William Wali Episode 05 Part 02

Writer Noor Rajput

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

“William Wali” unfolds the story of a rebellious girl driven by passion,

battling for love, faith, and justice.

A gripping tale of revenge, unveiling the harsh truths of society,

with a bold protagonist who defies norms.

Packed with thrilling twists, buried secrets from the past,

enigmatic characters, and a captivating connection to a foreign man,

this story promises an unforgettable journey through mystery, suspense, and raw emotions.

Episode 05 Part 02

”پلیز افق میں تمہیں ایسے نہیں دیکھ سکتا۔“ وہ سینے سے اس کا سر لگائے ہولے ہولے تھپک رہا تھا۔ افق کی حالت جوزف کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ وہ اسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”مجھے لگتا ہے ابا نے مجھے بددعا دی ہوگی جوزف۔ اسی لیے یہ سب ہورہا ہے۔“ کئی دنوں سے اسے اورنگزیب کا خیال ستا رہا تھا۔ اسے اب لگنے لگا تھا اسکی یہ حالت اسکے یہ خواب اس کے گناہوں کی وجہ سے تھے۔
”ایسا کچھ نہیں ہے۔“ وہ خود پر قابو پاتے بولا۔
”ایسا ہی ہے جوزف ایسا ہی ہے۔“ اس کے سینے سے سر اٹھا لیا اور پھر اس ب ہی تھا وہ اپنے ہاتھ کو زخمی کر لیتی۔
”افق ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم نے باتوں کو سر پر سوار کرلیا ہے۔“ جوزف نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھونا چاہا پر وہ بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کا وجود کن آندھیوں کی زد میں تھا یہ جوزف سمجھنے سے قاصر تھا پر اس کی اِس حرکت پر جوزف ساکت ہوگیا تھا۔
”ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی ہے۔ یہ میرے گناہ ہیں یہ مجھے کھا جائیں گے جوزف۔“وہ سر اٹھاتے ہیجانی انداز میں چلائی۔ جوزف کو وہ حواسوں میں نہیں لگی۔
”گناہ کھا جاتے ہیں۔ گناہ نہیں چھوڑتے۔ جوزف گناہ کھا جاتے ہیں۔“ اس نے گھٹنوکے پہلو سے اٹھ کر، اس سے دور ہو کر سامنے بیٹھ گئی۔ جوزف نے اس کی حرکت کو محسوس کیا پر کہا کچھ نہیں۔ وہ سننا چاہتا تھا جو افو کے ذہن میں چل رہا تھا۔
”ابا کہتے تھے ہمارے گناہ سانپ جیسے ہوتے ہیں۔ پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک ان کی معافی نہ مل جائے۔۔۔“
وہ دائیں ہاتھ کے ناخنوں سے باہنے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت رگڑ رہی تھی۔ قریں کو سینے تک لےجانے کی کوشش کی۔بازوؤں کو لپیٹ لیا۔ وہ اب رو رہی تھی۔
”افق۔۔۔“ جوزف تڑپ کر اس کی جانب بڑھا۔
”پلیز نہیں۔ مجھے مت چھوئیں۔ جائیں یہاں سے۔“
وہ اس سے دور بھاگ رہی تھی۔ شاید اس کے دماغ نے تانے بانے بن لیے۔ اس نے اللّٰہ کے حکم کے خلاف جا کر یہ شادی کی تھی۔ اس نے گناہوں کو چُن لیا تھا۔ پھر سکون کہاں سے آتا؟ جوزف جبڑے بھینچے کئی لمحے اسے صدمے سے دیکھتا رہا۔ وہ اب بیڈ پر گر گئی۔ وہ اب سسک رہی تھی۔
”چلے جائیں پلیز۔۔“ وہ جانتی تھی جوزف وہیں کھڑا تھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی اس وقت وہ کن احساسات سے گزر رہا ہوگا پر وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔
”میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتا افق“ وہ اس کی جانب جُھکا وہ اسے اپنی آغوش میں لینا چاہتا تھا۔
”مجھے مت چھوئیں ورنہ میں مرجاؤں گی۔“ افق کی جانب بڑھتا اس کا ہاتھ وہیں رک گیا۔ وہ تڑپ رہی تھی اور جوزف کو اس پل احساس ہوا کہ وہ اس کی ہو کر بھی اس کی نہیں تھی۔ وہ اس سے بہت دور جا چکی تھی اور کبھی کبھی محبتیں پا لینے کے بعد بھی ہم بس خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں۔ ہمارے حصے میں کچھ نہیں آتا۔
✿••✿••✿••✿
سپروائزر کے آفس میں اس وقت فجر اور صفدر دونوں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ بیچ میں رکھا گول میز اور اس کی دوسری جانب رکھا وہ قیمتی ڈبل سیٹر صوفہ تھا جس پر اس وقت دو سپروائزر بیٹھے تھے۔ ایک میڈم رشنا اور دوسرے سر واصف۔ دونوں اس وقت سنجیدہ تھے۔ میڈم رشنا چھوٹے بالوں والی ایک ماڈرن اور خوبصورت عورت تھیں۔ وہ ڈیپارٹمنٹ میں اپنی شخصیت اور اپنے فیشن کے طرز کی بنا پر سب کی پسندیدہ تھیں جبکہ ان کے برعکس سر واصف تھوڑے سنجیدہ اور سخت مزاج تھے وہ اسٹوڈنٹس کی پرفارمنس پر زیادہ فوکس کرتے تھے۔
آج انکے پروجیکٹ کی منظوری دی جانی تھی۔ فجر نے کچھ دیر پہلے اپنا آئیڈیا انکے سامنے رکھ دیا تھا۔
”ایک برائیڈل گاؤن؟ سیریسلی؟ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی فجر“ سرمئی رنگ کے ڈریس پینٹ میں ملبوس سر واصف نے افسردگی سے کہا جبکہ میڈم رشنا کی جانچتی نگاہیں فجر کو ہی دیکھ رہی تھیں۔ انہیں آج وہ پہلی بار اتنے رف حلیے میں نظر آئی تھی۔ ورنہ وہ تو بڑی نفاست پسند اور کمپوز لڑکی تھی۔ اس کی ڈریسنگ سینس اچھی تھی۔ اسے پتا تھا سادگی میں ماڈرن کیسے دکھنا تھا۔ اسی لیے وہ میڈم رشنا کو پسند تھی۔ میڈم رشنا کے بھورے چھوٹے بال بمشکل کانوں تک آتے تھے۔ اس وقت وہ ایک چست سی اسکرٹ پر لمبے گھٹنوں تک آتے گرم ٹاپ پہنے ہوئے تھیں جس کا رنگ سترنگی تھا۔ انکی عینک سر پر جمی تھی اور کانوں میں چمکتے ننھے آویزے انہیں حسین بنا رہے تھے۔
”یہ عام ڈریس نہیں ہوگا سر! یہ بہت خاص اور منفرد ہوگا۔ آپ کو ہمیں ایک موقع دینا چاہیے۔“ جوڑے میں بندھے بالوں سے چند لٹیں پھسل کر نکل گئی تھیں اور اب چہرے کے دونوں جانب جھول رہی تھیں۔ میڈم رشنا اسے دیکھے گئی۔ انہیں فجر کا پراعتماد ہونا پسند تھا۔ اسکی اٹھی ہوئی گردن اسے ممتاز بناتی تھی۔ وہ اپنی غلطی پر نظریں جھکا لیتی تھی پر گردن کبھی نہیں جھکتی تھی۔ میڈم رشنا جانتی تھی فجر میں بہت پوٹینشل تھا۔ وہ بہت آگے جا سکتی تھی۔
”پورے ہفتہ غائب رہ کر تم ایک برائیڈل ڈریس کا آئیڈیا لے کر آئی ہو؟؟ مجھے تم سے کسی دھماکے دار آئیڈیے کی امید تھی۔“ وہ ابھی بھی مایوس نظر آرہے تھے۔
”وہ سر دراصل فجر کے فادر کی ڈیتھ ہوگئی تھی۔“ صفدر نے صفائی پیش کرتے بات ادھوری چھوڑ گئی۔ سر واصف کے ہونٹ اوہ میں سکڑ گئے جبکہ میڈم رشنا نے بےچینی سے پہلو بدلا۔
” مجھے لگتا ہے ہمیں فجر کو ایک موقع دینا چاہیے۔“ میڈم رشنا کی آواز ابھری۔ فجر نے نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
”ایم سوری فار یور لوس (میں تمہارے نقصان کے لیے معذرت خواہ ہوں) لیکن میں تمہارا آئیڈیا سننا پسند کروں گی۔ کچھ تیار کیا ہے؟؟“ انکی بات پر فجر کی آنکھیں چمک اٹھیں اور صفدر تو بشاشت سے کھل اٹھا۔ اس نے فٹا فٹ فائل سے وہ چند اسکیچز نکالے جو فجر نے ڈیزائن کیے تھے اور پھر اٹھ کر میڈم رشنا کو پکڑائے۔
”خوب۔۔“ پہلا ڈیزائن دیکھتے ہی میڈم رشنا کی آنکھیں چمک اٹھیں جبکہ سر واصف بھی کسی حد تک اب متفق نظر آرہے تھے۔ کچھ دیر تک وہ سارے ڈیزائن دیکھ چکے تھے جبکہ فجر اب میز کے دوسری جانب کھڑی انہیں اپنا ڈیزائن سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس کے خوبصورت ہاتھ بات کرتے وقت ایک خاص انداز میں ہلتے تھے۔ آدھی باتیں تو وہی سمجھا دیتے تھے۔ وہ اپنے آئیڈیاز کو بہت وضاحت سے بیان کرتی تھی۔
اب وہ اپنے ہاتھ سے اپنی داہنی آنکھ کے گرد گول دائرہ بنا رہی تھی اور پھر اس نے گردن کے باہنے جانب کندھے کے قریب انگلی رکھی۔ اس کی شال کندھوں پر بکھری ہوئی تھی۔ اسکے سلکی بال جوڑے سے نکلنے کو بےتاب تھے۔ میڈم رشنا کی نظریں رشک سے اسے تک رہی تھیں جیسے جیسے وہ بیان کرتی جارہی تھی میڈم رشنا کی آنکھوں کی چمک بڑھتی گئی۔ مستقبل کی ایک عظیم کاسٹیوم ڈیزائنر اُنکے سامنے کھڑی تھی۔ بس اُسے تھوڑا تراشنے کی ضرورت تھی۔
✿••✿••✿••✿
جوزف پیلس میں منعقد ہونے والی کرسمس پارٹی کے بعد بہت کچھ بدل گیا تھا۔ اس رات مسٹر جوزف کے ساتھ لی گئی ولیم کی تصوریں ہر جگہ وائرل تھیں۔ وہ اور جارج لائم لائٹ میں تھے پر ولیم پر زیادہ فوکس کیا جارہا تھا۔
”تم جوزف پیٹرسن کے بیٹے ہو تم نے کبھی بتایا نہیں؟“ ڈیپارٹمنٹ میں اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا۔ کئی حسد کی ہوتیں تو کئی رشک کی اور یہی سب ولیم نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس زندگی سے دور بھاگتا تھا جہاں کیمرہ ہر وقت اس کے سر پر منڈلاتا رہتا۔ وہ خبروں کی زینت نہیں بننا چاہتا تھا۔
”تمہیں کیا ضرورت ہے رگبی کھیلنے کی؟ باپ کی طرح شوبز میں نام بناؤ۔“ آج دھوپ نکلی تھی اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ پریکٹس کر رہا تھا۔ مخالف ٹیم تو مخالف تھی ہی پر اس کی اپنی ٹیم میں بھی کئی لڑکے اس کی شاندار پرفارمننس کی وجہ سے خار کھانے لگے تھے۔
”ویسے تم نینشل ٹیم میں منتخب نہ ہوئے تو کیا شوبز جوائن کرو گے؟؟“ سب آتے جاتے اس پر جملے کس رہے تھے۔
نیل سب دیکھ رہا تھا جبکہ ولیم کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔ چہرہ سرخ پڑگیا تھا۔ وہ بال ہاتھ میں پکڑے سیٹی بجتے ہی مخالف سمت میں بھاگنے لگا پر ذہن بھٹک چکا تھا۔
پہلے نینسی نے اسے مشکل میں ڈالے رکھا اور اب یہ چرچہ تھا کہ وہ جوزف پیٹرسن کا بیٹا تھا۔ ایک کامیاب پروڈیوسر کا بیٹا۔ اس وقت بھی اسکا ذہن بھٹکا اور مخالف ٹیم کی ٹکر پر وہ دھڑام سے نیچے گرا۔ مخالف ٹیم کے لوگ اسکے اوپر گرگئے۔ وہ اسے اٹھنے نہیں دے سکتے تھے۔ اس بار ولیم نے بھی اٹھنے کی یا آگے بڑھنے کی مزاحمت چھوڑ دی۔ سانس بری طرح پھولا تھا اور ذہن انتشار کا شکار تھا۔
جن ٹمٹماتی روشنیوں والی زندگی کی وجہ سے وہ سب اس سے حسد کر رہے تھے وہ نہیں جانتے تھے ان ٹمٹماتی روشنیوں کے پیچھے کس قدر اندھیرا تھا۔ کتنا اکیلا پن تھا۔
”اس کے باپ کے پاس بہت پیسہ ہے۔ رگبی کی نیشل ٹیم میں اسے پیسہ کی بنا پر جگہ مل ہی جائے گی۔“ مخالف ٹیم کے کیپٹن نے اس کے اوپر سے اٹھتے نخوت سے کہا۔ وہ سب چلے گئے جبکہ ولیم یونہی چت لیٹا رہا۔ وہ اب آنکھیں بند کیے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
سردیوں کی شدت میں کمی آرہی تھی۔ نینسی نے احمد سے تعلق ختم کرلیا تھا۔ اس نے لندن سے ایڈنبرا یونیورسٹی میں مائیگریشن کروا لی تھی اور اب وہ ولیم کی ہی یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ اس واقعے کو تین مہینے گزر چکے تھے۔ آہستہ آہستہ سب نارمل ہو رہا تھا۔ نینسی پہلے سے بدل گئی تھی شاید وہ محبت جیسے حادثے کے بعد زیادہ سممجھدار ہوگئی تھی۔ محبت تو پھر بدل ہی دیتی ہے۔ وہ اب سنجیدہ رہنے لگی تھی۔
مسٹر جوزف کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا تھا کیونکہ انکا کوئی معاہدہ ابھی ہوا ہی نہیں تھا بس ایک گہری خاموشی اور سرد پن تھا جو جوزف پیلس میں اتر آیا تھا۔
”تم ٹھیک ہو؟“ نیل نے اس پر جھکتے ہاتھ بڑھایا۔
”ٹھیک ہوں۔۔“ وہ اس کا ہاتھ پکڑتے اٹھ کھڑا ہوا۔
”تم پریشان ہو؟؟“
”نہیں۔۔“ ولیم نے دونوں ہاتھوں سے بالوں کو پیچھے سیٹ کرتے نارمل لہجے میں جواب دیا۔
”ایک نہ ایک دن تو سب کو پتا چلنا ہی تھا۔ یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتیں۔“ نیل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”ہاں میں جانتا ہوں۔“ وہ دونوں اب چلتے ہوئے گراؤنڈ سے باہر نکل آئے تھے۔
”مجھے بھوک لگی ہے کہیں لنچ کرنے چلیں۔۔؟؟“ نیل اسکا ذہن بھٹکانا چاہتا تھا۔
”بل کون دے گا؟؟“ وہ اب چینجنگ روم کی طرح جارہے تھے جہاں انکے بیگ رکھے تھے تاکہ یہ یونیفارم بدل سکیں۔
”آفکورس تم! جوزف پیٹرسن تمہارا باپ ہے میرا نہیں۔“
نیل نے اپنے لاکر سے بیگ نکالتے کہا۔ چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ تھی۔
”میرے باپ کی دولت میرے اکاؤنٹ میں نہیں ہے۔“ ولیم اسی کے انداز میں بولا۔ وہ اپنے لاکر سے فون نکالے اب نینسی کا نمبر ملا رہا تھا تاکہ اس سے پوچھ کر اسے ساتھ لے جاسکے لیکن اسے حیرانی ہوئی۔ نینسی کا نمبر بند جا رہا تھا۔ اس نے گہرا سانس لیتے فون واپس رکھا اور اپنے کپڑے اٹھاتے باتھروم میں گھس گیا۔ تقریبا دس منٹ بعد وہ دونوں ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر ولیم کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ولیم کو حال ہی میں اپنی بائیسویں سالگرہ پر یہ گاڑی ملی تھی بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اس نے منہ پھاڑ کر مانگی تھی۔
”تم دونوں کو اس بار کیا گفٹ چاہیے؟؟“ مسٹر جوزف نے انکی سالگرہ سے دو دن پہلے پوچھا تھا یہ پہلی بار تھا کیونکہ بچے اب بڑے ہوگئے تھے اس لیے مسٹر جوزف نے پوچھ لیا۔ کھانے کی میز پر بیٹھے سبھی افراد حیران ہوئے تھے۔
”مجھے کچھ نہیں چاہیے انکل“ نینسی نے مسکرا کر انکار کردیا۔ وہ پہلے کی سب کو بہت تنگ کر چکی تھی اور حالیہ اس کی مائیگریشن ہوئی تھی وہ انہیں مزید تنگ نہیں کرنا چاہتی تھی۔
”اور تمہیں؟؟“ مسٹر جوزف نے سکون سے کھانے کھاتے ولیم کو دیکھا۔
“Honda Civic RS e:HEV”
منہ پھاڑ کر کہتے ولیم نے مسٹر جوزف کو ساکت کردیا۔ یقیناً وہ پوچھ کر پچھتائے ہوں گے۔ نینسی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”واقعی؟“ مسٹر جوزف جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ کیا وہ سنجیدہ تھا؟
”آپ نے پوچھا میں نے بتادیا۔ اگر آپ نہیں افورڈ کر سکتے تو اٹس اوکے۔“ وہ سکون سے کہتے انہیں سلگا دیتا تھا اور پھر اگلی صبح جوزف پیلس کے باہر چمچماتی گاڑی کھڑی تھی۔
”تم منہ پھٹ ہوگئے ہو ولیم۔“ اسکی پہلی ڈرائیو میں نینسی اس کے ساتھ تھی۔
”وہ نہ پوچھتے تو میں نہ مانگتا انہوں نے خود کلہاڑی پر پاؤں مارا ہے۔ اس میں میری غلطی نہیں ہے۔“
”میں دیکھ رہی ہوں تم انکل کو بہت تنگ کرنے لگے ہو۔“
”یوں کہو کہ زندگی کا مزہ لینے لگا ہوں۔“ گاڑی اسٹارٹ کرتے اس نے نینسی کو دیکھا۔ آنکھوں میں شرارت ہی شرارت تھی جبکہ نینسی اسے گھور کر رہ گئی۔ پہلی گاڑی کا نام اس نے سینوریٹا رکھا تھا۔
اور نیل کو اسکی یہ سینوریٹا بہت پسند آئی تھی۔ ولیم کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا تھا اور اس وقت بھی وہ ولیم کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا اور سینوریٹا اپنی پوری تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں ڈیفالٹ پیس بن گیا تھا اور اس کا پہلا مقصد مسٹر جوزف کو سلگانا ہوتا تھا۔
✿••✿••✿••✿
اس رات نینسی رات کے کھانے پر نیچے نہیں آئی۔ اس کی طبیعت خراب تھی۔ یہ سنتے ہی ولیم اوپر کی جانب بھاگا وہ اس کے کمرے میں پہنچا تو نینسی تکیے میں منہ دیے اوندھی لیٹی تھی۔
”نینسی تم ٹھیک ہو؟؟“ وہ اسے پکارتے بولا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔
”نینسی۔۔“ اس نے آگے بڑھ کر تکیہ کھینچ لیا۔
”ولیم جاؤ یہاں سے۔ تنگ مت کرو۔“ نینسی نے پہلی بار ایسا کچھ کہا تھا۔ ولیم چونک گیا۔
”کیا مطلب ہے تنگ نہ کروں؟ مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟“
اس نے تکیہ نینسی کے سر پر مارا۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اس کا چہرہ دیکھ کر ولیم ساکت ہوگیا۔ وہ شاید رو رہی تھی۔ آنکھوں کے پپوٹے سوجھے ہوئے تھے۔
”تم ٹھیک ہو نا؟؟“ وہ اس کے قریب بیٹھتے بولا۔
”کچھ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا ولیم؟ سب چاہنے کے باوجود ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا؟“ وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔
”مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا ہے؟“ وہ بےچین ہوا۔ نینسی نے یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں موندھ لیں۔
”مجھے لگا تھا میں اُسے بھول گئی ہوں۔ مجھے لگا سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ پر دیکھو میں اُسے نہیں بھولی۔ کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔“ وہ بولتی گئی اور ولیم ساکت بیٹھا اسے سنتا گیا۔
”احمد کی کال آئی تھی ولیم۔ ویڈیو کال۔ وہ ہسپتال میں ہے۔ اس کا ایکسڈنٹ ہوا ہے۔ اس کی حالت بری ہے ولیم اور اسے دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ میں تو خود کو دھوکا دے رہی تھی۔ میں آگے نہیں بڑھ پائی۔ میں تو وہیں کھڑی ہوں۔ دیکھو۔ خالی ہاتھ ہوں۔“
وہ کسی ٹرانس میں بولتی گئی اور ولیم سن ہوگیا۔ تو کیا احمد گیا نہیں تھا۔ وہ تو بھول گیا تھا اور اسے لگا تھا نینسی بھی بھول گئی ہوگی پر شاید وہ نہیں جانتا تھا محبتیں یوں آسانی سے بھلائی نہیں جاتیں وہ یوں پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔ اسے لگا جیسے تین ماہ گزرے ہی نہیں تھے۔ وقت واپس جا کھڑا ہوا۔
”نینسی۔۔۔؟؟“ ولیم نے ہولے سے پکارہ۔
”میں اس کے ساتھ جینا چاہتی ہوں ولیم کیا میری یہ خواہش بہت بڑی ہے؟“ اس نے آنکھیں کھولیں۔ پل بھر کو دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔
”بتاؤ نا ولیم کیا یہ ناممکن ہے؟ وہ کہتا ہے سب مجھ پر منحصر ہے پھر میں اپنی محبت کو کیسے اپنے ہاتھوں سے کھو دوں؟؟“ وہ آج سراپا سوال تھی اور ولیم کے پاس جواب نہیں تھے۔ صرف کسی شخص کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا اسے نہیں پسند تھا۔ وہ نینسی کو کیا جواب دیتا۔
جبکہ نینسی جن احساسات سے گزر رہی تھی اسے بس وہ سمجھ سکتی تھی۔ احمد کو اپنانے کے لیے اسے باقی سب کو کھونا پڑتا اور وہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ اُسے کسے چننا تھا اور یہ مرحلہ بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے جب انسان کو دو پسندیدہ لوگوں میں سے کسی ایک کو چننا پڑے۔
”اس نے تمہارا نمبر کیسے ڈھونڈا؟؟“ دیکھتے ہی دیکھتے ولیم کے تاثرات تن گئے۔ نینسی نے مائیگریشن کروا لی تھی نمبر بدل لیا تھا پھر وہ شخص آخر کہاں سے آگیا تھا؟
”مجھے نہیں پتا۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ ولیم نے اُسکا فون اٹھایا۔
”نمبر بتاؤ مجھے“ یہ احمد جو بھی تھا پراسرار تھا۔ نینسی کے پاس اس کی کوئی تصویر نہیں تھی کوئی ڈیٹا نہیں تھا۔
پہلا نمبر اس نے نینسی سے نہیں لیا تھا کیونکہ وہ ان دونوں کے درمیان نہیں آنا چاہتا تھا پر اب معاملہ عجیب ہوگیا تھا۔
آخر اس نے نینسی کا نیا نمبر کیسے ڈھونڈا تھا؟ ولیم کو اب فکر ہورہی تھی۔ اس نے نینسی کے فون سے نمبر لے کر اپنے فون سے ملایا پر وہ بند جارہا تھا۔
وہ بےچینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ دماغ گھوم گیا۔
”ولیم پلیز ہیلپ می۔ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا ہے۔ میں نے اس کے بنا جینے کی کوشش کی ہے پر مجھے اس کے بنا جینا نہیں آتا۔“
نینسی کی بات پر ولیم کا دل کسی نے مٹھی میں پکڑ کر بھینچ دیا۔ اس کے چہرے پر مسکان ابھری۔ زخمی مسکراہٹ۔ خود کا مزاق اڑانے والی۔ اسے لگتا تھا وہ اور نینسی ہمیشہ ساتھ رہیں گے پر اسے اب پتا چلا تھا نینسی ان کی نہیں رہی تھی۔
وہ گہرا سانس لیتے اس کے سامنے آبیٹھا۔ ایک ٹانگ بیڈ پر جمائے جببکہ دوسری نیچے لٹک رہی تھی۔
”تم جانتی ہو نا نینسی تم کیا کہہ رہی ہو؟ یا وہ ہوگا یا ہم سب۔ تم ہمیں چھوڑ دو گی؟؟“ وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ کتھئی آنکھوں میں خوف بھی تھا۔ کہیں نینسی نے اُسے چن لیا تو؟ نینسی کئی ثانیے اسے دیکھتے رہی اور پھر سر جھکا گئی۔ ولیم نے اپنے دل کو رکتے محسوس کیا۔
”اوکے اوکے۔ میں سمجھ گیا۔“ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ آنکھوں میں بےیقینی تھی۔ اُنکی نینسی اُنکی نہیں رہی تھی۔ نینسی نے کسی اور کی محبت کو چن لیا تھا۔ دل کی تکیلف بڑھتی گئی۔ چہرے میں ابھی تک بےیقینی تھی اور آنکھوں میں استہزاہ!
”ایم آؤٹ۔۔“ اس نے دونوں ہاتھ کھڑے کردیا۔
”تمہیں جو ٹھیک لگتا ہے وہ کرو۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا۔“ وہ مسکرانے کی کوشش کر رہا تھا پر آنکھوں میں نمی ابھرنے لگی۔
”ولیم۔۔“ وہ بےساختہ بیڈ سے نیچے اتری۔ ولیم کی حالت اسے ٹھیک نہیں تھی۔
”نہیں نینسی نہیں۔ تمہاری آنکھوں نے سب کہہ دیا۔ تم اب آزاد ہو۔ ولیم نے تمہیں آزاد کیا۔“ وہ تیزی سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا اور نینسی کھڑی رہ گئی۔
وہ جانتی تھی ولیم شدت پسند تھا۔ وہ جسے چھوڑ دیتا تھا پھر اس کے لیے پوری دنیا میں جگہ کم پڑ جاتی تھی۔ تو کیا وہ اسے واقعی آزاد کرگیا تھا؟
نینسی کو اپنا سر چکراتا محسوس ہوا۔ اس نے بیڈ پر بیٹھتے بےساختہ اپنے سر کو تھاما۔
وہ اس کی خوشی کے لیے خود کو بیچنے کے لیے تیار تھا پھر یہ سب کیوں ہورہا تھا؟
”احمد آپ میرا کونسا امتحان لینے آئے ہیں؟؟“ وہ اب نم پلکیں لیے اس کا نمبر ملا رہی تھی جو بند جارہا تھا۔
✿••✿••✿••✿
ولیم اب اسے دیکھتا نہیں تھا۔ نینسی بلانے کی کوشش بھی کرتی تو وہ ہوں ہاں کے علاوہ کوئی جواب نہیں دیتا۔ ان کی ناراضی کو سب نے محسوس کیا۔ نینی کے پوچھنے پر نینسی نے انہیں ولیم کی ناراضی کا بتایا۔ وہ زیادہ دیر ناراض نہیں رہ سکتے تھے لیکن ولیم اب اسے مکمل نظرانداز کر رہا تھا۔ اسے دکھ ہوا تھا کہ بارہ سالوں سے ان کے ساتھ رہتی نینسی کیسے چند مہینوں میں انہیں چھوڑنے کا فیصلہ کر سکتی تھی۔ پر ولیم کی نظراندازی نینسی کو تکیلف پہنچا رہی تھی۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتی تھی۔ اسے کچھ سمجھانا چاہتی پر وہ سننے کو تیار نہیں تھا۔
اس روز تیز بارش تھی۔ وہ مرکزی دروازے سے ملحقہ سیڑھیوں پر کھڑی تھی جب ولیم کی گاڑی آکر رکی۔ نینسی چوکنی ہوگئی۔ دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ آج اس سے بات کرکے ہی رہے گی۔
اندر نینی بارش کے پکوان بنوا رہی تھیں اور نساء خوشی خوشی انکا ہاتھ بٹا رہی تھی۔
ولیم گاڑی کھڑی کے بعد پیلس کی جانب آیا۔ چند سیڑھیاں چڑھتا وہ نینسی کے پہلو سے گزرنے لگا تو نینسی نے اُسے کہنی سے پکڑ کر روک لیا۔
”ولیم پلیز میری بات سن لو“ وہ روہانسی ہوئی۔ ولیم نے ایک گہرا سانس لیا اور اگلے ہی پل جھٹکے سے اپنا بازو چھڑا لیا۔
”کیا چاہتی ہو نینسی؟ کیا کروں اب میں تمہارے لیے؟؟“ وہ غصے سے پلٹا۔ آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں جبکہ بال کسی حد تک بارش میں بھیگ چکے تھے۔
”ہیلپ می پلیز!“ نینسی نے التجا کی۔
”کیا ہیلپ چاہیے اب تمہیں میری؟ ہاں؟ بولو؟ کیا کروں تمہارے لیے؟“ وہ پہلی بار اس پر چلایا تھا۔ کالی جیکٹ پہنے، کندھے پر بیگ ڈالے ولیم اس وقت جانے کیسے خود پر ضبط کیے کھڑا تھا۔
”ایم سوری ولیم۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
”سوری مائی فٹ! تم ایسی نہیں تھی نینسی تم فیصلہ کرکے قائم رہنے والوں میں سے تھی لیکن اب تم دو کشتیوں کی مسافر بن رہی ہو۔ فیصلہ کرلو تمہیں کیا چاہیے اور اس پر قائم رہو۔ پلیز۔“
وہ غصے سے کہتا اندر کی جانب بڑھا۔
”ایسے مت بولو ولیم میں مرجاؤں گی۔“ نینسی نے اس کے قدموں میں زنجیر ڈالی۔ وہ رک گیا۔ پھر پلٹا۔ اس کے چہرے پر بےیقینی تھی۔
”تم کون ہو؟؟“ وہ اسکی جانب بڑھا اور عین سامنے آکھڑا ہوا۔
”میں تمہیں نہیں جانتا۔ تم میری نینسی نہیں ہو۔ اسے بلیک میلنگ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اتنی بزدل نہیں ہے۔ میں تمہیں نہیں جانتا۔ کون ہو تم؟؟“ وہ ہولے ہولے کہتا الٹے قدموں اس سے دور ہونے لگا پھر وہ پلٹ گیا۔ آنکھوں میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی۔ تابڑ توڑ بارش یونہی برستی رہی اور اس کے ساتھ نینسی کا دل روتا رہا۔ ولیم نے پوری قوت سے دیوقامت دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا دروازہ اب بند ہوچکا تھا۔ نینسی وہیں کھڑی رہ گئی۔ ایک محبت اس سے اس کا سب کچھ چھین رہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر پارہی تھی۔
✿••✿••✿••✿
ایک آخری کال
ایک آخری التجا
ایک آخری دیدار
ایک آخری رشتہ
ایک آخری سسکی
اور پھر ایک آخری رات
موت کسی آخری خواہش کو پناہ نہیں دیتی!
یہ ہفتہ بعد کی بات تھی۔ اس رات بھی موسم ابرآلود تھا۔
موریفیلڈ میں موجود رگبی اسٹیڈیم اس وقت عوام سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اسٹیڈیم میں جلتے برقی قمقموں نے دن کا سماں باندھ دیا تھا۔ چاروں جانب سے شور ابھر رہا تھا۔
آج اس اسٹیڈیم میں سکاٹ لینڈ کی دو ٹیمیں آمنے سامنے تھیں۔ ایک ایڈنبرا کی ٹیم جس میں ولیم تھا۔ پچھلے ایک ہفتے سے ان کے میچ چل رہے تھے۔ آج فائنل تھا۔ فائنل میں ولیم کی ٹیم پہنچ چکی تھی جبکہ دوسری ٹیم گلاسگو سے آئی تھی۔ یہ بہترین موقع تھا ان سب کے پاس نیشنل ٹیم میں جانے کا۔ ولیم اپنی پوری ہمت لگا رہا تھا۔
اس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ ماتھے پر بندھی پٹی پر گرتے بال اور سرخ چہرہ لیے وہ صرف جیتنے آیا تھا۔
سامان میں رکھا فون کب سے بج رہا تھا۔ نینسی کا نمبر جگمگ کر رہا تھا۔ نینسی اس کی ناراضی کی وجہ سے میچ دیکھنے بھی نہیں آئی تھی اور یہ بات ولیم کو غصہ دلا رہی تھی اور اس کا یہ غصہ اسے مزید جنونی بنا رہا تھا۔
وہ رگبی کو اپنا جنون بنا چکا تھا اور اس لیے اب جنونی بنا کھیل رہا تھا۔
جب بریک ٹائم ہوا تو وہ اپنے سامان تک آیا۔ نینسی کی کئی کالز تھیں۔ ایک پل کو وہ اسے فون کرنے لگا پر اگلے ہی پل اس کے ہاتھ رک گئے۔ اس نے جبڑے بھینچتے فون واپس رکھ دیا۔
بادل زور سے گرجے اور ٹپ ٹپ بارش برسنے لگی۔
یہ آخری راؤنڈ تھا۔ دونوں ٹیمیں اب تک اسکور کے معاملے میں برابر چل رہی تھیں۔
ایک سیٹی بجی اور آخری راؤنڈ شروع ہوا۔ بال پکڑے ولیم کی ٹیم کے کچھ لڑکے ادھر ادھر بھاگتے دکھائی دیے۔
ولیم چوکنا کھڑا تھا۔ بال نیل کے ہاتھ میں تھا۔
”ولیم۔۔۔“ وہ زور سے چلایا۔ وقت جیسے رک گیا۔ شور کرتا اسٹیڈیم ساکت ہوا۔ نیل نے اسے پکارتے بال اس کی جانب پھینکا۔ ٹپ ٹپ گرتا پانی اب ولیم کے بالوں سے بھی ٹپک رہا تھا۔ گہرے سانس لیتا ولیم اچھلا اور اس نے بال کو تھام لیا وقت پھر سے چل پڑا۔ شور کی آواز ابھری۔ اب وہ بال کو تھامے بھاگ رہا تھا۔ کئی کھلاڑی اس سے ٹکرائے لیکن اس نے ٹھان لیا تھا وہ نہیں گرے گا۔ وہ سب سے ٹکراتا سب کو گراتا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ ان گول ایریا میں بڑھ رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ گول کر دیتا اسے گرالیا گیا۔ وہ سب اس پر جھک گئے۔ وہ اسے آگے بڑھنے سے روک رہے تھے۔ ولیم نے اپنی قوت لگائی وہ زور سے چلایا اور سب کو دھکیلتا دوبارہ اٹھا اور پھر اگلے ہی لمحے وہ لمبی چھلانگ بھرتا منہ کے بل گول ایریا میں گرا تھا۔ لوگ منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔ پل بھر کو شور مدھم ہوا اور اس کے گول کرتے ہی پورا اسٹیڈیم گونج اٹھا۔ ایڈنبرا ٹیم جیت چکی تھی۔ وہ بال لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی ٹیم اس کی جانب بڑھی۔ وہ سب چلا رہے تھے۔ بارش تیز ہوگئی۔ جیت کا اعلان ہوچکا تھا۔ سب آکر ولیم سے چپک گئے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر ہوٹنگ کی جارہی تھی۔ وہ خوش تھا بہت خوش۔ نیل کچھ کہہ رہا تھا پر کان پڑی آواز سنائی نہیں دے دہی تھی۔
کچھ دیر بعد وہ اپنے فون واپس اپنے سامنے کی طرف آیا تو نینسی نے اسے ایک ویڈیو بھیجا ہوا تھا۔ ولیم کی بھنویں سکڑ گئیں۔ اس نے ویڈیو کھولا تو اگلے ہی پل اسے اسٹڈیم تباہ ہوتا محسوا ہوا۔
”ولیم پلیز ہیلپ می! میں مرجاؤں گی ولیم۔“ ویڈیو واضح نہیں تھا۔ وہ جنگل میں تھی۔ ان کے فیورٹ اسپوٹ پر۔ وہ خوفزدہ تھی۔ وہ رو رہی تھی۔ ولیم نے بےساختہ چاروں جانب دیکھا۔ وقت پھر سے رک گیا۔ اس کی ٹیم اب لائن بنائے آگے بڑھ رہی تھی۔ انہیں ٹرافی ملنی تھی۔
وہ لڑکھڑا گیا۔ شور ساکت ہوا۔ کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔ سب اسلو موشن میں چلا گیا۔
اس نے پھر سے ویڈیو چلایا۔
”پلیز ہیلپ می ولیم۔۔“ وہ اس سے ہی مخاطب تھی۔ کانچ کی مانند کچھ ٹوٹا اور اگلے ہی پل ولیم نے خود کو بھاگتے ہوئے پایا۔ بارش تیز ہوگئی تھی۔
”ولیم کہاں جا رہے ہو؟“ نیل نے اسے پکارہ۔ لوگ اسے دیکھ رہے تھے پر ولیم کو یاد رہا تو اتنا کہ نینسی مصیبت میں تھی۔ وہ سرپٹ بھاگ رہا تھا۔ نیل پہلے اسے دیکھتا رہا پھر وہ بھی سب چھوڑ چھاڑ کر اس کے پیچھے لپکا۔
دس منٹ لگے تھے اسے اپنی مخصوص جگہ پہنچنے میں اور وہاں پہنچتے ہی وہ منہ کے بل گرا۔ نیل اس کے پیچھے تھا۔
ولیم کی آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹ گئیں۔ رات کے اس پہر تیز برستی بارش جنگل میں واضح سنائی دے رہی تھی۔ وہ گرا پھر اس نے اٹھنے کی کوشش کی پر اگلے ہی پل وہ پھر سے گرگیا۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹی رہ گئی تھیں۔ اس کے عین سامنے جہاں انکے ہیموک لگے تھے وہاں بیچوں بیچ نینسی کی لعش جھول رہی تھی۔ درخت کے موٹے تنے سے بندھی رسی نینسی کے گلے میں تھی۔ اس کی گردن ایک جانب ڈھلکی ہوئی تھی۔
نیل جیسے ہی وہاں پہنچا وہ نینسی کو دیکھ کر گرتے گرتے بچا۔ اس نے بےساختہ منہ پر ہاتھ رکھ لیے۔ وہ برقی قمقمے جو نینسی اور ولیم نے وہاں لگائے وہ سب جل رہے تھے اور ان کے درمیان جھولتی نینسی کی لعش واضح تھی۔
”نو۔۔۔نینسی۔۔“ ولیم کو جیسے ہی ہوش آیا وہ تڑپ کر اس کی جانب بھاگا۔ اس نے قریب جا کر نینسی کی لٹکتے جسم کو تھام لیا۔ وہ اسے ٹانگوں سے تھامے سہارا دینے کی کوشش کر رہا تھا۔
”نینسی۔۔نو۔۔نینسی۔۔“ وہ بےطرح چلا رہا تھا۔ اس کی حالت بگڑ گئی تھی۔ ایسا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ نیل کو جیسے ہوش آیا وہ جلدی سے آگے بڑھا اور نیچے گرا میز سیدھا کرکے رکھا پھر تیزی سے اوپرچڑھا وہ اب نینسی کے گلے سے رسی کھول رہا تھا۔ اگلے چند لمحوں میں اسے نیچے اتار لیا گیا۔ وہ ولیم کے بازوؤں میں جھول گئی۔ نیل اب ایمبولینس کو فون کر رہا تھا۔ اس نے ساتھ ہی پولیس کو فون کیا۔
”نینسی پلیز آنکھیں کھولو۔ پلیز نینسی۔“ وہ اب اس کا گال تھپتھپا رہا تھا۔ اس کا چہرہ ذرد پڑچکا تھا۔ وہ مردہ تھی اور مردہ ہی لگ رہی تھی۔ پنڈلیوں تک آتا وہ سلک کا سلیو لیس گاؤن اس کا نائٹ ڈریس تھا جو گیلا ہو کر جسم سے چپک گیا تھا۔ اس کے سنہری بالوں سے پانی ٹپ رہا تھا۔ نیل نے ولیم کے قریب بیٹھتے نینسی کی نبض کو چھوا۔ وہ ساکت تھی۔ پھر گردن سے چھوا وہاں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔
”ولیم وہ مرچکی ہے۔“ نیل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”نن۔۔نہیں۔۔ نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔“ اس نے نینسی کے مردہ وجود کو خود میں بھینچ لیا۔
”نینسی نہیں مر سکتی۔“ وہ چلایا اور پھر چلاتا گیا۔ رات کے اس پہر اس کی چیخوں سے پورا جنگل گونج اٹھا تھا۔
نیل ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ اسے بہت بڑا دھچکا لگا تھا۔
کچھ دیر ایمبولینس کے سائرن کی آواز گونج اٹھی۔ وہ ندی کی جانب راستہ نکلتا تھا وہیں کھڑی تھی۔ پولیس آگئی۔
مسٹر جوزف آگئے۔
”ولیم چھوڑ دو اسے وہ مرچکی ہے۔“ وہ نینسی کو نہیں چھوڑ رہا تھا۔ مسٹر جوزف نے آگے بڑھ کر اسے تھاما۔ اس کے دونوں بازوؤں سے نینسی کے مردہ وجود کو نکال لیا گیا۔ وہ اسے اب اسٹریچر پر ڈال رہے تھے۔
”ولیم۔۔۔“ مسٹر جوزف نے اپنا کوٹ اتار کر اس پر ڈال دیا۔ وہ اب اس کا گال تھپتھپارہے تھے۔
”ڈیڈ نینسی۔۔۔ڈیڈ۔۔۔ڈیڈ۔۔۔“ وہ بولنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ نینسی کی موت مسٹر جوزف کے لیے بھی تکلیف دہ تھی۔ مسٹر جوزف نے ولیم کو خود میں بھینچ لیا۔ یہ شاید پہلی بار تھا جب مسٹر جوزف نے سے گلے لگایا تھا۔
”وہ نہیں مر سکتی ڈیڈ وہ ایسے نہیں مر سکتی۔۔“ وہ اس کے کندھے سے لگا بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
”وہ ہماری نینسی ہے ڈیڈ وہ ایسے نہیں مر سکتی۔“ ولیم کی ساری تکلیفیں جاگ اٹھی تھیں۔ پنکھے سے جولتی ماں کی لعش کو وہ آج تک نہیں بھولا تھا۔ یہ نینسی نے کیسا زخم دیا تھا؟ یہ تو ناسور بننے والا تھا۔
”مسٹر جوزف پوسٹ مارٹم کے لیے آپ کو ہمارے ساتھ ہسپتال چلنا ہوگا۔“ عقب سے انہیں پکارہ گیا۔ نیل آگے بڑھ آیا اس نے ولیم کو تھام لیا۔ مسٹر جوزف اب کچھ فاصلے پر کھڑے پولیس اہلکاروں سے بات کر رہے تھے۔ وہ نینسی کا پوسٹ مارٹم نہیں چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے بات مزید پھیلے۔ پہلے ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی تھی کہ جوزف پیٹرسن کی بھانجی نے خودکشی کرلی تھی۔
”آر یو شیور؟ ہوسکتا ہے یہ قتل ہو اور آپ کی بھانجی پیلس سے یہاں آکر خودکشی کیوں کرے گی۔۔؟؟“
پولیس اہلکار تفتیشی انداز میں بولا۔
”میں کچھ نہیں جانتا۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ مجھے یہ کیس یہیں بند کرنا ہے۔ میں اس کا وارث ہوں اور یہ میرا فیصلہ ہے۔“ مسٹر جوزف کی بات پر پولیس اہلکاروں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ کچھ دیر بعد ایمبولینس پیلس کی جانب رواں تھی۔ ولیم اب مسٹر جوزف کی گاڑی میں سپاٹ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔ بالکل سپاٹ۔ اس کے چہرہ لٹھے کی ماند سفید تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا آس پاس کیا ہورہا تھا۔ اس کی سماعت میں صرف نینسی کے الفاظ گونج رہے تھے۔
”میں مرجاؤں گی ولیم پلیز ہیلپ می!“
وہ اسے ساری زندگی کا پچھتاوہ دے گئی تھی۔ جس پیلس میں وہ ٹرافی لانے والا تھا اس پیلس میں وہ نینسی کی لعش کے ساتھ داخل ہوا تھا۔
کئی گاڑیاں آگے پیچھے جوزف پیلس آکر رکیں جہاں روشنیوں کا ایک جہان امڈ آیا تھا۔ ہاتھ میں مائیک اور کیمرہ تھامے میڈیا والے وہاں موجود تھے۔ رپورٹنگ کی طرح رہی تھی۔ دھڑا دھڑ تصویریں بن رہی تھیں۔
پولیس کی کثیر نفری موجود تھی۔ میڈیا کو پیلس سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ جوزف پیٹرسن شہر کی ایک معزز شخصیت تھا۔ ان کے گھر یہ حادثہ ہوا تھا اور یہ اگلے کئی دن ہیڈلائن بننے والی تھی۔
ولیم کو جس قدر کیمرے کی فلیش لائٹ سے نفرت تھی اس وقت اتنے ہی کیمروں کی زد میں تھا۔
نینسی کو ایمبولینس سے نکال کر اسٹریچر پر ڈالا گیا اور پھر اسے پیلس کے اندر لے جایا گیا۔
”ولیم ہوش میں آؤ۔۔“ اسے بت بنے دیکھ کر نیل نے پکارہ۔وہ اسے اندر لے جارہا تھا۔ مسٹر جوزف کے سیکرٹری آگئے تھے۔
_______________________

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *