- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Deedar E Mehram By Umm E Omama Season 04
Haveli based | Village based | Force marriage | Cousin marriage| Doctor based | Innocent heroin | Romantic Novel
آج محرم کا دیدار اسے پہلی مرتبہ بہکا رہا تھا آج پہلی مرتبہ قدم اسکی جانب بڑھانے کو دل کررہا تھا آج پہلی مرتبہ درمیان میں کہیں جنت نہیں آرہی تھی
بس اس وقت کچھ محسوس ہورہا تھا
تو حلال رشتے کا حق
کچھ نظر آرہا تھا تو سامنے بیڈ پر لیٹی وہ لڑکی جو اسکی اپنی تھی جو اسکی محرم تھی جس پر زاویان خانزادہ کو پورا حق حاصل تھا
مظبوط قدم اٹھاتے ہوئے وہ اسکے قریب گیا اور اسکے برابر بچی ہوئی جگہ پر بیٹھ گیا
دھیمی روشنی میں اسکے پھولے پھولے گال روئی جیسے محسوس ہونے لگے
اسنے آج شادی میں کون سے رنگ کی لپسٹک لگائی تھی یہ بات اسے یاد نہیں آ سکی بس کچھ نظر آیا تو اسکے لب جن کا رنگ دھیمی روشنی میں بھورا محسوس ہورہا تھا
اسے دیکھتے ہوئے آج زاویان خانزادہ کو اپنا آپ تھکا ہوا محسوس ہورہا تھا
اسے اپنے گلے میں کانٹے اگتے محسوس ہورہے تھے
آنکھیں موند کر اسنے خود کو ان بہکتے جذبوں سے دور کرنا چاہا لیکن آج تو جیسے یہ چیز بھی اس پر اثر نہیں کررہی تھی
بےاختیار اسکے دونوں اطراف میں ہاتھ رکھ کر زاویان نے اپنا چہرہ اسکے قریب کیا اور اسکے چہرے پر جھکتا اسکے لبوں کو اپنی قید میں لے گیا
جب چند لمحوں بعد اپنی رکتی سانسوں کے باعث عین الحق نے نیند سے بھری آنکھیں کھولیں اور اسے خود پر جھکے دیکھ کر وہ سکتے کی کیفیت میں آگئی
زاویان کے کیے گئے اس عمل کے باعث وہ کوئی حرکت نہ کر سکی
اسے اپنے ہاتھ پاؤں جیسے بےجان ہوتے محسوس ہورہے تھے
اپنا ہاتھ بڑھا کر اسنے زاویان کے مظبوط سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کرنا چاہا جو عین الحق کی اس حرکت کے باعث اس سے چند انچ کا فاصلہ بنا بھی گیا
خاموش کمرے میں چند لمحوں تک دو نفوس کی پھولی سانسوں کی آواز گونجتی رہی
“یہ ک–کیا ہے”
“شاید تمہیں میری نزدیکی اچھی نہ لگے پر مجھے معاف کر دینا عین الحق کیونکہ آج میں خود کو روک نہیں سکتا”
اسکی بھری بھری گداز کلائیاں اپنی گرفت میں لیے زاویان ایک بار پھر اسکے چہرے پر جھکا اور اب کی بار عین الحق نے کسی طرح کی مزاحمت نہ کی
کیونکہ بھلے سے وہ خود کو کتنا لاپرواہ ظاہر کرتی
اسے اپنے شوہر کی ضرورت تھی
اسکے ساتھ کی ضرورت تھی
اسے اچھا لگتا تھا وہ پل جب زاویان اسکی فکر میں کچھ کہتا تھا
اسے اچھا لگتا تھا وہ لمحہ جو زاویان کے ساتھ رہ کر اتفاق سے کبھی رومانی بن جاتا تھا
پھر اب کیونکر وہ اپنے شوہر کو اپنے محرم کو خود سے دور کرتی
بےتحاشہ شرم و حیا اسکے وجود پر بکھرتی جارہی تھی لیکن اس سب کے باوجود بھی اسنے آج زاویان کو خود سے دور کرنے کی غلطی نہیں کی تھی
اسنے کہا تھا اگر زاویان اسکی طرف ایک قدم بڑھائے گا تو پھر دو قدم وہ خود اسکی جانب بڑھائے گی
آج وہ اسکی جانب متوجہ ہوکر اسے پیار دے رہا تھا اس رشتے کو سمجھ رہا تھا تو پھر وہ لڑکی کیوں اسے خود سے دور کرتی
زاویان کی نزدیکی پر وہ خوش تھی،وہ خوش تھی کے اسکا شوہر اسے اپنا رہا تھا
