Ye Ju Tehra Junoon hai by Farhat Nishat Mustafa
Genre: acid attack survivor | Forced Marriage | Revenge Based | Multi Couples | overcoming adversity | inspirational true story | resilience and strength | survivor of violence | courage and recovery | personal transformation | empowerment through hardship | triumph over trauma | support for acid attack victims | Happy Ending Based
ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں ۔ جہاں مرد حاصل نا کر سکے تو برباد کر دیتا ہے۔
اسنے بھی وہی کیا تھا۔اس معصوم کو برباد کر دیا تھا۔ اسے پا نا سکا تو تیزاب سے اسکا چہرا جلا دیا ۔
اپنی محبت کو جنونیت سمجھتے وہ اس معصوم کی زندگی تباہ کر گیا ۔
Click Here to Download Novel
Ye Ju Tehra Junoon hai by Farhat Nishat Mustafa
یاد رہے اسفند یار اپنا کہا سچ کر کے دکھا چکا تھا۔ اسی طرح، وہ اس خوبصورت موم کی گڑیا کو تیزاب کی آنچ سے جلا چکا تھا۔
پھر، صبغہ کمرے کے فرش پر اوندھی گری ہوئی، دونوں ہاتھ چہرے ٹکائے اذیت سے چیخ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی چیخیں دم توڑتی جارہی تھیں۔ اس کے علاوہ اسفند ایک جنون کے عالم میں اسے دیکھا جا رہا تھا۔
اسی دوران، اسے خبر ہی نہ ہوئی اور تیزاب کی خالی بوتل اس کے ہاتھ سے فرش پہ چھوٹتی نیچے زمین پر گر گئی۔ صبغہ امیری بچی۔
اسی وقت، عزہ بیگم بھاگ کر اس کے پاس پہنچی تھیں۔ جب انہوں نے اوندھی ہوئی صبغہ کو سیدھا کیا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔
بدقسمتی سے، صبغہ کا چہرہ بائیں طرف سے بری طرح جھلس چکا تھا۔ یہ سب کیسے ہوا؟ سبحان صاحب! پھر عزہ بیگم بری طرح چلائی تھیں۔
اس وقت ان میں یہ دیکھنے کی بھی سکت نہ تھی کہ ان کی بیٹی کا مجرم ان کے سامنے ہی اب تک کھڑا ہے۔ پھر سبحان صاحب اور زارون جو اندر کمرے میں تھے، فوراً صبغہ کے کمرے میں پہنچے۔
اس کے بعد، دونوں صبغہ کو دیکھ کر یوں دنگ رہ گئے تھے۔ صبی! اس کے باوجود، زارون کے قدم کسی نے وہیں جکڑ لیے تھے۔
یہ دیکھ کر، سبحان صاحب بھاری آواز میں بولے، “یہ کس نے میری بیٹی کے ساتھ یہ کیا ہے؟” پھر زارون نے لپک کر اسفند کو گریبان سے پکڑا تھا۔
بلاشبہ، “ہاں!” اسفند نے انکار نہیں کیا تھا۔ گھٹیا انسان! کیوں کیا؟ “وہ تم سے اتنا پیار کرتی تھی اور تم نے یہ صلہ دیا۔” زارون نے اس کا چہرہ تھپڑوں سے سرخ کر دیا تھا۔
تاہم، زارون اس وقت صبغہ کی زندگی بچانی ہے۔ بعد ازاں، اسے ہم دیکھیں گے۔ “سبحان صاحب صبغہ کو اٹھا کر باہر لے جاتے ہوئے بولے۔
اسی طرح، عزہ بیگم بھی ان کے پیچھے ہی باہر نکلیں۔ “نہیں کرتی تھیں وہ مجھ سے پیار۔ آپ کو ان سے پیار تھا نا؟” مزید، ان کی حسین صورت کے دیوانے تھے نا آپ۔ “اب آپ تو کیا، دنیا کا کوئی بھی مرد صبغہ سبحان کو پانے کا خواب نہیں دیکھے گا، وہ صرف میری ہیں، صرف میری!” اسفند یار کے لفظ لفظ میں جنونیت تھی۔ زارون شاکر سا اسے دیکھتا رہا۔
آخیرکار، اسفند یار اس حد تک جا سکتا ہے یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ چناں چہ، اسفند یار اسے اس حال میں چھوڑ کر جا چکا تھا۔ جنون کی آخری حد کی جانب سفر شروع ہوا تھا۔