Scammer By Umme Hania

Genre:  |Scammers| |Crime| |Thriller| |Team Dynamics| |Con Artists| |Technology| |Deception| |Trust| |Betrayal| |Greed| |Morality| |Hacking| |Social Engineering|

اسکے فلیٹ میں جگہ جگہ کیمرے لگے تھے وہ یہاں بیٹھا بھی عائزل کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھ سکتا تھا مگر غصے کے شدید غلبے تلے وہ اسکی صورت بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔

لیکن آج معاملہ کچھ اور تھا۔۔۔ وہ خود پر اختیار کھوتا جا رہا تھا۔۔ بلآخر انا دل کی دیواروں سے سر پٹخ پٹخ کر فنا ہرو گئ اوردل فتحیاب ٹھہرا۔۔۔

اسنے موبائل کی فوٹیج کھولی۔۔۔

اصولاً تو وہ رات کے اس پہر سو ہی رہی ہوگئ۔۔۔

چلو وہ سوئی ہوئی کو دیکھ کر ایک دفعہ تسلی کر لے گا۔۔۔

اسنے سب سے پہلے کمرے کی فوٹیج کھولی۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔ بستر تو نفاست سے بچھا ہوا تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر یہ کہنا تو ناممکن تھا کے یہاں کوئی آرام کر رہا ہو اور آنکھ کھلنے پر واش روم یا کچن میں گیا ہو۔۔۔۔

کمرے کی فوٹیج میں واش روم کا دروازہ بھی کھلا تھا وہاں اندھیرا تھا مطلب کے وہ وہاں بھی نا تھی۔۔۔

دائم یکدم ہی سیدھا ہو بیٹھا۔۔۔ وہ کمرے میں نا تھی تو کہاں تھی۔۔۔

دل میں الگ الگ سے وسوسے جنم لینے لگے تھے۔۔۔

کہیں بھاگ تو نہیں گئ۔۔ اسکے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوا۔۔۔

نہیں۔۔ نہیں۔۔۔ یہ تو ممکن نہیں۔۔ وہ فلیٹ باہر سے لاک کر کے آیا تھا ۔۔۔ اور مین دروازے کے سوا وہاں سے نکلنے کا کوئی اور طریقہ نا تھا۔۔۔

پھر۔۔۔

اپنے اندر جنم لیتے ہر وسوسے کو جھٹکتے اسنے کچن کی فوٹیج کھولی۔۔۔

لیکن یہ کیا۔۔۔ کچن بھی نفاست سے سیٹ تھا۔۔۔ وہاں کسی زی روح کا نام و نشان تک نا تھا۔۔۔

وہیں اسی پوزیشن میں بیٹھے اسنے سٹڈی روم اور ٹیرس کی فوٹیج بھی دیکھ ڈالی۔۔۔ وہاں کوئی نا تھا۔۔۔

غصے سے دائم کے ماتھے کی رگیں تک ابھرنے لگی۔۔۔

اسنے غصے سے اٹھتے جوتا پہنیں۔۔ اب وہ صورتحال وہیں جا کر دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔

لیکن ایک بات طے تھی۔۔۔ ابکی بار وہ اس لڑکی کی کوئی غلطی معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔

******

اسنے غصے سے اٹھتے جوتا پہنا۔۔۔۔ اب وہ صورتحال وہیں جا کر دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔

لیکن ایک بات طے تھی۔۔۔ ابکی بار وہ اس لڑکی کی کوئی غلطی معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔۔۔

یکدم یاد آنے پر اسنے موبائل جیب میں ڈالتے ڈالتے پھر سے نکالا۔۔۔

لاوئنج اور انٹرس کی فوٹیج تو اسنے چیک کی ہی نہیں۔۔۔

اسنے وہیں کھڑے کھڑے انٹرس کی فوٹیج نکالی۔۔۔ دروازہ ہنوز لاک تھا۔۔۔ شش و پنج میں مبتلا اس نے لاوئنج کی فوٹیج نکالی اور اسے دیکھتے ہی وہ تھم گیا۔۔۔

جیسے ایک پل کو کوئی اسے اندر تک جھنجھوڑ گیا ہو۔۔۔

وہ گھبرا کر وہیں بیٹھ گیا۔۔۔

رات کے دوسرے پہر زیرو پاور کی مدہم لائٹ میں وہ دوپٹہ حجاب کی صورت لپیٹے جائے نماز پر بیٹھی ہاتھ اٹھائے اپنے رب کے حضور رو رہی تھی۔۔۔۔

نہیں بلکہ وہ رو نہیں رہی تھی۔۔۔ جس چیز نے دائم خان کو جھنجھوڑا تھا وہ اسکے دعا مانگنے کا طریقہ تھا۔۔۔ وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑا رہی تھی۔۔۔

یا یہ کہا جاتا کے بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔۔

دائم کے اندر توڑ پھوڑ سی ہونے لگی تھی۔۔۔ اسنے آج تک اس لڑکی کو اتنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں نا دیکھا تھا۔۔۔

اسنے وہیں بیٹھے بیٹھے ہیڈفون اٹھا کر کانوں کو لگایا۔۔۔

یوں وہ اسکی کلیئر آواز سن نہیں پا رہا تھا۔۔۔

یا اللہ وہ شخص ظالم ہے۔۔۔ بہت بہت ظالم۔۔۔۔ اللہ اسکے دل میں میرے لئے رحم ڈال دے۔۔۔۔ اسکی آواز ٹوٹ رہی تھی۔۔۔۔

وہ میری بے گناہی پر یقین لے آئے۔۔۔ اللہ میں بے گناہ ہوں۔۔۔ تو تو جانتا ہے نا۔۔۔ تو جانتا ہے نا اللہ۔۔۔ جیسے وہ اللہسے اپنی بے گناہی کی یقین دہانی چاہتی ہو۔

اللہ وہ شخص جسے تو نے میرا محافظ مقرر کیا ہے۔۔۔ وہ مجھے بدکردار بے حیا اور دھوکے باز کہتا ہے۔۔۔

اللہ تو جانتا ہے نا میں ایسی نہیں۔۔۔ میں اچھی لڑکی ہوں اللہ۔۔۔ اس شخص کو بھی اس بات کو یقین ڈلا دے۔۔۔ اسکا دل زخمی زخمی ہوا پڑا تھا جہاں سے درد کی بے شمار ٹھیسیں اٹھ رہی تھیں ۔۔۔

مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا میں کیا کروں اللہ۔۔۔ میں خود کو ایک بند اندھیری کوٹھری میں کھڑا پاتی ہوں جہاں میرے پاس میری واحد امید تو ہے۔۔۔ اور تو تو سب کر سکتا ہے نا اللہ ۔۔۔ تیرے لئے کیا مشکل

تو کوئی سبیل نکال دے۔۔۔ کوئی وسیلہ بنا دے میرے مالک۔۔۔ درد آنسووں کی صورت بے ساختہ بہہ رہا تھا

تو گواہ ہے کے نکاح سے پہلے میں اس شخص کو جانتی تک نا تھی۔۔۔ پھر اسکے پاس تمام ثبوت۔۔۔ وہ کہاں سے آئے۔۔۔

وہ تمام ثبوت مجھے جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔۔۔ حالانکہ وہ خود جھوٹے ہیں۔۔۔ میں نے کب بات کی کسی نا محرم سے۔۔۔

کیوں اس ظالم شخص کو مجھ پر یقین نہیں آجاتا اللہ۔۔۔ کیوں ہے وہ اتنا ظالم۔۔۔

اللہ میری پارسائی ثابت کردے۔۔۔ کردے نا اللہ۔۔۔

وہ ہچکیوں سے رو دی تھی۔۔۔ جیسے آج اپنے رب کو راضی کر کے ہی اٹھنے کا ارادہ ہو۔۔۔

اس ظالم شخص کو احساس دلا دے کے اسنے میرے ساتھ کتنا غلط کیا ہے۔۔۔ کتنا ظلم کیا ہے اسنے مجھ پر۔۔۔

اسکی آواز بلند ہونے لگی تھی۔۔۔

رسوائی کا وہ منظر یاد کرتی ہوں تو میرا دل بند ہونے لگتا ہے اللہ۔۔۔ پوری دنیا عائزل کو جھوٹا فریبی اور بد کردار سمجھ رہی ہے۔۔۔ پر کیا میں ایسی ہوں اللہ۔۔۔

وہ کہتا ہے کے میرے ایمان کی قیمت چار لاکھ ہے۔۔۔ اللہ وہ کیسے بار بار میرا دل توڑ سکتا ہے۔۔۔ وہ سسکی۔۔۔

بار بار کیسے وہ میرے دل پر اتنے کاری وار کر سکتا ہے۔۔

کیا اسے احساس نہیں ہوتا کے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔ یا اسے مجھے تکلیف دے کر خوشی ہوتی ہے۔۔

اللہ کیا میں اپنا ایمان بیچ سکتی ہوں۔۔۔ میں ایسا کر سکتی ہوں اللہ۔۔۔

اللہ میرے دل کو سکون عطا کر۔۔۔ میرا دل پھٹ جائے گا۔۔۔ اللہ۔۔۔ اللہ اپنی ذات کے بارے میں اتنے غلط الفاظ سنے ہیں نا میں نے کے اب تو یقین ہونے لگا ہے ۔۔۔ کہ۔۔۔ کہ میں ہوں ہی ایسی۔۔۔ بری لڑکی۔۔۔ وہ شدت گریہ سے سرخ چہرا ہاتھوں میں چھپاتی بلکی۔۔۔۔

جبکہ دوسری جانب شاید آج انکشاف کا دن تھا۔۔۔

دائم کے ہاتھ میں تھاما موبائل بھی ہاتھوں کی لغزش کے باعث کپکپا اٹھا تھا۔۔۔۔

اسکی ذات جھٹکوں کی زد پر تھی۔۔۔

وہ اس واقعہ کو پری پلین نہیں کہہ سکتا تھا۔۔۔

وہ لڑکی رات کے اس پہر اپنے رب کے حضور اداکاری نہیں کر سکتی تھی۔۔۔

ناجانے کس قوت نے آج اسے اسکی فوٹیج دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔

اسکا بلکنا سسکنا گڑگڑانا۔۔۔ کچھ بھی جھوٹا نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔

وہ رات کے دوسرے پہر اپنے رب کے حضور اسی کی شکایتیں لگا رہی تھی۔۔۔ اسے ظالم کہہ رہی تھی۔۔۔

دائم کے دماغ میں جھکڑ سے چلنے لگے۔۔۔

موبائل اسکے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔۔۔

اسنے چکراتا سر ہاتھوں مین تھام لیا۔۔۔۔

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *