Teri Yaad Shakh-e-Gulab By Kanwal Akram

After Marriage | Rude Hero | Innocent Heroin | Romantic Novel 

وہ اپنی بیوی اور ہونے والی اولاد کو سب کے سامنے ٹھکرا کر آج سالوں بعد لوٹا تھا اس بات سے انجان کے وہ اسکا اپنا بچا ہے ایک غلط فہمی کی بینا پر وہ اسے سب کے سامنے ذلیل کر کے گیا تھا آج جب وہ اس سچ سے آگاہ ہوچکا ہے وہ اپنی بیوی سے معافی مانگنے واپس لوٹا ہے۔۔۔۔

“دور رہو مُجھ سے۔ دوبارہ ہاتھ لگانے کی کوشش مت کرنا۔” وہ پھنکارتے لہجے میں بولی۔
“کیوں ہاتھ نا لگاؤں؟ شوہر ہوں تُمہارا۔ حق ہے مُجھے۔” وہ اُس کے قریب ہوتے اُسے دونوں کندھوں سے تھامتا قریب کر گیا کہ وہ اُس کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر کے مچل گئی۔
“کوئی حق نہیں ہے تُمہیں۔ بہت جلد تُم سے خُلع لے لوں گی میں۔ پِھر تُم میرے شوہر نہیں رہو گے۔” تلخی سے کہہ کر وہ اُس سے اپنے کندھے چُھڑانے لگی مگر مقابل کی گرفت مضبوط تھی۔
“شوہر تو میں ہی رہوں گا تُمہارا۔ دیکھتا ہوں کیسے مُجھ سے الگ ہوتی ہو۔ اِسے چھوڑو۔ یہ بتاؤ مُجھے یہاں بُلا کر مُجھ سے دور کیوں ہو رہی ہو؟” بُرہان نے دوٹوک کہہ کر نرمی سے پوچھا۔ آنکھیں محبّت سے اُسے تک رہیں تھیں۔
“میں نے تُمہیں نہیں اپنے بیٹے ہان کو بُلایا تھا۔ اور یہ اپنے غلیظ ہاتھ ہٹاو مُجھ پر سے۔” وہ اُس کے منہ کو نوچنے کی کوشش کرتی بولی تو وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔
“یہ جنگلی بِلّی کب سے بن گئی ہو؟ اور ہان تو میرا نِک نیم ہے نا؟ تُم مُجھے ہان کہتی تھی۔۔” بُرہان نے اُس کے کندھے چھوڑ کر اُس کے ہاتھ قابو میں کیے۔ اُس کی تلخ باتوں کو سِرے سے نظر انداز کیا تھا۔
“چچ چھوڑو مُجھے۔ آگ لگاتا ہے تُمہارا لمس مُجھے۔ اِتنی اذیّت ہوتی ہے کہ دِل کرتا خود کو آگ لگا لوں تا کہ تُمہارا لمس میرے وجود سے مِٹ جائے۔ خود سے گِھن آتی ہے مُجھے۔” وہ چیخ کر نفرت سے پُر لہجے میں بولی۔
“اِتنی نفرت مت کرو کہ میں مر جاؤں چشمان! اِتنی نفرت مت کرو کہ یہ وجود اپنا نِشان کھو دے۔ ایک بار معاف کر دو پلیز ایک بار۔” بُرہان نے اُس کے ہاتھ چھوڑتے اُس کے سامنے جُھک کر بیٹھتے ہاتھ جوڑے۔
“کل کے مرتے آج مر جاو بُرہان احمد! مُجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تُم سے تُمہارے وجود سے نفرت ہے مُجھے۔” چشمان نے نفرت سے منہ پھیرا۔
“پِھر شاہان سے اِتنی محبّت کیوں ہے تُمہیں؟ وہ بھی تو میرا خون ہے اُس کا باپ ہوں میں۔” بُرہان نے آنسو پونچھتے پوچھا۔
“میرے بیٹے کا نام بھی مت لو وہ تُمہاری طرح گھٹیا نہیں ہے۔ معصوم ہے وہ۔ صِرف میرا بیٹا ہے وہ۔ میرے وجود کا حِصّہ ہے جِسے میں نے تنہا پالا ہے۔” چشمان نے اُسے سرد لہجے میں ٹوکا۔
“آخری دفعہ معاف کر دو پلیز! ایک دفعہ صِرف ایک موقع دے دو۔” بُرہان نے کھڑے ہوتے اُس سے اِلتجا کی۔
“ایک شرط پر۔” چشمان نے کُچھ سوچ کر کہا۔
“کیا؟” وہ جلدی سے گویا ہوا۔
“تُم مُجھے اپنے نام سے آزاد کر دو میں تُمہیں معاف کر دوں گی۔”
چشمان کی بات سُن کر اُس کی ذات زلزلوں کی زد میں آئی تھی۔
“ساری زندگی معاف مت کرنا مگر خُود سے الگ تُمہیں کبھی نہیں کروں گا۔” دوٹوک انداز میں کہہ کر وہ آگے ہوتا اُس کے ساکت وجود کو گھیرے میں لیتا اُس کی پیشانی پر محبّت بھرا لمس چھوڑتا وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ جانےِ کیوں اُس کے حِصار میں وہ پِگھل سی جاتی تھی۔ اپنے دِل پہ بِٹھائے کڑے پہروں کو وہ ایک بار پِھر سے مضبوط کرتی وہ بوجھل قدموں سے نیچے کی جانِب بڑھی۔

Download Link

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *