- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Rozan e Zindaan Episode 04
Writer: Raqs eBismil
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا
تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔
یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
Episode 04
پورے نو بجے وہ کمپنی پہنچ گئی ، یہ پہلا دن تھا جب سے وہ باہر سے واپس آئی تھی۔وہ سمٹ بلڈنگ ڈیزائننگ گروپ میں ڈیزائنر تھی، یہ یزدانی خاندان کی بڑی کارپوریشن تھی۔
وہ جیسے ہی بلڈنگ میں داخل ہوئی، پروجیکٹ مینجر جمائل نے عجیب سے انداز میں کہا۔
” تم اب یہاں نہیں آسکتی، یہ پراجیکٹ اب آپ کے پاس نہیں ہے۔”
“کیا مطلب ہے تمہارا ؟” سبرین نے اچھنبے سے پوچھا۔
جمائل کی آنکھوں میں سبرین کے پیچھے دیکھتے ہی چمک آئی۔
“آبش ، آپ یہاں ہیں۔”
سبرین نے مڑ کر پیچھے دیکھا
جہاں آبش کے ساتھ ایزد بھی کھڑا تھا، اس نے نوٹس کیا کہ دونوں نے ایک جیسے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اور آبش نے بڑے تفاخر سے ایزد کا بازو تھاما ہوا تھا۔
کھڑکی سے جھانکتی سورج کی روشنی ان دونوں کے وجود پر چمک رہی تھی۔ دونوں ایک جیسے آؤٹ فٹ میں انتہائی خوشگوار جوڑا نظر آرہے تھے۔
سبرین کو لگا جیسے کسی نے اس کے دل پر گھونسا دے مارا ہو، درد سے اس کا دم گھٹنے لگا۔۔ خاص طور پر جب ایزد کی لاتعلق نگاہیں اس پر سے فوراً ہٹ کر دوسری سمت مڑ گئیں۔
جمائل آبش کی طرف رخ کرکے بولا ۔”HQ نے پراجیکٹ کا آرڈر آبش کے ہاتھ میں دیا ہے۔”
اس سے پہلے کہ وہ پیچھے گھوم کر آنے والوں کو دیکھتی، ایک تھرتھراہٹ سی سبرین کے وجود سے گزری۔
” سبی ،پریشان مت ہونا۔” وہ ایسے چونکی جیسے وہ کافی زیادہ شاکڈ ہوگئی ہو، لیکن ایزد کے ایک ہاتھ نے آبش کو کمر سے تھام لیا۔
اس منظر کو دیکھ کر سبرین سخت بدمزاہوئی جیسے کڑوی گولی کے جیسے بولی۔
“آبش ،آخر تمہیں اور کتنا چاہیئے؟تم پہلے ہی سے ایزد کو چھین چکی ہو،اور اب تم نے مجھ سے وہ پراجیکٹ بھی چھین لیا جس پر میں نے دن رات محنت کی، کیا تم ہر اس چیز سے حسد کرنے لگی ہو جو مجھ سے تعلق رکھتی ہے؟”
“بہت ہی کوئی مضحکہ خیز بات کی تم نے۔” جمائل طنزیہ ہنسا۔”ایزد تمہارا کب ہوا؟ اور تم کو یہ پروجیکٹ بھی ایزد کی وجہ سے ملا تھا۔ “
“جمائل بس کرو۔۔” آبش نے جمائل کو آنکھ دکھائی ۔
“میں کروں گا۔۔ تم اب ایزد کی منگیتر ہو، اور یہ پراجیکٹ حاصل کرنا تمہارا حق ہے۔”
“تم بھی یہی سمجھتے ہو؟” سبرین نے ایزد سے پوچھا جو کافی دیر سے خاموش کھڑا تھا۔
بات یہ تھی کہ اس پراجیکٹ کے لئے ایزد نے ہی اس کا تعارف دوسری پارٹی سے کروایا تھا ۔۔
لیکن یہ سبرین ہی تھی جس نے پورا مہینہ دوسری پارٹی سے ملاقات کا وقت نکالا تھا۔۔تاکہ وہ شرائط کوحتمی شکل دینے سے پہلے ڈسکس کرسکیں۔
“وہ پارٹی صرف میری وجہ سے تم سے ملنے کو راضی ہوئی تھی۔” ایزد نے ابرو چڑھائی۔
“سب ہی یہ بات جانتے ہیں لیکن کچھ لوگ صرف اپنی بے عزتی کروانے پر مصر ہیں۔” جمائل نے ہنکارا بھرا۔
“میں نہیں مانتی، میں ڈیڈ کے پاس جارہی ہوں ۔” سبرین جعفر یزدانی کی آفس کی طرف بڑھی۔
“ڈیڈ ،آپ نے ہوٹل والا پراجیکٹ آبش کو کیوں دیا؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں میں نے اس پروجیکٹ پر کتنی محنت کی تھی۔”
جعفر کو سخت برا لگا، اس نے ناگواری سے کہا۔
“میں تم کو دوسرا پراجیکٹ دیتا ہوں، یہ ایک بنگلے کا پراجیکٹ ہے۔۔کیا خیال ہے؟اتنے چھوٹے پیمانے کے پراجیکٹ کے لئے آبش قابل ہے، جو ابھی اس انڈسٹری میں ناتجربہ کار ہے۔سو اچھا ہوگا اگر وہ نیچے سے شروع کرے۔۔”
اس کی بات پر غصے سے جعفر یزدانی نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔ “وہ تمہاری بڑی بہن ہے اچھا ہوگا اگر اس کی تھوڑی عزت کرو، تمہاری ماں درست کہتی ہےکہ تم ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہو۔”
سبرین ان کے انداز پر چونک گئی اور دکھ سے کہا۔
” اس نے میرا منگیتر چھینا، اور اب یہ ہوٹل والا پراجیکٹ بھی۔۔اب میں کس طرح اس عورت کی عزت کروں؟”
“اس نے کوئی پراجیکٹ تم سے نہیں چھینا، سب پراجیکٹ اس کمپنی سے تعلق رکھتے ہیں، میں اس کمپنی کا باس ہوں،اور میں اپنی مرضی سے پراجیکٹ کسی کے ہاتھ میں بھی دے سکتا ہوں، اس کے علاوہ ایزد سے ابھی تمہاری منگنی نہیں ہوئی تھی، اس نے خود تمہاری بہن کو چنا ہے۔”
اس سے پہلے کہ وہ خود کو سچ کہنے سے روک لیتی،الفاظ بے اختیار اس کی زبان سے پھسل پڑے۔
“ایزد کبھی بھی آبش کا انتخاب نہ کرتا ،اگر آپ نے کمپنی کے 80% حصص آبش کو منتقل نہ کیئے ہوتے۔”
“تمہاری بہن نے کئی سالوں سے ناقابلِ بیان تکلیف سہی ہے، اسی لئے تمہارا فرض بنتا ہے کہ اس کی ہرممکن مدد کرو، اور کل کے ہوئے واقعے پر اس سے معافی بھی مانگو۔”جعفر نے اسے تنبیہہ کی ۔
“میں یہ نہیں کرسکتی۔” اس نے دانت پیسے۔
جعفر نے اس کی ضد پر غصہ میں ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارا۔
” تو پھر چھوڑ جاؤ اگر تم یہ نہیں کرسکتی، لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا کہ تم اس کمپنی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو۔”
اس کے غصے میں بھرے الفاظ نے سبرین کے دل پر کسی زوردار طوفانی تھپڑ کی طرح لگے، اس کے گال شدید توہین کے احساس سے سرخ ہوئے۔
“ٹھیک ہے، میں چھوڑ دیتی ہوں، مجھے یقین ہے کہ میری جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ کو فرسٹ کلاس آرکیٹیکٹ سرٹیفکیٹ کے ساتھ کہیں بھی نوکری مل جائے گی۔”
وہ اپنی آفس میں واپس آئی اور بھرے دل کے ساتھ اپنی چیزیں کارڈ بورڈ باکس میں سمیٹ کر ڈالنے لگی ۔
جیسے ہی وہ باہر جانے لگی آفس کے بےشمار ملازم اسے دیکھ کر آپس میں بڑبڑانے لگے تھے۔
سبرین سب کی عجیب نظریں خود پر دیکھ کر مجبوراً مسکرائی۔
یہ کمپنی اس نے کبھی کسی عہدے کی لالچ نہیں جوائن کی تھی، اپنا ہر کام ایمانداری اور محنت سے کیا،اکثر وہ سب ملازموں کے جانے کے بعد آخر میں نکلتی تھی ۔
وہ غائب دماغی کے ساتھ کافی وقت یونہی بناء سمت و منزل کا تعین کیے چلتی رہی۔ ایزد نے اس دوران کئی بار فون کی لیکن اس نے ہر بار کال ریجیکٹ کردی۔
آخر تھک کر سپر مارکیٹ سے کچھ سنکز اور دوسری چیزیں خرید کر واپس فلیٹ پہنچی۔
جیسے ہی وہ اندر ہی آئی فدی دم اٹھا کر بھاگتی ہوئی اس کے پیروں میں لوٹنے لگی۔
اس نے بلی کے سر پر پیار سے تھپکا،اور بڑبڑائی۔
“فدی اب ایک تم ہی بچی ہو، جو مجھے لائک کرتا ہے۔”
“میاوں ں ں ،” بلی نے جواب دیا اور سکون سے آنکھیں ایسے بند کیں،جیسے وہ سبرین کی بات مکمل سمجھ گئی ہو۔
سبرین کے ہونٹوں کے کنارے مسکراہٹ میں ڈھلے۔
“میں شرط لگاتی ہوں کہ تم کو مچھلی کے خشک سنکس چاہیئے ہے نا؟ میں ابھی لاتی ہوں۔”
شیرام دن کے وقت گھر پر نہیں ہوتا تھا تو دونوں عورت اور بلی نے ساتھ لنچ کیا۔اس کے بعد سبرین نے خود کو صوفے پر گرایا اور لیٹ کر لیپ ٹاپ پیٹ پر رکھ کر آن لائن جاب ڈھونڈھنے لگی۔
رات کے دس بجے شہزام واپس آیا تو اس نے لیونگ روم کی بتی روشن دیکھی۔
صوفے کے اوپر سبرین اپنے ساتھ ساتھ بلی کو بھی چپس کے ٹکڑے کھلا رہی تھی۔
“تو تم اس قسم کا کچرا میری بلی کو کھلاتی ہو، جب میں گھر پہ نہیں ہوتا؟”اس کے وجیہہ نقوش سرد ہوئے اور بھنویں تن گئیں جب یہاں وہاں بسکیٹز کے ڈبے، سنکس، اسپائسی فرائز، چیز،چاکلیٹس اور چپس کے تھیلے بکھرے دیکھے۔
اس نے بلی کو اٹھایا اس کی مونچھوں پر تھوڑی سی چاکلیٹ لگی ہوئی تھی۔
“میں نے، فدی کو صرف اتنا سا کھلایا ہے، صرف اتنااا سا “اس نے انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر “اتنے سے” کی وضاحت کی۔ “فدی مسلسل مجھے تنگ کررہی تھی کہ اسے دوں،تو میرے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا۔۔”اس نے شرمندگی سے وضاحت کی۔
“ایک بلی کو کیا پتا؟ تم جیسے بالغ انسان کو اچھے سے پتا ہونا چاہیئے۔”اس نے ناگواری سے ٹیبل پر پڑی چیزیں ہاتھ بڑھا کر نیچے پھینک دیں۔”آئندہ میرے گھر میں یہ گند کچرا مت کھانا۔مجھے اس کی سمیل پسند نہیں۔”
سبرین نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ ڈسٹ بن میں پڑے سنکس کے ریپر دیکھے اور سوچا۔
“کیا کوئی شخص نمکین چیزوں کی بو سے بھی بیزار ہوسکتا ہے؟ عجیب بات ہے!! “
اس نے مجبوراً مسکرا کر اس کی بات کی تائید کی۔
“تم صحیح کہتے ہو شان۔۔یہ واقعی گند ہے،میں آپ کی بات مانوں گی،اور آئندہ یہ نہیں کھاؤں گی۔”
“اپنی شکل آئینے میں دیکھو کتنی اداکارہ لگ رہی ہو۔” آدمی نے اس سے بحث نہیں کرنی چاہی ناگواری سے کہتا بلی اٹھا کر اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔
“شان، تم نے سارا دن باہر گزارا ہے کیا تم کو بھوک لگی ہے؟؟ میں تمہارے لئے مزیدار پاستا بناتی ہوں۔” سبرین نے ایسے ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ بے شرمی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے گئی۔
وہ اس کی چال پر چپ رہ گیا، جو کھانا اس نے باہر ریسٹورنٹ میں ایک بزنس میٹنگ کے دوران کھایا کافی اسپائسی تھا، بمشکل وہ چند نوالے کھاسکا تھا۔تو اب اس کی بات پر اس کا معدہ بھوک سے بلکنے لگا۔
جب وہ چپ رہا تو سبرین سمجھ گئی اور یہ کہتے ہوئے مڑ گئی۔
“میں تمہارے لئے پاستا بنارہی ہوں، تب تک تم شاور لے لو۔”
شہزام نے یکدم نگاہ اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا تاکہ اسے گھور سکے،لیکن وہ مڑ کر باہر نکل چکی تھی۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ گرم خوشبودار پاستہ کا پیالہ تھامے اندر آئی۔۔
“شان کھانا تیار ہے۔”
شہزام ابھی تک باتھ روم نہا رہا تھا۔
اس نے پیالہ بیڈ کے ساتھ ٹیبل پر رکھا اور جانے کو مڑی۔
ٹھیک اسی وقت شہزام باتھ روم کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس کے تاثرات بگڑ گئے۔
“م م ۔۔۔ میں یہ کھانا لائی تھی تمہارے لئے۔۔” وہ ہچکچائی تھی۔ اور جلدی سے باہر نکلنا چاہا ۔۔ اس جلد بازی میں اس کا پاؤں کارپٹ میں اٹکا اور وہ زمین پہ گرگئی۔
اس کی سخت آواز اس کے کانوں میں برسی۔
“میں نے تم جیسی بے شرم عورت پوری زندگی میں نہیں دیکھی۔”وہ دھاڑ رہا تھا۔۔
اس کی دھاڑ پر ڈر کر سبرین رونے جیسی ہوگئی۔لیکن افسوس کہ آنکھوں میں آنسو نہ آسکے۔
“میں جان بوجھ کر نہیں گری، میں اتفاقاً کارپٹ میں الجھ گئی تھی۔”
“میں روز اس کارپٹ سے گزرتا ہوں لیکن ایک بار بھی نہیں الجھا۔تم اپنے احمقانہ بہانوں سے قائل نہیں کرسکتی۔ “وہ نہیں مانا کہ وہ واقعی ابھی الجھ کر گری تھی۔۔ یہی سمجھا کہ سبرین نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے ۔
اس نے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں۔۔ سچویشن اب بگڑ چکی تھی، تبھی اس نے معصومیت سے کہا۔
” ہوسکتا ہے میرا دماغ خالی ہوگیا ہو اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی ہو۔”
“تو تم اب سارا الزام مجھ پر لگا رہی ہو؟” آدمی نے غصہ سے طنزیہ کہا اس نے اپنی پوری زندگی میں اس جیسی بے باک عورت نہیں دیکھ تھی۔
“نہیں، سارا نہیں۔۔کچھ میری غلطی بھی ہے۔ “وہ منمنائی۔
” نکلو باہر ۔” شہزام دھاڑا اس کی برداشت جیسے ختم ہوگئی تھی۔اس کا خون جیسے ابلنے کو تھا،اس نے بمشکل اس کے چہرے پر لات رسید کرنے کی خواہش پر قابو پایا۔
وہ اس کی دھاڑ پر ڈر کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“ہاں، کیوں نہیں۔۔م میں بس جاتی ہوں۔”اس نے ڈر کر جلدی سے باہر قدم بڑھائے۔۔
٭٭٭٭
پتا نہیں کتنا وقت گزرا۔۔ شاید رات کا آدھا پہر تھا جب باہر سے فدی کی میاؤں میاؤں سنائی دی، بلی شاید تکلیف سے تڑپ رہی تھی، سبرین نے جلدی سے دروازہ کھولا۔
شہزام بلی تھامے شاید باہر جارہا تھا، وہ پریشانی سے آگے بڑھی۔
“کیا ہوا بلی کو؟”
شہزام نے غصہ سے اسے دیکھا اور طنزیہ غرا کر بولا “اتنا گند کچرا بلی کو کھلاؤ گی تو کیا سمجھتی ہو یہ ٹھیک ہوگی؟”
سبرین نے اس سے پہلے راستوں پر کافی آوارہ بلیاں دیکھی تھی، جو ہر چیز کھالیتی ہیں۔۔ تبھی وہ سمجھی فدی کا بھی ہاضمہ مضبوط ہوگا ۔
“اب ہٹو راستے سے ۔۔”وہ غرایا۔۔
سبرین ڈر گئی۔۔ لیکن پھر خود بھی اس کے پیچھے بھاگی۔
وہ گاڑی میں بلی کو بٹھا کر ہاسپٹل لے جارہا تھا۔
“میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔۔ میں ایک اچھے جانوروں کے ڈاکٹر کو جانتی ہوں۔”جلدی سے کہہ کر وہ آگے بڑھی۔۔
“اگر بلی کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا میں تم کو نہیں چھوڑوں گا۔” شہزام نے اس کے بازو کو سختی سے تھام کراسے روکا اور غصہ میں چبا چبا کر الفاظ کہے ،پھر اسے سختی سے دور دھکیلا۔
وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکی اور نیچے گر گئی۔
“یہاں سے چلی جاؤ، میں تم کو اور برداشت نہیں کرسکتا۔” وہ اس پر غرایا۔”جب میں واپس آؤں تو تمہیں نہ دیکھوں ” انگلی اٹھا کر وارن کیاگیا ۔۔پھر گاڑی میں بیٹھ کر جھٹکے سے دروازہ اس کے سامنے بند کیا ۔اور زن سے گاڑی بھگالی۔۔ اتنے زور سے کہ سبرین کا ننھا سا دل کانپ اٹھا۔
پیچھے اندھیرے میں وہ تنہا نیچے پڑی رہ گئی۔آنسو بے اختیار آنکھوں سے نکل کر اس کے گال بھگونے لگے ۔۔ شدید دکھ سے وہ آہستگی سے لڑکھڑاتی ہوئی کانپتے ہاتھوں کے سہارے اٹھی۔
ہر ایک نے آج اس سے ناروا سلوک کیا تھا۔صرف ایک بلی تھی جو اس کے ساتھ اچھی تھی۔
اتنی تکلیف اس نے تب بھی محسوس نہیں کی جب یزدانی ہاؤس سے نکلی تھی۔
تاہم اب اسے یہاں اور نہیں ٹھہرنا تھاکہ اس گھر کا مالک اسے نکل جانے کا حکم سنا کر جاچکا تھا۔
اس کے ہونٹ تکلیف سے مسکرائے ۔وہ اچھی طرح جانتی تھی، شہزام کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، پھر بھی سبرین نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اسے مائل کرنے پر ضد باندھ لی تھی، اس کوشش میں اس نے اپنے وقار کا خیال بھی نہیں کیا تھا۔کیا وہ اس کے قابل تھا؟؟
اس کوشش میں اس نے فدی کو بھی تکلیف دے ڈالی تھی ۔۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے فلیٹ میں واپس آئی ۔
شاید اب اسے یہاں سے جانا تھا۔۔
٭٭٭٭
رات کے دو بج رہے تھے، وہ فریا کے پاس جاکر اسے پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی، اسی لئے قریبی فائیو اسٹار ہوٹل میں آگئی۔
لیکن حیرت کی بات جب ،رسیپشن پر اس نے اپنا کارڈ دے کر ادائیگی کرنی چاہی تو رسیپشن نے اسے یہ کہہ کر کارڈ واپس کیا۔
” سوری ،میم ،آپ کا کارڈ استعمال کے قابل نہیں رہا۔”
یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔۔ پھر دوسرا کارڈ نکالا۔
لیکن ۔۔ افسوس کے ساتھ اس کا دوسرا کارڈ بھی پے منٹ کے قابل نہیں رہا ۔۔ تو وہ سخت پریشان ہوئی۔
“تو کیا ڈیڈ نے اس کے کارڈ سسپینڈ کردئے ہیں؟ “
حالانکہ اس نے کتنے ہی سالوں میں اپنی محنت سے مختلف پروجیکٹ کامیاب کرواکر کچھ ملین ڈالرز کما کر دیئے تھے۔۔ اپنے پاس رکھنے کی بجائے اس نے سب صالحہ کے ہاتھ میں دیئے تھے۔
لیکن اب اس کے کارڈز کو سسپینڈ کردیا گیا تھا۔۔یہ وہ کارڈز تھے جو جعفر یزدانی نے دیئے تھے۔
اب اس کے پاس صرف روزانہ کے خرچ کے صرف دس ہزار بچے تھے۔
“اگر آپ ہمارے ہوٹل کی رہائش افورڈ نہیں کرسکتیں تو اس ہوٹل کے قریب ہی ایک سستا گیسٹ ہاؤس ہے وہاں چلی جائیں جس کا ایک روز کا رینٹ تین ہزار ہے۔”رسیپشن نے اسے عجیب نظروں سے دیکھ کر ناگواری سے مشورہ دیا۔
وہ بالکل بھی یہ توقع نہیں کرسکتی تھی کہ زندگی میں کبھی ایسا موڑ بھی آسکتا ہے جب وہ آسمان سے گر کر زمین پر آجائے گی۔
وہ جاب سے تو فارغ ہوچکی تھی اب بے گھر بھی ہوچکی تھی، ایک ہی دن میں اس نے لوگوں کے مختلف روپ دیکھ لئے تھے۔اب وہ کس طرح سروائیو کرے گی؟
“اب کھڑی کیا سوچ رہی ہو؟ میرے خیال سے تم کو چلے جانا چاہیئے۔” رسپیشن نے مروت ایک طرف رکھ کر بدتمیزی سے سرد انداز میں اسے نکل جانے کو کہا۔
اپنے وقار کو بمشکل نگلتی وہ بیگ گھسیٹتی ہوٹل سے باہر نکل آئی۔
اب اسے اپنے سے کمتر لوگوں کے ناگوار روئیے بھی سہنے تھے۔۔
کئی ہوٹلز رات کے اس ٹائم کمرہ دینے پر راضی نہیں تھے، اسے اپنے بجٹ کے مطابق چلنا تھا، آخر ایک کم قیمت کے گیسٹ روم میں اسے ایک ہزار ڈالر کے بیچ میں کمرہ مل گیا۔۔
سستے سے ہوٹل میں داخل ہوتے ہوئے کسی نے اس کے علم میں لائے بغیر تصویر کھینچ لی اور نیٹ پر بھیج دی۔۔۔
٭٭٭٭
شہزام جب ووٹرنری ہاسپٹل پہنچا، سرجن نے پرسنلی اسے سلام کیا۔
وہ خود باہر لب بھینچ کر انتظار میں بیٹھ گیا۔اسے سخت پچھتاوا تھا، کہ اس نے ایسی عورت سے شادی کیوں کی؟ جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
پندرہ منٹ بعد ڈاکٹر باہر آیا اور مسکرا کر اسے بتایا۔
“مبارک ہو، آپ کی بلی دو ہفتے کی پریگننٹ ہے۔”
یہ سن کر جیسے اس کے الفاظ کہیں کھوگئے۔۔ خبر اس کی توقع کے بالکل الٹ تھی۔
“دو ہفتے کی؟” وہ شاکڈ سا بڑبڑایا۔۔
“کیا ایک حاملہ بلی انسان کی طرح الٹی کرسکتی ہے؟” شہزام نے ہچکچاتے ہوئے تجسس سے پوچھا۔
“یہ تو بلی کی کنڈیشن پر منحصر ہے۔” ڈاکٹر نے مسکرا کر وضاحت دی۔ “کچھ لوگ یہ دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اسے ہاضمے کا مسئلہ ہوگیا ہے۔”
اور ٹھیک یہی بات شہزام نے بھی سوچی تھی۔۔اور اس کا الزام سبرین پر لگا دیا تھا۔۔ اس کے ذہن میں کچھ دیر پہلے کا سین فلم کی طرح گھوما کس بےدردی کے ساتھ اس نے سبرین کی تذلیل کی تھی۔اور اسے زمین پر دھکادیا اور یہی نہیں بلکہ اسے وارن کر آیا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے یہ جگہ چھوڑ دے۔
“اففففف۔۔۔” اس نے بے اختیار پریشانی سے پیشانی کو دو انگلیوں سے سہلایا۔
وہ عورت اس کی بلی کا خیال رکھ رہی تھی اور اس نے کیا کیا؟؟ غلط فہمی میں پڑ کر اسے باہر نکال دیا۔۔
٭٭٭٭
واپس فلیٹ پر پہنچ کر اس نے لائٹس آن کیں۔ لائٹس آن کرتے ہی اسے عجیب سے خالی پن کا احساس ہوا۔
گیسٹ روم کا دروازہ مکمل کھلا ہوا تھا۔ لیکن وہاں کوئی بھی حرکت معلوم نہیں ہورہی تھی،سوائے سناٹے کے۔وہ گیسٹ روم کی طرف بڑھا تاکہ وجہ جان سکے۔۔۔ لیکن جانچنے کے بعد اسے کہیں بھی عورت کا لباس تک نظر نہیں آیا جس کا صاف مطلب یہی تھا کہ۔۔۔وہ جاچکی ہے۔۔
اس کے ابرو پرسوچ انداز میں اٹھے تھے، اور باہم مل گئے تھے۔
بلی اس کے بازوؤں میں سست انداز میں مسلسل میاؤں کررہی تھی اور اس کی نظریں چاروں طرف سبرین کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔
وہ سخت پریشان تھا۔۔۔۔لیکن پھر خود کو سمجھایا کہ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا۔ان دونوں کو ایک دوسرے کی زندگی میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے تھی۔
بات اگر فدی کی کرو تو وہ اس کے لئے کوئی نینی رکھ سکتا تھا۔
٭٭٭٭
دس بجے صبح کو سبرین نیند سے اٹھ بیٹھی ،ساری رات ایک میلے سے صوفے پر سوکر گزرا تھا۔۔ناگوار سمیل کے باوجود بھی بالآخر اس پر نیند مہربان ہوگئی تھی۔۔صبح کی روشنی میں یہ چھوٹا سا کمرہ کافی حد تک گندہ نظر آیا۔۔بیڈ شیٹ میل سے اٹی ہوئی تھی۔ہر جگہ میل اور ڈسٹ تھی۔اسی لئے وہ صوفہ پر سوگئی تھی۔
فریا نے کال کی جب وہ فریش ہوکر باتھ روم سے باہر آئی۔
“بے بی، کیا تم اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہ رہی تھی؟ ایک کم بجٹ کے ہوٹل میں کس طرح پہنچ گئی؟”
فریا تو اس کے کال اٹھاتے ہی شروع ہوگئی نہ سلام نہ دعا ۔
“تم کو کس نے بتایا؟”وہ حیران ہوئی۔
“کم آن، ہر ایک آج صبح گروپ چیٹ میں اس موضوع پر بات کررہا ہے۔”اس کی آواز میں پریشانی کا عنصر صاف جھلک رہا تھا۔”کسی نے رات تمہاری تصویر کھینچ کر پوسٹ کردی ہے ،ہر ایک اب تم پر طنز کررہا ہے۔”
“اوہ۔۔۔۔” وہ بڑبڑائی۔
“تم کو غصہ نہیں آیا؟” فریا نے حیران ہوکر پوچھا۔”کیا ہوا تھا جو تم کو فائیو اسٹار ہوٹل کی بجائے انتہائی چیپ ہوٹل میں رات گزارنی پڑی؟”
“وقت بدلنے کے ساتھ چیزیں بھی بدل چکی ہیں، میرے ڈیڈ نے میرے سارے کارڈز سسپینڈ کردیئے، میرے پاس اب زیادہ پیسے نہیں بچے، رات کو شہزام نے بھی گھر سے نکال دیا۔” سبرین نے اسے آدھا سچ بتایا۔
“تو تم میرے پاس کیوں نہیں آئی؟”فریا کافی ناراضگی سے بولی۔
“کیونکہ رات کافی ہوگئی تھی، اور میں تم کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔”
” سبرین تم واقعی بہت بیوقوف ہو ۔۔ مجھے اڈریس بتاؤ” فریا نے غصے اور پریشانی ملے تاثر سے کہا۔
٭٭٭٭
چالیس منٹ بعد فریا سبرین کے پاس تھی ۔کمرے کی بری حالت دیکھ کر اسے اپنی دوست کے حالات پر تکلیف ہوئی۔
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔جو کسی شریف عورت کی رہائش کے بالکل بھی قابل نہیں تھا کیونکہ یہ طوائفوں کے استعمال میں تھا۔ان کی کافی ساری چیزیں کمرے میں پڑی ہوئی تھیں۔
“جلدی کرو۔۔ اور میرے ساتھ چل کر رہو۔۔ “فریا نے جلدی جلدی اس کا سامان سمیٹا۔۔
“نہیں ۔۔اگر میں تمہارے پاس رہی تو ایزد پھر آجائے گا۔”
اس کی بات فریا بھی سمجھ گئی، واقعی ایزد رات بھی اس کے پاس سبرین کے لئے آیا تھا ۔
“یہ آخری شخص ہے جسے میں دیکھنا نہیں چاہتی۔”
“میں بھی” فریا نے اس کی بات پر ایگری کیا۔”لیکن تم اب ایک شادی شدہ عورت ہو، آخر ایسی کیا بات ہوئی جو شہزام نے آدھی رات کو تمہیں گھر سے نکال دیا۔”
سبرین کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی۔پھر اسے تفصیل سے سب بتایا کہ کیا ہوا تھا؟
فریا کو اپنی دوست کے لئے گہرائی سے دکھ ہوا۔
“یہ آدمی ذہنی بیمار ہے، تم اس کی قانونی نصف بہتر ہو، کیا تم اس کے لئے ایک بلی سے بھی کم اہمیت رکھتی ہو؟”
“یہ بہرحال کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔۔۔کیا ہے؟؟” سبرین نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔ جس کی نظروں کا مفہوم فریا بھی اچھے سے سمجھ گئی تھی۔۔ کہ واقعی دونوں کے بیچ کوئی جذبہ بہرحال نہیں تھا۔
فریا ہچکچائی تھی۔
” اممم۔۔۔ ٹھیک۔۔ اس سے شادی کرنا تمہارا اپنا فیصلہ تھا۔”
سبرین خاموش رہی، اسے اپنی پسند پر افسوس تھا۔
اس کے افسردہ تاثرات دیکھ کر فریا نے ایک گہری سانس بھری۔
“چلو ،پہلے کسی اچھے سے ہوٹل میں پیٹ پوجا کرلیں، پھر کہیں تمہارے لئے اچھی سی رہنے کی جگہ دیکھتے ہیں۔”
گریپ فروٹ ریسٹورنٹ حال ہی میں میلبورین میں کھلا تھا، جس کے بیچ میں ایک وسیع و عریض صحن تھا۔
ریسٹورنٹ کے باہر لگژریز کاریں پارک تھی۔ یہ ایسی جگہ تھی، جو صرف امیر طبقہ کے لوگ ہی افورڈ کرسکتے ہیں۔
دونوں نے اپنی کار ایک جگہ پارک کی اور اندر بڑھنے لگیں۔
اندر داخل ہوتے ہیں ان کی نظر جانے پہچانے سے چہروں پر پڑی۔آبش، سنڈی، اور جنت جو کہ ان کے پڑوس میں رہنے والی امیر گھر کی لڑکی تھی،یہ دونوں ان کے ساتھ ہی پڑھی تھیں۔
“سنڈی۔۔۔!فریا نے اسے زور سے پکارا۔
سنڈی ٹرنر جو کہ سن گلاسز لگائے ہوئے تھی، انہیں دیکھ کر عجیب سا مسکرائی۔
فریا اسے دیکھ کر حیران ہوئی اور برا بھی لگا۔۔
“سنڈی تم نے ابھی کہا تم فوٹو شوٹ میں مصروف ہو، لیکن اب تم یہاں ان دونوں کے ساتھ نظر آرہی ہو، کیا تم نہیں جانتی یہ دونوں کیسی ہیں؟ جنت سبرین کی دشمن ہے اور یہ آبش دوغلی دو چہرے والی عورت ہے، جس نے سبرین کا منگیتر تک چھین لیا۔”
ایکچوئلی ،فریا نے اسے کچھ دیر پہلے فون پر کہا تھا کہ سبرین اور میں ہوٹل پر کھانا کھانے جا رہے ہیں تم بھی آؤ، لیکن سنڈی نے بہانا کیا کہ اس کی فوٹو شوٹ ہے اور وہ نہیں آسکتی۔
سنڈی ایک نئی گلوکارہ کے طور پر مشہور ہورہی تھی، اور یہ سبرین کا ہی بخشا ہوا مان تھا، سبرین نے یونی کے دور میں اس کے لئے گانے کمپوز کیئے تھے، جن کو گاکر وہ راتوں رات مشہور ہوگئی تھی، لیکن اب وہ احسان فراموش بن چکی تھی۔
اس کی بات پر جنت نے بڑھ کر فریا کو دھکا دیا ۔
“یہ تم کس کو دو چہرے والی عورت کہہ رہی ہو؟، منہ سنبھال کر بات کرو فریا۔”
سبرین نے جلدی سے بڑھ کر فریا کو گرنے سے بچالیا۔وہ یہاں نہ آتی اگر وہ جانتی کہ ایسا کچھ ہوگا، لیکن اگر وہ نہ آتی تو اسے کیسے پتا چلتا کہ جسے دوست سمجھا ہے وہ دوست نہیں رہا،سنڈی نے اسے بری طرح مایوس کیا ، کیا نہیں کیا تھا اس نے اس کے لئے؟ گانے لکھ کر خود کمپوز کرکے اسے دیتی رہی۔ اور نام سنڈی کا مشہور ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کے مشہور ہونے میں بڑا ہاتھ سبرین کا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
سبرین نے حیران نظروں سے سنڈی کو دیکھا۔
” سنڈی ،تم تو ہماری دوست تھی۔”
اس کی بات پر جنت نے سنڈی کے بازو کو حصار میں لیا، نخوت اور تنفر سے بولی۔
” کیسی دوست؟ تم اس کی دوستی کی قابل نہیں رہی،تم یزدانی ریسیڈنسی سے نکال دی گئی ہو، اور کمپنی سے بھی، اب تم جیسی لڑکی جو انتہائی گھٹیا ہوٹلوں میں رات گزارنے پر مجبور ہے وہ کس طرح سنڈی جیسی مشہور گلوکارہ کی دوستی کے قابل ہوسکتی ہے؟”
تو یہ جنت تھی جس نے رات کو سبرین کی تصویر کھنچوا کر گروپ میں پوسٹ کی تھی، فریا نے تیزی سے ذہن چلایا۔
سبرین نے اسے گھور کر۔۔۔نظر سنڈی کے طرف کی۔
” یہ الفاظ میں خود تمہاری زبان سے سننا چاہتی ہوں۔”
سنڈی نے گلاسز اتار کر اسے طنزیہ دیکھا۔
“یہ تو اچھا ہوا کہ تم آج مجھ سے ٹکراگئی۔۔میں واقعی بھی تم سے جان چھڑانے کے بہانے بنا کر تھک چکی ہوں۔۔ایمانداری کی بات کہ تم یہ نہیں جانتی کہ کہاں کھڑی ہو؟”
سبرین کو لگا وہ فیلوئیر ہے، ایزد اور سنڈی اسکول سے یونی تک اس سے تب تک اچھے تھے جب تک وہ یزدانی فیملی سے منسلک تھی، وہاں سے دھتکار دی گئی تو ہر ایک نے اپنے منہ موڑ لئے اور انگلی اٹھانی شروع کردی۔
“سنڈی یہ کیا بول رہی ہو؟” فریا اس قدر حقارت سے بات کرنے پر چیخ پڑی۔ “کیا تم بھول گئی کس طرح جنت تم کو تنگ کرتی تھی، اور یہ سبرین ہی تھی جو تمہیں بچاتی تھی،اور کس طرح سبرین نے تم کو گانے لکھ کر کمپوز کرکے دیئے تھے۔۔۔”
“اسٹاپ ۔مجھے ماضی کی بات لے کر بلیک میل کرنا بند کرو فریا۔۔اور تمہارے لئے نیک مشورہ ہے ان جیسے لوگوں کی دوستی سے پرہیز کرو یہ کسی بھی وقت تمہیں نیچا دکھا سکتے ہیں۔”سنڈی نے بے رحمی سے کہا۔
“شٹ اپ۔۔دوست کا فرض بنتا ہے کہ ایک دوسرے کی بناء کسی غرض کے مدد کریں، یہ بات تم جیسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔” فریا نے تیش میں اس کی طبیعت اچھی خاصی صاف کی۔
“بھول جاؤ۔۔ہم یہاں بحث کرنے نہیں آئے۔” سبرین نے فریا کا بازو پکڑ کر کھینچا۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کا تاثر نہیں تھا۔”ہم یہاں کھانا کھانے آئے تھے۔”
سبرین کے ساتھ جانے سے پہلے فریا نے تینوں عورتوں کو قتل کردینے والی نگاہ سے گھورا ۔
” سبی ۔۔ کیا اس عورت کا دماغ چل گیا ہے؟ تم نے اس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔۔ تمہاری مدد کے بغیر یہ اس جگہ پر نہیں پہنچ سکتی تھی جہاں وہ آج کھڑی ہے۔وہ بھول گئی کس طرح جنت اسے دھمکاتی تھی، مجھے افسوس ہے، آج سے پہلے اس کے اصل رنگ کیوں نہ دیکھ سکی؟”
سبرین نے کوئی جواب نہیں دیا وہ خاموشی سے نیچے دیکھتی رہی۔ اس کے خوبصورت چہرے پر بے چینی صاف دکھتی تھی۔
” سبی ۔۔۔، کیا تم غصہ نہیں ہوئی؟کیا تم ان پر تنقید نہیں کرنا چاہتی؟”
سبرین نے تکلیف سے اسے دیکھا، اور لب بھینچ کر ہلکا سا مسکرائی۔
“آف کورس ،میں غصہ ہوں، لیکن کیا کرسکتی ہوں؟ جو کچھ انہوں نے کہا سچ تھا، دیکھو مجھے۔۔ کیا رہا میرے پاس؟ میرے اپنے والدین نے مجھے صرف اسی لئے نکال دیا کہ مجھے آبش کا رشتہ ایزد سے منظور نہیں تھا۔۔۔وہ ایزد جس کے ساتھ میں پل بڑھ کر جوان ہوئی، وہ بھی مجھے چھوڑ گیا ۔ اب میں جاب لیس اور ہوم لیس رہ گئی ہوں۔۔صرف ایک سنڈی ہی تو نہیں مجھ سے اس طرح کا برتاؤ کرنے والی۔۔۔”
فریا نے اپنی دوست کو دکھ سے دیکھا اور اس کے لئے اپنے دل میں سخت افسوس کے ساتھ غصہ بھی محسوس کیا ۔
“بس کرو۔۔ تم دیکھنا تم اب بھی اپنی محنت سے اپنا مستقبل بناسکتی ہو۔” فریا نے اپنی دوست کو تسلی دی۔
اس وقت ایک سرور ان کے پاس آکر بولا۔
” معاف کیجئے گا۔۔۔ میم ، کیا آپ کی بکنگ ہے؟”
“جی ہاں ، میں نے مینیجر سے فون پر بکنگ کروالی تھی۔”فریا رسیپشن کے طرف بڑھی تاکہ مینیجر سے بات کرسکے۔
مینیجر ان کی طرف بڑھا۔
” فریا میم، میں نے آپ کے لئے پرائیویٹ روم بک کیا ہے میرے ساتھ آئیے۔”
اس وقت جنت نے زور سے پکارا ۔
” مینیجر لورینز، میں اپنی دوستوں کو لائی ہوں، کیا کوئی پرائیویٹ روم مل سکتا ہے؟”
مینیجر لورینز کی آنکھیں سنڈی ٹرنر جیسی گلوکارہ کو دیکھ کر جیسے خوشی و حیرت سے چمکنے لگیں۔ کیا یہ مشہور گلوکارہ آج ان کے ریسٹورنٹ میں آئی ہے؟
جنت نے چاپلوسی سے مسکراتے کہا۔
” میں نے سنڈی ٹرنر سے بہت تعریف کی کہ یہاں کا کھانا بہت مزیدار ہوتا ہے۔اس کا آج کا شیڈول فری تھا تو ہم یہاں آگئے۔”
مینجر کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئیں۔
” مس ٹرنر کی آواز بہت پیاری ہے میں تو اس کا زبردست فین ہوں۔”
“کیا آپ نے ابھی نہیں کہا کہ پرائیویٹ روم ان کے لئے ہے؟” جنت نے فریا اور سبرین کے طرف آنکھ کے کونے سے دیکھ کر ادا سے کہا۔
فریا فوری طور پر غصے سے بھر گئی۔
“ہم نے پہلے سے کمرہ محفوظ کروایا تھا۔ اگر تم یہاں کھانا چاہتی ہو، تو اپنے لیے بکنگ کرواؤ۔”
مینیجر لورینز کو سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے؟ دونوں پارٹیز ہی میلبورین کی پاور فل تھیں۔
جنت کے ہونٹ شیطانی مسکراہٹ میں ڈھلے۔اس نے آبش کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
” مینیجر لورینز ، میں یہ نہیں کہتی کہ سنڈی کیا ہے؟ لیکن یہ ۔۔” اس نے آبش کے طرف اشارہ کیا۔
” یہ آبش یزدانی ہے، سمیٹ بلڈنگ ڈیزائن گروپ کے مالک کی بیٹی ہے جو مستقبل میں اس کمپنی کی وارث بنے گی، جہاں تک کہ فریا کی اس دوست کی بات ہے تو وہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔”
“کوئی حیثیت نہیں رکھتی؟ ان دونوں میں واقعی مطابقت نہیں، آبش جیسی بے شرم چورنی جو دوسروں کی چیزیں ہتھیالے۔۔واقعی اوپر کی چیز ہے۔” فریا نے فوراً حساب بے باک کیا تھا۔
ایک رنگ آکر آبش کے چہرے سے گزر گیا۔۔۔ جنت نے اسے اگنور کرکے مینیجر کے طرف منہ کرکے کہا۔
“کیا ہم کو روم مل سکتا ہے؟”
“جی بالکل ۔”مینیجر نے لمحوں میں فیصلہ کرلیا کہ روم کسے دینا ہے۔
اور فریا کے طرف منہ کرکے سوری کی۔
“میم فریا ۔۔ مجھے ابھی ابھی یاد آیا ہے کہ آپ سے پہلے میں نے ان کے لئے روم بک کیا تھا ۔۔ اسی لئے آپ دوبارہ آئیے گا۔”
سبرین نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا۔
” مینیجر لورینز کیا تم نے ہمیں بیوقوف سمجھ رکھا ہے؟”
فریا نے اپنی آستین چڑھاتے کہا۔
” تم سمجھتے ہو تم ہمیں دھمکیاں دے کر نکالو گے،ارے۔۔۔ ایک فون اپنے بھائی فارس کو کروں گی۔۔اور تمہارے ریسٹورنٹ کا دروازہ ۔۔۔ایک سیکنڈ میں ،ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے گا۔” سبرین نے چٹکی بجا کر سیکنڈ کی تشریح کی۔
“مینیجر لورینز، پریشان نہ ہوں، ہم تمہاری مکمل زمہ داری لیتے ہیں۔” آبش نے مینیجر کو تسلی دی۔
“میم فریا۔۔۔ میں صرف ایک ملازم ہوں، آپ دونوں صرف مجھے دھمکا سکتی ہیں، پلیز ۔۔ ہمارے دوسرے کسٹمرز کو پریشان مت کریں اور چلی جائیں۔”
” اگر میں یہاں نہیں کھا سکتی تو کسی اور کو بھی کھانے نہیں دوں گی۔” فریا نے سامنے ٹیبل پر پڑا گلدان اٹھا لیا اور زور سے زمین پر دے مارا، گلدان کے ٹکڑے دور تک پھیل گئے، کافی کسٹمر ڈر کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
شدید جذبات سے مینیجر لورینز کا چہرہ سرخ ہوا اس نے قریب کھڑے سرورز کو آرڈر دیا۔
” ان دونوں کو فوری طور پر باہر نکال دو۔۔”
اس سے پہلے کہ سبرین کوئی ردعمل ظاہر کرتی ، دونوں ہی کافی سارے مضبوط ملازم مردوں کے ہاتھوں پوری طاقت سے داخلی دروازے کے طرف دھکیل دی گئیں۔
سبرین کو ایسا لگا جیسے وہ ایک بوری ہو، جسے باہر پھینک دیا گیا ہو۔
“Let her go!”
“انہیں جانے دو!”
ایک مردانہ بھاری تحکمانہ آواز اسے پیچھے سے سنائی دی گئی۔
یہ آواز سن کر اس کی دھڑکنیں اتھل پتھل سی ہوئیں۔
جاری ہے
Prev Episode 03
Next Episode 05
We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚
One thought on “Rozan E Zindaan Episode 04 by Raqs e Bismil”