- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Hamsar e Dovom Season 01 by Yumna Writes
Genre: Second Marriage | Romantic Fiction | Life Struggles | Pakistani Literature | Family Relationships | Emotional Conflict | Character Development | New Beginnings | Social Issues |
Click here to download novel
Hamsar e Dovom by Yumna Writes
Hamsar e Dovom Season 02
اُس کی گاڑی اس وقت ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی ،،
گاڑی کو فل سپیڈ میں بھگاتا وہ اضطرابی کیفیت میں ماتھا مسل رہا تھا ،،
اُسنے کب سوچا تھا کہ حقیقت ایسے اور اتنی جلدی اُسکے سامنے آ جائے گی۔۔
اُس نے بہت کوشش کی اُسے سچ بتانے کی لیکن ہر بار دل ڈر جاتا ،،
وہ اُسکی شدت پسندی سے خوب واقف تھا” وہ جو اپنی چیز کسی دوسرے کے ساتھ بانٹ نہیں سکتی تھی
تو اپنی محبت کو کیسے کسی کے ساتھ تقسیم کر سکتی تھی،،
یہی بات اُسے ہمیشہ اُسے سچ بتانے سے روک دیتی “
اور آج جب سچ سامنے آیا بھی تو یوں کہ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا
کہ وہ کس طرح اُسے سمجھائے گا” کیسے اُسکا سامنا کرے گا،،
جب وہ اُس سے وجہ پوچھے گی تو وہ کیا جواب دے گا،،
اُسکی آنکھوں میں اپنے لیے بے یقینی دیکھ اُسکا دل پھٹنے کو تھا۔ فلیٹ کے سا منے جلدی سے گاڑی روکتا
وہ فلیٹ کا دروازہ دھاڑ سے کھولتا اندر داخل ہوا،،
اندر داخل ہوتے گھپ اندھیرے نے اُسکا استقبال کیا،،
کہی وہ چلی تو نہیں گئی؟؟سب سے پہلی سوچ دماغ میں یہی آئی،
لیکن دل نے اس سر کی وہ کبھی اُس سے دور نہیں جا سکتی”
وہ اپنی سوچ کی نفی کرتا آگے کو بڑھا،،
اپنے کمرے کے قریب گیا تو اندر سے گھٹی گھٹی سسکیوں کی آوازیں آ رہی تھی
جو اُسکی اس وقت وہاں موجودگی کی گواہی دے رہی تھی،،
چرر،،ر ” کی آواز سے وہ دروازہ کھولتا بھاری قدم آگے کو بڑھاتا اُسکے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھا،،
وہ اپنے گھٹنوں میں منھ دیے رو رہی تھی ،
،گولڈن بال بکھرے پرے تھے،،جسم ہچکولے لے رہا تھا
جس سے اُسکے رونے کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
اُسکی یہ خالت دیکھ آبان کو لگا جیسے اُسکا دل کسی نے مٹھی میں پکڑا ہو ،،،
آنکھیں ضبط کی شدت سے لال ہو رہی تھی
،،لب بینچے وہ اُسکے قریب بیٹھے لفظوں کو ترتیب دے رہا تھا،،
کیوں کہ وہ جانتا تھا مقابل میں لا جواب کرنے کا ہنر ہے ،،
اور وہ تو ویسے ہی اُسکے آگے ہار مان لیتا تھا” کچھ پل خاموشی سے اُسے روتے دیکھتا رہا
اور خود میں ہمت پیدا کرتا اُسکا نام پُکارا
مز،،زنه” لیکن اُسنے سر نہ اٹھایا، مزنه ایک بار میری بات سن لیں پلیز “
آبان نے التجائیہ لہجے میں کہا
اُسنے چہرہ اٹھا کر اپنی گرے سرخ سوجی ہوئی آنکھوں سے اُسے دیکھا،،
کیا کچھ نہ تھا اُن آنکھوں میں”شکوہ ،،
یقین ٹوٹتے کا غم”محبت کہ رسواء ہونے کا کرب ” نفرت،،ناراضگی،، اور وہ اسی پل سے بچنے کے لیے تو اب تک خاموش تھا،،
وہ سب کچھ سہہ سکتا تھا لیکن اُسکی آنکھوں میں اپنے لیے بے اعتباری ،،ناراضگی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اُسکی خالت دیکھ
اُسنے اذیت سے آنکھیں میچی کیا لینے آئے ہو یہاں ،،کیا کچھ رہتا ہے یہاں تمہارا” آبان چوھدری”
وہ اپنی سوجی آنکھوں سے رندھے ہوے لہجے میں بولی،، اُس نے میچی ہوئی آنکھیں ایک پل میں کھولیں “
ایسے کیوں بول رہی ہو یار ” میرا کُل اثاثہ تو یہاں موجود ہے،،میری زندگی یہاں ہے تو میں کہی اور کیا کر سکتا ہوں”…
اُسکے چہرے کو ہاتھوں میں لیتا گھبیر لہجے میں وہ بولا، اُس نے نفرت بھرے انداز میں اُسکے ہاتھ اپنے چہرے سے جھٹکے”
دور رہو مجھ سے”…اور دور رکھو مجھ سے اپنے یہ غلیظ ہاتھ ” جس سے جانے تم نے کس کس کو چھوا ہوگا،،
وہ تندہی سے اُس سے دور ہوتی بولی” کچھ نہیں ہے اب یہاں تمہارا “چلے جاؤ یہاں سے مجھے تمہارے وجود سے کراهيت “
محسوس ہو رہی ہے ۔۔ گھن آ رہی ہے مجھے تم سے، اور وہ تو جیسے اُسکے لفظوں سے ہی خود کو کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس کر رہا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ وہ حقیقت جان کر اُس سے ناراض ہو گی۔۔،،لڑے گی “لیکن اس حد تک ” اُسکے اتنے شدید ردعمل سے وہ بےبس سا اُسے دیکھ رہا تھا ،،
وہ جانتا تھا اُسے اب وہ کسی طور اُس پر یقین نہیں کرے گی۔۔اور ابھی تو ویسے بھی اُسے اُسکا بولا ہوا ہر لفظ سوائے جھوٹ کے کچھ نہ لگے گا
الفاظ جیسے منھ سے نکلنے سے انکاری کر رہے تھے۔ وہ ساکت سے بیٹھا تھا لفظ “کراہیت “اُسکے کانوں میں گونج “رہا تھا.