Usy Kehna Ye Dunia Hai by Momina Ghaffar
Gener: Age Difference Based |Friendship Based | Revenged Based | Age Difference Based | University Life | transformative power of an innocent character | unexpected life changes | novel about fate and transformation | story of life upheaval | dramatic life transformation story |
Click here to Download Novel
Usy Kehna ye Dunia hy By Momina Ghaffar
“اف! یار بول بول کر گلا خشک ھونے لگا ہے، چل کینٹین سے کچھ لےلیتے ہیں۔
” کینٹین پر ایک طرف بہت رش لگا تھا، انکو بہت اچھے سے اندازا تھا کہ یہاں کیا چل رہا ہے، ہمدان جوس لینے آگے بڑھ گیا
جبکہ موسی وہیں تماشا دیکھنے رک گیا۔ وہاں ساحر بٹ کا گروپ فریشرز کی ریگنگ کر رہا تھا۔
ان کا گروپ قدرے نا معقول اور سخت ریگنگ کروانے میں مشہور تھا۔ کچھ لڑکوں کو دوپٹے پہنا کر نچوا رھے تھے،
خفت سے ان کے منہ سرخ تھے، وہاں موجود سب لوگ خود تو تماشے سے محفوظ ہو ہی رہے تھے
ساتھ تمام منظر باقی سب کی انجوائے منٹ کے لئے موبائل فون میں بھی قید کر رھے تھے۔
انھوں نے فریشرز کے ایک گروپ کو گھیراہوا تھا اور ان سے نت نئے کام کروا رھے تھے۔
اسی گروپ میں دانین عامر بھی موجود تھی جو اس وقت سخت پریشانئ کے عالم میں سر جھکائے کھڑی تھی۔
وہ کچھ لڑکیوں سے پیسے لے رھے تھے، کسی کو کسی لڑکے سے نمبر لانے کا کہہ رھے تھے،
کسی سے گانا سن رہے تھے۔ سائیکا آپی بھی ان کے گروپ کا ہی حصہ تھی،
اسے دیکھ کر اسے تسلی ہوئی کہ وہ روم میٹ ھونے کے ناطے اسے بچا لے گی۔ ‘
“ہاں بھئی تمھارا کیا نام ہے؟” ساحر کی نظر اس سہمی ہوئی لڑکی پر پڑی تو اٹھنا بھول گئی،
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کی جانب بڑھنے لگا ”دانین ہے، میری روم میٹ ہے ہلکا ہاتھ رکھو، بچی ہے
” سائیکا کی آواز سن کر دانین کے دل کو ڈھارس ھوئی۔ ساحر نے دلچسپی سے اس کو سر سے پاؤں تک دیکھا،
”بچے تو سب ہی ہیں، مگر اپنے ماں باپ کے” اس کی بات پر سب ہنسنے لگے۔
” اچھا تو یہ اتنی پیاری بچی آئی کہاں سے ہے؟’ وہ اس کے قریب ھوتے ہوئے پوچھنے لگا۔
”جنوبی پنجاب سے” جواب سائیکا کی طرف سے آیا تھا۔ ساحر نے گردن موڑ کر اسے گھورا تھا
‘ تم تھوڑی دیر چپ کرو گی؟’ اس کے واضح تنبیہ پر وہ خاموش ہو گئی۔
‘ چلو اب تم ہم سب کو سرائیکی میں گانا سناؤ’ اس کا حکم سن کر دانین نظریں جھکا گئی۔
‘چڑیا سنا نہیں تم نے؟’ وہ مزید آگے بڑھا دانین ڈر کے دو قدم پیچھے ہوئی اسے ایک دم سخت شرمندگی محسوس ھوئی،
ہر نظر تماشا بین بنی کھڑی تھی، اس جھنڈ میں اکیلے رہ جانے کے احساس سے اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں،
اس پر ساحر کو غصہ آگیا وہ مزید آگے بڑھ کے دھاڑا ‘دیکھو لڑکی یہاں وومن کارڈ نہیں چلے گا، سناؤ گی تبھی یہاں سے جا پاؤ گی”
کہتے ہوئے وہ مزید قریب ہوا، مگر نہ اسے سرائیکی زبان آتی تھی نہ ہی اسے کوئی گانا آتا تھا اس لئے وہ سر کو مزید جھکا گئی،
آنسو ایک شدت سے آنکھوں سے بہنے لگے،
سب لوگوں کو انتظار کرتا دیکھ ساحر ایک بار پھر دھاڑا “سناتی ھو یا۔۔۔”
”یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا’ ہمدان اس کے بالکل سامنے آ کر پوچھنے لگا۔ ہمدان کو دیکھ کر وہ تلملا گیا ‘ تم! کب اپنے کام سے کام رکھنا سیکھو گے؟”
“جب تم تھوڑی تمیز سیکھ لو گے۔”
” ہمیں بہت اچھے سے معلوم ہے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں کیا گل کھلا رہے تھے تھوڑی دیر پہلے۔ اب یہاں آکر ہیرو مت بنو” ساحر غرایا ۔
”مجھے کوئی شوق نہیں ہے ہیرو بننے کا۔ یہ لڑکی پہلے ہی رو رہی ہے تم مزید پریشان نہیں کر سکتے”
ہمدان نے ٹھنڈے لہجے میں سمجھانا چاہا، مگر وہ ساحر ہی کیا جو ہمدان کی بات سے اتفاق کرلے۔
وہ ہرحالت میں ہی ایک دوسرے کے مخالف چلتے تھے۔ اس لئے آج بھی وہ ہمدان کی بات پر اکھڑ گیا ”
تمہیں کیوں اتنی تکلیف ھو رھی ہے، تم باپ لگتے ہو اس کے؟”
”ہاں لگتا ہوں باپ، چلو بیٹا جاؤ یہاں سے اور پھر کوئی پریشان کرے تو اس نمبر پر رابطہ کر لینا’
اس نے ساحر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یونیورسٹی پرنسپل کا نمبر دانین کی طرف بڑھایا تھا۔
“ان کو بھی تو پتا چلے ریگنگ کے نام پر کیا کیا ہو رہا ہےیہاں’۔ وہ نمبر لے کر وہاں سے بھاگ گئی،
اس کی دیکھا دیکھی دوسرے جونیرز بھی وھاں سے کھسکنے لگے۔
” آج تم نے اچھا نہیں کیا ہمدان” وہ آگے بڑھتا ہوا غرایا،
”ہنہ ، ہمدان تو کبھی بھی اچھا نہیں کرتا تمہارے ساتھ، ہیں نا؟ شک ہو تو یہاں کسی سے بھی پوچھ لو! اب وہ ٹھنڈے سے انداز میں کھڑا اس کو مزید جلا رہا تھا۔
”یہی یہی غرور توڑنا ہے میں نے تیرا، میں بھی اپنی ماں کا بیٹا نہیں اگر تجھے برباد نہ کر دیا” وہ اس کے سامنے غصے سے بھرپور انداز میں کھڑا وارننگ دے رہا تھا