Novel: Enteqam-e Shabha
Writer: Zeenia Shirjeel
Genre: Forced Marriage Based | Second Marriage Based | Long Novel| Family Drama | Multi Couples | Happy ending Based
Click here to Download Novel
Enteqam e Shabha
“دیکھو آزھاد ہم آرام سے کسی اور دن بیٹھ کر تفصیل سے بات کرلے گے،، اس وقت آپی کے آنے کا ٹائم ہے پلیز تم ابھی چلے جاؤ یہاں سے”
وہ پہلے بھی حنین کے بولنے پر اس کے فلیٹ سے چلا گیا تھا حنین کو لگا وہ اب بھی اس کی بات سمجھ جائے گا مگر آج حنین کو اس کے تیور دیکھ کر ذرا سا خوف آرہا تھا، کچھ اسکے انداز میں بدلاؤ تھا جو حنین کو الجھا رہا تھا۔۔۔ آزھاد نے اس کی بات سنتے ہوئے فرج سے پانی کی بوتل نکالی، بوتل سے منہ لگا کر پانی پینے لگا
“آرام سے بیٹھ کر بات کرنے کا ٹائم اب گزر گیا ہے۔۔۔ اب آرام سے بات کرنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں اور بے فکر رہو تمہاری آپی آج کافی لیٹ آئے گی، وہ بچہ ایبورٹ کروا رہی ہے اس وقت”
آزھاد بہت نارمل سے انداز میں حنین کو بتا کر مزید بوتل سے پانی پینے لگا یہی تو اسکے اپر کلاس طبقے کی خصوصیت تھی، گناہ کر کے فوراً ہی ثبوت کو مٹا دینا آزھاد کو پورا یقین تھا اس کا باپ بھی نوین کو لے کر یہی کام کروانے گیا ہوگا
“کیا بکواس کر رہے ہو تم میری آپی کے بارے میں،، اتنی گھٹیا بات بولتے ہوئے تمہیں شرم آنی چاہیے۔۔۔ نکل جاو فوراً یہاں سے ورنہ میں آپی کو بتا دوں گی کہ تم ہمارے فلیٹ تک پہنچ گئے ہو”
حنین کو آزھاد کی بات سن کر شدید غصہ آیا جبھی وہ چیختی ہوئی بولی جس پر آزھاد ہنسا
“تمہاری بہن ایک گری ہوئی لڑکی ہے اور گری ہوئی لڑکی کے بارے میں گھٹیا بات کرتے شرم کیسی،، تم مجھے اپنی بہن سے ڈرا رہی ہو میں تو چاہتا ہوں آج جو جو میں تمہارے ساتھ کرو وہ سب تم اپنی آپی کو ضرور بتاؤں”
آزھاد نے بولتے ہوئے پانی کی بھری بوتل حنین کے سر پر انڈیل لی
“یہ کیا بیہودگی ہے”
اچانک آزھاد کی حرکت پر وہ تلملا اٹھی اور آزھاد کا ہاتھ پکڑنے لگی
“اسے بےہودگی نہیں کہتے ہنی ڈیئر اصل بےہودگی تو میں تمہارے ساتھ اب کروں گا”
آزھاد اپنے ایک ہاتھ حنین کے دونوں ہاتھوں قابو کرتا ہوا دوسرے ہاتھ موجود پانی کی بوتل سے اب حنین کے شولڈرز اور گلے میں پانی ڈالتا ہوا اس کے کپڑے بھگونے لگا۔۔۔ پانی کی خالی بوتل پھینک کر اس نے حنین کو بھی دھکا دیا حنین فرش پر جا گری
“آج تمہاری بہن کو تمہاری حالت دیکھ کے معلوم ہوگا کہ مینٹلی ٹارچر کیسے کیا جاتا ہے”
آزھاد ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا اپنی آستین فولڈ کرکے حنین کی طرف قدم بڑھانے لگا
“آزھاد”
