زندگی تب مشکل نہیں لگتی جب آپ تکلیف میں آپ تکلیف میں ہوتے ہو زندگی کی سانسیں آپ پر تب تنگ ہوتی ہیں جب دل کے مکین دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔
سو فیصد میں سے دس فیصد لوگ محبت کرتے ہیں۔ اور ان دس فیصد میں سے پانچ فیصد مستقل مزاج ہوتے ہیں جو جیتے ہیں تو سانسوں پر محبوب کے نام کی تسبیح کرتے اور مرتے ہیں تو سانسیں محبت کو دان کر کے آنے والے پانچ فیصد لوگوں کی محبت کو سانس دے جاتے ہیں۔
ریحان مصطفی خان۔ ایک مسحور کن شخصیت کا مالک ، محبت ہوتی ہے کی مجسم تصویر تھا۔ وہ ایک بادشاہوں سامرد تھا جو محبت کے بچھڑ جانے پر بھکاریوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکا تھا۔
ہر آنکھ اشک بار تھی اس جواں سالہ موت پر۔ ریحان کا دکھ، سہیل کی اذیت ، رخشندہ ہمدانی کا چھلنی چھلنی کلیجہ ، انیہ اور وانیہ کی چیچنیں ہر ذی روح کو تڑپ تڑپ کر رونے پر مجبور کر رہی تھیں۔
آخر وہ وقت بھی آیا رانیہ کو لے جایا گیا۔۔ وہ جسے سرح جوڑے میں بیجھنا تھا وہ سفید کفن میں رخصت ہوئی ۔۔۔ مز ہمدانی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئیں تھیں۔۔ اور وانیہ اور آنیہ انہیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی وہ ماں کو سنبھالیں یا جاتی ہوئی بہن کو روکیں۔۔۔ وہ روکنا چاہتی تھیں اپنی بہن کو اپنی زندگی کو مگر جانے والوں کو روکنا نا ممکنات میں شامل تھا شامل رہا ہے۔۔