Mujhy Hijar na Dy by Saba Mughal

Genere: Wani Based | Revenge Based | Feudal system Based | Class Difference Based | Caring Hero| Rude Heroine| Past Suspense| Siblings Bonding| University| Realization| Happy Ending Based Marvelous Novel

Click here to Download Novel

Download Link

Read Online

وہ کتنے لمحے ساکت نظروں سے دیکھ رہا تھا موبائل اسکریں پر ۔۔۔
عاشر کے چہرے پر اذیت رقم ہونے لگی تھی ۔۔۔ انکھیں لال ہونے لگیں تھیں ۔۔۔
عمر گیلانی کا یہ چہرہ اور اس کے اس روپ سے تو وہ انجان تھا ۔۔۔ اس کا چھوٹا بھائی اس کا چھوٹو ایسا ہوگا عاشر نے کبھی سوچا نہ تھا ۔۔۔ کتنا انجان اور بےخبر تھا وہ ۔۔۔ اتنا گھٹیا اس کا بھائی ہوسکتا ہے سوچا نہ تھا ۔۔۔
اسکریں کا منظر کوئی عام منظر نہ تھا موت کا منظر مرد کی درندگی اور ہوس کا منظر تھا ۔۔۔ اتنا ظلم مریم پر ہوا ہوگا عاشر کے وہم وگمان میں نہ تھا ۔۔۔ اسے جو بتایا گیا تھا حقیقت اس سے مختلف تھی ۔۔۔
“خدا کا واسطہ ہے مجھے چھوڑدو , میں معافی مانگتی ہوں تمہارے پاؤں پکڑتی پوں ۔۔۔ مریم اس کے قدموں میں گرگئی تھی اور روکر اس سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ۔۔۔
“ہا ہا ہا ہا ۔۔۔۔ عمر گیلانی ہنسنے لگا ۔۔۔ اسے کندھوں سے تھام کر اپنے روبرو کیا ۔۔۔۔
“تھپڑ مارتے وقت تم نے سوچا نہیں اب میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا سمجھی ۔۔۔۔ عمر نے اس کے کندھوں میں اپنی انگلیاں پیوست کرنے لگا ۔۔۔ وہ اس کو جھٹکنا چاہ رہی تھی پر کمزوری غالب ارہی تھی ۔۔۔ عمر کے بےرحم لفظوں کی کاٹ کی چبھن نے مریم کے وجود کو لہولہاں کررہے تھے ۔۔۔
مریم اپنی ہمتیں جمع کرنے لگی اس کی بےرحم پکڑ سے نکلنے کے لیۓ ۔۔۔
“پہلے سوچا تھا تم سے دوستی کرکے تمہیں تحفوں کا ڈھیر دے کر پھر تمہارے اس خوبصورت وجود کو حاصل کروں گا تمہاری مرضی سے ۔۔۔ تمہیں پیسوں میں تول دیتا میں مریم قریشی ۔۔۔ پر اب ۔۔۔۔۔ عمر گیلانی نے جان بوجھ کر جملا ادھورا چھوڑا ۔۔۔ وہ اسے اس کی بےبسی کا احساس دلارہا تھا ۔۔۔
“اب ۔۔۔ مریم نے سسکی بھرتے ہوۓ کہا ۔۔۔ مریم نے اپنے ہاتھوں کا زور لگاکر اس سے دور ہوئی تھی ۔۔۔
وہ ایک بار پھر زور سے ہنسا اور ہنستا چلا گیا ۔۔۔۔ اس کا لہجہ کاٹدار تھا ۔۔۔ کندھوں پر اس کے دوبارہ اپنے ہاتھ رکھتا بولا ۔۔۔
“اب تو وجود حاصل بھی کروں گا اور اس کی قیمت بھی وصول کروں گا ۔۔۔
عمر گیلانی کے لفظوں کا وار خالی نہیں جارہا تھا ۔۔۔ اس کا کہا ایک ایک لفظ مریم کے اعصاب کمزور کررہا تھا ۔۔۔
“نہیں نہیں عمر , مجھے معاف کردو پلیز ایسا نہیں ۔۔۔ وہ سسک کر اس کی گرفت سے نکلنا چاہا پر وہ اسے مضبوطی سے تھام چکا تھا ۔۔۔
“تم نے میرا انتقام نہیں دیکھا ۔۔۔ اس تھپڑ کی قیمت تمہیں چکانی ہی پڑے گی مریم قریشی ۔۔۔۔ کوٹھے پر بیچ کر تمہیں تمہاری اوقات بتاؤں گا ۔۔۔ جب ہر رات تمہارا جسم بکے گا اصل مزا تب آۓ گا ۔۔۔ تب آۓ گا میرے دل کو سکوں ۔۔۔ ساری عمر رؤگی اور پچھتاؤگی اس تھپڑ پر جو تم نے مجھے مارا تھا ۔۔۔ تم نے میرے منہ پر طمانچہ مارکر مجھے یونی میں ذلیل کیا تھا نا ۔۔۔ میں تمہارے روح پر طمانچہ ماروں گا تمہارا جسم ہی نہیں روح کو بھی نوچیں گے کوٹھے پر ۔۔۔ تم نے میری دوستی کی آفر ٹھکرائی تھی نہ اب ہر رات نیا دوست نۓ انداز میں تمہارے جسم سے کھیلے گا تم چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپاؤگی ۔۔۔ یہ ہے میرا انتقام عمر گیلانی کا انتقام ۔۔۔۔
وہ اس کی گرفت سے نکلنا چاہ رہی تھی پر وہ اس کے لفظوں کی کاٹ سے ٹوٹ چکی تھی وہ چاہ کر بھی اس کا حصار توڑ نہیں پارہی تھی ۔۔۔ ایسی گندی اور غلیظ باتیں کسی بھی عورت کے لیۓ برداش کرنا مشکل تھا ۔۔۔ وہ ڈر گئی اسی ڈر نے اس کے حوصلے توڑ دیۓ تھے ۔۔۔
“میں تو پیسے دے کر تمہارے حسن کو خراج تحسین دیتا پر تم نے خود موقع گنوادیا تو تو تو تو ۔۔۔۔  افسوس کرتا اس کی بےبسی کا مذاق اڑا رہا تھا ۔۔۔
وہ بھرپور مذاحمت کررہی تھی ۔۔۔ وہ اس کی کلائی موڑتا بلکل سامنے کی دیوار سے لگادیا مریم کی پینٹھ کو ۔۔۔
اچانک اس کی قمیص اگے سے پھاڑ دی ۔۔۔ عاشر سانس روک گیا اس لمحے ۔۔۔ اس کو اندازہ ہوگیا یہ کیمرہ اس کے بھائی نے خاص سیٹ کیا تھا یہ سب ریکارڈ کرنے کے لیۓ ۔۔۔ جس سے صرف وہ واقف تھا اور کسی کو خبر نہ تھی ۔۔۔
مریم نے چیخ ماری اس لمحے ۔۔۔ دور ہونا چاہا اپنے وجود کو چھپانا چاہ پر وہ معصوم چڑیا صرف پھڑ پھڑاتی رہ گئی ۔۔
“پلیز چھوڑدو خدا کے واسطے ماردو یہ نہ کرو ۔۔۔ کندھے برہنہ ہوگۓ تھے اس کے ۔۔۔ اس کی گرفت سے نکل گئی بھرپور کوشش کے بعد ۔۔۔ وہ منتیں کررہی تھی آوازین ارہی تھیں پر منظر پر کچھ نظر نہیں ارہا تھا ۔۔۔  اسے کھینچ کروہ دوبارہ کیمرہ کے سامنے لے ایا ۔۔۔ اس کی مکمل قمیص پھاڑنی چاہی عمر نے ۔۔۔ وہ چیخ رہی تھی گڑ گڑارہی تھی ۔۔۔ اس سے پہلے وہ اس کی مکمل قمیص پھاڑ دیتا اسی لمحے دروازہ کھلا عمر گیلانی نے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔
کیمرہ کے سامنے جمشید کا چہرہ ایا جس نے مریم کی کلائی عمر کی گرفت سے ازاد کروائی اور کہا ۔۔۔
“عمر یہ ٹھیک نہیں چھوڑو ۔۔۔ جمشید نے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔
“جمشید تو جا ابھی , تجھے بھی موقع دوں گا اور دوستوں کو بلایا ہے ۔۔ سب کا نمبر آۓ گا ۔۔ عمر نے کمینے پن سے کہا تھا پر جمشید کے سخت تاثرات میں فرق نہ ایا ۔۔۔
جب وہ بولا تو دوٹوک لہجے میں بولا کہ ۔۔۔
” نہیں عمر اج تک ہم نے کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کی , جو آئی اپنی مرضی اور ضرورت کے لیۓ ہمارے بستر پر آئی ۔۔۔ اسے جانے دے ۔۔۔ جمشید نے مریم کو اشارہ کیا ۔۔ کیمرہ کے سامنے وہ دونوں تھے مریم سائیڈ پر تھی ۔۔۔ عمر کے پیچھے سے وہ چادر میں لپٹی جانے لگی ۔۔۔
“جمشید تم بیچ میں نہ پڑو ۔۔۔ اب کے عمر نے کرخت لہجے میں کہا ۔۔۔
“مریم رکو ۔۔۔ عمر شاید مریم کو پکڑنے کے لیۓ وہاں سے جانے لگا ۔۔۔
جمشید نے اسے پکڑا اور جلدی سے بولا ۔۔۔
“مریم بھاگ جاؤ یہاں سے عمر کو پکڑتے ہوۓ جمشید نے چیخ کر کہا ۔۔ دونوں میں ہاتھا پائی شروع ہوئی ۔۔۔ دونوں نے ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھایا ۔۔۔
“جمشید تم غلط کررہے ہو ۔۔۔ عمر نے غصے سے کہا ۔۔۔
“غلط تم ہو عمر ۔۔۔ جمشید نے دوبدو کہا ۔۔۔
اسی لمحے عمر نے گملا اٹھا کر جمشید کے سر پر مارا ۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھامتا زمیں پر بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔
مریم کی چیخنے کی اواز ارہی تھی قریب سے ۔۔۔
“شاباش افضل تم اس چڑیا کو پکڑ لاۓ ۔۔۔ افضل خاص ملازم تھا گیلانیز کا ۔۔۔ وہ اسے پکڑ کر عمر کے پاس لایا ۔۔۔
عمر نے کافی لاتیں ماریں جمشید کو وہ کراہنے لگا ۔۔۔ مریم اس کی حالت دیکھ کر ایک بار پھر چیخ اٹھی ۔۔۔
“بےغیرت ہے تو جمشید , ایک لڑکی کے لیۓ بچپن کے دوست سے بےوفائی کی ۔۔۔ اب تو اپنی انکھوں سے دیکھ اس کا کیا حشر کرتا ہوں نہ زنداؤں نہ مردوں میں تم ہوگی ایسی حالت کروں گا تمہاری ۔۔۔ عمر نے ایک ساتھ جمشید اور مریم کو دھمکی دی ۔۔۔
اب مریم دوبارہ منظر پر تھی ۔۔۔ وہ مچل رہی تھی اپنی کلائی چھڑانا چاہ رہی تھی ۔۔۔
“افضل تم ابھی جاؤ پھر میرے دوستوں کے بعد تمہیں بھی موقع دوں گا ۔۔۔ یہ لڑکی سب کے نیچے ہوکر جاۓ گی پھر کوٹھے کی زینت بڑھائی گی کیوں جمشید , افسوس تجھے اس سنہری موقعے سے محروم ہونا پڑے گا , بڑا ہمدرد بنا تھا نہ اس کا تیرا حشر کیا کرتا ہوں دیکھنا ۔۔۔
“جی سائیں جیسا اپ کا حکم ۔۔۔ افضل نے کہا ۔۔۔
دروازہ بند ہونے کی اواز ائی جس سے لگا افضل چلا گیا ۔۔۔ عمر نے جمشید کو لاتیں ماریں ایک بار پھر ۔۔۔
اب کے مریم کے جسم سے اس نے چادر کھینچ کے ہٹائی ۔۔۔ پھٹی قمیص کے کچھ ٹکڑے اس کے جسم پر اب بھی رہ گۓ تھے وہ اسے دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا ۔۔۔ اس کی مکمل قمیص پھاڑ دی ۔۔۔ اس کے چہرے پر جابجا اپنے لمس چھوڑنے لگا وہ چیخ رہی تھی اسے دھکا دے کر دور ہونا چاہا پر اس کے نڈھال اعصاب میں اتنی طاقت نہ تھی ۔۔۔ وہ اسے دور نہ کرسکی غصے میں عمر نے اس کے گال پر دانت گاڑے اس کی چیخیں عاشر کو لگا اس کا سانس گھٹ رہا ہو جیسے ۔۔۔
موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرا ۔۔۔ عاشر کے انسو نکل آۓ ۔۔۔
جمشید چیخ کر دہائیاں دے رہا تھا ۔۔۔۔ “عمر رحم کرو ظالم نہ بنو ۔۔۔
عاشر نے دھڑکتے دل کے ساتھ ایک بار پھر موبائل تھاما ۔۔۔ مریم کے چہرے پر دانتوں کا گہرہ نشان بن گیا تھا ۔۔۔
جمشید کو ایک اور زور سے لات ماری اس نے ۔۔۔۔ مریم اس کی گرفت سے نکلنے کے لیۓ اسے دانت سے کاٹنا چاہا پر عمر گیلانی کی گرفت سے پھر بھی نہ نکل سکی وہ ۔۔۔
اب کے عمر نے اسے کئی تھپڑ مارے ۔۔۔
“مجھے کاٹے گی کمینی ۔۔۔ اتنی ہمت ۔۔۔ عمر نے چلا کر کہا ایک اور تھپڑ مارا اسے ۔۔۔ اس کے بال بکھر چکے تھے اس کے بالوں کو پکڑ کر زور سے کھینچا اور اب کے اس کے کندھے پر دانت گاڑے عمر نے ۔۔۔ وہ ایک بار پھر چیخ پڑی ۔۔۔ وہ مکمل ٹوٹ چکی تھی ۔۔۔ اب کے عمر نے اس کے سینے کو برہنہ کرنا چاہا ۔۔۔ وہ اس ایک چھوٹے ٹکڑے کو پھاڑ کر وہاں اپنی شدتیں لٹانا چاہتا تھا ۔۔۔
“نہیں عمر نہیں پلیز ۔۔۔ مریم نے التجا کی وہ ایک ہاتھ سے جتنی مذاحمت کرسکتی تھی کررہی تھی عمر کی سفاکیت کے اگے اس کی طاقت کم پڑرہی تھی ۔۔۔ عمر نے ہاتھ بڑھایا تھا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور عمر نے کہا ۔۔۔ “افضل ….
پلٹ کر دیکھا اس کا شاک چہرہ کیمرہ کے سامنے نظر ایا عاشر کو ۔۔۔
عمر کی زبان لڑکھڑائی تھی ۔۔۔
“چھوڑ میری بہن کو کتے کمینے ۔۔۔ ارسلان قریشی نے ایک ہاتھ سے مریم کو اس کی گرفت سے نکالا دوسرے ہاتھ میں بڑا چُھرہ تھا ۔۔۔ عمر گھبرا گیا اس کے ہاتھ میں چُھرہ دیکھ کر ۔۔ اپنی بہن کی اس حالت کو دیکھ کر ایک بھائی کے اندر ایک اگ سی لگ گئی تھی ۔۔۔
“افضل , افضل ۔۔۔ عمر نے اوازدی جواب صفر تھا ۔۔۔
عمر جو بھاگنے کے پر تول رہا تھا کیونکہ اس نے ارسلان قریشی کی انکھوں میں خون اترتا ہوا دیکھا تھا ۔۔۔ وہ ایک عورت کے سامنے تو مضبوط بنا ہوا تھا اصل مرد کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا ۔۔۔
مریم کو ایک سائیڈ کرکے دوسرے لمحے اس نے بغیر سوچے اس کا سر قلم کردیا خون کا ایک فوارہ چھوٹ گیا ۔۔۔ اپنی بہن کی اس حالت نے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کردیا تھا ۔۔۔
جمشید دنگ رہ گیا اس کی بھی چیخ نکل گئی ۔۔۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *