Rozan e Zindaan  Episode 02

Writer: Raqs eBismil

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا

تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔

یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔

آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Episode 02

صبح کا سورج طلوع ہوا، کمرے کے پردے سے چھن چھن کر آتی روشنی ، بیڈ پر لیٹی دنیا و مافیہا سے بےخبر وجود کے ملائم چہرے کو حصار میں لے کر مسکرائی۔

 سبرین  جو بہت گہری نیند سورہی تھی، اچانک باہر سے آنے والے شور پر اس کی نیند میں خلل واقع ہوا۔

ابھی اس کی آنکھیں مکمل کھل بھی نہ پائی تھیں۔کہ ایزد دھڑام سے دروازہ دھکیلتا اندر داخل ہوا اس کے پیچھے فریا اسے مسلسل روکنے کے چکر میں غصے سے بولے جا رہی تھی۔

“ایزد یہ میرا گھر ہے،تم اس طرح میرے گھر زبردستی داخل نہیں ہوسکتے۔”

“مجھے یقین تھا، تم یقیناً یہیں ہوگی۔” ایزد نے  سبرین  کو گھورتے ہوئے کہا جو نیند سے بھری غصے سے سرخ آنکھیں اور بکھرے بال لئے اسے گھور رہی تھی۔

 سبرین  نے اسے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اسے غصہ اور ناگواری سے گھورا۔

“میرے خیال سے تم دونوں کو مل بیٹھ کر بات کرکے اپنا مسئلہ سلجھانا چاہیئے، آخر بچپن کا ساتھ رہا ہے۔”یہ کہتی فریا دروازے سے باہر نکل گئی۔

کمرے میں اس کے جاتے ہی خاموشی چھا گئی۔ایزد بڑھ کر بیڈ کے کنارے پر بیٹھ گیا۔اور ہاتھ بڑھا کر اس کے بکھرے بال سنوارنے کی کوشش کی، جس کو  سبرین  نے آدھے راستے سے ہی ہاتھ اٹھا کر سختی سے جھٹکا دے کر دور کیا۔

”کیا آبش جانتی ہے کہ تم یہاں آئے ہو؟”

ایزد کا پرکشش چہرہ ایک لمحہ کو ساکت ہوا، تبھی اس کی مٹھی بھینچ گئی۔

” سبرین  تم یقینی طور پر کچھ نہیں جانتی کہ یزدانی صاحب نے 80 پرسنٹ کمپنی کے شیئرز آبش کے نام کردیئے ہیں۔”

 سبرین  کو یہ سن کر یقیناً جھٹکا لگا اس کے ہونٹ شاک سے پیلے پڑگئے۔

“یہ ناممکن ہے”

“یہی سچ ہے۔ تمہارے ڈیڈ نے خود مجھے بتایا تھا۔”

 سبرین  کو ساری بات سمجھنے میں پل لگا تھا۔

اس نے سر اٹھا کر اپنے بچپن کے عزیز دوست کو دیکھا، جس سے وہ محبت کرتی تھی، آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر ملائم سفید گال پر بہنے لگے۔

“تو یہی سبب تھا جس وجہ سے تم نے مجھے چھوڑ کر آبش کو چنا؟”

ایزد نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔

“یہ سب وقتی ہے۔۔میں نے آبش سے منگنی کی ہے لیکن۔۔اس کے ساتھ شادی کو طوالت پر رکھوں گا۔جیسا کہ تم جانتی ہو، میرے ڈیڈ کی دوسری بیوی سے بھی ایک بیٹا ہے،اگر میں اس کی بات نہیں مانتا تو وہ اپنا سب کچھ اپنے دوسرے بیٹے کو دے دیتے۔اور میں کچھ بھی نہ کرپاتا،  سبرین ۔۔۔ میں صرف تمہارے لئے ایک اچھی خوشحال زندگی چاہتا ہوں”۔

 سبرین  نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے سختی سے نکالا۔

“تم 25 سال کے ہو ایزد، اگر تم کو اپنے خاندان کی وراثت نہیں ملتی تو بھی تم اپنی محنت سے اپنا بزنس شروع کرسکتے ہو۔۔اتنے تم سیدھے تو نہیں؟”

ایزد اپنی نظروں کے تاثرات چھپاتا آہستگی سے اٹھ کھڑا ہوا، اور بے بسی سے بولا۔

“اپنے بیک گراؤنڈ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ فیصلوں کا اختیار ہم کو نہیں ہوتا۔”

 سبرین  بناء کوئی جواب دیئے بالکل خاموش رہی، اس نے کچھ کہنا فضول جانا۔

کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایزد نے گہری سانس بھر کر کہا۔

“مجھے صرف تین سال دو،  سبرین ۔تم ابھی کم عمر ہو، تم میرا انتظار افورڈ کرسکتی ہو۔”

اس کی بات سن کر وہ جیسے پاگل ہوگئی۔اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی ایسا کہنے کی، یہ اس کی خودپسندی کی انتہا تھی کہ وہ خود تو انگیجڈ رہے اور  سبرین  کو بھی اپنے انتظار میں رکھے۔

“کیا تم مجھے بیوقوف سمجھ بیٹھے ہو؟ہے نا؟؟ تم نے صرف اپنے کیریئر کے لئے مجھے چھوڑ کر، آبش کو چنا۔کون جان سکتا ہے کہ تین سال بعد تم اس سے شادی بھی کرو گے یا نہیں؟مہربانی کرکے میری نظروں سے ہٹ جاؤ، میں تمہیں اور نہیں دیکھ سکتی۔”

“وقت خود ہی، تم پر میری محبت ثابت کردے گا، تم مجھ سے پریشان ہوکر اپنے دکھ شراب پی کر مت مٹاؤ، یہ تمہاری صحت کے لئے مضر ہے۔”

اب جبکہ  سبرین  اس کی بات نہیں سمجھ رہی تھی کہ اس نے کیا کہا، اس نے اسے صرف مشورہ دے کر چلے جانا بہتر سمجھا۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر  سبرین  نے غصے سے پاس پڑا تکیہ اٹھا کر دیوار پر مارا، اپنی سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ ، کچھ سیکنڈ کے بعد وہ اٹھی،اور جلدی سے اپنی قمیص بدل کر کمرے سے باہر نکل آئی ۔

“وہ چلا گیا، اس کے پیچھے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔” فریا نے جلدی سے اسے تھام کر روکا۔

 سبرین  نے ایک گہری سانس لی اور دانت پیسے۔

“میں اس سے شادی کے لئے، دس بجے ملنے کو راضی ہوں ۔”

فریا نے کہا۔

” کیا تمہیں واقعی میں اس پر یقین ہے؟”

“کیا رات تم ہی نے نہیں کہا تھا کہ تمہیں اس پر یقین ہے؟”  سبرین  اس کی بات پر دنگ کھڑی رہ گئی۔

فریا یہ سن کر سخت شرمسار ہوئی۔

” وہ تو اسی لئے کہا کیونکہ رات کو میں نے زیادہ پی ہوئی تھی۔”

“کیا ہوگا اگر وہ ہی سنجیدہ ہوگیا ہو؟”  سبرین  نے اسے دھکیل کر اپنے سامنے سے ہٹایا اور بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔

٭٭٭٭

 سبرین  نے ٹیکسی کی، اور یزدانی ریزڈنسی پہنچ گئی۔

اس وقت، یزدانی صاحب اپنے کام پر جاچکے تھے۔

وہ جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگتی، اپنے کمرے کے طرف بھاگی، اور اپنا برتھ سرٹیفیکٹ لیا۔

جب وہ واپس لیونگ روم میں پہنچی تو آبش کو اسٹڈی روم سے باہر آتے دیکھا جو کافی سارے ڈاکومنٹس ساتھ اٹھائے باہر نکلی تھی۔

آبش نے  سبرین  کے نکھرے نکھرے گورے چہرے کو دیکھا۔۔

“تو تم آخر کار واپس آگئی، سبی میری بہن۔۔۔کل جو کچھ ہوا اس پر میں ابھی تک تمہارے لئے پریشان ہوں۔” ایک شرمساری کا تاثر آبش کے چہرے پر بکھرا۔” ایزد واقعی تمہارے ساتھ سچا نہیں ہے۔ تم کسی کو خود سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔”

 سبرین  نے ایک سرد نگاہ اس پر ڈالی۔

“بس کرو۔۔۔ بسسسس ،کیا تم اپنی اداکاری بند کرسکتی ہو؟ جبکہ اب یہاں میرے سوا کوئی تم کو دیکھنے والا نہیں، میں تمہیں اچھی طرح سمجھ چکی ہوں۔”

“میرے ساتھ ایسا برتاؤ مت کرو سبی “آبش نے ہونٹ کاٹے،اس کے آنسو گالوں پر بہنے لگے۔ “میں صرف تمہیں یہ ڈاکومنٹس دینا چاہ رہی تھی،آئندہ سے میں اس معاملے میں نہیں پڑوں گی جو کمپنی سے منسلک ہوگا۔یہ ڈاکومنٹس میں تم کو دینا چاہ رہی تھی۔ “

جیسے ہی وہ کہہ رہی تھی، ساتھ ہی ڈاکومنٹس بھی  سبرین  کے ہاتھ میں دیئے۔

 سبرین  کو یہ سب بہت عجیب لگا، اس نے لاشعوری طور پر ہاتھ سے دھکیل کر ڈاکیومنٹس دور کیئے۔

 جس وجہ سے سارے ڈاکیومنٹس نیچے گر کر فرش پر بکھر گئے۔

“یہ تم لوگ کیا کررہی ہو؟”

اچانک سے ہی صالحہ یزدانی ،سیڑھیاں اترتی نیچے آئیں اور حیرانی سے فرش پر گرے ڈاکومنٹس دیکھے، ساتھ ہی آبش کو، جو آنسوؤں سے تر چہرہ لئے نیچے جھکی کاغذ سمیٹ رہی تھی۔

“یہ کمپنی کے وہی ڈاکومنٹس نہیں ہیں جو تمہارے ڈیڈ نے تم کو دیئے تھے؟” صالحہ حیرانی کے ساتھ غصہ ہوئیں۔

“اس پر غصہ مت کریں مام، یہ سب میری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔”

فق چہرے کے ساتھ آبش نے جلدی سے صفائی پیش کی۔

” سبرین  نے مجھ سے کہا کہ کمپنی کے معاملات سے دور رہوں، اور یہ ڈاکیومنٹس اسے دوں، میں واقعی میں ڈاکومنٹس اسے دینے کا فیصلہ کرچکی تھی، لیکن یہ یقیناً ایزد والے معاملے کی وجہ سے ناراض ہے، سو۔۔۔۔”آبش رک گئی اور ماں کو معصومانہ انداز میں دیکھا ۔

” بہت خوب۔۔اچھی کہانی گھڑ لیتی ہو۔۔”  سبرین  نے آبش کی اداکاری کو طنزیہ سراہا۔

“شٹ اپ!” صالحہ نے  سبرین  کو گھورا۔

“کس نے تمہیں یہ حق دیا کہ کمپنی کے معاملات میں ہاتھ ڈالو؟یہ میرا اور تمہارے ڈیڈ کا خیال تھا کہ آبش کو یہ ڈاکومنٹس دیں۔آبش آنے والے ہفتے سے آفیشلی کمپنی کی مینجر بن جائے گی۔اسی لئے بہتر ہوگا اپنا رویہ اس کے ساتھ درست رکھو۔”

 سبرین  کچھ پل تو بولنے سے قاصر ہوگئی۔ پھر بولی تو لہجہ طنزیہ تھا۔

“اگر بات تعلیم اور تجربے کی ہے تو میں اس سے زیادہ قابل ہوں،ایک سال سے زیادہ عرصہ کمپنی کے لئے دن رات کام کرنے کے باوجود بھی میں ابھی تک مینیجر کی کرسی تک نہیں پہنچ پائی۔تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے جو آتے ہی مینیجر کی کرسی پر قبضہ کرلیا۔”

“مام۔۔۔میرے لئے بہتر ہے کہ مینیجر کی پوسٹ چھوڑ دوں، میں اپنا رشتہ  سبرین  سے برباد کرنا نہیں چاہتی مام۔”آبش نے اچانک سے روتے ہوئے ماں کو کہا۔

صالحہ کو یہ سن کر سخت دلی رنج ہوا۔

“دیکھ لو۔۔۔آبش کتنا بہناپے کی وجہ سے تمہارا خیال کررہی ہے۔اور ایک تم ہو۔۔ تم بہت ہی چھوٹی ذہنیت کی لڑکی ہو جو بہن سے حساب کرے۔تم بھی مینیجر کی پوسٹ کے لائق نہیں ہو،کوئی تعجب کی بات نہیں اگر ایزد نے تمہیں مسترد کرکے آبش کو چنا۔”

اس کی ماں کے ظالمانہ الفاظ  سبرین  کے دل پر کوڑے کی طرح برسے۔دونوں ہی ان کی بیٹیاں تھیں،لیکن پھر بھی صالحہ آبش کی بات پر زیادہ یقین کررہی تھیں، اور اس کی ساری توجہ بھی آبش کے طرف تھی۔

 سبرین  بچپن سے ہی ان کے ساتھ تھی کیا وہ اس کے کردار سے ناواقف تھیں؟

کل سے جو کچھ بھی ہوا تھا اسے ایک عام معاملہ سمجھا گیا تھا ۔کسی نے بھی  سبرین  کو تسلی نہیں دی تھی،کیا وہ انسان نہ تھی؟

 سبرین  کی شریانوں میں غصے کی لہریں دوڑنے لگیں، اسے اتنا شدید غصہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔

” ٹھیک ہے اگر میں مسئلے کا سبب بن گئی ہوں، تو میرا یہاں سے جانا ہی بہترین حل ہے۔”

بات ختم کرتے ہی وہ دائیں طرف والے اپنے کمرے میں گئی ،اور اپنا سوٹ کیس اٹھایا۔۔اور جلدی جلدی اس میں کپڑے گھسائے۔آبش کی آواز دروازے کے باہر سے سنائی دے رہی تھی۔

“مام۔۔، سبرین  پاگل ہوچکی ہے۔ہمیں اس کے یوں چھوڑ جانے کے مسئلے پر بات کرنی چاہیئے۔”

” تم اس کے اس طرح کے برتاؤ پر پریشان مت ہو، وہ ایسی ہی ہے،امی جی کے زیادہ لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا ہے ،دیکھ لینا دو ہی دن میں واپس آجائے گی۔ تم چلو میرے ساتھ بازار تمہارے لئے کپڑے خریدنے ہیں، اب جبکہ شادی بھی قریب ہے۔”صالحہ نے سارا قصور اپنی ساس پر ڈال کر آبش کو تسلی دی۔

یہاں تک کہ آواز آنی کم ہوکر ختم ہوگئی۔

ایک بڑا سا آنسووں کا قطرہ  سبرین  کی آنکھ سے نکل کر گال بھگوتا ہوا ہاتھ میں تھامے کپڑوں میں جذب ہوگیا۔اس نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے اور بیگ بند کرکے اسے گھسیٹتی ہوئی سیڑھیاں اتر آئی۔

کار پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں سوٹ کیس ڈالااور وہاں سے نکل آئی۔

اس لمحے اسے لگا جیسے اس نے سب کچھ کھودیا ہو۔

کیوں اسکے ساتھ سب ایسا برتاو کررہے ہیں جب اس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا؟

اس کی گرفت اسٹرئنگ وہیل پر سخت ہوئی، آنکھوں میں بے چینی کا تاثر بڑھنے لگا۔۔۔

چالیس منٹ بعد، سبرین  نے اس آدمی کے وجود کی جھلک دیکھی، جو رجسٹری آفس کے داخلی دروازے پر کھڑا تھا۔

آدمی دیکھنے میں کافی اسمارٹ،اور پرکشش تھا۔صاف استری شدہ سفید ٹی شرٹ پر بلیک ٹراؤزر پہنے تھا۔

وہ لمبا اور ہٹا کٹا تھا۔ اس کی آنکھوں میں چندھیا دینے والی چمک تھی۔

کار ایک جگہ پارک کرکے وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔

“تو آپ واقعی میں آگئے؟”لڑکی کی آواز خوشی اور حیرت سے بھری ہوئی تھی۔

  شہزام  سوری  آواز سن کر مڑا اور اسے تنقیدی نظر سے دیکھا جو کل کے کپڑے ہی پہنے ہوئے تھی، اور اس کے وجود سے رات کے پیئے ہوئے الکحول کی بو آرہی تھی۔

“تم نہائی نہیں ہو؟” اس نے ناگواری سے کہا۔

 سبرین  اس کے جملے پر سخت شرمندہ ہوئی۔

“میں نے رات کو بہت زیادہ پی تھی،تو جب گھر پہنچی تو غافل ہوگئی۔اور صبح اتنی جلدی تھی کہ۔۔”

جب اس نے آدمی کے چہرے پر ناگواریت کے تاثرات دیکھےتو جلدی سے صفائی پیش کی ۔

“آج کے دن صرف اتفاق ہے، ورنہ میں روز باتھ لیتی ہوں، اور خود کو صاف ستھرا رکھتی ہوں۔”وہ اس کے تاثرات کو جانچ کر بولی تھی۔

یہ ایک نارمل بات تھی پب کی ڈم لائٹ کے اندر ایک پرکشش اور وجیہہ آدمی کو ڈھونڈھنا۔

اس نے بالکل بھی اس بات پر توجہ نہیں دی تھی کہ دن کی روشنی میں وہ آدمی کیسا دِکھے گا۔

اس کو امید اسے نہیں تھی کہ آدمی اس قدر پرکشش،اور دلفریب دنگ کردینے والے نقوش کا مالک ہوگا۔اس کا رنگ بہت صاف تھا اور اسکن ملائم تھی۔

 سبرین  نے یہ بات نوٹ کی کہ کچھ عورتیں جو اس وقت رجسٹری آفیس کے باہر موجود تھیں ان کی توجہ کا مرکز یہ وجیہہ شخص ہے۔

“کتنا ہینڈسم مرد ہے؟”

عورت کے ساتھ کھڑے آدمی نے کہا۔

“لڑکی بھی تو بہت پیاری ہے۔”

“یہ سچ ہے۔دونوں کی جوڑی خوبصورت ہے، جیسے دونوں ہی ایک دوسرے کے لئے بنائے گئے ہوں۔ان کے بچے بھی ان دونوں کی طرح یقیناً بہت خوبصورت ہونگے۔۔ ہمارے بچوں کی طرح کم صورت نہیں۔۔۔”

جب یہ گفتگو  شہزام  کے کانوں تک پہنچی، اس نے سیدھا کہہ دیا۔

“ہم کو بچے نہیں ہونگے۔”

 سبرین  کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا وہ دنگ کھڑی سن رہی تھی۔

 شہزام  نے کہا۔

“ہم میں تین سال بعد طلاق ہوگی۔میں تم کو اتنے پیسے دوں گا جو تمہاری ساری زندگی کے لئے کافی ہونگے۔آلسو میں تمہاری فیملی سے بھی ملنا نہیں چاہوں گا ۔اس کے بارے میں ابھی سے اچھی طرح سوچ لو۔اگر تم کو یہ ڈیل منظور نہیں تو تم جاسکتی ہو۔”

 سبرین  کو محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے دل پر ضربیں لگا رہا ہو۔

وہ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ وہ گزری شب اس سے پہلی ہی نظر محبت کر بیٹھا ہوگا۔

اس نے بالکل بھی برا نہ منایا، کہ وہ اس سے پہلی ہی نظر میں محبت کیوں نہ کرسکا۔

اسے خود کی صلاحیتوں پر یقین تھا کہ ان تین سالوں کے دوران وہ اس کا دل جیت لے گی۔

اسے صرف ایزد کی مامی بننے کی جلدی تھی۔

“ٹھیک ہے، منظور ہے۔”

 جب وہ رجسٹری آفیس میں داخل ہوئے تو پہلے دونوں کی تصاویر کھینچی گئیں۔

کیمرہ مین جو کافی دیر سے دونوں کے کسی بھی قسم کے تاثرات سے خالی چہرے دیکھ کر تنگ آیا ہوا تھا،جھنجھلا کر آخر کار بول پڑا۔

“کیا آپ دونوں ایک دوسرے کے قریب کھڑے نہیں ہوسکتے اور پلیز مسکرائیں۔”

 شہزام  کے چہرے پر بے صبری کا تاثر تھا جیسے وہ جان جلدی چھڑانا چاہتا ہو،  سبرین  نے اسے دیکھا اور اس کے بازو کو اپنے حصار میں لے کر قریب ہوئی اور مسکراتے ہوئے کیمرہ مین سے بولی ۔

“ان کے چہرے کے اعصاب کو نقصان پہنچا تھا، سو ان کے چہرے کے اعصاب مفلوج ہوچکے ہیں، آپ ان کو مسکرانے پر مجبور مت کریں۔جانے دیں۔”

اتنی گہری انسلٹ،  شہزام  نے اسے ایک سرد گھوری سے نوازا لڑکی کے ہونٹوں پر بہت خوبصورت مسکراہٹ تھی۔

“تمہارے لئے بہتر ہے بات مت کرو۔” سبرین  نے اس کے کان میں کھسر پھسر کی۔

جب وہ اس کے قریب کھڑی تھی، اس کی خوشبو اس کے کانوں سے گزرتی ناک سے ہوتی، پورے وجود کو جیسے گدگد کرگئی۔

 شہزام  ساکت رہ گیا، لیکن کہا کچھ نہیں بلکہ خاموش رہا۔

کیمرہ مین کو اس پر بہت ترس آیا تھا۔اور وہ اسے ہمدردی سے دیکھنے لگا، یہ واقعی بدقسمتی تھی، اس قدر دل کش دکھائی دینے والا آدمی چہرے کے تاثرات دینے سے محروم تھا۔

تصاویر کھنچوانے کے بعد دونوں فرسٹ فلور پر گئے، اور نکاح نامہ رجسٹر کروایا۔

جب  شہزام  نے اپنا شناختی کارڈ نکال کر خانہ پوری کروائی تب  سبرین  کو اس کا اصل نام پتا چلا۔

 ”  شہزام  سوری “

جبکہ ایزد کی ماں کی کاسٹ درانی تھی، تو اس حساب سے اس کے ماموں کی ذات بھی “درانی”ہونی چاہیئے تھی۔۔۔

وہ سخت حیران ہوئی اور حیرانگی سے پوچھا۔

“آپ کی کاسٹ “ثوری”کیوں ہے؟”

“ہممممم۔۔۔”

 شہزام  جو سر جھکائے ڈاکیومنٹس پر سائن کررہا تھا، بالکل نہیں سمجھا کہ اس کی بات کا کیا مطلب ہے؟

اسی لئے سرسری سا جواب دیا۔

“میں نے اپنی مام کی کاسٹ اختیار کی تھی۔”

“اوہ۔” سبرین  بالآخر اس کی بات سمجھ گئی۔ وہ کچھ دیر کے لئے ڈر گئی تھی کہ کہیں اس سے شناخت میں غلطی تو نہیں ہوگئی۔

وہ تو اسے ایزد کا ماموں سمجھ کر فلرٹ کررہی تھی۔لیکن اس کے باوجود بھی اس کے دماغ کے کسی کونے پر سرخ بتی جھلملائی، کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور تھا۔۔

دس منٹ بعد نکاح نامہ کی سند حاصل ہوگئی۔

 سبرین  کو دل میں دکھ کی شدید چبن محسوس ہوئی ، لیکن اس وقت وہ یقینی طور پر اس کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

بچپن سے ہی اس نے فرض کرلیا تھا کہ وہ بڑی ہوکر ایزد سے شادی کرے گی۔لیکن توقعات کے برخلاف اس کی شادی ایسے شخص سے ہوئی جس سے وہ صرف ایک بار ملی تھی۔

“یہ میرا کنٹیکٹ نمبر ہے، مجھے کہیں ضروری کام سے جانا ہے،سو میں چلتا ہوں۔”

  شہزام  نے ایک سادہ کاغذ پر اپنا نمبر لکھ کر اسے جانے سے پہلے دینا ضروری سمجھا۔

“ویٹ اے منٹ۔۔” سبرین  نے اپنے حواسوں میں واپس آتے ہی جلدی سے اسے روکا۔

“اب جبکہ ہم شادی شدہ ہیں اور ہمیں ساتھ رہنا چاہیئے۔”

اکتادینے والے تاثرات کے ساتھ  شہزام  نے جواب دیا۔

“میں کسی “غیر” کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا۔”

“میں کوئی “غیر”نہیں ،آپ کی قانونی بیوی ہوں۔جب تک ہم میں تین سال بعد طلاق ہو ، تب تک تو ہم ساتھ رہ سکتے ہیں۔”

ہاتھ میں نکاح نامے کی کاپی جھلاتی ہوئی منہ بنا کر  سبرین  نے اس کی نرم دلی سے فائدہ اٹھانا چاہا۔

“میں واقعی کافی دکھی ہوں، جب سے میری کھوئی ہوئی بہن میرے والدین کو واپس ملی ہے، وہ مجھ سے برا برتاؤ کررہے ہیں۔اب جبکہ مجھے گھر سے نکال دیا گیا ہے، تو میرے پاس رہنے کو کوئی جگہ نہیں ہے۔”

“تو تم کوئی کرائے کی جگہ بھی لے سکتی ہو”۔ شہزام  نے لاپرواہی سے کہا اور آگے چل دیا۔

“مجھے چھوڑ کر مت جاؤ ہبی !”  سبرین  اچانک ہی چیخ چیخ کر رونے لگی ،اور آگے بڑھ کر اس کے بازو کو اپنے حصار میں لیا۔”میرے پاس اب تمہارے سوا کچھ نہیں بچا۔”

 سبرین  کے اس طرح سے رونے چلانے پر رجسٹری آفس کے باہر کئی جوڑوں کی نظریں ان دونوں پر اٹھ گئیں۔

 شہزام  کے چہرے کے زاوئیے بگڑ گئے،  شہزام  کو اس سے شادی پر سخت پچھتاوا ہوا۔

“فائن۔۔ میں جیڈائٹ بے میں رہتا ہوں، خود سے ہی چلی جاؤ۔”

 شہزام  بے بس ہوا اور ساتھ ہی نرمی سے اسے تنبیہہ کی۔”تم کو گیسٹ روم میں سونا پڑے گا۔تم کو میرے کمرے میں آنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہوگی۔”

اندر ہی اندر  سبرین  خوش ہوگئی۔ اسے یقین تھا مستقبل میں وہ اس کے کمرے تک بھی پہنچ جائے گی۔

“ویسے فدی کو پریشان مت کرنا۔”  شہزام  نے ہدایت کی۔

“فدی؟؟؟”  سبرین  کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گئیں۔ “تمہارا پہلے سے ہی ایک بیٹا بھی ہے؟”

 شہزام  نے اس کی حیرت پر ابرو اٹھا کر اسے ناسمجھی سے دیکھا۔”اس کا اچھا سا خیال رکھنا”

اپنا جملہ مکمل کرکے وہ لاپرواہی سے اسے دیکھے بغیر آگے بڑھ گیا۔

 سبرین  کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ  شہزام  کے پیچھے جانا بھول ہی گئی۔ اگرچہ اس نے اپنے آپ کو کسی ایسے شخص سے شادی کرنے کے لیے تیار کرلیا تھا جسے وہ پسند نہیں کرتی تھی لیکن وہ کسی کی سوتیلی ماں بننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔

وہ ایک گھنٹہ تک روڈ سائیڈ پر گم سم کھڑی رہ گئی۔اپنے متضاد مستقبل کی تصویر کشی کرتی رہی۔یعنی ایک طرف ایزد کی مامی، دوسری طرف سے ایک بچے کی سوتیلی ماں۔

بالآخر وہ ایزد کے مکروہ خیال کو جھٹک کر صرف بچے کی سوتیلی ماں کے خیال پر ٹھہر گئی۔اور بھاگتی ہوئی مال پہنچی اور بچوں کے کھلونوں کی دکان میں داخل ہوگئی۔

فدی نام سے یقیناً لڑکا ہوگا۔

یہ یقین کرکے اس نے کافی سارے کھلونے، چاکلیٹس اسنیکس لئے اور گاڑی چلا کر مطلوبہ اپارٹمنٹ پر پہنچی۔

کافی ساری چیزیں لے کر ایک گہری سانس بھر کر وہ دروازے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔

اس نے پاس ورڈ لگایا تو دروازہ دھیرے سے کھل گیا۔

ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔

“ہائے فدی۔۔۔۔۔”

“میااااوں ں ں!”

ایک موٹی بلی،جس کا جسم سفیداور کان ہلکے پیلی رنگت کے تھے، نہایت سستی کے ساتھ صوفے پر نیم دراز تھی ۔

 سبرین  نے آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، اس نے آنکھیں جھپک جھپک کر دیکھا۔

“فدی؟”

“میاااآوں ں ں!”

بلی نے اپنے جسم کو کھینچا اور جمپ لگا کر صوفے سے نیچے آئی۔

اس کے پیروں کے گرد چکرانے لگی اور جو کھلونے  سبرین  تھامے ہوئے تھی اسے سونگھنے لگی۔ جب اسے یہ پسند نہیں آئے تو مایوس ہوکر واپس صوفے پر جاکر لیٹ گئی۔

“میااااوں ں ں”

 سبرین  حیرت سے دنگ رہ گئی۔

 شہزام  کو کچھ تو وضاحت دینی چاہیئے تھی۔

اس نے پچھلے چند گھنٹے اس فکر میں کڑھ کڑھ کر گزارے تھے کہ وہ کسی کی سوتیلی ماں ہے!بے بسی کا احساس اس پر شدت سے غالب آیا تھا۔

لیکن اب موٹی پیاری سی بلی کو دیکھ کر اس کی ساری پریشانی ختم ہوگئی تھی ۔

وہ چند قدم آگے بڑھی اور بلی کے گال پر ہلکے سے پنچ ماری،لیکن بلی برق رفتاری کے ساتھ بھاگتی ہوئی ماسٹر بیڈ روم میں چلی گئی ۔

یہ ماسٹر روم وہی تھا جہاں ابھی وہ قدم رکھنے کے قابل نہیں تھی۔

 سبرین  نے اپنی اس قدر توہین پر سرد آہ کھینچی، اور نظر چاروں طرف گھما کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔ جہاں تین بیڈروم اور دو لیونگ ایریا تھے۔

تین روم میں سے ایک  شہزام  کا بیڈ روم تھا، دوسرا گیسٹ روم تھا اور تیسرا اسٹڈی روم تھا۔

گھر کے اندرونی حصے کو کم سے کم، جدید انداز میں سجایا گیا تھا جس میں سیاہ ، سفید اور سرمئی کو اس کی مرکزی رنگ سکیم کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یہ آنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا لیکن دوسرے ہی وقت میں ایک سرد اور بے چین ماحول کا تاثر بھی دے رہا تھا۔۔ تزئین و آرائش میں شاید زیادہ لاگت نہیں آئی تھی۔

کیا یہ واقعی میں ایزد کے ماموں کی رہائش تھی؟

اس شخص کو ایک کامیاب کاروباری شخص سمجھا جاتا تھا ،لیکن اس کی رہائش اس کی بتائی گئی شخصیت کے بالکل الٹ تھی، رہائش کے اعتبار سے یہ ایک سادہ مزاج شخص کا گھر لگ رہا تھا۔

اسٹڈی روم میں شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے تھے، جہاں قانون کے متعلق کتابوں “سائنس آف لاء” “دا لاء سوسائٹی گیزٹ ” اور ” آر وی سلیوز ٹو اوور جینز؟” جیسے بکز کی بھرمار تھی۔

اسے کچھ غلط محسوس ہوا تھا، کیا یہ ممکن تھا کہ یہ آدمی ایزد کا ماموں نہیں تھا؟

نہیں۔۔۔ نہیں، یہ نہیں ہوسکتا! فریا بہت سی باتوں میں لاپرواہی کرسکتی ہے لیکن اس جیسی سنجیدہ بات میں لاپرواہی نہیں کرسکتی کہ غلط آدمی کا پتا دے۔

وہ ممکنہ طور پر غلطی نہیں کرسکتی، ٹھیک ہے؟

حد سے زیادہ سوچیں  سبرین  کو مار رہی تھیں۔

تنگ آکر اس نے فریا کا نمبر ملالیا۔

“کیا تم کو یقین ہے کہ یہ آدمی ایزد کا ماموں ہی ہے؟’

“بالکل۔۔میں نے اپنے بھائی فارس سے سنا تھا، اس نے ان کے ساتھ ایک بار کھانا بھی کھایا ہے۔”

 سبرین  نے یہ سن کر بے اختیار اپنے سینے پر پاتھ رکھ دیا۔

” میں بہت پریشان ہوگئی تھی کہ کہیں میں نے غلط آدمی سے تو شادی نہیں کرلی؟”

“اوہ گاڈ۔۔ کیا تم نے واقعی میں  شادی کرلی ہے؟” دوسری طرف سے فریا تو ایک جگہ سن بیٹھی رہ گئی یہ وہ کیا سن رہی تھی؟

” کیا وہ واقعی آیا تھا؟”

“ہمممم۔۔ ہاں۔” وہ اتنا ہی کہہ سکی۔

دوسرے طرف سے فریا رونے لگ گئی۔

“ہم دونوں میں وعدہ ہوا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی اینجل بنیں گی، کیسے تم مجھے اس طرح پلک جھپکنے میں چھوڑ سکتی ہو؟”

الفاظ جیسے  سبرین  کے حلق میں پھنس گئے۔

“ٹھیک ہے، تم دونوں اب مجھے ٹریٹ تو دے سکتے ہو۔”

“ہمممم۔۔۔ہم دونوں میں ابھی ٹھیک سے بات بھی نہیں ہوئی۔” سبرین  کو کچھ پتا نہیں تھا وہ  شہزام  کے متعلق کیا بولے۔

“تم نے واقعی ایک خوبصورت آدمی چنا، لیکن محبت کرنا تمہارے لئے آسان نہیں ہے سبی ۔”

فریا کو اس سے دلی ہمدردی تھی۔اس کی فکر تھی۔

“لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ،وہ تمہاری شگر کوٹڈ گولیوں کے آگے خود ہی سرینڈر ہوجائےگا۔”

“مجھے بھی یقین ہے۔”

فون رکھنے کے بعد وہ گاڑی بھگا کر قریبی سپر مارکیٹ پہنچ گئی۔

یہ نیا گھر کافی سرداور خالی خالی تھا،اس قابل نہیں تھا کہ اسے گھر کہا جاتا۔اسے واقعی تبدیلی کی ضرورت تھی۔

٭٭٭٭

جاری ہے

Prev Episode 01

Next Episode 03

“Your feedback matters to us! If you enjoyed reading our novels, please take a moment to share your thoughts in the comment section on our website. We can’t wait to hear from you!”

Rozan e Zindaan Season 01 Complete Episodes on Youtube

Rozan e Zindaan Season 02 ongoing on Youtube

Watsapp channel Join Karen

Click to Join Watsapp Channel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *