Novel: Eshq e Penhan
Writer: Zeenia Sherjeel
Genre: Second Marriage Based | Murder Mystery | Forced Marriage Based | Class Difference| Family Drama | Bold Romance | Brothers Bonding | Multi Couples | Happy ending Based
Click here to Download Novel
Eshq e Penhan by Zenia Sherjeel
رات کا دوسرا پہر دم توڑنے کو تھا موسم سرما کا آغاز ہوچکا تھا جس کے سبب فضا میں خنکی پھیلی ہوئی تھی یہاں کے رہائش پذیر نہ جانے کب سے اپنے اپنے گھروں پر بستروں میں دبکے سو رہے تھے صرف وہ چار نفوس تھے جن کی آنکھوں سے نیند کوسو دور جاچکی تھی اور چہرے پر خوف کے ساتھ ہیبت بھی طاری تھی ماہی اُس بےجان وجود کو اُس کے ہاتھوں سے پکڑ کر پوری قوت سے کھینچتی ہوئی گاڑی تک لےکر آئی جس سے چکنے فرش پر خون کی لکیر سی بنتی چلی گئی
تیرہ سالہ لڑکا اُس خون کی لکیر کو ایک بڑے سے کپڑے سے صاف کرتا ہوا تھوڑی دیر پہلے پیش آئے اُس بھیانک واقعے کے سارے ثبوت مٹا رہا تھا وہ الگ بات تھی اُس لڑکے کے چہرے پر نہ صرف ہیبت طاری تھی بلکہ خون صاف کرتے وقت اُس کے اپنے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے جبکہ دوسرا لڑکا ایک چھوٹی بچی کے ساتھ گھر کے دروازے سے باہر نکل کر خاموش کھڑا ماہی اور اُس لڑکے کی کاروائی آرام سے دیکھ رہا تھا اُس کے ساتھ موجود بچی اپنے ہاتھ میں ٹیڈی بیئر پکڑے خوف کے باعث ہلکے ہلکے سسک رہی تھی جیسے تھوڑی دیر پہلے ہوئے حادثے سے وہ بری طرح سہمی ہوئی ہو
“کیا تم اِس کو اٹھانے میں میری ہیلپ کرو گے”
ماہی کی آواز پر وہ اقرار میں سر ہلاتا ہوا خون سے لت پت کپڑا ایک سائیڈ پر رکھ کر اُس کے پاس چلا آیا کیونکہ ماہی اُس بےجان وجود کو اکیلے گاڑی کے اندر نہیں ڈال سکتی تھی اپنے کمرے سے اِس بےجان وجود کو کار پورچ تک لانے میں ہی اُس کے پسینے چھوٹ چکے تھے اور وہ بری طرح ہانپنے لگی تھی تیرہ سالہ لڑکا اُس لاش کو قریب سے دیکھ کر دوبارہ سے خوف میں مبتلا ہوا
“ماہی۔۔۔ اس کی آنکھیں۔۔۔ اس کی آنکھیں ابھی بھی مجھے دیکھ سکتی ہیں”
وہ کانپتی ہوئی آواز میں خوفزدہ سا ماہی کو دیکھ کر بولا کیونکہ مرنے کے باوجود اُس کی آنکھوں کی دونوں پُتلیاں پوری کُھلی ہوئی تھی جیسے مرنے سے پہلے ہی اُس نے اپنے موت کی تکلیف کو بڑی اذیت سے برداشت کیا ہو
“اُس کے چہرے کی طرف مت دیکھو وہ اب زندہ نہیں ہے”
ماہی تیرہ سالہ لڑکے کے چہرے پر خوف طاری دیکھ کر اسے تسلی دینے والے انداز میں بولی جس کے بعد اُن دونوں نے مل کر اُس ساکن وجود کو ایک دوسرے کی مدد سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈال دیا جس کے بعد وہ دوسرا لڑکا گاڑی تک آیا اور ہاتھ میں موجود بڑی سی چادر سے اُس بےجان وجود کو ڈھانکنے لگا
“ہہہم یہ تم نے اچھا کیا یہ بھی ضروری تھا”
ماہی نے اپنی جیکٹ کی زپ بند کرتے ہوئے جیسے اُس دوسرے لڑکے کے کام کو ایپریشیٹ کیا تھا تب اُس کی نظر چھوٹی بچی پر پڑی جو روتی ہوئی اپنے ننھے سے ہاتھوں میں پکڑے ٹیڈی بیئر کے ساتھ اُن تینوں کی جانب چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی آرہی تھی ماہی نے آگے بڑھ کر اُس بچی کو اپنی گود میں اٹھالیا اور اسے پیار کرنے لگی تاکہ اُس ننھی سی بچی کے اندر موجود ڈر ختم ہو جو کچھ آج اُس کی انکھوں نے دیکھا تھا یقیناً اِس عمر میں اُس کو نہیں دیکھنا چاہیے تھا
“روتے نہیں ہیں نہ ہی ایسے ڈرتے ہیں۔۔۔ آئی نو یو آر بریو گرل”
ماہی کی بات پر وہ سسکتی ہوئی ماہی کو دیکھ کر بولی
“تم لوگوں نے اُس کو کیوں مار دیا وہ تو ہمارا۔۔۔ بچی کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ماہی اپنی انگلی اُس بچی کے ہونٹوں پر رکھ چکی تھی
“شش۔۔۔ اور اُس کو چپ کرواتی ہوئی بولی
“ہم نے کسی کو نہیں مارا رائٹ آج رات جو بھی ہوا ہم اُس کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے اور نہ ہی ہم خود اِس کے بارے میں ڈسکس کریں گے یہ ہم چاروں کا سیکرٹ ہے اور صرف ہمارے درمیان رہے گا” ماہی اس معصوم بچی کو سمجھاتی ہوئی اُس گاڑی کے پاس لے آئی اور اُسے تیرہ سالہ لڑکے کی گود میں تھمادیا
“ہمہیں اِس ڈیڈ باڈی کو یہاں سے دور لے جانا ہوگا ورنہ آگے جاکر ہمارے لیے مسئلہ بن سکتا ہے”
ماہی اپنی گھبراہٹ چھپاتی ہوئی خود کو نارمل رکھ کر اُن دونوں لڑکوں سے کہنے لگی
“ہم اِس کو کہاں لےکر جائیں گے وہ بھی اتنی رات کو”
تیرہ سالہ لڑکے کے برابر میں کھڑا دوسرا لڑکا گاڑی میں موجود ڈیڈ باڈی کو دیکھ کر گھبراتا ہوا ماہی سے پوچھنے لگا کیوکہ فلموں میں دیکھے جانے والے ایسے سینز مزا دیتے تھے مگر حقیقی زندگی میں یہ سب بہت پریشان کن تھا
“یہ تو ابھی مجھے خود بھی سمجھ نہیں آرہا مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا تم دونوں گاڑی میں بیٹھو”
ماہی پریشان ہوتی خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی تھی جبکہ وہ دونوں لڑکے بچی سمیت ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئے اور ماہی نے گاڑی اسٹارٹ کردی
***
دونوں اطراف جنگل کے بیچوں بیچ گھری کچی پکی سڑک پر وہ ڈرائیونگ کرتی جارہی تھی تب سامنے سے پولیس وین کو دیکھ کر آفیسر کے اشارے پر اُسے اپنی گاڑی روکنا پڑی
“ریلکس، تم تینوں کچھ نہیں بولو گے بالکل خاموش رہنا”
ماہی گاڑی کی ہیڈ لائیٹس بند کرتی اُن تینوں سے بولی اور گاڑی کا شیشہ نیچے کرنے لگی
“اتنی رات کو اس طرح اِن بچوں کے ساتھ اکیلے سفر کرنے کی وجہ جان سکتا ہوں آپ سے محترمہ”
آفیسر گاڑی میں جھانکتا ہوا بچوں سمیت پچھلی نشت پر سوئے ہوئے وجود پر نظر ڈال کر ماہی سے پوچھنے لگا
“میرے ہسبینڈ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ان کو ہاسپٹل لےکر جارہی ہوں ذرا جلدی میں ہوں”
ماہی پُراعتماد لہجے میں آفیسر کو دیکھ کر بولی تو آفیسر اس کے ہسبینڈ والی بات پر چونکا
“اب یہ مت بولیے گا میڈم کہ یہ تینوں بچے آپ ہی کے ہیں”
آفیسر اُس کی عمر دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولا جس پر ماہی نے مسکرا کر اپنے دونوں شانے اچکائے
“یقیناً ایسا ہی ہے میرے پیرنٹس نے میری شادی کافی چھوٹی عمر میں کردی تھی لیکن مکمل تفصیل بتانے کا میرے پاس وقت نہیں ہے ورنہ میں آپ کو پوری اسٹوری ضرور سناتی اگر آپ کی انویسٹیگیشن مکمل ہوگئی ہو تو کیا میں جاسکتی ہوں”
ماہی دوبارہ اس آفیسر کو دیکھتی ہوئی بولی
“جی بالکل آپ جاسکتی ہیں ذرا دھیان سے جائیے گا”
آفیسر کی بات سن کر ماہی نے اُس کو شکریہ کہتے ہوئے گاڑی کا شیشہ اوپر کیا اور رکا ہوا سانس بحال کرتی وہ گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کرچکی تھی