Ziddi by Nazia Zaman
Genre: Gangster Life | Crime Drama | Underworld | Urban Fiction | Thrilling Suspense |redemption | power of love | emotional journey | crime to kindness | inner change |gangsters Love | fear | love | transformation | humanity |
Gangster leaves underworld for love Urdu novel
Click here to download novel
Ziddi by Nazia Zaman
قمرین جیسے جارحانہ تیور لیئے اس کی طرف بڑھ رہی تھی،
داور کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ کافی کا کپ اس کے سر پہ ہی نہ الٹ دے
لیکن شکر تھا کہ قمرین نے کپ ٹیبل پر پٹخنے پر ہی اکتفا کیا تھا ۔
“مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ، ہاں ؟”
“کیا مطلب ؟ مسئلہ کیا ہے ؟”
بھولا سا منہ بنا کر اجنبی بنتا داور اس کے غصے کو ہوا دے گیا تھا ۔
“دیکھو ! مجھ سے ایک غلطی ہوئی، میں مانتی ہوں ۔ مجھے تم جیسے ٹھرکی کی جان نہیں بچانی چاہیے تھی
بلکہ تمہیں وہیں جنگل میں دفن کردینا چاہیے تھا ۔
اب ہوگئی غلطی تو معاف کرو مجھے ۔ جان چھوڑو میری ۔
کیوں مجھے روز روز دن رات اپنی منحوس شکل دکھا کر پریشان کر رہے ہو ۔
اگر تم میری سفید چمڑی پر فدا ہو کر مجھ سے فلرٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو جان لو کہ نہ میں تمہاری طرح ہائی کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑکی ہوں
جو آگے سے دانت نکال کر تمہیں شہہ دوں اور ڈیٹنگ شروع کردوں اور نہ ہی مجھے مڈل کلاس گھر کی دبو سی لڑکی سمجھنے کی غلطی کرنا،
جو تمہاری ان حرکتوں سے ڈر جائیگی ! میں مڈل کلاس ضرور ہوں، مگر تمہارا منہ توڑنے کی صلاحیت رکھتی ہوں ۔”
یہ سب قمرین نے غصے سے چیخ چیخ کر ہرگز نہیں کہا تھا بلکہ لبوں پر جبری مسکراہٹ سجا کر دھیمی سی آواز میں کہا تھا ۔
یہ جاب اس کے لیئے بہت ضروری تھی وہ جذبات میں آ کر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتی تھی جو اسے اس جاب سے بھی فارغ کردے ۔
قمرین کے مسکرانے کے باوجود داور اس کے چہرے کی سرخی اور پیشانی اور گردن کی ابھرتی رگیں دیکھ کر اس کے غصے کا اندازہ کر لگا سکتا تھا ۔
بےساختہ داور کے لب مسکرائے تھے ۔
“جب تم مجھے تقریباً آدھے گھنٹے تک جنگل میں گھسیٹ سکتی ہو، تو مجھے یقین ہے تم میرا منہ بھی توڑ سکتی ہو ۔”
سر دھن کر کہتا وہ شاید قمرین کو سراہ رہا تھا ۔ “الو کے۔۔۔۔” قمرین کو یہ گالی بہت کم لگی تھی
اس چچھورے ڈھیٹ انسان کے لیئے اور اس سے بڑی گالی دے کر وہ کوئی مصیبت سر نہیں لے سکتی تھی
سو مٹھیاں بھینچے ضبط کرتی ہوئی جھٹکے سے مڑ کر وہاں سے چلتی چلی گئی
پیچھے داور اس کی پشت پر نظریں جمائے ٹھنڈی کافی کا کپ لبوں سے لگا کر زیر لب بڑبڑایا تھا ۔
“آئی لائک اٹ !! ” “یار۔۔۔ پیس تو چیک کر ذرا، کیا چال ہے !” بیہودہ قسم کے انداز میں دیے گئے کمنٹ پر
داور نے چہرہ موڑ کر اس لڑکے کو بغور دیکھا تھا جس کی نظریں قمرین پر ہی جمی تھیں ۔
“بکواس نہیں کر، جلدی ٹھونس ۔ دیر ہورہی ہے ۔” سامنے بیٹھا لڑکا شاید کچھ شرمیلا تھا یا شاید خوش قسمت !
داور نے اس لڑکے کو خوش قسمت ٹھہراتے ہوئے ایک بار پھر سر سے پیر تک کمنٹ پاس کرنے والے لڑکے کو دیکھا
ٹیبل پر دھرا فون اٹھا کر کوئی نمبر ڈائل کر کے کان سے لگا لیا ۔ “بلو کوٹ، وائٹ شرٹ، بلیک پینٹ اور لمبے بال ۔
جیسے ہی ریسٹورانٹ سے باہر نکلے، اسے قبر میں پہنچادو ۔” سرسری انداز میں حلیہ بتانے کے بعد داور کا لہجہ آخر میں سنگین ہوگیا تھا ۔
“یس سر ۔” دوسری طرف سے جواب ملنے پر داور نے کال کاٹ کے موبائل واپس ٹیبل پر دھر دیا
سرد نظر اس شخص پر ڈالتا دوبارہ قمرین کی جانب متوجہ ہوگیا ۔
اس کے عنابی لب پھر سے مسکرانے لگے تھے ۔