حنین نے ڈر کر اس کا نام پکارا تھا اور اٹھ کر اپنے بیڈ روم کی طرف بھاگی اس سے پہلے وہ بیڈروم کا دروازہ بند کرتی آزھاد نے زور سے دروازہ پر اپنا ہاتھ مارا دروازہ زور سے کھلنے پر وہ نیچے جا گری
“نہیں نہیں آزھاد پلیز نہیں”
آزھاد حنین کے قریب آ کر اسے اٹھانے لگاتا تب وہ روتی ہوئی چیخی
وہ اسے اپنے حصار میں لیے حنین پر جُھکا حنین نے زور زور سے اس کے سینے پر اپنے ہاتھ مارنا شروع کر دیے۔۔۔
آزھاد اس کے بالوں سے اسکارف کھینچ کر اس کے دونوں ہاتھ کمر تک لے جاکر باندھنے لگا
“میرا گناہ کیا ہے آزھاد، مجھے میرا جرم بتاؤ”
حنین روتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی تب آذھاد نے اسے کندوں سے پکڑا
“یہ تو کہاوت سنی ہوگی نہ تم نے کہ آٹے کے ساتھ گُھن بھی پستا ہے آج تم اپنی بہن کا کیا بھگتان بھروں گی”
آزھاد حنین کو دیکھتا ہوا پتھریلے لہجے میں بولا
حنین کے کندھوں سے اپنے ہاتھ ہٹا کر اپنا بازو اس کی کمر کے گرد باندھ کر دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ دبوچا
“معلوم ہے تمہیں وہ اپنی اداؤں اور جلووں سے کس کا دل بہلاتی ہے، کس کے بستر کی زینت بنی ہوئی ہے پچھلے ایک سال سے۔۔۔ معلوم ہے تمہیں کس کے ساتھ تمہاری بہن نے ناجائز تعلقات استوار کیے ہیں۔۔ میرے باپ کے ساتھ”
آزھاد نے آخری جملہ دانت پیس کر کہا اور حنین کو بیڈ پر دھکا دیا
اب وہ اپنی ٹائی اتار کر بیڈ کے پاس حنین کے قریب آنے لگا حنین نے روتے ہوئے پیچھے سرکنا شروع کیا تو آزھاد نے اس کے دونوں پاؤں پکڑ کر اپنی ٹائی اس کے گرد باندھنا شروع کردی
“میری بہن اور اپنے فادر کے جرم کی سزا تم مجھے کیوں دے رہے ہو آزھاد۔۔۔ میرا کیا قصور ہے مجھ پر ترس کھاؤ پلیز”
حنین اب بےبسی سے روتی ہوئی چیخ کر آزھاد سے بولی
“تمہاری بہن کو دو دن پہلے آگاہ کیا تھا میں نے اگر اس نے اپنے قدم نہیں روکے تو میں اس کی بہن کو ہرگز چھوڑنے والا۔۔ مگر کل وہ آفس آکر الٹا مجھے چیلنج کر گئی کہ میرے سر پر ناچے گی یا تو تمہاری بہن تم سے محبت نہیں کرتی یا پھر اس نے میری باتوں کو سیریس نہیں لیا۔۔۔ آج وہ میرے ڈیڈ کے ساتھ گئی ہے اپنا گناہ اور ناجائز ثبوت مٹانے۔۔۔۔ اپنے باپ کو تو میں اچھی طرح بتاؤں گا ہی مگر اس سے پہلے میں تمہاری بہن کو ایسا سبق دینا چاہتا ہوں جسے وہ ساری زندگی یاد رکھے”
حنین کے پاؤں سائیڈ پر کرتا ہوا وہ اس کی گردن پر جھکا اس سے پہلے آزھاد کے ہونٹ حنین کی گردن کو چھوتے
“اس سے بہتر ہے میرا گلا دبا دو آزھاد، مجھے مار کر بھی تمہارا انتقام پورا ہو جائے گا۔۔۔ پلیز مجھے مار دو مگر یوں پامال مت کرو”
حنین کی آواز، آزھاد کے کانوں میں گونجی تو آزھاد سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگا حنین کی آنکھیں
رو رو کر سرخ ہو چکی تھی وہ اس وقت مکمل طور پر آزھاد کی حصار میں سسک رہی تھی۔۔ دو بہنیں اور ان دونوں کی مختلف سوچ آزھاد نے دل میں سوچا،، اس نے اپنا ہاتھ حنین کے کندھے سے ہٹا کر حنین کی آنکھوں کو چھونا چاہا تو حنین نے اپنے چہرے کا رخ دوسری سمت کر لیا
آزھاد اٹھ کر بیٹھا اور بیڈ سے نیچے پاؤں لٹکا کر بیٹھ گیا اب اس کی پشت حنین کی طرف تھی اپنی پاکٹ سے سگریٹ لائٹر نکال کر وہ سگریٹ پینے لگا حنین ابھی بھی بیڈ پر لیٹی ہوئی اسی کو خوف سے دیکھ رہی تھی
وہ اپنی سسکیاں منہ میں ہی دبائی ہوئی اپنے ہاتھوں پر زور دے رہی تھی کہ کسی طرح اس سے کُھل جائے مگر آزھاد نے اس کے ہاتھ بہت کس کر باندھنے تھے وہ صرف انہی کھولنے کی کوشش کرسکتی تھی سگریٹ پینے کے بعد آزھاد نے گردن موڑ کر حنین کو دیکھا
حنین کو ایک بار پھر اس سے خوف آنے لگا اسے لگا اب وہ اس کا گلا دبا دے گا اپنا انتقام پورا کرنے کے لئے۔۔۔ کیپری سے چھلکتی ہوئی سفید پنڈلیوں پر آزھاد کی نظر پڑی اس نے حنین کے پاؤں کو چھونے کی کوشش کی حنین نے جلدی سے اپنے پاؤں سمیٹے ایک دفعہ دوبارہ اسے رونا آنے لگا تب آزھاد نے اس کے پیروں کو سیدھا کر کے پاؤں پر بندھی ٹائی کھولنے لگا
“ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہارا گلا تو میں ہرگز نہیں دبانے والا نہ ہی تمہارے ساتھ وہ کرنے والا ہوں جس کا غصے میں سوچا تھا۔۔۔ بدتمیز اور بیہودہ تو میں بہت ہوں مگر اس لیول تک کا نہیں بن سکتا جتنا تم نے سوچ لیا ہے”
آزھاد حنین کے پاؤں کھولتا ہوا سنجیدگی سے بولا
“تمہیں اپنی بہن کو سمجھانا ہوگا ہنی، وہ میری ماں کا گھر برباد کر رہی ہے میں اپنی مما کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا جیسے اس وقت تمہاری آنکھوں میں مجھے آنسو برداشت نہیں ہوئے”
اب وہ حنین کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کو بٹھاتا ہوا اس کے ہاتھ کھولنے لگا
“بہت غصہ ہے مجھے نوین پر، اتنا کہ میں اس کو تکلیف دینا چاہتا ہو تاکہ وہ تڑپے۔۔۔ مگر میں اسے تڑپانے کے لئے شاید میں تمہیں ازیت نہیں دے سکو کیونکہ میں۔۔۔۔”
آزھاد اب اسکارف سے حنین کے بالوں کو دوبارہ قید کرتا ہوا اپنی بات ادھوری چھوڑ کر حنین کا چہرہ دیکھنے لگا اور حنین اس کی بات کا انتظار کرنے لگی
“کیونکہ تم”
آزھاد بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے نکلنے لگا تب حنین الجھ کر ایک دم بولی آزھاد نے اسے مڑ کر دیکھا
“کیونکہ میں تمہاری بہن جتنا گھٹیا نہیں ہوں”
آزھاد اس کو بولتا ہوا وہاں سے چلا گیا