Walliam Wali Episode 05 Part 01
Writer Noor Rajput
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
“William Wali” unfolds the story of a rebellious girl driven by passion,
battling for love, faith, and justice.
A gripping tale of revenge, unveiling the harsh truths of society,
with a bold protagonist who defies norms.
Packed with thrilling twists, buried secrets from the past,
enigmatic characters, and a captivating connection to a foreign man,
this story promises an unforgettable journey through mystery, suspense, and raw emotions.
Sneak Peak
وہ ڈیپارٹمنٹ میں صفدر کے ساتھ بیٹھی تھی اور صفدر حیرت سے فجر کو دیکھے جارہا تھا۔ یہ وہ فجر تو نہیں تھی جس کی ایک نظر ہلچل مچا دیتی تھی۔ سفید سوگ میں لپٹی چادر لیے یہ فجر معراج جانے کون تھی۔ صرف صفدر ہی نہیں باقی کلاس فیلوز بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئے تھے۔ وہ ایک ہفتہ غائب رہی تھی اور جب واپس لوٹی تو بالکل بدل گئی۔
”تم ٹھیک ہو؟؟“ وہ اب پریشانی سے پوچھنے لگا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
”گھر میں سب ٹھیک ہیں نا۔۔؟؟“ کچھ تو غلط تھا۔ وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔
”ابا نہیں رہے۔“ عام سے لہجے میں کہتی فجر صفدر کو ساکت کر گئی۔ وہ اب فون نکالے سوشل میڈیا دیکھ رہی تھی جیسے اسے فرق ہی نہ پڑتا ہو۔ ارسل کو اُس نے ہر جگہ سے بلاک کردیا تھا یہاں تک کہ اُس نے اپنا نمبر بھی بدل لیا تھا۔ یونیورسٹی آتے ہوئے وہ نئی سم لائی تھی۔
”معذرت مجھے پتا نہیں تھا۔“ وہ اب پشیمانی سے کہنے لگا جبکہ نظریں فجر کے چہرے پر جمی تھیں جو سرد سپاٹ تھا۔ اُس کا باپ مرگیا تھا۔ اب پتا چلا تھا اس کی حالت ایسی کیوں تھی۔
”معذرت کی ضرورت نہیں ہے نرگسی آدمی۔ اُنکا وقت آگیا تھا۔ ہر ایک کا وقت آنا ہے۔“ کتنا عام سا لہجہ تھا جیسے مرنے والا اُسکا نہیں کسی اور کا باپ ہو۔ کئی لمحے خاموشی چھائی رہی۔ صفدر کو سمجھ نہ آیا کیا بولے۔ فجر پہلے بھی کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی لیکن ہنسنا مسکرانا اور لڑکوں کے دل پر بجلی گرانا اسے خوب آتا تھا پر اب تو وہ ہنسنا جیسے بھول ہی گئی تھی۔
”آج آخری دن ہے۔ سب اپنا پراجیکٹ آئیڈیا پیش کرنے والے ہیں۔ سب ریڈی ہیں۔ تم بتاؤ ہم کیا پیش کریں گے؟ میرے دماغ میں تو کچھ ہے ہی نہیں۔ اگر آج ہم نے آئیڈیا نہیں پیش تو ہمارا سال ضائع ہوسکتا ہے۔“ وہ پریشان تھا۔ اُنکی یونیورسٹی ملک کی مہنگی ترین اور مشہور یونیورسٹی تھی اور اس بار وہ ملک کے نامور ڈیزائنرز کو جیوری کے طور پر بلا رہے تھے۔ یہ ایک سنہری موقع تھا اسٹوڈنٹس کے پاس کہ وہ اپنا ٹیلنٹ دکھاتے اور بدلے میں اُنہیں چن لیا جاتا۔ وہ سیدھا کسی بڑی فیشن ڈیزائنر کمپنی کا حصہ بن سکتے تھے۔ صفدر پریشان تھا جبکہ موبائل کی اسکرین پر پھسلتی فجر کی انگلیاں ساکت ہوگئیں۔
وہ ارسل تھا۔ ارسل برہان گردیزی۔ اپنے باپ کے ساتھ کھڑا تھا۔ اُسکی کل منگنی ہوئی تھی اور جس بڑے پیمانے پر منگنی کی رسومات ادا کی گئی تھیں وہ خبر پورے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ اُس کا ہاتھ کانپ اٹھا۔
محبوب کو کسی اور کا ہوتے دیکھنا سب سے دردناک لمحہ ہوتا ہے۔ دل سکڑ کر پھیلا تھا۔ وہ یونہی خالی خالی نظروں سے مسکراتے ارسل کو دیکھتی رہی۔ اسکے نام کی انگوٹھی فجر کو پہننی تھی۔ اسکے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑنا تھا۔ اسے لگ رہا تھا سب ٹھیک ہوگیا تھا۔ ارسل آیا اور چلا گیا۔ وہ ولیم سے نکاح کرکے سب کو تکلیف پہنچا کر اپنا بدلہ لے چکی تھی لیکن یہ کونسی تکلیف تھی جو اسے سانس نہیں لینے دے رہی تھی۔ وہ بھول گئی تھی آسیب کار اتنی جلدی پیچھا نہیں چھوڑتے۔
فجریونہی دیکھے گئی۔ صفدر کچھ کہہ رہا تھا لیکن سنائی کہاں دے رہا تھا۔ اُسکی سماعت میں ارسل کے تمام وعدے گونج گئے۔
اگر منگنی ایسی تھی تو شادی کیسی ہوگی؟؟ لوگ ستائش سے تبصرے کر رہے تھے۔
اُسکی دلہن تو فجر کو بننا تھا۔ تو کیا وہ کسی اور لڑکی کے ساتھ وہ سارے لمحات جیے گا جو اسے جینے تھے؟ آنکھیں پھر سے نم ہونے لگیں۔
”کیا دیکھ رہی ہو فون میں؟ میں تم سے بات کر رہا ہوں فجر“ صفدر نے اس کا فون جھپٹا اور وہ جیسے کسی ٹرانس سے نکلی۔ اپنے سامنے بیٹھے صفدر کو دیکھا۔
”بتاؤ کیا کریں گے ہم آج؟ کوئی آئیڈیا دو۔“
کئی لمحے وہ پریشان سے صفدر کو دیکھتی رہی اور پھر بےساختہ بولی۔
”برائیڈل گاؤن۔“ وہ ہولے سے بڑبڑائی۔
”کیا؟؟ برائیڈل گاؤن؟؟ یہ آئیڈیا بہت پرانا ہوچکا ہے فجر۔ کوئی ہمیں دیکھے کا بھی نہیں۔“ وہ مایوس ہوا۔ کم از کم اسے فجر سے اتنے عام اور بیسک آئیڈیا کی توقع نہیں تھی۔
”سب ہمیں ہی دیکھیں گے۔“ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ گردن اکڑ گئی۔ ٹھوڑی اونچی کی۔ آنکھوں میں عزم تھا۔ دنیا جیت لینے کا عزم۔ ارسل برہان گردیزی سے زیادہ اونچائیاں چھونے کا عزم۔ صفدر کو ایک لمحے کے لیے وہ پرانی فجر معراج لگی۔ آگ لگا دینے والی فجر معراج۔ آنکھوں میں آئی نمی اندر ہی پی گئی۔
”تمہارے دماغ میں چل کیا رہا ہے فجر۔۔؟؟“ وہ تھوڑا سا اس کی جانب جھکتے ہوئے رازدانہ انداز میں پوچھنے لگا۔ فجر نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا اور پھر میز پر رکھے بیگ سے اپنی اسکیچ بک اور پینسل نکالی۔
اب وہ خالی صفحے پر تیزی سے کچھ اسکیچ کر رہی تھی جبکہ صفدر بھنویں سکیڑے اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے خوابوں کا محل ٹوٹ گیا تھا۔ کانچ بکھرا پڑا تھا جو تکلیف دہ تھا اور اُسے اب اِسی ٹوٹے کانچ سے ایک نیا خواب بننا تھا۔ وہ خواب جسے صرف وہ نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پوری دنیا دیکھتی۔ پوری دنیا جیتی۔
✿••✿••✿••✿