Azmil E Junoon By Aliza Ayat Romantic Novel

Novel Based; Possessive Hero, Most Romantic Novel, Gangster Based, Innocent Heroine, After marriage Love story, Hero police officer, Dimple Girl, second marriage, Rude hero based novel, cousin based, Funny novel

 

Click here to Download Novel

Azmil E Junoon By Aliza Ayat

 

عما یہ ایک بے حد شرارتی اور ہنسنے کھیلنے والی لڑکی تھی خوبصورت اور معصوم وہ اتنی تھی کہ اس کی خوبصورتی کو اگر کوئی نظر اٹھا کر دیکھتا تو اپنی نظر پلٹنا بھول جاتا
وہ بہت خوبصورت تھی خدا نے اسے قدرتی حسن سے نوازا تھا مگر اس نے کبھی بھی خود پر غرور نہیں کیا تھا نہ ہی کبھی اس نے خود کے حسن پر غور کیا تھا
اسے اپنی زندگی شرارتوں سے بھری ہوئی پسند تھی
عمایہ تیز تیز قدم لیتی اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور
دھڑم سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی اپنے گلے میں
موجود دوپٹہ بے رحمی سے اتار کر بیڈ پر پھینکا اور لمبے
لمبے سانس لیتی صوفے پر بیٹھ گئی اس نے اپنی دونوں
مٹھیاں سختی سے مینچی ہوئی تھی وہ خود پر پورا قابو
پانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام
ہو رہی تھی
انہوں نے مجھے نظر انداز کیا مجھے بھول گئے ہیں اس لیے
بغیر بتائے چلے گئے یہ بولتے ہوۓ عمایہ کا ضبط ٹوٹا تھا
آنکھوں کے پرنے میں قید آنسوؤں نے پردوں کو ہٹاتے باہر
کے جانب کا رخ کیا تھا اس کے دونوں آنکھوں سے آنسو
ٹوٹ کر اس کے رخسار پر بہے تھے
عزمی کیا ہوا ہے تم رو کیوں رہی ہو تم ٹھیک ہو نا….؟؟
ایشال جب کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے سامنے صوفے
پر بیٹھی عمایہ کو دیکھا اور تڑپ کر اس کی جانب بڑھی
انہوں نے مجھے بتانا بھی مناسب نہیں سمجھا میں نے
کوئی گناہ تو نہیں کر دیا تھا صرف رخصتی کے لیے تھوڑا
وقت مانگا تھا اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ مجھے نظر
انداز کریں گے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیں گے عمایہ
ہچکیاں لیتے ہوئے بولی کچھ ہی دیر میں اس کی ہچکیاں
بندھ چکی تھیں اور وہ ہچکیاں لے لے کر کسی بچے کی
طرح رو رہی تھی
عزمی میری جان ایسا کچھ بھی نہیں ہے وہ تمہیں اپنی
زندگی سے کیسے نکال سکتے ہیں وہ تم سے بہت محبت
کرتے ہیں تم رونا بند کرو۔۔۔۔
ایشال اسے اس حالت میں دیکھ کر بے حد پریشان ہو
چکی تھی وہ اس کے گھٹنوں کے قریب بیٹھتی اس کے
دونوں ہاتھ تھامتے ہوئے بولی جب کہ جب کہ عمایہ کے
رونے میں مزید روانگی آ چکی تھی
نہیں کرتے وہ محبت جھوٹ بولتے ہیں وہ اگر محبت کرتے
ہوتے تو یوں چھوڑ کر جاتے مجھے بتایا تک نہیں میری
کال تک نہیں اٹھاتے اپنا نمبر بند کر دیا ہے میں اتنی غیر
ضروری ہو گئی ہوں ان کے لیے۔۔۔۔
عمایہ ابھی بھی اسی طرح رو رہی تھی جیسے کوئی
چھوٹا سا بچہ کسی کی شکایت کرتا ہے
ارے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ضرور انہیں کوئی ضروری
کام آگیا ہوگا تم چپ تو کرو میری جان۔۔۔۔۔ ایشال نے
صوفے پر اس کے برابر بیٹھتے ہوئے اسے اپنے گلے سے لگایا
جب کہ عمایہ بھی بھی چپ نہیں ہوئی تھی آخر اس کا
ضبط تھا وہ سات دنوں سے خود پر ضبط کر رہی تھی پتہ
نہیں کیسے اپنے دل پر پتھر رکھ کر وہ سب کے سامنے
نارملی بیہیو کر رہی تھی جب کہ پچھلے سات دنوں سے
وہ ارسم سے رابطہ کرنے کے چکروں میں آدھی ہو چکی
تھی اور آج تو اس کا ضبط ہی ٹوٹ چکا تھا
ایسا نہیں ہے انہیں بتانا چاہیے تھا وہ مجھے بھول گئے ہیں
دو سال کے لیے باہر چلے گئے مجھے بتایا بھی نہیں مجھ
سے ملے بھی نہیں۔۔۔۔۔ عمایہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہی
تھی جبکہ ایشال اسے سمیٹتے ہوئے بہت پریشان ہو چکی تھی
اسے اندازہ نہیں تھا کہ عمایہ بھی ارسم کے معاملے میں
اتنی سیریس ہو گی بے شک وہ اس کی بیوی تھی اور
ارسم اس کا شوہر تھا مگر ایشال کو اندازہ نہیں تھا کہ
عمایہ ارسم کے بارے میں وہ سب سوچتی ہو گی بلکہ اس
کا باہر جانا اسے اتنا برا لگے گا
تو جب تمہیں یہ سب اتنا برا لگ رہا ہے تو تم نے رخصتی
سے کیوں انکار کیا بھائی نے تم پر کوئی ذمہ داری نہیں
ڈالی تھی تم آرام سے اپنی پڑھائی بھی کر سکتی تھی اب
تم انہیں ناراض کر چکی ہو اور تمہیں ان کی ناراضگی
بھی بری لگ رہی ہے ایشال اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے
بولی
لیکن میں نے یہ تو نہیں بولا تھا کہ ناراض ہونے کے بعد
چھوڑ کر چلے جائیں۔۔۔۔۔ عمایہ سوں سوں کرتے ہوئے بولی
رونے کی وجہ سے اس کا ناک سرخ ٹماٹر بن چکا تھا جبکہ
آنکھیں بھی سرخی مائل ہو چکی تھی
ارے یار وہ چھوڑ کر نہیں گئے اپنے کسی پروجیکٹ کے
سلسلے میں گئے ہیں اسی لیے تو وہ تمہیں اپنے ساتھ لے
جانا چاہتے تھے تاکہ وہاں تمہاری پڑھائی بھی ہو جائے اور
وہ اپنا پروجیکٹ بھی کمپلیٹ کر لیں مگر تمہیں ان کی
بات سمجھ ہی نہیں آئی تھی ایشال نے اسے سمجھانا چاہا
کہ ارسم کی ناراضگی کی پیچھے وجہ وہ ہے
مجھے بس کچھ نہیں سننا میں دوبارہ کبھی بھی ان سے
بات نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں چاہے جو مرضی ہو
جائے عمایہ اپنی آنکھیں رگڑتی اپنا فیصلہ سنا چکی تھی
اس کا دل دکھا تھا اس کا معصوم سا دل جس میں ارسم
بہت جلد ہی اپنی جگہ بنا چکا تھا اب اس کی دوڑی پر
تڑپ رہا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *