Rozan e Zindaan  Episode 03

Writer: Raqs eBismil

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا

تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔

یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔

آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

Episode 03

4:00 pm۔ جیننگس سالیسیٹرز میں، شہزام  اپنی آفس میں بیٹھا دستاویزات کے پلندے کی ورق گردانی میں مشغول تھا جب شیث حارس نے آفس میں قدم رکھا ۔

“شادی مبارک ہو، کیا تم اپنی وائف کے ساتھ ہمارے ساتھ ڈنر کرسکتے ہو؟”

“ایسا نہیں، کہ تم کو میری شادی کی اصل وجہ معلوم نہیں ہے۔ ” شہزام  نے سر اٹھائے بغیر ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا ، اس کی آنکھیں دستاویزات کے الفاظ پر چپکی ہوئی تھیں۔

“تم سچ میں محبت کے متضاد ہو، میں نے سنا ہے کہ  سبرین  یزدانی کافی خوبصورت لڑکی ہے۔کیا تم اس میں تھوڑی سی دلچسپی بھی نہیں رکھ سکتے؟”

شیث بہت پرجوش نظر آرہا تھا، وہ گھومنے والی کرسی پر بیٹھا اس کی متجسس نظریں مسلسل اپنے دوست کے تاثرات کا مطالعہ کررہی تھیں۔

 شہزام  بالکل خاموش رہا، لیکن شیث کی بات کے ساتھ ہی اس کے تصور میں چھم سے اس لڑکی کی صورت اتر آئی۔ نرم ملائم جلد، دودھ جیسی رنگت،اور اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے کھلتا ہوا پھول۔تاہم اس کا بے شرمانا رویہ۔۔۔ “

اس کے ذہن کے پردے پر اس کا رویہ آیا تو جیسے جھرجھری آگئی۔خود کو سوچوں کے بھنور سے نکال کر اس نے شیث کی بات کی نفی کی۔

“میں نے ان گنت خوبصورت عورتیں دیکھی ہیں۔”

“سچ کہوں تو۔اگر تم اپنے بڑوں کے طرف سے طے کی گئی شادی سے انکار نہ کرتے، تو میلبورین کی یہ معمولی لڑکی تمہاری بیوی کبھی نہ بن سکتی، سچ میں یہ تمہارے اسٹیٹس سے میل نہیں کھاتی۔”

شیث نے ایک معنی خیز سانس بھری۔

“تو اس کا مطلب ایک مشہور اور ناقابلِ شکست افسانوی کردار واپس آگیا ہے۔۔ایک چھوٹے میلبورین جیسے شہر میں تم کیسے کام کررہے ہو؟”جو تمہاری طبیعت کے موافق نہیں۔ “

“ایک غریب آدمی کی طرح رہنا میرے لئے واقعی ایک تجربہ ہے۔ “وہ سکوت سے گویا ہوا۔

“اوہ۔۔۔۔” شیث کے ہونٹوں سے  شہزام  کو چڑانے والے انداز میں اوہ نکلا۔۔

“یہ دنیا کافی غیر منصفانہ ہے۔حالانکہ ہم دونوں نے ہی ساتھ گریجویشن کیا تھا۔لیکن تم پہلے ہی سے ٹاپ چوٹی پر چڑھ گئے۔”

“یہ سب ہمارے دماغ کی صلاحیت پر انحصار کرتا ہے۔ ” شہزام  نے اپنی بے نیاز نگاہیں اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔

شیث نے اتنی تذلیل پر دانت پیسے۔مطلب وہ کند ذہن تھا  شہزام  کی نظر میں۔۔ واہ۔۔

“اچھا بس۔۔ بھول جاؤ” شیث نے بات ٹالی۔”اب ایک احسان کرو، آج رات کمپنی کے سب وکیلوں کے ساتھ ڈنر کرو۔”

“ہممم،”  شہزام  نے جواب دیا۔ تبھی اس کے فون کی بیپ ہوئی ساتھ ہی نوٹیفکشن ظاہر ہوا۔

اس نے فون اٹھا کر آنے والا ٹیکسٹ دیکھا جو “شہرین”کے نام سے تھا۔

[ہبی دس از  سبرین ۔]

 شہزام  نہیں جانتا تھا کہ کیا جواب دینا چاہیئے۔

اس نے اپنی بھنوؤں کے درمیانی حصے کو سہلایا اور میسیج ریکوئسٹ ایکسیپٹ کرلی۔

[ہبی، کیا تم ڈنر پر گھر آؤ گے؟]

 سبرین  نے ایک سیکنڈ کے بعد دوسرا میسیج بھیجا۔

 شہزام : [نہیں۔اور مجھے اس طرح مت بلاؤ۔]

شہرین: [ٹھیک ہے پھر، میں تم کو شان بلاؤں گی۔ یہ بہت کیوٹ نام ہے۔]

اسے سمجھ میں نہ آیا کہ آگے کیا کہے۔

٭٭٭٭

رات کے وقت ،کورٹ یارڈ اسٹائل کا ریسٹورانٹ جو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔کافی لوگوں کا گروپ مل کر ڈنر انجوائے کررہا تھا۔

وکلاء کا ایک گروپ آپس میں ایک نئے کیس پر تبادلہ ء خیال کررہا تھا۔جو تازہ ہی ان کی فرم نے لیا تھا۔

 شہزام  بالکل غائب دماغی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ جب اچانک سے ہی اس کی سیل پر نوٹیفیکشن کی بیل بجی۔

 سبرین  نے اسے ایک تصویر بھیجی تھی۔

نرم زرد روشنی میں ،ایک توانا بلی، خشک مچھلی کا ٹکڑا کھارہی تھی۔

شہرین : [شان، ہم دونوں کے لئے پریشان مت ہونا۔ میں چھوٹے فدی کا بہت اچھا خیال رکھ رہی ہوں۔]

 شہزام  غصے سے ہنکارا بھر کر رہ گیا۔لالچی بلی کو آسانی سے رشوت دی گئی تھی۔

٭٭٭٭

 رات کے 9:30 ہوچکے تھے۔

دروازے پر پاس کوڈ لگا کر اسے کھولا گیا۔جیسے ہی قدم گھر میں رکھا،  شہزام  جیسے ایک پل کو اپنی جگہ دنگ رہ گیا۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا گھر مکمل نئے سرے سے بنایا گیا ہو ۔

کالے رنگ کے چمڑے کے صوفے مور کے پنکھ جیسے نیلے رنگ کے کشن کور سے سج گئے تھے۔

سفید رنگ کی لکڑی کی ڈائننگ ٹیبل لہرے دار گرین ٹیبل کور سے ڈھکی ہوئی تھی۔

اس کے اوپر ایک شیشے کا گلدان جس میں گلابی ہائڈرانجاس جھاڑی نما پودا ایڈجسٹ تھا۔

پورا گھر، سبز رنگ کے پودوں اور تازہ پھولوں سے سجا ہوا تھا ۔اس کے علاہ بالکونی پر لٹکنے والے کتنے سارے باسکٹ پھولوں سے بھرے لٹک رہے تھے ۔

کیا یہ واقعی اس کا گھر تھا؟ کیا وہ درست جگہ پر آیا ہے؟

“شاان، تم گھر آگئے۔”

 سبرین  گیسٹ روم سے باہر آئی تھی،اس نے ایک لمبی آستین والا سلک کا سلیپنگ گاؤن پہن رکھا تھا۔

کتنے سارے ہی چھوٹے چھوٹے خرگوش اس کے سرخ شراب جیسے رنگ کے سلکی گاؤن پر پرنٹ تھے۔

اس کے گھنے اور لمبے بال جو دودھیا چائے کے رنگ جیسے تھے اس کے کندھوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے گاؤن کے نیچے اس کی صاف، پتلی ٹانگیں تھیں۔

وہ اس وقت مائل کررہی تھی۔

 شہزام  کی آنکھوں کا رنگ ،اس کی ڈریسنگ دیکھ کر گہرا ہوگیا۔

“کس نے اجازت دی تم کو کہ یہاں اس طرح کی ڈریسنگ کرو؟”

اس کی بھنویں ایسے سکڑ گئیں کہ بیچ والی جگہ پر تین سلوٹیں ابھر آئیں، سخت ناگواریت کا تاثر اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی ظاہر تھا۔

“اس طرح کی واٹ؟” لڑکی نے معصومیت سے پلکیں جھپکائیں۔”میرا سینہ ، بازو اور آدھی ٹانگیں مکمل ڈھکی ہوئی ہیں صرف گوڈے سے نیچے دکھائی دے رہا ہے، ساری جوان لڑکیاں باہر راستے پر بھی ایسی ہی ڈریسنگ کرتی ہیں۔تو اس میں غلط کیا؟”

اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کہاں دیکھے؟

“میں نے تمہیں گھر میں رہنے کی اجازت ضرور دی ہے،لیکن یہ اجازت نہیں دیتا کہ میرے گھر میں ایسے کرو۔”آدمی نے نظر ہٹالی۔

“کیا یہ اب بہتر نہیں لگ رہا؟ پہلے یہ بہت خالی خالی سا تھا، اس میں گھر جیسا آرام اور سکون نہیں تھا۔”

 سبرین  نے ساتھ ہی اپنی ہتھیلی کھول کر دکھائی، اس کے لہجے میں شوخی تھی۔”دیکھو، مجھے کتنے کٹ آئے ہیں؟ یہ سارے پودے میں اکیلے اٹھا کر لائی ہوں۔”

اس نے بے ساختہ نظر جھکا کر اس کی ہتھیلی کو دیکھا، اس کی گوری چمکیلی جلد والی خوبصورت ہتھیلی پر کچھ چھوٹے چھوٹے کٹ کے نشانات تھے۔

“تم اس کی مستحق ہو۔”

اس نے اپنے کمرے میں جاتے جاتے سرد مگر آہستہ سے کہا۔

 سبرین  نے کافی مایوس ہوکر منہ بناکر اس کے جاتے وجود کو دیکھا ۔اس آدمی نے اسکے عورت ہونے کا بالکل خیال نہیں کیا تھا۔ اسے بھی اس سرد مزاج شخص کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں تھی،اگر ایزد کی آنٹی بننے کی ضد نہ ہوتی۔

٭٭٭٭

7:00 بجے صبح  شہزام  کو الارم کلاک نے اپنے وقت پر جگایا۔

صبح ہی صبح وہ اس عورت سے ٹکرا گیا جو باتھ روم میں اپنے دانت برش کررہی تھی،

“صبح بخیر ،شاان ،کیا تم مارننگ واک پر جارہے ہو؟”

 سبرین  کی پرشوق نظریں اس کے اسپورٹس ویئر پر ٹہر گئیں۔

بلیک آؤٹ فٹ آدمی کے وجود پر اسے کلاسک انداز کی طرح محسوس ہوا، جیسے وہ اس برانڈ کا ترجمان ہو ۔

اس شخص کا غصہ بہت ہی برا تھا لیکن اس کی ظاہری شخصیت بالکل بے عیب نظر آتی تھی۔

اس کے باوجود بھی اس کی مارننگ رن کے لئے جانا یہ ظاہر کررہا تھا کہ وہ بااصول بندہ ہے۔

“ہمممم ۔۔۔”  شہزام  تھوڑا سرپرائز ہوا۔

عام طور پر جوان لڑکیاں اتنے سویرے نہیں اٹھتی تھیں۔

“ٹھیک ہے، گھر آتے ہوئے باہر سے ناشتہ مت کرنا، میں تمہارے لئے ناشتہ بناتی ہوں۔” وہ ایک مکمل ھاؤس وائف کی طرح بولی۔”باہر کے کھانے سے گھر کا کھانا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔”اس نے تاکید کی

 شہزام  نے منہ بنالیا۔

 “اس کی کوئی ضرورت نہیں، تمہارا یہاں سے منتقل ہونے کا ارادہ کب ہے؟”

 سبرین  کا خوبصورت چہرہ ساکت ہوا۔

“اگرچہ ہم شادی شدہ ہیں،لیکن میں تم میں انوالو ہونا نہیں چاہتا، اسی لئے اپنا وقت مجھ پر ضائع مت کرو، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”  شہزام  نے سنگدلی سے کہا۔ اور بناء اسے دیکھے باہر نکل گیا۔

 سبرین  جو سر جھکائے سب سن رہی تھی، اس کے جاتے ہی سر اٹھا کر بال جھٹکے سے پیچھے کیئے جو جھکے سر ہونے سے آگے آگئے تھے، اور بے دردی سے بہتے ہوئے آنسو صاف کیے۔ وہ کافی دیر لیونگ روم میں ساکت و جامد کھڑی رہی، پھر ہمت جمع کرکے کچن میں جاکر ناشتہ بنانے لگی۔

آدمی جب جوگنگ سے واپس آیا تو مزیدار کھانے کی خوشبو کچن سے آرہی تھی، جس نے اس کی بھوک جگادی تھی۔

“میں نے ناشتہ بنالیا ہے۔۔۔ میٹھے رول پراٹھے۔۔۔۔۔”

 سبرین  نے اس کے قدموں کی چاپ سن کر کچن سے سر باہر نکال کر اسے بتایا۔

صبح کیا کہا؟ کیا سنا؟ اس کا کوئی تاثر اس کے چہرے پر نہیں تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

وہ گرین کلر کا ایپرن پہنے ہوئے تھی جس پر ڈیزی کے پھول بنے ہوئے تھے۔

“مجھے ناشتے میں میٹھا پسند نہیں۔ “اس نے سرد انداز میں جواب جواب دیا۔

صبح اس نے اس قدر سختی سے ٹو دا پوائنٹ بات کی تھی تاکہ وہ اس سے بد دل ہوکر یہاں سے چلی جائے۔

لیکن توقع کے برخلاف وہ گھر میں رہی اور ناشتہ بھی بنایا۔کیا اس کا کھانا کھانے کے قابل ہوگا؟

پہلی نظر میں وہ اسے بڑے خاندان کی بگڑی ہوئی لڑکی لگی تھی، جس نے زندگی میں کبھی کوئی کام نہ کیا ہو، وہ ایسی عورتیں دیکھنے کا عادی تھا۔

 شہزام  نے آگے بڑھ کر فرج سے دودھ کا ڈبہ نکالا۔ سبرین  نے یہ دیکھ کر منہ بنایا۔

اس کامطلب تھا  سبرین  نے جو ناشتہ بنایا ہے وہ اسے نہ کھانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔۔۔کتنا دکھاوا کرنے والا آدمی ہے۔۔ اس بات سے قطع نظر  سبرین  کو سب کھانا خود کھانے میں کوئی مسئلہ نہ تھا ۔

وہ کچن میں واپس گئی، اور ناشتہ بنانے میں مگن ہوگئی۔

کچھ سیکنڈ بعد وہ کچن میں آیا اور دودھ گرم کرنے لگا۔

 دودھ گرم کرتے ہی اس نے آنکھ کے کونے سے دیکھا، وہ آٹے کو کافی سارے بل دے کر بیل رہی تھی، پھر اسے گرم آئل میں ڈال کر تلنے لگی۔

کچھ سیکنڈ بعد ہی مسحور کن خوشبودار سنہری رنگ کے پراٹھے تیل کی سطح پر آگئے۔اس کی مزیدار خوشبو اس کی ناک سے گزری اور معدے میں چوہے دوڑنے لگے۔

ایک روشنی سی اس کی آنکھ میں چمکی۔ یہ مہارت سالوں کی پریکٹس کا حاصل لگ رہی تھی۔

اس نے یکدم اپنی نظر ہٹالی۔خوبصورت رول، جس کے اوپر چاکلیٹ تھا، گرم اوون میں بیک ہورہے تھے۔

اس کے گال کچن کی آگ کی تپش سے گلابی ہورہے تھے،اس کی جلد بلاشبہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کے جبڑوں پر کوئی لکیر تک نہیں تھی۔اس کے قدرے پھولے گال اسے زیادہ جوان اور دلکش بنا رہےتھے۔

 سبرین  نے اس کی نظروں کا نوٹس لیا اور جان بوجھ کر ایک رول اٹھا کر اس کی نظروں کے سامنے لہرایا۔

“شان، کیا واقعی تم اسے چکھنا نہیں چاہو گے؟”

“دلچسپی نہیں۔”

اس نے اپنی نظر ہٹا کر دودھ اوون میں رکھا۔

پھر عادتاً دو سلائس لے کر اس میں بیک کیا ہوا گوشت کا ٹکڑا ڈالا اور مٹھی بھر سلاد ڈال کر سینڈوچ بنایا ،ساتھ ہی دودھ کا گلاس لے کر۔ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا اور بے دلی سے اٹھا کر چبانے لگا۔جیسے ناپسند ہونے کے باوجود مجبوراً کھانا پڑے۔

اسے اپنے منہ میں سنڈوچ کا ذائقہ اچانک ہی بدذائقہ لگنے لگا جب اس کی آنکھوں کے سامنے گرم گرم،سنہری رنگت کے خوشبودار رول پھرے۔

تنگ آکر اس نے سینڈوچ کے ایک طرف جام کی موٹی سی تہہ لگائی۔

ٹھیک اسی وقت عورت کچن سے ظاہر ہوئی، اور سارا کھانا اس کی نظر کے سامنے ٹیبل پر لگایا۔

چوروز(یہ چینی اور میدے کو ملا کر بل دے کر بنائے جاتے ہیں، اور پھر تلے جاتے ہیں۔)،ایگ رولز(یہ آٹے کا پراٹھا بنا کر اس میں انڈے کا مکسچر ڈال کر رول بنا کر تلتے ہیں) پین کیک، اور ایک ہاٹ چاکلیٹ کا کپ۔۔۔۔۔

 شہزام  نے یہ سب سامنے دیکھ کر بھنویں سیکڑ کر اسے دیکھا۔جو معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ رہی تھی۔

 “شان تم کو برا تو نہیں لگے گا اگر میں یہاں بیٹھ کر ناشتہ کروں؟”

 وہ خاموشی سے اس کی ایکٹنگ دیکھنے لگا۔

اس کی اداکاری اس کی توقع سے زیادہ بہتر تھی۔

“معاف کرنا، میں نے ناشتے میں میٹھا بنایا ہے، کیونکہ میں واقعی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنے نئے دن کا آغاز پھیکے سیرل یا سادہ سے سینڈوچ کے ساتھ کروں۔”

اس کے بعد اس نے چوروز کا ایک ٹکڑا کاٹ کر منہ میں ڈالا، اور اپنی آنکھیں ایسے سکون سے بند کیں جیسے زبان میں گھلے ذائقہ سے اسے مزا مل رہا ہو۔۔

“ممممم، یہ بہت ہی مزیدار ہے “اس نے چسکا لیا۔

 شہزام  نے خاموش رہنا بھہر جانا، حالانکہ اس کا منہ پانی ہورہا تھا۔

اس عورت کی اداکاری واقعی قابلِ تعریف تھی۔ اچھا ہوتا اگر یہ اداکاری کے شعبے میں جاتی ۔،اب وہ کس طرح اپنے سادہ سینڈوچ کھاتا؟

“میاوں ں ں۔”ٹھیک اسی وقت فدی نے اپنا دیدار کروایا اور ڈائننگ ٹیبل کے نیچے  شہزام  کے پیروں میں لوٹنے لگی۔

اس خیال سے کہ بلی بھوکی ہوگی وہ اٹھا اور کپ بورڈ سے ایک پلیٹ کیٹ فوڈ نکال کر اس کے آگے رکھ دی۔

فدی نے کھانے کو کچھ پل سونگھا اور پھر ناگواری سے منہ ہٹا کر  سبرین  کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگی۔یہ دیکھ کر آدمی کے تاثرات بدل گئے۔

 سبرین  اس کو دیکھ کر دلبرانہ انداز میں ہنسی، اور ایک ٹکڑا رول کا توڑ کر اس کے آگے کیا جسے بلی نے سیکنڈ میں ہڑپ کرلیا۔۔

“Good kitty”

“گڈ کیٹی “اس نے محبت سے بلی کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔”تمہارا ٹیسٹ تمہارے مالک سے زیادہ بہتر ہے۔۔”اس نے دل میں یہ سوچا۔

 شہزام  یہ دیکھ کر شرمندہ ہوگیا۔ بلی نے اور بھی کھایا، جسے دیکھ کر  شہزام  کے ماتھے کے بل بڑھ گئے۔

 “تم۔۔۔۔۔۔”

ابھی اس نے کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ  سبرین  نے چوروز کا ایک ٹکڑا اس کے منہ میں ٹھونس دیا۔

غصے کی لہر اس کی آنکھوں میں ابھر آئی وہ اسے واپس تھوکنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن جب کڑک میٹھا چوروز کا ٹکڑا اس کی زبان میں گھلا تو اس کے ذائقے نے جیسے اس کے حواس سلب کردیئے۔

لاشعوری طور پر وہ اسے نگل گیا تو طلب اور بڑھی کڑک میٹھے رولز جس کے اندر کریم اور باہر چاکلیٹ تھا،اس کی اشتہا بڑھا گئے اور اس نے پھر تکلف اور انا کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ہاتھ بڑھا دیا ۔

اس نے یہ چوروز اپنے خاندانی شیف کے بنے ضرور کھائے تھے لیکن ایسا ذائقہ اس نے کبھی نہیں چکھا تھا یہ بالکل الگ اور منفرد تھا۔

“اچھے ہیں نا؟”  سبرین  نے اسے دل سے کھاتے دیکھ کر ٹھوڑی ہاتھوں پر ٹکائے مسکراتے اسے پوچھنے لگی۔اسے اپنی کوکنگ ایبلٹیز پر اعتماد تھا ۔

 شہزام  کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی جب اس نے  سبرین  کو مسکراتے ہوئے اسے کھاتے دیکھا۔

“بس ٹھیک ہے۔” تعریف کرنا شاید اس کے انا کی منافی تھی۔ پھر لگاتار اس نے ایک کے بعد ایک ٹکڑا اٹھا کر کھایا ساتھ ہی ہاٹ چاکلیٹ ملک بھی۔

“صرف ٹھیک ہے۔؟”  سبرین  نے آنکھیں جھپک کر ادا سے کہا۔

“یقیناً تم یہ سارا ختم نہ کرسکتی، اور مجھے کھانے کا ضیاع پسند نہیں۔”آدمی نے اپنا مان سلامت رکھا اور سکون سے جواب دیا۔

لیکن دل میں وہ مان گیا کہ  سبرین  کے بنائے گئے کھانے کا ذائقہ آج تک کے ریسٹورنٹ سے کھائے گئے کھانوں سے ہزار درجہ بہترین ہے۔

ناشتے کے بعد  سبرین  نے پوچھا۔

” “شان ڈنر میں کیا کھانا پسند کرو گے میں وہی بناؤں۔”

“میرا ڈنر آج دوسری جگہ طے ہے” یہ کہتے ہی وہ اپنے روم میں چینج کرنے کے لئے بڑھا۔

 سبرین  نے خاموشی سے ٹیبل سمیٹی اور گیسٹ روم میں جاکر تیار ہونے لگی۔

جب  شہزام  گاڑی کی چابی اٹھا کر باھر جانے لگا، وہ بھی پرس اٹھا کر پیچھے بھاگی۔

“شان ،کیا تم مجھے سب وے اسٹیشن تک لفٹ دے سکتے ہو، مجھے کام پر جانا ہے ۔پلیز”

 شہزام  نے لب بھینچ کر اسے دیکھا، پہلے سوچا انکار کردے لیکن اس کا ناشتہ یاد آتے ہی وہ اسے لفٹ دینے کو طوہاً و کرہاً راضی ہوگیا۔ اسی لئے صرف سر ہلادیا۔ اور وہ اتنے میں ہی خوش ہوگئی۔

ایلیوٹر سے نکل کر دونوں پارکنگ لاٹ میں آئے۔

 سبرین  نے سوچا اس جیسے امیر آدمی کے پاس کوئی بڑی قیمتی گاڑی ہوگی۔ لیکن جب وہ ایک عام سی بینٹلی کے پاس رک کر اس کا دروازہ کھولنے لگا تبھی اس نے یکدم پوچھ لیا۔

“امممم۔۔ کیا یہی تمہاری کار ہے؟”

“یپ۔۔ “

وہ دروازہ کھول کر ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تو وہ بھی اس کی ہمراہی میں آگے بیٹھ گئی۔

“شان تم نے یہ گاڑی کیوں چنی ہے؟” وہ کنفیوز تھی۔

یہ شخص ایک ملٹی نیشنل کمپنی چلا رہا تھا، اس کے باوجود بھی اس کی کار 3 سو ہزار ڈالر سے بھی کم قیمت تھی۔

“یہ ایک سستی کار ہے اور ایندھن بھی کم خرچ کرتی ہے۔”  شہزام  نے گاڑی اسٹارٹ کرتے کہا۔

“تم واقعی زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ جانتے ہو ، میرے غیر معمولی شوہر۔”

اس نے سر گھما کر ڈیش بورڈ پر دیکھا جہاں گیس اسٹیشن سے ملنے والے سستے ٹشو پیپرز رکھے ہوئے تھے۔

دس منٹ بعد  شہزام  نے اسے واقعی بھی سب وے اسٹیشن پر اتارا۔۔۔ وہ شاکڈ رہ گئی۔اس نے تو بس ایسے ہی کہا تھا کہ اسے اتار دے، لیکن اس شخص نے واقعی بھی اسے آدھے راستے پر اتار دیا۔۔۔۔

 “کتنا سنگدل شخص ہے؟؟”

٭٭٭٭

جاری ہے

Prev Episode 02

Next Episode 04

 

“Your feedback matters to us! If you enjoyed reading our novels, please take a moment to share your thoughts in the comment section on our website. We can’t wait to hear from you!”

Rozan e Zindaan Season 01 Complete Episodes on Youtube

Rozan e Zindaan Season 02 ongoing on Youtube

Watsapp channel Join Karen

Click to Join Watsapp Channel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *