Hamsar e Dovom Season 02 by Yumna Writes
Genre: Second Marriage | Romantic Fiction | Life Struggles | Pakistani Literature | Family Relationships | Emotional Conflict | Character Development | New Beginnings | Social Issues |
Click here to download novel
Hamsar e Dovom by Yumna Writes
Season 01 Hamsar e Dovom Season 01
اس نے آفیس سے نکلتے گاڑی مسجد کے سامنے روکی”
گاڑی لوک کرتے وہ اندر داخل ہوا ” وضو کرکے نماز ادا کی ۔
دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے نمی چھلکنے لگی
اسے اپنے بھائ کے ساتھ گزارے لمحے یاد آنے لگے ۔۔
اُسکی شرارتیں” اُسکی مسکراہٹ ۔۔
اپنے بھای کی مغفرت اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر وہ کتنا ہی وقت مسجد میں بیٹھا رہا ۔۔۔
آج بھی اُس کا سوز ندامت کم نا ہو پایا تھا ،،وہ آج بھی اسی مرض میں مبتلا تھا “
جاتے جاتے وہ اُسے معاف تو کر گئ تھی لیکن آبان چوہدری کی ذات کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک گہرا گھاو دے گئ تھی۔۔
جس سے وہ آج بھی باہر نا آ پایا تھا ” وہ خود کو ایک کمزور اور کمتر مرد سمجھتا تھا
جو نہ اپنی بیوی کی خاطر بول سکا اور نہ اج اپنے بھائی کے قاتلوں کے لیے کچھ کہہ سکتا ہے ،،
اُسکی ماں جو وقت کے ساتھ ساتھ دل کی مریضہ بن چکی تھی وہ انہیں مزید تکلیف سے دو چار نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔
اپنے رب سے باتیں کرتا رہا پھر اٹھ کر واپسی کے لیے نکلا
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے وہ واپس اپارٹمنٹ جا رہا تھا ،،جب سامنے سے
کسی کو بھاگھتے اس کی جانب آتے دیکھ اُس نے گاڑی کی سپیڈ سلو کی”..
سامنے سے آتی لڑکی مسلسل چیخ رہی تھی اور ہاتھ ہلاتی شاید اس سے مدد مانگ رہی تھی۔۔
اُس نے جھٹکے سے گاڑی روکی ،، وہ لڑکی اُسکی گاڑی کے قریب آتے مدد کے لیے روتی چیختی دروازے پر ہاتھ مار رہی تھی ۔۔
پلیز مجھے بچا لیں ” خدا کے لیے ۔۔
وہ روتی ہاتھ جوڑ گئ تھی ۔
آبان نے جھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور نکل کر باہر آیا ۔
لڑکی کی حالت بہت خراب تھی ” بال چہرے پر بکھرے پڑے تھے” دونوں کندھوں سے شرٹ پھٹی ہوئی تھی ۔۔
ہاتھوں اور بازوں پر موجود زخم اور ناخنوں کے نشان اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ اُس کے ساتھ کچھ بہت برا ہوا تھا
کون پیچھا کر رہا ہے آپ کا ” آبان نے اُس کے پیچھے دیکھا لیکن کوئی موجود نا تھا ۔۔
مقابل نے روتے ہوئے اپنے خون بھتے زخمی ہاتھوں سے اپنے چہرے سے بال ہٹاتے اُسکی جانب دیکھا وہ ،،
وہ تھے پیچھے وہ خوف زدا سی پیچھے دیکھتے ہوئے بول رہی تھی آپ پلیز مجھے بچا لیں وہ مجھے مار دیں گے
وہ روتی اٹکتی کانپتی بولتی جا رہی تھی اور جیسے ہی پلٹی ،،مقابل کو اُسکا زخمی جسم اور
حالت دیکھتے ہوے اپنے پاؤں سے زمین کھسکتی محسوس ہوئی
آبان تو مقابل کا چہرہ دیکھ کر ساکت رہ گیا تھا
ز،،زینب” کانپتے لبوں سے اُس نے اُسکا نام ادا کیا تھا