Bahon Ke Hisar Mai by Qamrosh Shehak

Khoon Baha | Rude Hero | Forced Marriage 

انشراح اس گاؤں کی حدود سے نکل جائے وہ کسی کے ہاتھ نہ لگے۔“
اماں! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ اربش ڈری سبھی کپکپاتی ہوئی صغریٰ کے قریب بیٹھی تھی۔
کو دعا کر پتر دعا کر، بیس اور کچھ نہیں ۔ صغری نے اربش کو اپنے سے لگا لیا۔
باہر بہت سے بھاری بھاری قدموں کی آوازیں اور ساتھ چیخنے چلانے کی آواز میں ابھر نے لگی تھیں ۔ ہوا کا رخ بدل گیا تھا آندھی ۔ طوفان کا رخ صغری کے گھر کی جانب تھا۔ ایک زلزلہ آ رہا تھا جو اس کے کچے گھر کو تنکا تنکا بکھیر دے گا۔ گھر کا سارا شیرازہ بکھر جائے گا۔ جانے کیا حال ہو گا ان لوگوں کا مگر جس کے ساتھ وہ سب ہو گا اس کو ہی صغری نے گھر سے گاؤں سے بھگا دیا تھا۔ وہ وجود اب یہاں نہیں نہیں تھا اور نہ ہی اب بھی یہاں آئے گا ۔ جو کچھ ہو گا صغری یا نور دین کے ساتھ ہوگا ۔ وہ ماں باپ ہیں اپنی اولاد کے خاطر سب کچھ برداشت کر لیں گے ہر دکھ ہر تکلیف ہر درد سہہ لیں گے صرف لیں گے صرف اور صرف اپنی اولاد اپنی اولاد کے خاطر ۔
دھر سمندر خان نے اپنا بھاری بھر کم جوتا جو زور سے اس لکڑی کے بند دروازے مارا تو وہ دروازہ چوکھٹ سے اکھڑ کے کچے فرش پر گرا تھا۔ صغری اور اربش پوری جان سے ہل کر رہ گئی تھیں۔ ان کا دل دہل کر رہ گیا تھا۔ سکڑ اٹھا سا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ رواں رواں لرز رہا تھا کانپ رہا تھا ، موت بالکل سامنے تھی اب ہو کہ گھر کے اس فرش کو کھود کر زندہ زمین میں اتار دیا جائے گا اور بھاری سل ان کی قبروں پر رکھ دی جائے گی۔
کہاں ہے تیری چھوری بول جلدی ، بھونک ورنہ حلق سے زبان کھینچ لوں گا ۔ سمندر خان جاہ و جلال سے آگے بڑھا اور مغربی کی گدی کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔
آہ، مجھے نہیں پتا وہ ابھی گھر نہیں آئی ۔“ صغری نے سمندر خان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا وہ بلبلا کر رہ گئی تھی درد سے کانپ کر رہ گئی تھی۔ جھوٹ مت بول ۔ ایک بھاری چانٹا صغری کے منہ پر مارا تھا کہ چاروں انگلیوں کے نشان اس کے منہ پر چھپ کر رہ گئے ۔ ۔ چھوڑو میری کو میں کہتی ہوں چھوڑو، میں ہوں ان کی چھوری لے چلو جہاں لے کر چلتا ہے ۔ اربش تیزی سے آگے بڑھی تھی اور
صغری کو سمندر خان کی مضبوط چنگل سے چھڑانے کی بے کار کوشش کرنے لگی تھی۔ سمندر خان نے اربش کو اپنی بڑی بڑی شعلہ بار سرخ آنکھوں سے گھورا تھا اربش کا دل مزید ڈر و خوف کے مارے سہم کر رہ گیا تھا ، کواپنی سمندر خان نے پیچھے پلٹ کر دیکھا جہاں اور بھی لوگ کھڑے تھے سمندر خان کی آنکھ کا اشارہ وہ سمجھ گئے تھے۔
نہیں یہ جھوٹ بول رہی ہے وہ اس کی چھوٹی چھوری سے انشراح اور یہ بڑی دھی ہے اربش “
دو پورا گھر چھان مارا کہیں نہیں ہے لڑکی ، اس عورت نے نہیں اور چھپا دیا ہے یا بھگا دیا ہے ۔ سالا رشاہ کے اور وفادار ملازموں نے یا دیا سالا اس کا پورا گھر ڈھونڈ لیا تھا مگر انشراح گھر سے غائب تھی۔
دو تم لوگ پورا علاقہ پورا گاؤں چھان مارو ایک ایک گھر ایک ایک گھاٹ پگڈنڈی ڈھونڈ و وہ زیادہ دور نہیں گئی ہوگی جلدی سے پکڑ کر

لے آؤ سالی کو سارے آدمی تیزی سے باہر نکلے تھے۔
تو کیا بجھتی ہے تیری چھوری بچ جائے گی تو اگر بتائے گی نہیں تو ہم اس کو ڈھونڈ نہیں پائیں گے۔ قبر کی گہرائیوں میں بھی چلی جائے تو وہاں سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے۔ پاتال سے کھینچ کے لے آؤں گا میں اس کو ۔ تیری چھوری تو مری اور یاد رکھنا سالار شاہ کتے سے بھی بدتر موت دے گا اس کو
اسی اثناء میں اس کا فون بجنے لگا تھا۔
جی شاہ سائیں جی جی حکم سائیں

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *