Rozan e Zindaan Episode 05
Writer: Raqs eBismil
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا
تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔
یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
Episode 05
“Let her go!”
“انہیں جانے دو!”
ایک مردانہ بھاری تحکمانہ آواز اسے پیچھے سے سنائی دی گئی۔
یہ آواز سن کر اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل سی ہوئیں۔
کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اس سے پہلے کہ وہ رخ موڑ کر دیکھتی کہ “کون ہے؟’ملازم نے اسے دھکا دیا۔۔
زمین پر گرنے سے پہلے دو مضبوط مردانہ ہاتھوں نے اسے سنبھال لیا۔
سبرین نے نظر اٹھائی۔
ایک لمبا اور مضبوط آدمی اچانک ہی گرم دھوپ میں کسی چھاؤں کی طرح سامنے آگیا۔۔اس نے نیلے رنگ کا ڈبل بریسٹ بلیزر پہن رکھا تھا۔
اس کے چہرے کے نقوش غیرمعمولی طور دیکھنے میں اچھے تھے، اس کی کالی گہری آنکھیں اور اس کے اوپر گھنی بھنویں، اسے بہت وجیہہ بنارہی تھیں۔
” شہزام سوری ۔۔”
اسے واقعی حیرانی ہوئی تھی۔۔وہ واقعی یہ توقع نہیں کررہی تھی کہ اتنی جلدی اس سے ٹکرا جائے گی، ایسے پریشان کن حالات میں اس سے سامنا ہوگا۔
“اوہ نو۔۔یہ مجھے پہلے ہی سخت ناپسند کرتا ہے، اب پتا نہیں کیسا سلوک کرے۔” سبرین دل میں سخت پریشان ہوئی اتنی کہ منفی سوچنے لگی۔
شہزام کے پیچھے اس کا دوست شیث کھڑا تھا، جس نے فوری طور پر سبرین کو پہچان لیا ۔
اس نے پہلے بھی کئی بار میلبورین کی مختلف ضیافتوں میں اسے دیکھا تھا بلاشبہ وہ میلبورین کی خوبصورت لڑکیوں میں شمار ہوتی تھی۔۔تاہم، اب یہاں اس طرح کے حالات میں دیکھنا اسے عجیب لگا۔
ایک شوخ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر روشن ہوئی۔
“شان، کیا یہ تمہاری۔۔”
شہزام نے وارننگ بھری نظر اٹھائی۔۔جس پر شیث کے جملے ہوا میں لٹک گئے۔
فریا نے خود کو ملازم کی گرفت سے نکال لیا تھا، اور اب بھاگتی سبرین کے پاس آئی اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔
” سبی۔۔تم ٹھیک ہو۔۔؟”
“اممم ۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔” سبرین نے ایک چور نظر شہزام پر ڈال کر ہلکی آواز میں کہا۔
فریا اسے پہچان گئی، وہ جانتی تھی وہ کافی دلکش ہے، لیکن دن کی روشنی میں اسے قریب سے دیکھ کر، اس کی شخصیت کی سحر انگیزی سے فریا کی جیسے چیخ نکلتے رہ گئی۔
ان سے الگ تھلگ وہ تینوں عورتیں بھی کھڑی حیرت سے شہزام کی وجیہہ پرسنالٹی کو دیکھ رہی تھیں۔۔
“کون تھا یہ؟”
شہزام کی ابرو سخت ناگواری میں باہم مل گئیں۔۔ بیچ میں سلوٹیں سی ابھر آئی تھیں۔
” تمہارے ریسٹورنٹ میں عورتوں سے اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے؟” اس نے مینیجر پر سخت نظر ڈالی۔
مینجر لورینز سخت پریشان ہوا، وہ نہیں جانتا یہ آدمی کون ہے ؟ لیکن وہ شیث جیسے با اثر مشہور شخص کو اچھے سے جانتا تھا ۔اور یہ بھی جانتا تھا کہ شیث جیسی شخصیت کے ساتھ گڑبڑ نہیں کرنی۔
وہ ابھی جواب دینا ہی چاہتا تھا کہ جنت مسکراتی ہوئی آگے بڑھی۔
“شیث صاحب، یہ جینٹلمین یقیناً آپ کا دوست ہے۔ ویل، میں نے اپنی دوستوں کے ساتھ کمرہ بک کروایا تھا، جب ہم یہاں پہنچے تو فریا صاحبہ نے آگے سے سین شروع کردیا کہ روم اس نے بک کروایا ہے۔”
“جنت ،کتنی شرم کی بات ہے، روم ہم نے بک کروایا تھا، تم لوگ بعد میں آئے۔” فریا اس کے صاف جھوٹ پر چٹخ گئی۔
مینیجر شیث کو دیکھ کر چاپلوسی سے آگے آیا۔۔
“شیث صاحب، ان کی مت سنئیے، میں نے اپنے ریسٹورنٹ کے قواعد کے مطابق ہی کام لیا ہے۔ ان دونوں خواتین نے ہی سین بنانا شروع کیا تھا، اسی لئے میرے پاس اور کوئی چارہ نہ رہا۔”
” سبرین میری بہن ۔۔۔میں جانتی ہوں تم مجھے پسند نہیں کرتی،لیکن یہاں مینجر کے لئے مشکلات نہ بڑھاؤ، یہ صرف اپنا کام کررہا تھا۔” آبش نے ڈرامہ کیا۔۔
سبرین کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔
“کیا تم کبھی اپنی منافقت سے بیزار نہیں ہوتی ؟”
خواتین کے متضاد دلائل سن کر شیث کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے۔۔ اس نے شہزام کو دیکھا۔
“تم کیا کہتے ہو؟”
سبرین یہ سن کر خاموش ہوگئی آنکھوں کی جوت جیسے بجھ گئی ۔
شہزام یقیناً اس سے نفرت کرتا تھا،اسی لئے کوئی توقع نہیں تھی کہ وہ اس کی سائیڈ لےگا۔
شہزام کی نظریں آبش پر سے ہوتی ہوئیں جنت اور پھر سنڈی پر سے گھوم کر واپس آبش پر ٹھہر گئیں۔۔ یہ عورت جتنی باہر سے بےبس نظر آرہی تھی حقیقت میں نہیں تھی۔
لیکن اس کے تبصرے سے یہ ظاہر تھا کہ وہ سبرین کو کمتر،سرد مزاج اور عاقبت نا اندیش سمجھ رہی ہے۔
“یہ ہے وہ ریسٹورنٹ جس کی تم تعریف کررہے تھے؟”اس کی نظریں کسی بھی بہروپ سے پاک تھیں۔” ریسٹورنٹ کا منیجر صرف امیر طبقے کی مہمان نوازی کرتا ہے باقی لوگ اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، ایسا شخص بالکل بھی اس قابل نہیں کہ اس جیسا ریسٹورنٹ چلا سکے۔”
امید کی ایک کرن سبرین کی آنکھوں میں چمکی تھی اس نے بے یقینی سے اس سرد مزاج شخص کو دیکھا ۔۔کچھ دیر کی مایوسی اس کے ذہن سے مٹتی گئی۔
“شیث صاحب میں بے قصور ہوں، مس جنت اب آپ ہی مجھے اس مسئلے سے نکال سکتی ہیں۔” منیجر نے مغموم لہجے میں مدد طلب نظروں سے جنت کو دیکھا جو خود بھی تذبذب کا شکار تھی۔اسے بالکل بھی یہ توقع نہیں تھی کہ یہ اجنبی سبرین کا ساتھ دےگا۔
“شیث صاحب آپ کا دوست اس شہر میں نیا ہے، وہ سبرین اور فریا کے اصل رنگ سے ناواقف ہے۔”
شیث نے اپنی آنکھیں چھوٹی کرکے جنت کو حیرانی سے دیکھا جیسے اس نے واقعی میں کوئی اہم بات سنی ہو، پھر دھیرے سے طنزیہ مسکرایا۔
” میں فریا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں نے سبرین یزدانی کی بہت تعریف سنی ہے۔ یہی نہیں کہ وہ یزدانی کی چھوٹی بیٹی ہے۔ بلکہ یہ اپنی ظاہری خوبصورتی کے بناء پر اس شہر کی خوبصورت امیرعورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ سولہ سال کی عمر میں ایلیٹ یونیورسٹی آف امیریکا پڑھنے گئی تھیں۔اور جیسے ہی باہر سے ڈیزائننگ میں ماسٹر ڈگری لے کر واپس آئی۔سمیٹ گروپ میں اپنی ذہانت سے ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ تم جیسی “سوشل بٹرفلائیز” کی طرح نہیں ہے،جو آئے دن مختلف جگہوں پر ضیافت اڑاتی پھرتی ہیں۔” شیث نے ان تینوں کی اچھی خاصی بے عزتی کردی یہی نہیں بلکہ ان تینوں کو طنزیہ سوشل بٹرفلائیز تک کہہ دیا۔
“شیث صاحب، پارٹیاں اٹنڈ کرنا اور ضیافتیں اڑانے کا مقصد صرف مستقبل میں اپنا سوشل سرکل بڑھانا ہے۔” سنڈی ٹرنر کی آواز لو دیتی ہوئی تھی۔۔ جیسے وہ یہ کہہ رہی ہو،آپ جیسے لوگ کیا جانیں؟ دوسرے الفاظ میں اس نے سبرین پر پھبتی کسی تھی کہ وہ ایسے ایونٹس اٹینڈ نہیں کرتی مطلب وہ اس لائق نہیں ہے۔
شہزام نے اس کی بات پر آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا ایک چمک سی تھی جو اس کی آنکھوں میں آکر معدوم ہوئی۔
“تم کون ہوتی ہو مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے والی؟” شیث کا سنڈی کی بات پر پارہ چڑھ گیا۔
اس کے غصے کو دیکھ کر سنڈی کے چہرے کا تو مانو جیسے رنگ ہی اڑ گیا۔۔ وہ خوف سے زرد ہوئی۔
آبش عجیب انداز میں بمشکل مسکرائی۔
“شیث صاحب، آپ تو ہمارے لئے مشکلات بنا رہے ہیں۔”
“یہ سب تم لوگوں سے ہی شروع ہوا تھا۔” شیث نے لب بھینچ کر ہنکارا بھرا۔
وہیں فریا اور سبرین بھی گنگ کھڑی تھیں۔۔ وہ یہ توقع نہیں کرتی تھیں کہ ایک انجان آدمی اتنا کچھ جانتا ہوگا اور ان کی طرف داری میں بولےگا۔۔
آخر کار جنت نے اپنی شرمندگی چھپا کر کہا۔
“ایسا لگتا ہے، شیث صاحب آج کی رات ان دونوں کے فیور میں ہی صرف کریں گے۔۔ ہم تینوں کو کہیں اور جاکر کھانا چاہیئے۔۔”
آبش یہاں اور ٹھہر کر اپنی بے عزتی نہیں کروانا چاہتی تھی۔۔ جنت نے بھی سر ہلایا۔ اور سنڈی ٹرنر کے ساتھ جانے کے لئے مڑی۔
“وہیں رکو…” شہزام نے سفاک انداز میں حکم دیا۔۔ شہزام کے ہونٹ طنزیہ مسکراہٹ میں ڈھلےاور ابرو اٹھا کر کہا۔۔
” تم لوگ یقیناً جاسکتی ہو، لیکن۔۔ تم لوگ بالکل اسی انداز میں جاؤ گی، جس انداز میں یہ (فریا اور سبرین ) گھسیٹی گئی تھیں۔”
سبرین اس کی بات سن کر جیسے دنگ ہوئی۔اس کی آنکھیں شہزام پر ٹِک گئیں۔اس کی نظروں کا ارتکاز آدمی نے سیکنڈوں میں بھانپ لیا تھا۔
وہ اس وقت متضاد کیفیت کا شکار ہورہی تھی۔
وہ یہ توقع بھی نہیں کرسکتی تھی کہ وہ اس کے لئے اسٹینڈ لے سکتا ہے۔ سبرین کو وہ اور زیادہ متاثر کرنے لگا۔۔اس کا یہ روپ اس کے لئے بالکل نیا اور الگ تھا ۔۔اس سرد مزاج شہزام سے بالکل الگ۔۔۔ جس کو اس نے رات دو بجے جانا تھا۔۔
اس لمحےآبش اور اس کے ساتھ دونوں لڑکیاں خود کو زیادہ دیر تک کول نہ رکھ سکیں۔۔ ان کا پارہ چڑھ گیا۔
جنت غرائی۔
“تم ہوتے کون ہو اس طرح کا حکم دینے والے؟ جانتے بھی ہو ہم کون ہیں ؟”
شہزام بالکل ساکت رہا، صرف ایک سرد نظر شیث پر ڈالی۔
شیث اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر ہولے سے مسکرایا اور ملازموں کو دیکھ کر کہا۔
“کیا تم چاہتے ہو،میں ذاتی طور پر تمہارے باس کو فون کروں؟ ان سب کو گھسیٹنے والے سب سے طاقتور شخص کو انعام دیا جائے گا۔”
ریسٹورنٹ میں موجود ہر ایک شیث کو اچھی طرح پہچانتا تھا،یہاں تک کہ ریسٹورنٹ کا باس بھی اس سے شائستگی سے پیش آتا تھا۔
ملازم یکدم حرکت میں آگئے۔تینوں عورتوں کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکالنے لگے۔جس طرح پہلے فریا اور سبرین کو گھسیٹ رہے تھے۔۔ جس پر تینوں عورتیں ہی چیخنے کے ساتھ گالیاں اور دھمکیاں دینے لگیں تھیں۔
تینوں جب آئی تھیں تو کافی ویل ڈریسڈ نظر آرہی تھیں۔
لیکن اب ان کا شاندار حلیہ سیکنڈوں کے اندر بکھر کر بگڑ چکا تھا، اسٹائل سے سنورے ہوئے بال بکھر کر الجھ چکے تھے، جوتے اتر کر یہاں وہاں گر چکے تھے،آبش کا لمبا فراک ، گلاب کے کانٹوں میں الجھ کر پھٹ چکا تھا۔
سبرین اور فریا یہ ساری صورتحال منہ پر ہاتھ رکھے حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔
مینیجر لورینز ان کے آگے گھٹنوں کے بل جھکا معافی مانگ رہا تھا۔
“مجھے معاف کردیں، میں اندھا ہوگیا تھامس یزدانی اور میم فریا۔۔ میں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔۔ آپ دونوں مہربانی کریں اور مجھے معاف کردیں، میری ریپوٹیشن مت ڈبوئیں۔۔ پلیز۔۔مجھے معاف کردیں۔”
سبرین نے ایک چور نظر شہزام پر ڈالی جو سب سے لاپرواہ بنا کھڑا تھا، پھر کہا۔
” یہ تو ہماری خوش قسمتی تھی کہ شیث صاحب ادھر آگئے، ورنہ ان کی جگہ پر ہم گھسیٹے جارہے ہوتے۔۔اس صورت میں ،ہم آپ کو معاف بالکل نہ کرتے اور تمہارے باس سے شکایت ضرور کرتے۔”
شیث اس کی بات پر مسکرایا تھا۔
“آپ اس شخص کو بھلے معاف نہ کریں، میں اس کے باس کو کال ملا کر اسے یہاں سے غائب کروا دیتا ہوں۔”اس کی بات پرمینیجر لورینز تکلیف سے فرش پر بیٹھ کر آہ و بکا کرنے لگا۔
فریا اس صورتحال کو دیکھ کر کافی خوش تھی۔۔۔یوں ہی جب اس کی نظر سبرین پر پڑی تو یہ دیکھ کر دنگ ہوئی کہ سبرین حیران سی بے خیالی میں شہزام کے قریب کھڑی ہے۔
شاید اسے پتا نہیں چلا تھا کہ وہ کس کے ساتھ کھڑی ہے۔اس نے تھوڑی سی اپنی دوست کی مدد کرنی چاہی ۔۔اسی لئے شرارت سے سبرین کو زور سے کندھا مارا۔
اس اچانک لگنے والے دھکے سے سبرین اپنے پیروں پر کھڑی نہ رہ سکی۔۔اور زبردست فورس کی وجہ سے شہزام کے بازوؤں میں گرگئی۔
وہ کبھی اس کے اتنے قریب نہیں آئی تھی۔ایک مسحور کن مردانہ پرفیوم کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ہوکر دماغ کو جیسے ہوش سے بے گانہ کرنے لگی۔
اس کا ذہن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھونے لگا، اسے بالکل توقع نہیں تھی کہ اس مرد کی خوشبو اس قدر پیاری ہوگی۔یہ اس کی سرد نظروں سے مختلف تھی ۔
اس نے محسوس کیا کہ شہزام کی نظریں اسے گھور رہی ہیں ،اس احساس کے آتے ہی وہ جلدی سے اس کے بازوؤں سے نکلی۔
” آئی ایم سوری یہ صرف ایک حادثہ تھا۔”
“وضاحت دینا بند کرو۔۔یہ پہلی بار نہیں ہے کہ تم نے ایسا کیا ہو۔” شہزام نے جیسے اس کی چال سمجھ کر کہا۔
یوں سرِ عام الزام لگام پر سبرین کے پاس جیسے کہنے کو کچھ نہ بچا۔
کیا واقعی اس نے پہلے بھی ایسا کیا تھا؟؟ وہ خود سے پوچھنے لگی۔۔ لیکن یاد کرنے پر بھی اسے یاد نہ آیا۔۔کیوں وہ اس بات سے لاعلم تھی؟
اس قدر جھوٹا الزام لگنے پر اس کا خون ابلنے لگا تھا اس نے فریا کی حرکت پر اسے غصہ سے گھورا۔۔
فریا کے ساتھ کھڑا شیث بھی ان دونوں کو متجسس سے دیکھ رہے تھے۔۔
شیث ہلکا سا کھنکارا۔
“جب قسمت نے ہمیں ملا ہی لیا ہے تو چلیں مل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔ اوکے؟”
فریا کی آنکھیں کسی خیال کے تحت چمک اٹھیں۔
“شیور۔۔میں تو ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ ہماری مدد کرنے پر، کس طرح سے آپ کا شکریہ ادا کروں؟”
“تو پھر چلیں ۔” شیث نے ہاتھ سے اندر کے طرف چلنے کا اشارہ دیا۔
یوں ہی فریا اور شیث ایک دوسرے سے باتیں کرتے ریسٹورنٹ میں داخل ہوگئے۔
سبرین تو جیسے پریشان ہوگئی فریا نے اس سے رائے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی تھی۔
سبرین نے ہچکچا کر شہزام کو چوری سے نظر اٹھا کر دیکھا۔لیکن اس بے پرواہ سجن نے اسے ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی، بلکہ اپنا ایک ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالے۔۔سیدھا ریسٹورنٹ کے اندر بڑھ گیا۔۔
وہ جلدی سے اس کے پیچھے بھاگی۔۔
ایکچوئلی وہ فدی کی کنڈیشن بھی جاننا چاہتی تھی،بلی کے لئے وہ کافی پریشان رہی تھی، افسوس کہ اس کے واپس آنے سے پہلے ہی اس نے گھر چھوڑ دیا تھا ۔
ایک سرور(بیرا) نے ان سب کی ایک پرائیویٹ روم تک راہنمائی کی ۔اس دفعہ جب سبرین نے قدم اندر روم میں دھرے۔۔اتنا پرتعیش ماحول دیکھ کر وہ دنگ ہوئی۔
فریا سبرین کے پاس پہنچی اور کان میں سرگوشی سے کہا۔
“شیور انف، یہ کمرہ تمہارے شوہر نے ہی بک کروایا ہے۔یہ پورے ریسٹورنٹ کا سب سے بڑا لگژری روم ہے۔یہاں تک کہ میرے ڈیڈ کے پاس بھی اہلیت نہیں کہ ایسا روم بک کرواسکے۔ جانتی ہو ۔۔صرف 50 بلین ڈالر کی مالیت والے لوگ ہی ایسا روم بک کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔”
سبرین کے پاس الفاظ جیسے کھو گئے۔۔ وہ چپ رہی۔۔
فریا نے اس کی کمر میں ہلکے سے پنچ مارا۔
” ایکچوئیلی، تمہارا شوہر بہت اچھا ہے۔ حالانکہ تم نے اس کی پیاری سی بلی کو تکلیف دی تھی، اور اس وجہ سے اس نے تم کو نکال دیا لیکن اس کے باوجود بھی اس نے وہ سب بھلادیا اور تمہیں معاف کردیا۔۔یہی نہیں بلکہ تمہاری مدد بھی کی۔۔ واہ۔۔ کتنا زبردست شخص ہے ۔” وہ واقعی اپنی دوست کے لئے خوش تھی۔۔
سبرین نے اس کی بات پر ناگواری سے اسے گھورا۔
“میں تم کو یاد دلاتی چلوں کہ وہ کون تھا جو پہلے اس کی برائیاں کرتا رہا؟”
اس کی بات پر فریا شرمندہ تو کیا ہوتی۔۔بجائے شرمساری کے وہ اکڑ کر بولی ۔
“وہ؟۔۔وہ تو میں نے اسے پہلے بہت دور سے دیکھا تھا نا۔۔تو اس کے بارے میں بہت کم جانتی تھی۔اور جب میں نے اسے تھوڑا قریب سے دیکھا تو اسے بہت دلکش پایا ہے۔اصلی بات یہ ہےکہ یہ آدمی ایزد کا ماموں ہے۔تو اس آدمی کی دولت شہرت اور وسائل کے بارے میں سوچو ذرا۔۔۔ایزد تو جیسے اس کے سائے میں کھڑا ہے۔۔سوچو جب تم اس کے ساتھ کھڑی ہوگی تو ایزد کی کیا حالت ہوگی۔۔اور خاص طور آبش کی حسد سے حالت بگڑ جائے گی۔۔سوچو۔۔!!”
اس کی بات پر سبرین اچانک ہی آبش کے دکھاوے والے انداز کے بارے میں سوچنے لگی۔
“یہ تم دونوں ایک دوسرے کے کان میں کیا کھسر پسر کررہی ہو؟” شیث کافی دیر سے نوٹ کررہا تھا یہ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے کان میں کب سے سرگوشیوں میں بات کررہی تھیں۔۔ وہ متجسس ہوا۔
اس کی بات پر سبرین جیسے ہوش میں آئی تھی چونک کر اسے دیکھا تب جانا کہ دو آدمی ان دونوں کو کب سے گھورے جا رہے ہیں۔اور وہ کسی عام جگہ پر نہیں بلکہ ایک ریسٹورنٹ کے لگژری روم میں بیٹھی ہیں ۔۔وہ اچانک ہی شرمسار ہوئی۔
“آپ دونوں کا شکریہ ،آپ کی مہربانی سے ہم اس لگژری روم میں داخل ہوسکے ہیں۔”
“میں نے سوچا تم دونوں شہزام کی دلکشی کے متعلق بات کررہی تھیں۔” شیث نے مسکراہٹ سے کہا۔۔
اس کے تیکھے الفاظ سن کر سبرین شرمندہ ہوئی۔
“آپ مذاق کررہے ہونگے، شیث صاحب۔”
“چلیں اب کھانا آرڈر کریں۔ “
شہزام مینو کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اس کے انداز میں لاپرواہی سی تھی۔۔۔ یوں جیسے وہ وہاں تنہا بیٹھا ہو۔۔
کچھ دیر چیک کرنے کے بعد اس نے دو ہلکی پھلکی ڈشز کا آرڈر دیا۔
شیث نے سستی سے مینو شہزام سے لے کر بناء دیکھے سبرین کو دیا۔
“بھابھی،آرڈر کریں۔ “
سبرین جو اس وقت منہ سے پانی کا گلاس لگائے ہوئے تھی، اس تخاطب پر حیران ہوئی اتنی کہ پانی حلق میں اٹک گیا اور شدید کھانسی لگ گئی۔
اس نے کئی بار شیث کی چبھتی نظروں کو پکڑا تھا۔ اس کی نظریں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ ان دونوں کے بیچ شادی سے اچھی طرح واقف ہے۔
ظاہری بات تھی ، دونوں ایک دوسرے کے بہت قریبی دوست تھے۔
“پلیز۔۔۔مجھے بھابھی کہہ کر مت بلائیں۔پتا نہیں یہ شناخت کب اور کس وقت کھودوں۔”
یہ کہتے ساتھ ہی شرمساری مینو اٹھالیا ۔
اس نے دیکھا شہزام نے جن ڈشز کا آرڈر دیا تھا وہ کافی ہلکی پھلکی تھیں۔سو اس نے بھی دو نرم غذائیں سلیکٹ کیں۔اور مینو فریا کو دیا۔
فریا نے بناء سوچے سمجھے سبرین سے حیرت سے پوچھا۔
” یہ تم نے اسپائیسی کی بجائے ہلکے کھانے کیوں تجویز کئے؟یہاں کا گرل کیا ہوا میمنے کا گوشت بھی بہت اسپائسی ہوتا ہے۔۔ کیا آپ کو پسند نہیں؟” اس نے سبرین کی چوائس پر حیرت ظاہر کی ،اور پھر شہزام سے پوچھا۔
اس کی بات پر ،پرائیویٹ روم میں کچھ لمحہ کے لئے خاموشی چھا گئی۔ شہزام نے کوئی جواب نہیں دیا۔
کچھ دیر بعد شیث کے ہلکے سے قہقہے نے خاموشی کو توڑا۔
” ہاہاہاہا۔۔۔ یہ جانتی ہیں کہ ان کا شوہر نرم غذا پر ہے ،اسی لئے وہ اپنے شوہر کا خیال رکھ رہی ہیں خود بھی نرم غذا سلیکٹ کی ہے۔”
فریا اس کی بات پر دنگ رہ گئی۔۔ اس نے بے یقینی سے اپنی دوست کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔۔
سبرین کے گال شیث کی بات پر شرم سے سرخ ہوئے تھے ۔
حالانکہ پرسنلی شہزام کو ڈیل کرنے میں وہ کافی سخت بن جاتی تھی۔۔ جس پر کسی چیز کا اثر نہ ہو، لیکن جب یہی معاملہ سب کے سامنے زیرِ بحث آیا تو وہ شرم سے نظریں جھکائے بیٹھ گئی۔
“آپ لوگوں کو میری طرف سے غلط فہمی ہوئی ہے، میرا معدہ کچھ دن سے ٹھیک نہیں ہے ،تبھی میں نے نرم غذا کا انتخاب کیا ہے۔۔” سبرین نے وضاحت دی۔۔
“تم کو صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے، میں سمجھ گئی۔۔ڈونٹ وری۔۔” فریا نے ہنستے ہوئے شریر نظروں سے اسے دیکھ کر اس کا ہاتھ سہلایا۔۔
سبرین اس کی بات پر کافی مایوس ہوئی اس کی دوست ہی غدار نکلی تھی۔
شہزام جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا اپنی لمبی گھنی پلکیں اٹھا کر اپنے مخالف میں بیٹھی اس حسین عورت کو دیکھا۔
اس نے آج ہلکے گلابی رنگ کا اونی ڈریس پہنا ہوا تھا۔اس کے گلے سے نظر آتی اس کی جلد دودھ جیسی سفید تھی۔جبکہ اس کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔۔ یہ سرخی بڑھتی ہوئی اس کے خوبصورت کانوں کے لو تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں بناء کسی احساس کے، تاہم اس نے فوری طور پر اپنی نظر اس پر سے ہٹا لی تھی، اور کافی کے گھونٹ پینے لگا۔
ان دونوں کی نظروں کو دیکھ کر فریا کے ذہن میں ایک خیال تیزی سے سرعت کرگیا۔۔ اس نے اپنا فون اٹھایا اور ایسے ظاہر کیا جیسے اپنی دوست سے کچھ ڈسکس کرنا چاہ رہی ہو۔
“کون سی جگہ تم رینٹ پر لینا چاہتی ہو؟ میرے خیال میں یہ اپارٹمنٹ تمہارے لئے بیسٹ رہے گا۔
اس کا ماہانہ صرف آٹھ سو ڈالر ہے۔”
فریا کی بات پر شیث حیران ہوا پہلے سبرین پھر شہزام کو دیکھا اسے کچھ کچھ نہیں بہت کچھ سمجھ میں آگیا تھا ،وہ اپنے دوست کے مزاج سے اچھے سے واقف تھا۔
” آپ کس طرح سے صرف آٹھ سو ڈالر ماہانہ پر فلیٹ لے سکتے ہیں؟کون لے رہا ہے؟” وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا۔
فریا نے دکھاوے کے طور پر افسردگی سے ٹھنڈی سانس بھری۔
” سبرین کو چاہیئے۔ جب سے اپنے گھر سے نکال دی گئی ہے، اس کے پاس اب کوئی رہنے کی جگہ نہیں۔۔نہ اس کے پاس اتنا اماؤنٹ ہے، کہ کسی اچھی جگہ پر رہ سکے۔۔رات بھی وہ ایک کمتر بجٹ والے ہوٹل میں ٹہری تھی۔۔۔۔جہاں کوئی کھڑکی تک نہیں تھی،بڑی بات یہ کہ وہاں کا بستر تک کافی گندہ تھا۔۔مزید یہ کہ وہاں لوگ تاش کھیلتے تھے۔ کتنی خطرناک جگہ تھی۔” فریا نے سوچ کر ہی جھرجھری سی لی۔
سبرین سر جھکائے خاموشی سے کافی کے گھونٹ بھرتی رہی۔
فریا جو اس وقت ڈرامہ کوئین بنی ہوئی تھی،واقعی اس وقت بہترین دوستی کا حق ادا کررہی تھی۔
شہزام نے یہ سن کر لب بھینچے شدید ناگواری سے سر جھکا لیا۔
شیث نے حیرت سے اپنا سر گھما کر شہزام کو دیکھا۔
“شاان، اتنی خوبصورت بیوی کا تم نے اتنی خطرناک جگہ پر رہنا کیسے گوارا کیا؟اس کی دیکھ بھال کرنے میں اتنی لاپرواہی کیسے کرسکتے ہو تم ؟”
اس وقت سبرین بھی ڈرامہ کوئین بن گئی۔
“یہ ساری میری ہی غلطی ہے۔میں نے فدی کو چپس کھلا دیئے تھے۔جس وجہ سے اس کو الٹی آگئی تھی، شان نے مجھے اس وجہ سے باہر نکال دیا۔بائے دا وے، اب فدی کیسی ہے؟کیا وہ اب ٹھیک ہے؟”اس نے پریشانی سے پوچھا۔
شیث اس بات پر مسکرایا۔
” خود کو اس کا الزام مت دو، فدی تو۔۔۔۔۔”
“اس کی حالت بہتر نہیں ہے۔” شہزام نے جلدی سے شیث کی بات میں مداخلت کر کے جملہ مکمل کرلیا۔۔ مبادا شیث حقیقت کا منہ نہ کھول دے۔۔ “تمہاری معافی اب بے کار ہے۔”
شیث تو اس کے صاف جھوٹ پر اس کا منہ تکتا رہ گیا۔
عجیب سے تاثرات لئے شیث نے سبرین کے لئے دلی ہمدردی محسوس کی۔۔ وہ جانتا تھا سبرین اس الزام کی بالکل بھی مستحق نہیں ہے۔
یہ شہزام تو بہت ہی ظالم ہے۔
سبرین کا چہرہ یہ سن کر اچانک ہی زرد ہوگیا۔وہ تو یہ سمجھ رہی تھی کہ فدی کی حالت اب بہتر ہوگی، اور شہزام نے اس کی کچھ دیر پہلے سائیڈ لی تھی جس کا مطلب اس کا غصہ ختم ہوگیا ہے۔لیکن۔۔۔۔
“مجھے بتاؤکہ تم اس کی تلافی کیسے کرو گی؟ ” شہزام اچانک سے دوبارہ بولا۔
سبرین دنگ ہوئی۔
“پیسوں سے؟؟ لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔”وہ افسردہ ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہوئی۔
شہزام کی گھنی بھنویں تعجب سے اٹھی تھیں۔۔یہ عورت عام طور پر تو بہت ہی ہوشیار بنتی تھی لیکن اب وہ اس مقام پر بےوقوف کیوں نظر آرہی ہے؟
“ڈاکٹر نے کہا ہے کہ فدی کو آرام کی ضرورت ہے۔۔اس کی خوراک اور رہنے کی عادت کو اچھے سے سنبھالنے کی ضرورت ہے۔اگر تم واقعی بھی گلٹی محسوس کرتی ہو۔۔ تو تم کو اس کا خیال رکھنا پڑے گا۔دن میں تین بار اس کو صحتمندانہ کھانا کھلانا پڑے گا۔آئلی چیزوں سے پرہیز کروانا ہوگا۔اس کی بجائے تازہ ،غذائیت سے بھرپور کھانا دینا ہوگا جو اس کا معدہ ہضم کرسکے۔ کرسکتی ہو؟؟” شہزام نے سرد انداز میں اسے دیکھ کر تفصیلی بات کی۔
“کففف، کففف۔”شیث کو اس آدمی کے بے شرمانا کلمات سن کر بے اختیار کھانسی لگ گئی۔
اب بات صاف ظاہر تھی کہ شہزام ایک پیاری سی نینی مفت میں حاصل کرنا چاہتا تھا مطلب “ایک تیر سے دو شکار”واہ شان واہ۔۔
شیث واقعی شہزام کی ذہانت کا قائل ہوا۔ کتنا چالاک تھا۔۔۔
سبرین کچھ لمحے تو دنگ رہ گئی۔۔ پھر یقین دہانی کے لئے پوچھا۔
” اس کا مطلب ۔۔میں واپس آسکتی ہوں؟۔۔ میں آپ کے گھر دوبارہ سے رہ سکتی ہوں؟”
شہزام نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں کو دیکھ کر اسے یاد دلانا ضروری سمجھا۔
“ساری سوچیں ذہن سے جھٹک کر صرف ایک بات یاد رکھو،آج سے، ابھی سے تم صرف فدی کی کیئر ٹیکر ہو۔۔ جسے صرف فدی کا خیال رکھنے کے لئے رکھا گیا ہے۔” اس نے سبرین کو کسی خوش فہمی میں رکھنا نہیں چاہا۔
“شیور، نو پرابلم” سبرین بہت پرجوش تھی اتنی کہ اس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔اس کا مطلب تھا اسکے پاس اب بھی ایزد کی مامی بننے کا موقع تھا۔
بہر حال ،اگروہ فی الوقت بلی کی کیئر ٹیکر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے میں کامیاب ہوگئی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ مستقبل میں شہزام کی ذاتی کیئر ٹیکر بھی بن سکتی ہے۔
شہزام کی آنکھیں اطمینان کے احساس سے چمکنے لگی تھیں۔
نہ اسےاپنے رات کے کئے ناروا سلوک پر معافی مانگنے کی ضرورت پڑی۔نہ اس کا تذکرہ کرنا پڑا بلکہ الٹا سبرین کو گلٹی محسوس کروا کر بلی کے لئے مفت میں کیئر ٹیکر بھی حاصل کرلی۔
اس طریقے سے اس نے جیسے ایک پتھر سے دو شکار مارے تھے۔
کھانے کے بعد شیث بل پے کرنے چلا گیا۔تب سبرین شہزام کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
اچانک ہی شہزام نے اس کی طرف ایک کارڈ بڑھایا۔
” ابھی مال جاؤ ،اور فدی کے ڈنر کے لئے سامان خریدو۔”
“وہ کیا کھائے گی؟” سبرین نے کارڈ تھام کر حیرت سے کہا۔۔ کیونکہ اس نے کبھی بلی نہیں پالی تھی۔
شہزام کو اس کے بیوقوفانہ سوال پر سخت ناگواری محسوس ہوئی۔ ناگواری سے کہا۔
“ابھی کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا ؟ غذائیت سے بھرپور، اور فریش کھانا۔”چبا چبا کر کہا گیا۔
“اوہ۔۔۔” سبرین نے اس کے غصے کا نوٹس ہی نہیں لیا۔۔ کیا درد سری ہے بھئی؟ آج کل ایک بلی کی زندگی بھی ایک انسان سے بہتر ہے۔ اس ٹائپ کا کھانا بلی کے حمل کی پرورش کے لئے تھا یا اس کے ہاضمے کے سکون کے لئے؟”
“تو تم رات کو ڈنر پر گھر آؤ گے؟ تم کیا کھانا پسند کرو گے؟ میں تمہارے لئے وہی بناؤں گی۔”
” کچھ بھی۔” یہ کہتے ساتھ ہی شہزام شیث کے ساتھ چلا گیا۔
ان دونوں کو جاتے دیکھ کر فریا نے مسکراہٹ دبائی۔
“مجھے تعجب ہے کہ اس کارڈ میں کتنے سارے پیسے ہونگے؟ اس کارڈ کے ساتھ ہوتے اب یقیناً تمہیں پیسے کی کمی نہیں ہوگی۔”
“آئی ایم ناٹ شیور۔ میں اس میں سے پیسے خود پر خرچ نہیں کرسکتی جب تک کہ کارڈ اس کا ہے”۔ سبرین نے سر ہلا کر افسردگی سے کہا۔ “ان دو دنوں کے دوران میں جلد ہی کوئی جاب ڈھونڈھ لوں گی۔”
“آلرائیٹ، تو پھر اسے جاری رکھو،اب جبکہ تم کوئی کرایہ کی جگہ نہیں لے رہی، تو میں بھی چلتی ہوں۔گاڑی مجھے پک کرنے آئی ہے۔”
فریا کے گاڑی میں بیٹھ کر جانے کے بعد سبرین بھی اپنی کار کے طرف بڑھی۔
اس لمحے اس کی نظر ایزد پر گئی۔ جو اپنے لمبے قد کے ساتھ، اس کی کار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ سبرین کے اندر جیسے سردپن بھر گیا۔
لوگ کہتے ہیں۔
” جتنی کسی سے محبت ہوتی ہے ، اتنی ہی زیادہ نفرت بھی ہوجاتی ہے”
اور یہ بات اس وقت سبرین کو سچ لگنے لگی تھی۔
“کیا یہ بات آبش نے تم کو بتائی ہے کہ میں یہاں موجود ہوں ؟” سبرین نے سر گھما کر اس کے چہرے کو دیکھ کر کنفرم کیا۔
اس وقت ایزد کی آنکھوں میں اپنائیت کی بجائے کافی مایوس کن تاثرات تھے،۔
” سبرین ، تم اپنی بہن سے چاہے کتنا ہی حسد کرتی رہو یا اس سے ناراض رہو، لیکن اس کے باوجود بھی تم کو اپنی بہن کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیئے تھا۔”
سبرین اس کی بات پر حیران ہوئی، پھر مسکرادی۔
” یہ سب آبش نے تمہیں بتایا ہے ۔ درست؟؟؟”
“مجھے یہ بات خود سے پتا چلی ہے، اس نے نہیں بتائی۔۔کسی نے آج کے ہوئے واقعے کو سناپ چیٹ پر پوسٹ کیا تھا۔”ایزد کے لہجے میں اس کے لئے ملامت تھی۔
“تم نے کسی اور کے پاتھوں اپنی بہن کو پبلک کے سامنے گھسیٹوا کر باہر پھنکوایا ، اس نتیجے میں اس کا لباس تک تار تار ہوا ہے، تم نے اس کے ساتھ ساتھ اس کی دوستوں جنت اور سنڈی ٹرنر تک کو نہیں بخشا اور ان کے لئے مشکلات بنادی ہیں۔ تمہارے رویئے نے کافی مایوس کیا ہے مجھے۔۔ کس قدر بھیانک روپ ہے تمہارا۔۔مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا۔ “وہ سخت طیش میں نظر آرہا تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭
Next Episode 06
Prev Episode 04
We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚
Nice going
Plz next epi kb auegi 6 epi