William Wali Episode 05 Part 01
Writer Noor Rajput
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
“William Wali” unfolds the story of a rebellious girl driven by passion,
battling for love, faith, and justice.
A gripping tale of revenge, unveiling the harsh truths of society,
with a bold protagonist who defies norms.
Packed with thrilling twists, buried secrets from the past,
enigmatic characters, and a captivating connection to a foreign man,
this story promises an unforgettable journey through mystery, suspense, and raw emotions.
Episode 06
نینی اور نساء اسٹریچر پر پڑی نینسی کی لعش دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔ وہ بائیس سالہ لڑکی یوں چھوڑ جائے گی کسی نے نہیں سوچا تھا۔
ولیم تو کسی سناٹے میں قید ہو کر رہ گیا تھا۔ وقت کیسے گزرا کچھ پتا نہ چلا۔ اگلے دن نینسی کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ لڑکی کے تابوت میں رکھا اسکا مردہ وجود مردہ نہیں لگ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی اٹھ جائے گی۔
جارج بھی واپس آچکا تھا۔
بارش میں ہی اس کی آخری رسومات ادا ہوئیں۔
”کیسی لگ رہی ہوں میں؟؟“ نینسی کا تابوت اب قبر میں رکھا جارہا تھا۔ سیاہ کپڑے پہنے سب لوگ سیاہ چھاتے پکڑے کھڑے تھے۔ ولیم بھیگ گیا تھا۔ جارج اسے بارش سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا پر اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔
عقب سے ابھرتی آواز پر ولیم نے رخ موڑ کر دیکھا۔ سفید گاؤں پہنے وہ اس کے قریب ہی کھڑی تھی۔
”دیکھو میں اپنے آخری لمحوں میں بھی حسین لگ رہی ہوں نا۔۔“ وہ حیرت سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھے گیا۔
”تمہیں کیا لگا تھا میں تمہیں چھوڑ جاؤں گی؟“ وہ چہرہ اٹھائے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ بلونڈ بالوں والی نینسی اب اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ اسے ہیلوسینییشن ہوتے تھے۔ ہر برا حادثہ اسے اس بیماری کے قریب کر دیتا تھا اور ایک بار پھر سے اس بیماری کا آغاز ہوچکا تھا۔ ایک طرف نینسی کی قبر پر مٹی ڈالی جارہی تھی اور دوسری طرف وہ اس کے سامنے مجسم تھی۔ کئی کیمرے اس منظر کو قید کر رہے تھے۔
قدرتی بات ہے جب انسان کے ساتھ کوئی حادثہ ہوتا ہے تو وہ پہلے کئی دن صدمے میں گزارتا ہے۔ ولیم بھی صدمے میں تھا۔ پہلے پندرہ دن وہ کمرے سے ہی نکلا۔ نکلتا تو نینسی کی قبر پر چلا جاتا۔ اسے رگبی سے نفرت ہوگئی تھی جسکی وجہ سے وہ نینسی کا فون نہیں اٹھا پایا تھا۔ اسے خود سے نفرت ہورہی تھی کہ اس نے نینسی کو اکیلے چھوڑ دیا تھا۔
اور جوزف پیلس پر تو موت جیسی خاموشی چھائی گئی تھی۔ نینی ٹوٹ گئی تھیں جبکہ نساء خوفزدہ تھی۔ جارج واپس جاچکا تھا۔ مسٹر جوزف خاموش تھے۔ نینسی کی موت کی وجہ سے ان پر کئی سوال کئی انگلیاں اٹھی تھیں۔ کوئی اسے خودکشی کہہ رہا تھا تو کوئی اسے قتل۔ جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور مسٹر جوزف نے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان نہیں تھا۔ میڈیا ان کے بیان کا انتظار کر رہا تھا۔
اس وقت وہ اسٹڈی روم میں تھے جب ولیم کمرے کا دروازہ کھولتے اندر داخل ہوا۔ اس نے اجازت لینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔ وہ آج دن میں نینسی کی بھیجی ویڈیو دوبارہ دیکھ رہا تھا جب اسے نینسی کے موبائل کا خیال آیا۔ اس نے سب سے پہلے جارج کو فون کیا۔
”نینسی کا موبائل تمہارے پاس ہے؟؟“
”کونسا موبائل؟؟“ وہ حیران ہوا۔
”اس کے پاس ایک ہی موبائل تھا جارج۔ فیکٹری نہیں تھی۔“ کس قدر چبا چبا کر کہا گیا۔
”مجھے نہیں پتا۔ میں نے اسکا موبائل نہیں دیکھا۔ شاید ڈیڈ کے پاس۔۔“ وہ اسکی بات پوری سنے بنا فون بند کرچکا تھا۔
اور اب مسٹر جوزف کے سامنے موجود تھا۔
”نینسی کا فون آپ کے پاس ہے؟؟“ کس قدر روکھے انداز میں پوچھا گیا۔ مسٹر جوزف نے کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ شکن زدہ ٹی شرٹ، بکھرے بال اور لٹا پٹا سا حلیہ۔ پھر انہوں نے گہرا سانس لے کر خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے ولیم آیا تھا تو اب سُلگا کر جاتا۔
”کس فون کی بات کر رہے ہو؟“ انہوں نے اپنی جھولتی کرسی کو روک کر الٹا سوال کیا۔
”فار گیڈ سیک ڈیڈ! نینسی کے پاس ایک ہی فون تھا۔ وہی چاہیے مجھے۔“
”اسکے کمرے میں دیکھو۔ نساء سے پوچھو۔ میں اسکا فون کیوں لوں گا۔۔؟؟“ انہوں نے نرم لہجے میں جواب دیا۔ وہ جانتے تھے ولیم کن احساسات سے گزر رہا تھا اس لیے وہ کوئی سختی نہیں چاہتے تھے۔
”فون اسکے کمرے میں کیسے ہوگا؟ فون تو وہیں تھا جنگل میں۔ اس نے مرنے سے پہلے۔۔۔“ وہ بولتے بولتے رک گیا۔ ہونٹ پیوست کرلیے۔ سینے کے مقام پر جلن کا احساس ہوا۔ تکلیف بڑھ گئی۔ کتنا مشکل تھا اس کے لیے موت کا لفظ استعمال کرنا۔ اس نے بےساختہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ مسٹر جوزف اسے گہری نظروں سے دیکھتے رہے۔
”اس نے مجھے کالز کی تھیں۔ اس نے ویڈیو بھیجی تھی۔ وہ اسی جگہ کی تھی پر فون کیسے گھر ہو سکتا ہے؟؟“ وہ الجھا ہوا تھا۔ مسٹر جوزف کی کشادہ پیشانی پر شکنیں ابھریں۔
”لیکن کسی کو بھی کوئی فون نہیں ملا۔ پولیس والوں کو بھی نہیں۔ ویسے بھی یہ کیس میں مکمل طور پر بند کرواچکا ہوں تم کیا چاہتے ہو اب؟“ مسٹر جوزف کے ٹھنڈے لہجے پر ولیم نے افسوس سے انہیں دیکھا۔
”ڈیڈ آپ نینسی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟؟“ وہ ضبط سے چلایا۔ کتھئی آنکھیں لہو ٹپک رہی تھیں۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ دنیا کو آگ لگا دے۔
”جو اُس نے کیا ہمارے ساتھ وہ کیا تھا؟“ مسٹر جوزف زخمی تھے۔ نینسی کی اس موت نے ان کے بھی کئی زخم ادھیڑ دیے تھے پر وہ محسوس نہیں کروانا چاہتے تھے۔
”ڈیڈ وہ خودکشی نہیں کر سکتی۔“ ولیم نے دہائی۔ مسٹر جوزف کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے وہ ولیم کے عین سامنے آکھڑے ہوئے۔ اپنی سیاہ آنکھیں ولیم کی کتھئی آنکھوں میں گاڑھ دیں۔
”تو پھر یہ بات مان لو کہ میں نے اُسکا خون کیا ہے کیونکہ تیسرا آپشن نہیں بچتا۔“ وہ خون جما دینے والے سرد لہجے میں بولے۔ ولیم پل بھر کو ساکت ہوا۔ انکی ساکھ کو جو نقصان پہنچا تھا یہ وہی جانتے تھے۔
عجیب و غریب باتیں بن رہی تھیں۔ یہاں تک کہا جارہا تھا کہ ”ولیم اور نینسی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور مسٹر جوزف انکے رشتے کے لیے نہیں مانے۔ اس لیے نینسی نے خودکشی کرلی“ اب وہ کتنوں کا منہ پکڑتے۔ میڈیا کئی دنوں سے جوزف پیٹرسن پر خبریں چھاپ کر کمائی کر رہا تھا۔
ولیم لب بھینچے انہیں دیکھتا رہا اور پھر پلٹ گیا۔ اس نے نینی اور نساء سے فون کا پوچھا۔ اس نے نیل سے پوچھا۔ اسے بھی وہاں کوئی فون نہیں ملا تھا۔ پھر وہ پولیس اسٹیشن گیا۔
”دیکھیے ہمیں جائے وقوع پر کچھ نہیں ملا۔ ہمیں مسٹر جوزف نے کیس وہیں بند کرنے کا کہا تھا۔ نینسی کا تو پوسٹ مارٹم بھی نہیں ہوا۔ تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔“
اسے وہاں سے بھی صاف صاف جواب ملا۔ اگر پوسٹ مارٹم ہوتا۔ کیس کی تحقیقات ہوتیں تو کچھ پتا بھی چلتا۔
اگر فون کسی کے پاس بھی نہیں تھا تو وہ فون گیا کہاں؟ اس نے اپنا سر پیٹ لیا۔ کچھ دیر بعد وہ نیل کے سامنے اس کے گھر میں بیٹھا تھا۔
”مجھے سمجھ نہیں آرہا فون آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔“ وہ ہاتھوں میں چہرہ گرائے بیٹھا تھا۔
”میں جانتا ہوں یہ بہت بڑا حادثہ ہے ولیم پر اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرو۔ نینسی اس وقت جن حالات سے گزر رہی تھی شاید وہ کسی ایک کا انتخاب نہیں کر پائی اس لیے۔“ نیل نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔
”میرا دل نہیں مانتا نیل۔ نینسی ایسی لڑکی نہیں تھی جو خودکشی کرلے۔ پھر وہ مجھے ویڈیو کیوں بھیجتی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔“ سر میں درد کی ٹیس اٹھ رہی تھی۔ نیل اسے تاسف سے دیکھتا رہا۔ اس کی پڑھائی اس کا رگبی سب بیچ میں ہی رہ گیا تھا۔ نینسی اسے توڑ پھوڑ گئی تھی۔ کئی لمحے خاموشی کی نذر ہوئے پھر ولیم چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔ اب وہ اپنے فون میں ایک نمبر ڈھونڈ رہا تھا وہی نمبر جو اس نے نینسی کے فون سے لیا تھا۔ جو بقول نینسی کے احمد کا نمبر تھا۔ وہ اب نمبر ملا رہا تھا جو بند جارہا تھا۔ وہ اب کمرے میں دائیں بائیں چکر لگانے لگا۔
”مجھے اس نمبر کا ڈیٹا نکلوانا ہے۔“ پھر اس کی پریڈ رک گئی۔ وہ نیل کی طرف متوجہ ہوا۔
”میں جانتا ہوں ایک ایسے لڑکے کو وہ ہماری مدد کر سکتا ہے۔“ کچھ دیر بعد وہ ولیم کی سینوریٹا میں بیٹھے اس لڑکے سے ملنے جارہے تھے۔ گھنٹے بعد انہیں جو ڈیٹا ملا وہ ایک ساٹھ سالہ آدمی تھا۔ اس کا پتہ لے کر وہ اب اس کے گھر جارہے تھے۔
یہ ایک قصبے کا پتہ تھا جہاں وہ شخص اپنے چھوٹے سے گھر کے ملحقہ لان میں لگے پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ ولیم گاڑی سے نکلتا اسی کی جانب بڑھا۔
”مسٹر پیٹر آپ ہی ہیں؟“ وہ اب اپنے سامنے کھڑے آدمی سے سوال کر رہا تھا۔
”جی۔۔“ اس کے جواب دینے کی دیر تھی کہ ولیم نے اس کا گریبان پکڑ لیا۔ وہ آدمی اس افتاد پر گھبرا گیا۔
”کک۔۔کون ہو تم؟ کیا چاہیے۔۔؟؟“ وہ وحشت زدہ سا بولا۔
نیل لپک کر ولیم کی جانب بڑھا اور اس سے آدمی کا گریبان چھڑایا۔ نیل جانتا تھا ولیم بارود کی طرح کہیں بھی پھٹ سکتا تھا اس لیے اس نے خود ہی اپنا موبائل اس آدمی کے سامنے کیا۔
”ہاں یہ میرا ہی ہے۔“ آدمی نے اپنا سانس بحال کرتے جواب دیا۔ اس کی ہاں پر ولیم اس کی جانب مارنے کو لپکا جبکہ نیل نے اس کے راستے میں حائل اسے ہوتے روکا۔ پانی کا پائپ اس آدمی کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا تھا۔
”یہ بند کیوں ہے؟ کیا تم کسی نینسی کو جانتے ہو؟؟“
”میرا فون ہسپتال میں چوری ہوگیا تھا۔ میں نے اس کی رپورٹ بھی درج کروائی تھی۔ ہسپتال میں مجھ سے ساتھ والے مریض نے مانگا تھا میں نے دے دیا۔ پر وہ واپس ہی نہیں آیا۔۔“ وہ ولیم کو دیکھتے خوفزدہ سا کہتا گیا۔ اس کی بات سن کر نیل نے اثبات میں سر ہلایا۔
”ٹھیک ہے تکلیف کے لیے معذرت۔“ نیل اب ولیم کو کھینچے گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا۔
”کیا ہوگیا ہے تمہیں ولیم؟ تم ایسے تو نہیں تھے۔ ریلیکس رہو۔ جوش سے کام لو گے تو کبھی جان نہیں پاؤ گے کہ حقیقت کیا ہے۔ اس لیے تھوڑا صبر کرو۔۔“ وہ نیل جسے ولیم بدھو کہتا تھا وہ اس وقت سجھدار لگ رہا تھا۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے سیٹ سے پشت ٹکادی۔ آنکھ موند لیں۔
”وہ جو بھی ہے بہت شاطر ہے نیل۔ اس نے یہ سب پلاننگ سے کیا ہے۔ اس نے نینسی کو ہم سے چھین لیا۔“ وہ یونہی بند آنکھوں سے بولتا گیا۔ چہرے پر کرب واضح تھا۔ نیل نہیں جانتا تھا اس کا ذہن کس رخ پر بہہ رہا تھا اور وہ کیا سوچ رہا تھا پر کچھ تھا جو اسے پریشان کر رہا تھا اور جب تک وہ جان نہ لیتا یونہی بھٹکتا رہتا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
نینسی کی موت کے بعد ولیم پہلے والا ولیم نہیں رہا۔ وہ بدل گیا تھا۔ پہلے سے زیادہ خاموش ہوگیا۔ وہ نینسی کو نہیں بھول پایا کیونکہ وہ اس کے ساتھ ہی رہتی تھی۔ اکثر رات کو اس کی آنکھ کھلتی تو وہ کھڑکی کے قریب رکھے صوفے پر بیٹھی ہوتی۔ وہ اکثر کفن میں لپٹی ہوتی تو کبھی اسی گاؤن میں جس میں وہ مری تھی۔ کبھی وہ مٹی سے لتھڑی ہوتی تو کبھی کیچڑ میں۔ کبھی کبھی اس کے جسم سے پانی ٹپک رہا ہوتا جیسے موت کے وقت اسے اتارا گیا تو اس کے جسم سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔
پہلے پہل وہ خوفزدہ ہوتا پھر اسے عادت ہوگئی۔ وہ کبھی کبھی بہت چلاتی۔ کبھی غصہ نکالتی تو کبھی اس کے دکھ درد کی ساتھی بن جاتی۔ وہ اس کے ساتھ رہنے لگی تھی۔
ولیم اب خاموشی سے سب کرنا چاہتا تھا۔ پہلے وہ لندن گیا۔ نینی کے کالج سے پتا کیا پر وہ ساکت رہ گیا جب اسے پتا چلا وہاں تو کوئی پروفیسر احمد تھا ہی نہیں۔ ایک امید تھی وہ بھی ٹوٹ گئی۔
”کیوں خود کو میرے لیے خوار کر رہے ہو ولیم؟“ وہ لندن سے واپس آرہا تھا جب وہ یونہی کہی بھی وارد ہوجاتی تھی۔
”چھوڑ دو یہ سب اب کچھ پہلے جیسا نہیں ہو سکتا۔ تم آگے بڑھو اپنی زندگی جیو۔“ وہ جہاز میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ مسکراتی آنکھیں لیے اسے دیکھ رہی تھی۔
”وہ آسیب کار تھا ولیم اس کا مقصد مجھے تکلیف پہنچانا تھا۔ دیکھو اب میں ساری تکلیفوں سے آزاد ہوں تو پھر تم کیوں خود کو معاف نہیں کر پارہے؟ معاف کردو خود کو آگے بڑھ جاؤ۔“ وہ سیٹ سے ٹیک لگائے نم آنکھیں لیے چہرے موڑے نینسی کو دیکھتا رہا۔ وہ اسی سفید گاؤن میں تھی جو ہر وقت لہراتا رہتا تھا اور اس کے ساتھ ہی نینسی کے بال بھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر وقت ہواء میں ہو۔
”میں خود کو معاف نہیں کر سکتا نینسی۔ کبھی نہیں۔“
اس نے ہولے سے کہتے اپنی آنکھ میچ لیں۔ ایک آنسوں کنپٹی سے پھسلتا بالوں میں جذب ہوگیا اور وہ چلی گئی۔ وہ واپس آگیا۔ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ کسی چیز میں دلچسپی نہیں رہی تھی۔ مسٹر جوزف سے دوری مزید بڑھ گئی وہ انہیں تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ ڈیپارٹمنٹ کبھی چلا جاتا کبھی نہیں۔
مسٹر جوزف پریشان تھے اور پھر اس نے اپنی توجہ ساؤنڈ ریکارڈنگ کی طرف کردی۔ اسے اب یہی کام سکون پہنچاتا تھا۔ اس نے طرح طرح کی کئی مشینیں خریدیں اور پوری لگن سے کام کرنے لگا۔ وہ نیچر کے قریب ہونے لگا تو اسے ذہنی سکون ملا۔ نینسی کبھی نہیں گئی ہاں البتہ درد میں کمی آگئی تھی۔ ایک سال لگا اسے اس سب سے نکلنے میں۔ نیل اس دوران اس کے ساتھ ہی رہا۔ اس عرصے میں ولیم کئی ممالک گیا۔ ایک سیاہ کے طور پر لیکن اس نے ریکارڈنگ کا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے اکاؤنٹ پر ان ریکارڈنگز کو اپلوڈ کرنے لگا۔ وہ چہرہ سامنے نہیں لاتا تھا پر اس کا کام جلد مشہور ہوگیا۔ لوگ اسے جاننے لگے تھے۔ اس کے فالورز بڑھتے گئے۔ مسٹر جوزف نے جب اسے عجیب و غریب مشینوں پر پیسہ لگاتے دیکھا تو اس کی پاکٹ منی بند کردی۔ اسکے اکاؤنٹ فریز کروا دیے کیونکہ اس نے جوزف پیلس کے ایک کمرے کو عجیب و غریب مشینوں سے بھر دیا تھا۔ ملکوں ملکوں کی سیاحت میں اس نے مسٹر جوزف کا پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا۔
”میرا اکاؤنٹ فریز کروایا آپ نے؟؟“ وہ ان کے اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ اسے ایک مشین خریدنی تھی جو کافی مہنگی تھی پہلے پہل تو وہ اسے ملی تھی اور جب اسے ملی اور وہ خریدنے لگا تو اسکا اکاؤنٹ فریز ہوچکا تھا۔ وہ سیدھا ان کے اسٹوڈیو آیا۔ اسے اب کوئی نہیں روکتا تھا۔ وہ سیدھا اندر جا سکتا تھا۔
”ہاں“ مسٹر جوزف نے یک لفظی جواب دیا۔
”جانتے ہو پچھلے ایک سال میں تم کتنا پیسہ اڑا چکے ہو؟ کوئی حساب کتاب ہے؟ پڑھائی تم نہیں کر رہے۔ کام تم نہیں کرتے۔ سیاحت جیسے مہنگے اور ریکارڈنگ جیسے فضول شوق تم پال کر بیٹھے ہو۔ اس سے پیٹ نہیں بھرتا ولیم۔ پیسہ کمانا پڑتا ہے۔ ذرا پورے اسٹوڈیو کا چکر لگاؤ تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں اور پیسہ کیسا کمایا جاتا ہے۔“ سردو سپاٹ لہجے میں کی گئی مسٹر جوزف کی تقریر پر وہ لب بھینچے کھڑا اور پھر بنا کچھ کہے واپس پلٹ گیا۔
جیسے ہی وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا عین اسی لمحے اندر آتے ایک نازک وجود سے ٹکرا گیا۔ ایک نسوانی چیخ ابھری۔
”سوری۔۔“ ذرا سی گردن موڑ کر کہا۔ وہ ایک لڑکی تھی جو اس سے ٹکرا کر گر چکی تھی۔ جبکہ ولیم نے رکنا گوارہ نہیں کیا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا دور جا رہا تھا اور وہ لڑکی حیرانی سے اسے جاتے دیکھ رہی تھی۔
”ہاؤ روڈ۔۔“ وہ بڑبڑائی۔ ہائی ہیلز میں توازن برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔ اسے دیکھتے ہی آس پاس کام کرتے کئی ورکرز اسے اٹھانے کے لیے اس کی جانب بھاگے پر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا جسے وہ دیکھ رہی تھی۔
اس رات ولیم نے سینوریٹا کو بیچ دیا۔ جانتا تھا مسٹر جوزف اس پر برہم ہوں گے پر اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ اب پیسے کمانے کے طریقے سوچ رہا تھا اور اس کے لیے ضروری تھا اس کے پاس وہ سارا سامان ہوتا جو اسے چاہیے تھا۔ پھر اس نے ساؤنڈ ریکارڈنگ سے متعلقہ سارا سامان خریدا اور پھر وہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوگیا۔
مسٹر جوزف کو جب پتا چلا اس نے گاڑی بیچ دی تھی وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے۔ اسے اچھی خاصی سنائی بھی پر پرواہ کس کو تھی؟ انہوں نے اس کے اکاؤنٹ ری ایکٹیو کروادیے مبادہ وہ کہیں جوزف پیلس سمیت انہیں بھی نہ بیچ دے۔ اب وہ کئی کئی دن بلکہ مہینوں غائب رہتا۔ وہ جو ساؤنڈ ریکارڈنگ کر رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے کئی پروڈکشن کمپنیوں نے اپنی فلموں اور کمرشلز میں ان آوازوں کے استعمال کے لیے اس سے رابطہ کیا۔ وہ مختلف ملکوں میں جا کر ریکارڈنگ کرتا تھا اور آہستہ آہستہ اس کی ڈیمانڈ بڑھتی گئی۔ وہ منہ مانگی قیمتوں پر ان ریکارڈنگز کو فروخت کرنے لگا۔ اس نے بمشکل اپنی گریجوایشن کی ڈگری مکمل کی تھی۔ اس دوران اس نے نینی سے کئی بار اپنی ماں کے متعلق پوچھا۔
”کیا آپ نے کبھی میری مام سے بات کی ہے نینی؟ وہ کیسی تھیں؟؟“ وہ حالیہ افریکہ سے لوٹا تھا۔ تقریباً دو سال ہونے والے تھے اور اس دوران اسکے کام کا ایک نام بن گیا تھا۔ اب اسے مسٹر جوزف کے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ اپنا کماتا تھا۔
”وہ بہت پیاری تھی ولیم۔ بالکل تمہاری جیسی۔“ وہ ان کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اور نینی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ نساء ایک جانب بیٹھی ان دونوں کا پیار دیکھ رہی تھی۔
”میں ان کی فیملی سے ملنا چاہتا ہوں۔“ اس نے پہلی بار اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ آج کل اسے اپنی ماں کا خیال بہت آنے لگا تھا۔ اسے چند سال پہلے تہہ خانے سے کو باکس ملا تھا جس میں اس کی اور افق کی تصویر تھی۔ اس کے پیچھے ایک فون نمبر لکھا تھا اور پاکستان کے کسی گھر کا پتہ۔ یقیناً وہ ان کے گھر کا پتا ہوگا۔ ولیم نے کل رات اس نمبر پر فون کیا تھا۔
”ہیلو کیا آپ اورنگزیب بول رہے ہیں؟“
”تم کون ہو؟؟“ دوسری جانب سے پوچھا گیا۔
”میں ولیم ہوں افق اور جوزف کا بیٹا۔“ ڈرتے ڈرتے اپنا تعارف کروایا گیا۔
”افق ہمارے لیے مرچکی ہے۔ آئندہ یہاں فون مت کرنا۔“ درشتگی سے کہہ کر فون بند کردیا گیا۔
وہ نہیں جانتا تھا اسکی ماں کے اپنے والدین کے ساتھ کیسے تعلقات تھے پر اسے یہ جان کر دکھ ہوا تھا۔اسے آج کل یہ باتیں پریشان کر رہی تھیں۔
”ایسا سوچنا بھی مت ولیم اگر جوزف کو پتا چلا کہ تم اپنی ماں کے رشتےداروں سے ملنا چاہتے ہو تو غضب ہوجائے گا۔ وہ تمہارے سبھی کارنامے اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ تم انکی اولاد ہو۔ تم غلط صحبت میں نہیں پڑے۔ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں پر کچھ حدود ہیں تمہیں انکا خیال رکھنا ہے۔ تمہیں اس بات کا ذکر کبھی جوزف کے سامنے نہیں کرنا کہ تم ایسا کچھ چاہتے ہو ولیم۔ وہ برداشت نہیں کر پائیں گے۔۔“ نینی نے اسے پیار سے سمجھایا۔ ولیم خاموشی سے سنتا گیا پر وہ اپنے ذہن میں ایک اور دورے کا ارادہ کرچکا تھا اور اس کا اگلا دورہ پاکستان کا تھا۔ اور پھر وہ ولیم ہی کیا جو اپنے باپ کے غصے کا سوچ کر پیچھے ہٹ جائے۔
میں تمہیں یاد آؤں گی
جب پہاڑوں پر برف اُترے گی
جب سفیدی چھا جائے گی
جب پتے جھڑ جائیں گے
جب ساون لوٹ آئے گا
جب رم جھم من بہلائے گی
جب پھول کھل اٹھیں گے
میں تمہیں یاد آؤں گی
جب تنہائی کاٹ کھائے گی
جب رشتے ٹوٹ جائیں گے
جب اپنے چھوٹ جائیں گے
جب آنسوں بہہ نکلیں گے
جب اذیت پھیل جائے گی
میں تمہیں یاد آؤں گی
جب اندھیرا چھا جائے گا
جب سویرا روٹھ جائے گا
جب دنیا تمہیں ستائے گی
میں تمہیں یاد آؤں گی
جب العکبوت پر پھیلائے گا
میں تمہیں یاد آؤں گی
میں تمہیں یاد آؤں گی
ہاتھ میں موبائل تھامے، اسکرین پر نظریں جمائے وہ ہولے ہولے پڑھتا چلا گیا۔ آنکھیں نم تھیں۔ یہ شاعری نینسی نے اُسے بھیجی تھی جب وہ آخری بار اُس سے ناراض ہوا تھا۔
جب وہ اُسے بارش میں دروازے پر ہی جھٹک آیا تھا۔ وہ اُسے منانا چاہتی تھی۔ اُس سے بات کرنا چاہتی تھی پر ہمت نہ ہوئی۔ ولیم ٹھیک کہتا تھا وہ بدل گئی تھی۔ وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی اُسے کیا چاہیے تھا۔ وہ واقعی دو کشتیوں میں سوار تھی۔
نینی کی گود میں سر لیٹے اس نے یونہی نینسی کی چیٹ اوپن کرلی تھی اور اس کا لمبا میسج منہ چڑانے لگا۔
”وہ کیوں چلی گئی نینی؟ آخر کیوں؟“ وہ فون بند کرکے صوفے پر گراتے نینی کی گود میں سر رکھے اب چت لیٹا تھا۔ آنکھیں موند لیں۔ اذیت پورے جسم میں پھیل گئی تھی۔ نینی نے ایک نظر اپنے گود میں سر رکھے لیٹے ولیم کو دیکھا۔ بند آنکھوں کی اوٹ میں چمکتا وہ آنسوں نینی بخوبی دیکھ سکتی تھی۔ نینی نے ہولے سے جھکتے ہوئے اُس کی کشادہ پیشانی پر بوسہ دیا۔
”تم ایک بار رو لو ولیم۔ تم روئے نہیں۔ تم رو لو گے تو سکون آجائے گا۔“ وہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُسے تلقین کرنے لگیں۔ دو سال گزر گئے تھے۔ دو سال کم عرصہ نہیں تھا۔ وہ بھولتی ہی نہیں تھی۔ وہ ساتھ رہتی تھی۔ اور کبھی کبھی شدت سے یاد آتی۔ ولیم نے تو جوزف پیلس سے ہی غائب رہنا شروع کردیا تھا پر وہ تھی کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تھی۔ ابھی وہ کچھ دیر پہلے اپنی ماں کو یاد کرکے آبدیدہ تھا اور پھر چند لمحوں بعد نینسی کی یاد آٹپکی۔
”رونے سے کچھ نہیں ہوگا نینی۔ رونے سے کیا ہوگا؟؟“
اس کی ماں اور نینسی دو عورتیں ایسی تھیں جو اُسے عزیز تھیں اور اُنہی دو عورتوں کی لعش کو اُس نے رسّی سے لٹکتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ دونوں میں سے کسی کو نہیں بچا پایا۔ کوئی اُس کی ذہنی کیفیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اُس نے خود کو بہت مصروف کرلیا تھا۔
خود کو جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور قدرت میں چھپا لیا۔ گم کرلیا۔ پر یہ احساس پیچھا ہی نہیں چھوڑتا تھا۔ ہر وقت بس کچوکے لگاتا رہتا تھا۔
”دل ہلکا ہوجائے گا ولیم۔۔“ نینی نے اُس کے خوبصورت چہرے کو پیار بھری نظروں میں سموئے بولا۔
”دل ایسے ہلکا نہیں ہوتا نینی۔ یہ بس خام خیالی ہے۔ رو کر ہم خود کو دلاسہ دے لیتے ہیں پر اذیتیں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔“ وہ اٹھ بیٹھا۔ نینی اُسے پریشانی سے دیکھتی رہی۔ پھر وہ موبائل پکڑتے اٹھ کھڑا ہوا۔ خاکی رنگ گی کھلی گارگو پینٹ پہنے وہ سیاہ گول گلے والی ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔
”کہاں جا رہے ہو؟ کھانا بس تیار ہے۔“
”میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔ کھانا نہیں کھاؤں گا۔“
نینی اُسے پکارتی رہی رہ گئی لیکن وہ تیزی سے لاؤنج سے گزرتا سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہا تھا اور پھر سیڑھیاں پھلانگتا نینی کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ وہ پیچھے بھاری دل لیے بیٹھی رہ گئی۔ نینسی کا دُکھ تو کوئی نہیں بھولا تھا۔ وقت نے زخم بھردیا تھا پر یادوں کی تازی ہوا سارے زخم اُدھیڑ دیتی تھی۔
ولیم سیڑھیاں پھلانگتا اپنے کمرے میں جانے کی بجائے نینسی کے کمرے کی جانب آیا۔ پہلے وہ بےدھڑک اندر چلا جاتا تھا پر جب سے وہ گئی تھی تب سے وہ اِس کمرے میں نہیں آیا تھا آنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ کئی لمحے دروازے کے سامنے کھڑے رہا۔ خود پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا اور پھر لکڑی کا بھاری بھرکم دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ دل پل بھر کو ساکت ہوا۔ اُس کے کمرے کی صفائی روز ہوتی تھی۔ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ وہ دروازے میں ایستادہ چاروں جانب دیکھے گیا۔ وہ ہر جگہ تھی۔
بستر پر بیٹھی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ ہنس رہی تھی بول رہی تھی۔ اُس کے قہقہے گونج رہے تھے۔ وہ الماری کے سامنے کھڑی کپڑے نکال رہی تھی۔ اُس کے اسکیچز جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ وہ کسی نئے کاسٹیوم کا ڈیزائن کر رہی تھی۔ ولیم کا دم گھٹنے لگا۔ اگلے ہی پل وہ کمرے سے نکلتا دروازہ زور سے بند کرچکا تھا۔ اب وہ دھڑکتے دل کے ساتھ دروازے سے ٹیک لگائے آنکھیں موندیں کھڑا تھا۔ پورے جسم کپکپا رہا تھا۔ وہ کیوں چلی گئی تھی؟ آخر کیوں؟
”ولیم۔۔“ سرسراتی سی سرگوشی اُبھری۔ وہ آگئی تھی۔ ایسے کیسے ہو سکتا تھا وہ اسے یاد کرتا اور وہ نہ آتی؟ اس کے ریشمی لباس کی پھڑپھڑاہٹ واضح تھی۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ یونہی مٹھیاں بھینچے کھڑا رہا۔
”ولیم۔۔“ پھر سے پکارہ گیا۔ اس بار اُس نے آنکھیں کھول لیں۔ وہ بائیں جانب اُس کے بالکل قریب کھڑی تھی۔ بند دروازے سے ٹیک لگائے، اُسکی جانب رخ موڑے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ ولیم نے رخ موڑ کر دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی پر اُس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ واضح دیکھ سکتا تھا۔
”میں کہتی تھی نا محبت کرلو۔ دیکھو اب رہ گئے نا اکیلے۔“ وہ جتانے والے انداز میں بولی۔ لبوں پر تپانے والی مسکراہٹ تھی۔
”آئی ہیٹ یو نینسی۔“ لہجہ بھیگا تھا۔ وہ مسکرادی۔ بلونڈ بالوں والی نینسی اُسے اچھے سے جانتی تھی۔ وہ نینسی سے کبھی نفرت نہیں کر سکتا تھا۔
”کیا تم نے سُنا اس بار ہوائیں کیا سرگوشیاں کر رہی ہیں؟؟“ وہ یونہی اُسے دیکھتے ہوئے بولی۔ ولیم نے نفی میں سر ہلادیا۔
”یہ کہہ رہی ہیں ولیم جوزف تیار ہوجاؤ محبت اپنی جادوئی بگھی لیے تمہیں لینے آرہی ہے۔ محبت آرہی ہے ولیم۔ محبت تمہارے لیے آرہی ہے۔“ وہ نم آنکھوں سے مسکرادیا۔ چہرے پر استہزاہ تھا۔
”ایسا کبھی نہیں ہوگا۔“ وہ اُسے دیکھے گیا۔ ”میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔“ جتاتے ہوئے بولا گیا۔
”ولیم جوزف کو محبت ہوگی۔“
بحث جاری تھی۔ شان و شوکت سے کھڑے جوزف پیلس کی دوسری منزل پر دونوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ پیلس کے در و دیوار دم سادھے سن رہے تھے۔
”اُسے دیکھ کر تمہاری آنکھیں چمک اٹھیں گی۔“ وہ بضد تھی۔
”میں آنکھیں نکال دوں گا۔“ وہ ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔
”تم اُس کے لیے دل نکال کر ہتھیلی پر رکھ لو گے۔“ وہ باز آنے والوں میں سے نہیں تھی۔ اب وہ دروازے سے ہٹ گئی اور چلتے ہوئے اُس کے سامنے آئی۔
”میں اُسی دل میں خنجر گھونپ دوں گا پر محبت نہیں کروں گا۔“ وہ ڈٹا رہا۔ وہ مسکرا دی۔
”تم اُسے دیکھنا چاہو گے۔ تمہاری آنکھیں صرف اُس کے دیدار کو ترسیں گی۔“ وہ اب الٹے قدموں چلتی اُس سے دور ہونے لگی۔ نظریں ابھی تک ولیم پر تھیں۔
”میں آنکھیں پھوڑ لوں گا پر عشق کی نظر سے کسی کو نہیں دیکھوں گا۔“ وہ بھی دروازے سے ہٹ گیا۔
”تمہاری سماعت صرف اُسے سُنے گی۔“ وہ اب کھلکھلا کر ہنس دی۔ پھر ہونہی مشلعوں کے درمیان لمبی، لکڑی کے فرش والی، راہداری میں اُلٹے قدموں چلتی گئی۔
”میں بہرہ ہوجاؤں گا پر کسی کو سننے کی چاہ نہیں کروں گا۔“ وہ دھیرے دھیرے اُس کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ وہ اب گھوم رہی تھی۔ وہ یوں دلکشی سے گھومتی خوبصورت لگی۔ وہ کھلکھلا رہی تھی اور اس کی کھلکھلاہٹ گونجنے لگی۔
”تم اُسے ہر تصویر میں ڈھونڈو گے۔ تم اُسے ہر منظر میں پاؤ گے۔ وہ پہلی لڑکی ہوگی جسے تم اپنے کیمرہ میں قید کرو گے۔“
”میں سارے منظر بھلادوں گا۔ ساری تصویریں جلادوں گا۔ میں محبت نہیں کروں گا۔“ کتنا ڈھیٹ تھا وہ۔ اُسے محبت سے چڑ ہوگئی تھی۔ اسے مرد اور عورت کے اُس رشتے سے نفرت ہوگئی تھی جو سوئے اذیت کے کچھ نہیں دیتا۔
”ولیم جوزف محبت آرہی ہے اپنی جادوئی بگھی لیے۔ تیار ہوجاؤ۔ وہ تمہیں اُڑالے جائے گی۔“ وہ پوری قوت سے چلائی۔
”میں ہار نہیں مانوں گا۔ میں کھڑا رہوں گا۔“
”تم کھڑے نہیں رہ پاؤ گے۔ تم گھٹنے ٹیک دو گے۔ تم اُس کے سامنے جُھک جاؤ گے۔“ وہ راہدادی کے آخر میں پہنچ چکی تھی۔ یہاں سے دائیں اور بائیں جانب دو مزید راہداریوں میں بٹ رہی تھی اور درمیان میں بڑی سی کھڑکی تھی۔ کھڑکی کھلی تھی اور سفید پردے ہوا سے ہل رہے تھے۔ کھڑکی سے اندر آتی چاند کی نیلگوں روشنی میں وہ کھڑی تھی۔ وہ روشن تھی۔
”ولیم جوزف وہ تمہاری شروعات ہے۔ تم اُس سے بھاگ نہیں سکتے۔“ وہ شرارت سے کہتے بائیں جانب کی راہداری میں مڑ گئی۔ وہ تیزی سے بھاگا۔ جب تک وہ راہدای کے سرے پر پہنچا تو خاموشی چھا گئی۔ راہداری خالی تھی۔ مشعلیں روشن تھیں۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ وہ چلی گئی تھی اور ولیم بھاری دل لیے کھڑا رہ گیا۔
اسٹار لائٹ اسٹوڈیو رات کے اس پہر روشنیوں میں نہایا تھا۔ بڑی بڑی گلاس وال والا یہ اسٹوڈیو وسیع اور عریض رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے اندر کثیر سیٹ لگائے گئے جہاں روزانہ کی بنیاد پر کئی فوٹوشوٹ ہوتے، کئی کمرشلوں کی ریکارڈنگ کی جاتی اور کوئی نئے پراجیکٹس ڈسکس کیے جاتے تھے۔ آج بھی میٹنگ روم میں اسٹارلائٹ کی پوری ٹیم جمع تھی۔ نئی فلم کی کہانی تیار تھی۔ مسٹر جوزف پیٹرسن اس کے پروڈیوسر تھے۔ مسٹر البرٹ ڈائیکریٹر اور کئی مشہور فنکار وہاں موجود تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کو پروڈیوسر اور فلم کے مصنف اپنا اسکرپٹ لیے بیٹھے تھے۔
اسٹار لائٹ اسٹوڈیو کی پچھلی فلم کامیاب گئی تھی اور بار انکا ارادہ باکس آفس پر چھا جانے کا تھا۔
مسٹر جوزف تقریباً چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ انہوں نے یہ اتنی بڑی دنیا ایسے ہی نہیں بنا لی تھی۔ ان پر پروجیکٹ کی ابتدائی کاروائی سے لے کر فلم یا سیریز کی بجٹ کا انتظام کرنا ، ٹیم کی تشکیل، پروڈکشن کی نگرانی اور مارکیٹنگ جیسے کئی کام ان کے ذمے تھے۔
ٹیم کے ساتھ مل کر فلم کی کاسٹ بھی وہی فائنل کرتے تھے اور آج کی انکی یہ اہم میٹنگ کاسٹ کے لیے تھی۔ آج کاسٹ فائنل کی جانی تھی اور مرکزی کرداروں کے لیے ہیرو ہیروئن وہی لیے جاتے جو اس وقت پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے۔ جن کی ڈیمانڈ تھی۔ ہیرو فائنل کرلیا گیا تھا جبکہ ہیروئن کی منظوری ابھی باقی تھی۔
کمرے کے وسط میں رکھے گئے لمبے میز کے گرد دھری کرسیوں پر سب اہم افراد بیٹھے تھے۔ انتظار کیا رہا تھا جینیفر رابرٹ کا۔ وہ اس وقت کی نئی اداکارہ تھی جسے مسٹر جوزف نے لانچ کیا تھا۔ پچیس سالا جینیفر فی الوقت لائم لائٹ میں تھی۔ اس کی ڈیمانڈ تھی۔ پہلا فوٹو شوٹ اور پھر پہلی فلم اس نے اسٹارلائٹ سے ہی کی تھی۔
اور اب مسٹر جوزف نے اسے دوسری فلم کی پیشکش کی تھی۔ اسکرپٹ بھیج دیا گیا تھا جسے جینیفر نے پڑھ چکی تھی۔ وہ یہ فلم سائن کرنے کے لیے تیار تھی۔ منع ویسے بھی نہیں کر سکتی تھی کیونکہ مسٹر جوزف کو انکار مطلب پورے کریئر کو تباہ کرنا تھا لیکن یہ فلم سائن کرنے سے پہلے اُس کی چند شرائط تھیں اور انہی شرائط کو سننے کی غرض سے یہ میٹنگ رکھی گئی تھی۔
مسٹر جوزف نے ایک نظر کلائی پر بندھی قیمتی گھڑی پر ڈالی۔ اب تک اسے آجانا چاہیے تھا اور تبھی ان کی نظر گلاس وال سے نظر آتی راہداری پر پڑی۔
وہ آرہی تھی۔ سیاہ نرم گرم سا پیروں کو چھوتا ریشمی گاؤں پہنے، جو بالکل سادہ تھا اس پر کوئی کام نہیں تھا اور جس کا گلا آگے سے گہرا تھا، ڈیڑھ انچ کی ہیل والے نازک سے کورٹ شوز پہنے وہ بالوں کو نفاست سے ڈھیلی پونی میں قید کیے، قدم قدم چلتی اسی جانب آرہی تھی۔ ہاتھ میں نازک سا کلچ تھا۔ دروازہ کھول دیا گیا۔
”ہیلو گڈ ایوننگ۔۔“ کمرے میں داخل ہوتے وہ اک ادا سے مسکرائی۔ چند ایک نے اٹھ کر اسے سلامی پیش کی۔ جینیفر کا چہرہ چمک رہا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔ اس کے لیے کرسی کھینچ دی گئی اور پھر وہ ایک ادا سے بیٹھ گئی۔ پورا میٹنگ روم اس کی خوشبوؤں سے مہک اٹھا۔
وہ نظر نہ آنے والا میک اپ کیے ہوئے تھی۔ ہونٹوں پر لگا گلوز چمک رہا تھا۔
ابتدائی علیک سلیک کے بعد وہ سب مدعّے کی بات پر آئے۔
”میں نے سُنا ہے نئے پراجیکٹ کو لے کر آپ کی کچھ شرائط ہیں۔ کیا آپ انہیں واضح کریں گی؟“ نہایت دھیمے اور پروفیشنل لہجے میں پوچھا گیا۔ مسٹر جوزف اسی کی جانب متوجہ تھے۔ اُنکی بات سنتے ہوئے وہ ایک پل کو مسکرائی۔
”شرائط کی بجائے اگر آپ خواہش سمجھ لیں تو بہتر ہوگا۔“ چند اہم لوگوں کے درمیان وہ اپنی بات کھل کر کر سکتی تھی۔
”تو بتائیں مس جینی آپ کی کیا خواہش ہے؟و کیا چاہیے آپ کو؟“ کو پروڈیوسر نے پہلو بدل کر پوچھا۔ مسٹر جوزف میں جانچتی نگاہیں نینسی پر جمی تھیں اور آج وہ بھی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔ وقفے وقفے سے۔ اُنکے چہرے میں کسی کو تلاش کر رہی تھی۔ یوں بھی اُس کا مقصد یہی تھا۔
اس کا پورا نام جینیفر رابرٹ تھا لیکن شوبز انڈسٹری میں وہ جینی رابرٹ کے نام سے مشہور ہوچکی تھی۔ اب سب اسے یہی بلاتے تھے۔
”میں یہ فلم کرنے کے لیے تیار ہوں پر بدلے میں مجھے کچھ چاہیے۔“ وہ مسٹر جوزف کی جانب متوجہ تھی۔ جیسے وہی اس کی پوری خواہش پوری کر سکتے تھے۔
”ایسا کیا چاہیے آپ کو جو یوں آناً فاناً میٹنگ رکھی گئی۔۔؟“ کو پروڈیوسر نے استفسار کیا
”مجھے ولیم جوزف چاہیے۔“ ہاں یوں جیسے وہ مل ہی جاتا۔
اُسکے کہنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ پل بھر کو سب ساکت ہوئے۔ اس کی نظریں مسٹر جوزف پر جمی تھیں جو چند پل کے لیے سن رہ گئے تھے۔ آنکھوں میں حیرانی اور بےیقینی بروقت اُبھری۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھے گئے۔ جہاں مسٹر جوزف کی آنکھوں میں حیرانی تھی وہی جینی کی نظریں عجیب الوہی چمک لئے ہوئے تھیں۔
”ولیم جوزف؟؟“ سرگوشیاں پھیل گئیں۔ سب اب رخ موڑے کنکھیوں سے مسٹر جوزف کو دیکھنے لگے جو میز پر دونوں بازو رکھے، ہتھیلیوں کو آپس میں جوڑے ان پر ٹھوڑی جمائے بیٹھے تھے۔ اُن کی آنکھوں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں اور وہ جانچتی نگاہوں سے جینی کو دیکھتے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ولیم اِس سب میں کہاں سے آیا تھا؟
کوئی کچھ نہ بولا۔ سب مسٹر جوزف کے بولنے کا انتظار کرنے لگے۔ جینی نے ایک مسکراہٹ اُچھالی اور پیچھے ہو کر کرسی سے پشت ٹکادی۔ ٹانگ پر ٹانگ جمائے وہ نفاست سے بیٹھی تھی۔
وہ ولیم کو کیسے جانتی تھی یہ جاننے کے لیے ہمیں ماضی کے پنوں کو کھنگالنا پڑے گا۔ ایڈنبرا میں چلتی ٹھندی ہوا نے وقت کے پنّے تیزی سے پیچھے پلٹے۔ایک پھڑپھڑاہٹ سی ابھری اور وقت تیزی سے پیچھے بھاگا۔
یہ اس دن کی بات تھی جب مسٹر جوزف نے ولیم کے اکاؤنٹ فریز کروا دیئے تھے اور وہ اُن سے ملنے اسٹوڈیو آیا تھا۔ واپسی پر اُس کی جس لڑکی سے ٹکر ہوئی تھی وہ جینی ہی تھی جسے ولیم نے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ اُس روز وہ اُسے پہچان گئی تھی۔ یہ سالوں بعد پہلی ملاقات تھی۔ کتھئی آنکھوں والا ولیم اُسے یاد تھا۔ ہمیشہ سے۔
پر کیوں؟ یہ راز تم آگے جان پاؤ گے۔
اور پھر چند روز پہلے جینی کی ایڈنبرا میں کانفرنس تھی۔
پہلی فلم کی کامیابی کے بعد وہ چاروں جانب چھائی تھی۔ ہر پوسٹر پر اُسکی تصویر تھی۔ وہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا جا رہا تھا اور اُس روز وہ کانفرنس میں تھی۔
بڑے سے ہال میں اسٹیج پر رکھے میز کے پیچھے بیٹھی جینی بڑی خوشگواریت سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ وہ تروتازہ دکھ رہی تھی۔ کریم رنگ کی چست سی اسکرٹ پر ہم رنگ بلاؤز پہنے وہ بالکل ویسے ہی بیٹھی جیسے اداکار بیٹھا کرتے ہیں۔
اس کے گارڈز آس پاس کھڑے تھے۔ کئی مائیک اس وقت میز پر سجے رکھے تھے۔ ہال میں ترتیب سے رکھی گئی کرسیوں پر بیٹھی عوام اُسے دل تھامے سن رہی تھی۔ عوام میں سے باری باری ہاتھ کھڑا کیا جاتا اور پھر سوال پوچھا جاتا۔ جسے جینی پوری توجہ سے سنتی اور پھر مُسکرا کر ایک ادا سے جواب دیا جاتا۔ آدھے جھوٹ آدھے سچ، کچھ بناوٹی تو کچھ توجہ کھینچنے کے لیے۔ اس کی پرومشنل ٹیم اسے یہی سکھاتی تھی۔
کیمرہ کی فلیش لائٹ بار بار چمک رہی تھی۔ ایسے میں عوام میں سے ایک سوال داغا گیا۔
”مس جینیفر رابرٹ کیا آپ سنگل ہیں؟؟“
سوال ایسا تھا کہ وہ سن کر مسکرا دی اور دبی دبی سی ہنسی پورے ہال میں گونج گئی۔ سب جواب سننا چاہتے تھے۔
”ہاں ابھی تو سنگل ہوں۔“ مسکرا کر جواب دیا گیا۔
”آپ اپنا لائف پارٹنر کیسا چاہتی ہیں؟ وہ کیسا ہوگا جو جینی رابرٹ کو پسند آئے گا؟“ اڑتا اڑتا ایک اور سوال ابھرا۔ جینی نے سوال سنا اور پھر چند لمحوں کی خاموشی چھاگئی۔ عقب میں بنی گلاس وال سے ڈوبتے سورج کی سنہری کرنیں چھن کر اندر آرہی تھیں۔ وہ جینی کی پشت سے ٹکراتی اور پلٹ جاتیں۔ اس کے کانوں میں چمکتے ننھے آویزے سورج کی سنہری کرنوں میں مزید دمکنے لگتے۔ یوں لگنے لگتا جیسے ساری روشنی جینی رابرٹ کے چہرے سے پھوٹ رہی ہو۔ اِس سوال پر کئی دلکش رنگ اُس کے چہرے پر آکر گزر گئے۔
”وہ جو نہیں جانتا کہ جینی رابرٹ کون ہے۔“ دلکش انداز میں گول مول سا جواب دیا گیا۔ ہال میں سرگوشیاں پھیل گئیں۔
یہ کیسا جواب ہوا بھلا؟ وہ اب اسٹیج سے اتر رہی تھی۔ کمیرے ابھی بھی اسے ہر زاویے سے قید کر رہے تھے۔ رپورٹر کھڑے ہوگئے اور اُس کے گارڈز نے آگے پیچھے اُسے گھیر لیا۔ تبھی ہال کا دروازہ کھلا۔ کوئی اندر داخل ہوا۔ رپورٹرز مزید جاننے کو بےتاب تھے وہ ابھی تک ”جینی میم جینی میم“ کی صدائیں بلند کرتے مزید سوال پوچھے جا رہے تھے۔
جینی کی نظر اچانک اٹھی اور پھر ٹھہر گئی۔ وہ اُسے پہچان گئی تھی۔ سر پر کالی ٹوپی اوڑھے اور جدید ہیڈ فون کانوں پر جمائے وہ موبائل پکڑے اندر داخل ہوا۔ اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ وہ کافی مصروف نظر آتا تھا۔ جینی اب دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی جبکہ نظریں ولیم پر ہی جمی تھیں۔ مہینوں پہلے وہ اس سے اسٹار لائٹ اسٹوڈیو میں ٹکرائی تھی۔ اس بےمروت شخص نے تب بھی مڑ کر نہیں دیکھا تھا اور اِس پل وہ تیزی سے اُس کے قریب آرہا تھا۔ وہ ہولے ہولے بڑا بڑا رہا تھا شاید فون پر دوسری جانب کوئی تھا جس سے وہ بات کر رہا تھا۔
”ٹھیک ہے میں پہنچ جاؤں گا۔“ وہ ہوا کے جھونکے کی مانند قریب سے گزر گیا۔ جینی نے اپنے دل کو پل بھر کو ساکت ہوتا محسوس کیا۔ وہ تیز تیز چلتا اب دائیں جانب لگے دروازے سے اندر سے داخل ہوگیا۔ شاید کسی کام کی غرض سے آیا ہوگا۔
جینی نے اپنے چہرے سے آگ نکلتی محسوس کی۔ چہرہ سرخ پڑ گیا۔ کئی کیمروں میں یہ منظر ریکارڈ ہوچکا تھا۔
کیا وہ جینی رابرٹ کو نہیں جانتا؟
کیا وہ موویز نہیں دیکھتا؟
کیا وہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتا؟
جوزف پیٹرسن کا بیٹا ہو کر وہ جینی رابرٹ کو کیسے نہیں جانتا؟
کئی سوال دماغ میں کھلبلانے لگے۔ وہ اپنے گرد اٹھتے ہجوم کے شور میں تیز تیز چلتی باہر کھڑی لمبی چمچماتی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
کیا وہ ولیم جوزف کو یاد نہیں تھی؟
اگر نہیں تو پھر وہ اُسے کیوں یاد رہ گیا تھا؟
اس نے گاڑی میں بیٹھتے سیٹ سے پشت ٹکالی اور آنکھیں موند لیں۔ اتنا لمبا سفر طے کیا تھا اُس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے۔ ولیم جوزف کے برابر آنے کے لئے بلکہ وہ اس سے کئی زینے آگے تھی پھر بھی وہ اُسے نہیں جانتا تھا۔ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔
لوگوں کے جھرمٹ کو چیرتی گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔
جبکہ جینی رابرٹ ماضی کے بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگی۔ کچھ یادیں تھیں ہاں وہ یادیں جو عنکبوت کی طرح ہمیں جکڑ لیتی تھیں اور پھر کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔
وہ موریفیلڈ میں رہنے والے کسان کی بیٹی تھی۔ اُس کے آباؤ اجداد کا صدیوں سے یہی پیشہ رہا تھا۔ موریفیلڈ اسے بےکار لگتا تھا لیکن اس کی توجہ کا مرکز پورے موریفیلڈ میں صرف جوزف پیلس تھا۔ اسے بچپن سے ہی جوزف پیلس پسند تھا۔ وہ بالکل کہانیوں میں بیان کیے جانے والے محل جیسا تھا اور اُس کے مکینوں کی زندگی بھی ویسی ہی تھی۔
وہ دور سے جوزف پیلس کو دیکھتی اور اندر جانے کی خواہش کرتی پر اندر اجنبیوں کا داخلہ منع تھا۔ ملازم اُسے پیلس کے احاطے میں بھی داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔
وہ پیلس میں رہنے والے چاروں بچوں سے واقف تھی۔ صبح صبح لمبی گاڑی انہیں سکول لے کر جاتی۔ گارڈز انکے پیچھے ہوتے۔ اسے یہ زندگی بالکل ویسی ہی لگتی تھی جیسی وہ کہانیوں میں پڑھتی تھی۔ وہ اکثر اپنی ماں سے شکایت کرتی کہ اُسے یہ زندگی کیوں نہیں ملی۔ حالانکہ وہ ماں باپ کی اکلوتی تھی۔ اسکے والدین کے پاس سب کچھ تھا پر جوزف پیلس نہیں تھا وہ اسے اچھا کھلاتے تھے اچھا پہناتے تھے پھر بھی ایک کسک تھی جو جان نہیں چھوڑتی تھی۔
اور یہ انسانی فطرت ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتا اس کی تمنا میں اس کی چاہت میں گھٹتا رہتا ہے۔
جینی کا دل کرتا تھا وہ پیلس میں رہنے والے چاروں بچوں کے ساتھ کھیلے پر اسے یہ موقع کبھی نہیں ملا۔ صرف ایک چرچ تھا جہاں وہ انہیں قریب سے دیکھ پاتی تھی اور اس کی توجہ کا مرکز ہمیشہ ولیم اور نینسی رہے تھے۔ وہ دونوں ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ ایک سیاہ عورت انہیں چرچ لاتی اور پھر لے جاتی۔
ایک روز اس نے ولیم کو اکیلے دیکھا وہ چرچ کے باہر بنے سنگی بینچ پر بیٹھا تھا اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی اور وہ اس پر جُھکا ہوا تھا۔ اس وقت وہ تیرہ سال کی تھی اور ولیم بارہ کا۔
آج نینسی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ نینی چرچ کے اندر ہی تھی۔ وہ ہمت کرکے ولیم تک پہنچی اور ذرا سا جھک کر ولیم کو دیکھا جو کتاب پر جھکا ہوا تھا اس کے ہاتھ میں ایک پینسل تھی اور وہ کتاب کی لائنوں کو ہائی لائٹ کر رہا تھا۔ وہ اب کچھ لکھ رہا تھا۔ اس کی کتاب پر رنگ برنگی کئی لائنیں تھیں۔ صحیح معنوں میں کتاب سترنگی لگ رہی تھی۔
”کیا یہ بائبل ہے؟؟“ آواز پر ولیم نے سر اٹھایا اور اپنے سامنے کھڑی جینی کو دیکھا۔
”ہاں۔۔“ یک لفظی جواب دے کر وہ دوبارہ جھک گیا۔
”کیا تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟؟“ وہ اُس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
”ہاں۔۔“ وہ شاید کم بولتا تھا۔
” آج وہ بلونڈ بالوں والی لڑکی نہیں آئی؟“ وہ نینسی کا پوچھ رہی تھی۔
”نینسی کو بخار ہے۔ وہ نہیں آ پائی۔“ وہ یونہی جھکے جھکے بولا۔ قیمتی لباس والے ولیم جوزف سے بات کرنا اُسے اچھا لگا۔
”کیا تم خدا کو نہیں مانتی؟؟“ ولیم نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔ بائبل بند کردی۔ اس عمر میں اس کے بہت سوال ہوتے تھے اور نینی پوری توجہ سے جواب دینے کی کوشش کرتیں۔
”میں نے اُسے کبھی نہیں دیکھا۔“ جینی نے کندھے اچکا دیے۔ اُس کی نگاہیں یہاں سے نظر آتے جوزف پیلس کے منار پر جمی تھیں۔
”نینی کہتی ہیں وہ نظر نہیں آتا وہ ساتھ رہتا ہے۔“ ولیم نے سمجھداری سے جواب دیا۔
”وہ ساتھ کیوں رہتا ہے؟؟“ جینی کی نیلی آنکھوں میں جوزف پیلس کا عکس واضح تھا۔ وہ سر اٹھائے ہوئے تھی۔
”کیونکہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے۔“ فوراً سے جواب حاضر ہوا۔
”لیکن وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔“ اُس کی نیلی آنکھوں میں اب پیلس کے عکس کے ساتھ ساتھ دکھ عود آیا۔
”تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟“ وہ اُسے دیکھنے لگا جو جانے کہاں کھوئی تھی۔ وہ بندکیوں والی پرانی سی فراک پہنے ہوئے تھی۔ پنڈلیوں تک آتی فراک جس کے بازو کہنی سے ذرا اوپر آتے تھے۔ جینی کی سرخ و سپید رنگت واضح تھی۔ بھورے بال چٹیا میں کھینچ کر باندھے گئے تھے اور اس کے چہرے پر، ناک اور گالوں کے مقام پر، بھورے تل تھے جو اُسے مزید خوبصورت بنا رہے تھے۔
”اگر وہ مجھ سے پیار کرتا تو مجھے بھی جوزف پیلس میں پیدا کرتا۔“
ولیم بل پھر کو ساکت ہوا۔ وہ جینی کو دیکھے گیا جو اب سر جھکائے اپنی آنکھوں میں اُبھرنے والے کرب کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اُسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب وہ پیلس کے احاطے کے باہر کھڑی پیلس کو حسرت سے دیکھ رہی تھی اور تبھی مسٹر جوزف کی گاڑی پیلس سے باہر نکلی۔ اس نے جینی کو کھڑے دیکھا تو گاڑی روک کر ملازم سے کہا۔
”مجھے یہ لڑکی دوبارہ نظر نہ آئے۔“ وہ وہاں تقریباً روز کھڑی ہوتی تھی اور مسٹر جوزف کو یہ اچھا نہیں لگتا تھا اور یوں جینی سے پیلس کو دیکھنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔
”تم وہیں رہتے ہو نا؟ دیکھو وہ تم سے پیار کرتا ہے مجھ سے کرتا ہوتا تو میں بھی وہیں رہتی۔“ وہ سر جھکائے شکوہ کر رہی تھی۔ ولیم لب بھینچے بیٹھا رہا۔ سمجھ نہ آیا کیا بولے۔
”تمہیں جوزف پیلس پسند ہے؟“ کئی لمحوں کی خاموشی کو ولیم نے ہی توڑا۔ وہ کچھ نہ بولی۔
”تم کل آنا میں تمہیں پورس پیلس گھماؤں گا۔“ وہ پرجوش سا بولا۔
”میں ضرور آؤں گی پر ابھی نہیں جب میں بڑی ہو جاؤں گی۔“ وہ سر اٹھا کر ولیم کی جانب دیکھتے مسکرائی۔ اس کے عقب میں کھڑے سرمئی چرچ کے منار نے مہر ثبت کی۔
✿••✿••✿••✿
Post Views: 542