Mehr O Ishq by Parivish Talpur
Genre: Second Marriage Based, transitioning into Forced Marriage Based, followed by Class Conflict, exploring Jageerdar Based themes, featuring a Politician Based storyline, with Age Difference Based elements, and a Confident Heroine, amidst a Romantic Urdu Novel, including Love at First Sight.
Click the below link to download novel
Mehr O Ishq by Parivish
“ملازمہ نے آکر اطلاع دی تو پرنیاں جھٹکے سے اٹھ کر بھاگی تھی
اسے جوتے بھی پہننے کا ہوش نہ رہا دوپٹہ گلے سے نیچے لڑک گیا
وہ بس اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے آنکھیں بند کر کے دوڑ رہی تھی
رات بھر سے وہ اپنوں کے لیے تڑپ رہی تھی جو اس کی تکلیف کم کر سکیں
اس دھوکے کا اس حویلی والوں سے حساب مانگے اسے زندگی بھر کا ناسور کیوں دے دیا گیا
جس سے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت گم ہوگئی ہیں وہ سیڑھیوں سے اندھا دھند بھاگ رہی تھی
اور حال میں کھڑے سب لوگ یے منظر حیرانی سے دیکھ رہے تھے اور
فرحان شاہ اس سے ایک پل کے لیے بھی نظر نہ اٹھا سکا اس کے دل سے درد کی لہریں اٹھنے لگیں تھیں
اس کے تڑپتے وجود کو دیکھ کر پرنیاں کی نظر اپنے بابا پر گئی تو وہ ان سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑی”
“ارے گڑیا کیا ہوا ایسے کیوں رو رہی ہو “
“آذر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا “
“لگتا ہے اسے گھر والوں کی یاد کچھ زیادہ ہی آرہی تھی “
“رانیہ مذاقً بولی ورنہ اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا جیسے کچھ غلط ہوا ہے اور یے بات پرنیاں کے گھر والے بھی محسوس کر رہے تھے کیونکہ پرنیاں صرف ایک مرتبہ اتنا شدت سے روئی تھی جب طارق سے اس کی منگنی ٹوٹی تھی “
“بابا بابا آپ کی بیٹی ایک بار پھر اجڑ گئی بابا امی مجھے یہاں سے لے چلیں اگر کچھ اور یہاں رہی تو میرا دم گھٹ جائے گا اس حویلی میں “
“وہ بی تابی سسک سسک کے ہچکیوں سے بول رہی تھی “
“ان لوگوں نے بہت بڑا دھوکا دیا ہے ہمیں زندگی تباہ کر دی میری جیتے جی مار دیا “
“عابدہ بیگم سے بیٹی کے تڑپتے وجود کو سنبھالنا مشکل ہورہا تھا
خود کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو رہے تھے نجانے اب اس کی پیاری بیٹی کے ساتھ کون سا دکھ آیا ہے”
“پرنیاں کو کیا ہوا ہے وہ کیا بول رہی ہے “
“آذر نے پرنیاں کے سسرال والوں کو دیکھ کر پوچھا مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا سب سر جھکائے کھڑے تھے اس نے امبرین کو دیکھا اس کے گال پر آئے آنسو نے اسے ہولا دیا”
“شاہ صاحب آپ ہی بتائیے پرنیاں کیوں رو رہی ہے اور ایسے کیوں بول رہی ہے “
“آذر فرحان شاہ کے سامنے کھڑا ہوگیا جو خود پتھر کا بت بنا کھڑا تھا وہ کیسے اپنے زبان سے اپنا جھوٹ بتاتا “
“یے کیا بتائیں گے ادا انسان جب دھوکے سے کچھ حاصل کرتا ہے تو اپنی زبان سے جھوٹ کا پردہ
دوسروں کے سامنے اٹھانے سے زبان پر تالے لگا دیتا ہے کہیں ان کی اتنے دن کی محنت برباد نہ ہوجائے
کیونکہ یے جاگیردار لوگ اپنی ہار کبھی تسلیم نہیں کرتے مگر انہیں نہیں پتا پرنیاں غلام کوئی چھوٹی لڑکی نہیں
جو عام لڑکیوں کی طرح یہاں کی آسائشوں پر اپنی پوری زندگی قربان کردے اور وہ بھی
اپنی سوتن کے ساتھ خاک میں ملادوں گی اس حویلی کو اور حویلی کے لوگوں کو “
“وہ رات سے اپنے اندر کا درد برداشت کر رہی تھی اب موقعہ ملا تھا ایک ایک حساب لینے کا
کیونکہ اب اس کے گھر والے اس کی ڈھال بنے کھڑے تھے وہ یہی سوچ رہی تھی
اب وہ اپنے گھر جائے گی سب کچھ ختم کر کے ایک بار پھر اپنے گھر واپس اجڑ کر جائے گی
کیونکہ اس کے نصیب میں اجڑنا ہی لکھا تھا تو اسے منظور تھا مگر بیوی بچوں والا باپ
اسے قطعی طور پے نامنظور تھا اس کی بات پر سب کے چہرے پر سانپ سونگ گیا
سب ساکت وجامت کھڑے پرنیاں کو دیکھ رہے تھے جو اجڑے حال پے
اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی اجڑے بال بکھرا حلیہ رات بھر جاگی آنکھیں “
“بابا ان لوگوں نے بہت بڑا دھوکا دیا ہے ہمیں یے شخص پہلے سے شادی شدہ دو بچوں کا باپ ہے “
“پرنیاں کہتے ہی باپ کے سینے سے لگ کر بلک بلک کر رو دی پرنیاں کے گھر والے
صدمے سے حویلی کے لوگوں کو دیکھ رہے تھے اتنا بڑا دھوکہ بے یقینی سی بے یقینی تھی
عابدہ بیگم زمیں پر گر سی گئی رانیہ اور زرش جلدی سے اس کی طرف بڑھی تھیں
کاوش کے ہاتھوں سے سارا ناشتہ گر کر زمیں بوس ہوگیا “
“ذلیل انسان چھوڑوں گا نہیں میں تجھے “
I want to read this novel