Teri Deewangi by Huma Qureshi

Emotional Heart Touching  | Romantic Novel |  Short Complete Novel

کس نے ہاتھ اٹھایا ہے اس پر؟ اس کی بھاری آواز دیواروں سے ٹکرا کر گونجی۔
سب چپ۔ مگر ان کی خاموشی مجرم تھی۔ مہمل اس کے پیچھے سہم کر کھڑی ہوگئی۔ ارمغان کی آنکھوں سے شرر برس رہے تھے۔ وہ ایک ایک کو گھورتا گیا، جیسے ابھی چیر پھاڑ دے گا۔
میرے بھائی کی موت کا صدمہ کم تھا۔۔۔۔۔ جو تم لوگوں نے میرے نکاح کی امانت کو روند ڈالا؟میری اجازت کے بغیر ہاتھ کیسے لگایا تم نے؟ اس کی آواز بھاری آواز عجیب تاثر لی ہوئی تھی۔۔
مہمل کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے سوچا تھا شاید ارمغان اس کی ڈھال بنے گا۔ مگر اس کی آنکھوں میں ایسا طوفان تھا جو کسی کو بخشنے والا نہیں تھا۔
ہال کا فضا بوجھل ہوگیا۔ سب کو لگا کہ اب قیامت ٹوٹنے والی ہے۔۔۔۔۔۔ہال میں لمحوں کی خاموشی پھیل چکی تھی۔ سب نگاہیں ارمغان خانزادہ پر جمی تھیں۔ وہ مہمل کے کندھے کو تھامے کھڑا تھا، جیسے ابھی فیصلہ سنا دے گا۔ مہمل کے چہرے پر سوجن، ہونٹوں سے بہتا خون اور آنکھوں میں خوف کی نمی تھی۔ وہ اپنے شوہر کو سہارا سمجھ کر تھوڑا سا اس کے قریب ہوگئی، مگر اگلے ہی لمحے اس کی کڑک دار آواز گونجی۔۔
اسے میرے کمرے میں لے جاؤ۔۔۔۔۔
یہ الفاظ بجلی کی طرح سب پر گرے۔ حویلی کے مکین ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ کسی کے چہرے پر حیرت، کسی کے لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی۔ مگر کسی نے جرات نہ کی کہ کچھ بول سکے۔سب کو لگ رہا تھا کہ ارمغان کمرے میں لے جا کرا س لڑکی وک روند کر اپنے لاڈلے بھائی کی موت کا بدلہ لے گا۔۔
دو نوکرانیاں آگے بڑھیں اور سہارا دے کر مہمل کو کھڑا کیا۔ اس نے چونک کر ارمغان کی طرف دیکھا۔ ایک پل کے لیے اس کے دل میں امید جاگی کہ شاید وہ اب اسے ظلم سے بچا لے گا۔ مگر ارمغان کے چہرے پر غصے کی سخت لکیریں تھیں۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے، آنکھوں میں انتقام کی چنگاریاں۔
مہمل کو اس کے کمرے کی دہلیز تک پہنچا کر نوکرانیاں پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ اندر داخل ہوئی تو خوف سے اس کے قدم لرز رہے تھے۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا،۔ وہ سہمی ہوئی، آہستہ آہستہ پیچھے ہٹی اور دیوار سے ٹک کر بیٹھ گئی۔ اس کے کپڑے مٹی اور خون سے لت پت تھے، ہاتھ کانپ رہے تھے، آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔
ابھی وہ سکون کی ایک سانس بھی نہ لے پائی تھی کہ بھاری قدموں کی چاپ نے اس کے دل کو مزید دہلا دیا۔ دروازہ چرچراتا ہوا کھلا اور ارمغان خانزادہ اندر داخل ہوا۔ کمرے میں خاموشی اور خوف کی دبیز فضا پھیل گئی۔
مہمل نے دیوار سے ٹیک لگائی، خود کو مزید سمٹایا اور آنکھوں میں سوال لیے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ اب اسے بچا لے گا۔۔۔۔۔ مگر دماغ یہ بھی ڈر رہا تھا کہ شاید اصل طوفان ابی آنے والا ہے۔
ارمغان خانزادہ کی سرخ آنکھیں اس کے وجود پر جم گئیں۔ اس نے آہستہ سے دروازہ بند کیا۔ کمرے کا ماحول مزید بوجھل ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں مدھم چراغ کی لرزتی روشنی تھی۔ مہمل دیوار سے ٹکی سہمے وجود کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کے آنسو مسلسل گالوں پر بہہ رہے تھے۔ دل میں یہ سوال انگڑائی لے رہا تھا کہ شوہر جو ابھی ابھی بھائی کا جنازہ اٹھا کر آیا ہے، وہ اس پر کیا فیصلہ سنائے گا۔
ارمغان خانزادہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اس کے قریب آیا۔ وہ سمٹی، مگر اگلے ہی لمحے اس کی سخت انگلیاں اس کے جبڑے کو جکڑ چکی تھیں۔ گرفت اتنی سخت تھی کہ مہمل کے آنسو مزید شدت سے بہنے لگے۔ وہ سسکیوں کے درمیان بمشکل لب ہلا سکی۔
میں نے۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کیا۔۔۔۔۔!
ارمغان نے اپنا چہرہ جھکا کر اس کی لرزتی آنکھوں میں جھانکا۔ اس کی آواز بھاری اور زخمی تھی، لیکن اس میں نفرت کی شدت بھی چھپی تھی۔

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *