- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Rozan e Zindaan Episode 01
Writer: Raqs eBismil
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا
تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔
یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
Episode 01
ایک زبردست پڑنے والے تھپڑ نے سبرین یزدانی کے دماغ کی جیسے چولیں ہلادیں تھیں، ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ زبردست دھاڑ پر اس نے حیرانی سے سر اٹھا کر دیکھا۔
“تم نے مجھے آج واقعی بہت مایوس کیا ہے، تمہاری بڑی بہن 20 سال سے زیادہ وقت باہرگزار آئی ہے اور ادھر تم اس کا منگیتر اس سے چھیننے کی تیاری میں ہو۔بہت ہی کوئی بے شرم لڑکی ہو۔” یہ اس کی ماں تھی مسز جعفر یزدانی
اپنے جلتے ہوئے گال پر ہاتھ رکھے اس نے حیرانی سے نم آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھا۔
” امی،کیسی بات کررہی ہیں؟ ایزد میرا کزن ہے، اور سب ہی جانتے ہیں کہ ایزد اور میں بچپن سے انگیجڈ ہیں۔آپ ناانصافی کیسے کرسکتی ہیں؟”
سبرین یزدانی آج ہی دس دنوں کے بزنس ٹرپ سے واپس آئی تھی، جب اس نے ڈرائینگ روم کے صوفے پر اپنی بڑی بہن آبش یزدانی کو ایزد کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ایزد آبش کو انگوٹھی پہنا رہا تھا، بیچ میں ٹیبل پر شگن کی مٹھائی پڑی ہوئی تھی ساتھ میں پھولوں کے گجرے، اور دونوں فیملیاں آپس میں ہنسی خوشی مگن تھیں۔۔ کسی کوبھی سبرین کا خیال نہیں آیا تھا۔
حقیقت میں سبرین اور ایزد کی بچپن سے بات طے تھی۔
تو پھر ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ ایزد اس کوچھوڑ کراس کی بڑی بہن سے منگنی کرے۔ سبرین نے قریب آکر پوچھا۔
“ایزد تم مجھے چھوڑ کر آبش سے منگنی کررہے ہو؟ میں ایسانہیں ہونے دوں گی۔” وہ چیخی تھی، جس پر سب حیران ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، اس کی ماں نے سبرین کو رکھ کر تھپڑ دے مارا۔
“امی، پلیز سبرین کو مارنا بند کریں۔۔”آبش نے پریشان ہوکر اپنی ماں کو روکا۔ “یہ میری غلطی ہے، مجھے واپس ہی نہیں آنا چاہیئے تھا ۔۔۔ “
اس کے افسردہ تاثرات کو دیکھ کر ایزد اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ نرمی سے تھام کر کہا۔
“آبش خود کو الزام مت دو، یہ میری ہی غلطی ہے ۔میں نے تو ہمیشہ سبرین سے ایک چھوٹی بہن کی طرح برتاؤ کیا ہے، اسی لئے شاید سبرین کو غلط فہمی ہوئی ہے۔”
سبرین کو ایزد کے الفاظ سن کر جھٹکا لگا۔تکلیف کی شدت سے اسے لگا اس کی سانس تھم جائے گی۔
“بہن۔۔ ؟”اس کے ہونٹ حیرت سے ایزد کو دیکھ کر ہلے۔
اگر ایزد اسے بہن سمجھتا تھا تو اس نے سبرین سے ہمیشہ ساتھ رہنے کے وعدے کیوں کئے تھے؟
اگر وہ اسے بہن سمجھ کر برتاؤ کرتا تھا؟تو کیوں اسے شدت سے گلے لگاتا تھا اگر وہ اسے بہن سمجھتا تھا؟
“بکواس بند کرو!” اسے وہ الفاظ ناقابلِ برداشت لگے اور وہ اسے نفرت سے بھر رہے تھے۔
“بکواس تو تمہیں بند کرنی چاہیئے، تمہیں احساس ہے کہ تمہاری بہن بیس سال کتنی مشکل سے گزار کر آئی ہے، تمہیں اس کی چھوٹی سی خوشی برداشت نہیں۔”یہ ایزد کی ماں تھیں، جو ناک کے پھن پھلا کر اسے نخوت سے کہہ رہی تھی۔
ایزد کی ماں کی بات سن کر سبرین تو حیرت سے دنگ رہ گئی۔
ویسے بھی رواداری کے کچھ اصول ہوتے ہیں، وہ اپنی بچپن کی محبت کیوں کسی کی جھولی میں ڈالتی، وہ کوئی ولی نہیں تھی۔
اس وقت ایزد کے باپ کھڑے ہوئے۔
“بس ۔۔ تمہاری ہوگئی؟ایزد تمہارا کبھی نہیں تھا، ہم نے اس کی خواہش پر ہی آبش کا رشتہ کیا ہے، اب جاؤ یہاں سے ، ہماری نظروں سے ٹل جاؤ۔”
سبرین نے کانپ کر ایزد کی طرف دیکھا جو اس کی طرف سے لاتعلق تھا۔ اس نے پھر آبش کی طرف دیکھا جو اس کے قریب اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے کھڑی تھی۔
اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک مضحکہ خیز چیز ہے۔
یہ لوگ وہ تھے جن کی وہ سب سے زیادہ پرواہ کرتی تھی، پھر بھی ان میں سے ہر ایک اس وقت آبش کا ساتھ دے رہا تھا۔
آنسو بری طرح سے اس کے گال پر بہہ رہے تھے۔
آخرکار اس نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھے، اور جن قدموں سےآئی تھی، انہیں قدموں سے اپنا سوٹ کیس دھکیل کر باہر نکلتی چلی گئی۔ بناء کسی کو دیکھے، پیچھے سے کسی نے بھی اسے نہیں روکا۔
سبرین کا سفر پھر سے شروع تھا۔
اسے پتا نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے؟
اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ کہاں جائے؟’
کچھ دیر چلنے کے بعد ایک جگہ رک کر اس نے اپنی بیسٹ فرینڈ فریا لیام کو کال کی۔
“فریا، میرے پاس آسکتی ہو؟آج کچھ ڈرنک کریں۔” اس کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہورہی تھی، جسے سن کر فریا کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
“شیور۔۔”فریا جلدی راضی ہوگئی ۔”میں کچھ ہی دیر میں تمہارے پاس ہونگی۔”
جلدی جلدی آتے بھی جب فریا مطلوبہ پب پہنچی تو سبرین پہلے ہی سے ایک بوتل ریڈ وائن کی ختم کرچکی تھی۔
“تم بالکل صحیح وقت پر پہنچی ہو۔ چلو مل کر پیئیں۔میں نے ایک اور بوتل کا آرڈر دیا ہے۔اب تمہیں تب تک گھر جانے نہیں دوں گی ،جب تک ساری ڈرنک ختم نہیں ہوتی۔”
سبرین نے فریا کی طرف بیئر کی بوتل پھینکی۔
“کیا ہوا ہے؟” ایسا بہت کم ہوا تھا کہ فریا نے سبرین کو ایسی حالت میں دیکھا ہو۔ اس کی مکمل ہمدردی سبرین کے ساتھ تھی۔ “ایزد کہاں ہے،کیا اس نے تمہیں پھر سے نظر انداز کیا ہے؟”
فریا نے جیسے ہی ایزد کا تذکرہ کیا ، سبرین کو لگا جیسے کسی نے تند چھری سے اس کے دل کو چیرا ہو۔
“اس نے مجھے دھوکا دیا فریا، اور وہ اب آبش سے منگنی کررہا ہے۔”
سبرین نے اسے ہر بات تفصیل سے بتائی کہ آج شام کیا ہوا ۔
فریا کو یہ سن کو ناقابلِ یقین دکھ ہوا سبرین اور ایزد ہائی اسکول سے ساتھ تھے،اور ان کی محبت بھی بچپن کے ساتھ پروان چڑھی تھی۔
جب وہ باہر پڑھنے گئی تھی، ایزد کام میں مصروف رہتا تھا، اب وہ جیسے ہی باہر سے پڑھ کر واپس آئی تھی، ایزد اسے چھوڑ کر اس کی بڑی بہن سے منگنی کررہا تھا۔
دونوں کے والدین کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا کچھ ہوسکتا ہے۔۔ وہ تو جوڑے کو دعائیں بھی دے چکے تھے۔
انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے لوگ اچھے سے جانتے تھے کہ یہ جوڑا جلد یا بدیر شادی کے بندھن میں بندھ جائے گا۔
اور اب، ایزد سبرین کو چھوڑ کر آبش سے انگیجڈ ہوگیا جس وجہ سے سبرین تفریحی صنعت میں تضحیک کا نشانہ بن گئی تھی۔
“یہ تو کافی مضحکہ خیز ہے۔ تم دونوں بہنوں کو یکساں طور پر اپنے والدین کے لئے اہم ہوناچاہیئے ، کیا تمہارے والدین کا دماغ نہیں ہے؟”
سبرین نے گلاس پر گرفت مضبوط کرلی۔
“وہ دونوں ہی سمجھتے ہیں کہ آبش نے کافی تکلیف سہی ہے،اب جبکہ وہ 20 سال بعد ان کو واپس ملی ہے تو وہ دونوں اس کو ہر اچھی چیز دینا چاہتے ہیں۔”
یہ سن کر فریا جیسے بے یقین تھی۔
“لیکن ۔۔تم بھی تو ان کی بیٹی ہو!”
سبرین زبردستی مسکرادی۔
“ہااااہ۔ اب جبکہ آبش واپس آچکی ہے، سب اس کا خیال کر رہے ہیں۔جبکہ بچپن سے ہی سب میری ایزد کے ساتھ شادی کروانا چاہتے تھے،اور جب میں اس معاملے میں سنجیدگی سے انوالو ہوگئی تو یہ سب مجھے امیچور کہنے لگے، ایزد نے ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا، اب اس نے ابھی اپنا ذہن بدل لیا۔۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔۔۔”
جملے کے اختتام پر سبرین کا جیسے دم گھٹنے لگا۔
وائن کی بوتل تھام کر اس نے بڑا سا گھونٹ لیا، اس گھونٹ کے ساتھ ،اس کے منہ میں آنسووں کا ذائقہ بھی مل گیا۔
اس لمحے اسے تھوڑا چکر آنے لگا تھا۔
“اتنا زیادہ مت پیو،تمہارا معدہ بالکل کمزور ہے، اگر زیادہ پیو گی تو پریشانی تمہیں ہی ہوگی۔”
فریا نے اس کی توجہ ہٹانے کے لئے اس سے بوتل چھین لی۔اس کے بعد اس نے پب میں نظر دوڑائی۔ اسے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ وہ کوئی جان پہچان والا وجود دیکھے گی۔
“ہائے۔۔۔ وہاں دیکھو!’
فریا نے سبرین کو ہلکا سا دھکا دیا ، اور اس کی توجہ اس آدمی کے طرف دلائی جو کونے پر بیٹھا تھا۔
حالانکہ وہاں روشنی بہت مدھم تھی، لیکن پھر بھی وہ آدمی صاف مدہوش سا بیٹھا دکھائی دیا، اس نے جو سوٹ پہنا ہوا تھا وہ بالکل بھی اس موقع کی مناسبت سے نہیں تھا۔
آدمی کی آنکھیں مکمل بند تھیں، اور وہ صوفے کے ساتھ جھکا ہوا تھا، مدھم روشنی میں بھی اس کا چہرہ چمک رہا تھا۔
جب وقتاً فوقتاً گھومنے والی اسپاٹ لائیٹ اس پر چمکتی تھی، وہ اتنا پرکشش دکھائی دیتا تھا جیسے کوئی تراشا ہوا شاہکار ہو۔جسے فرصت میں کسی مصور نے تراشا ہو۔
ایک جھلک کے بعد سبرین نے اپنی نظریں اس پر سے ہٹا دیں۔
“اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ کتنا ہی پرکشش کیوں نہ ہو، میں اس وقت بالکل بھی کسی چیز سے لطف اندوز ہونے کے موڈ میں نہیں ہوں، بھلے وہ آنکھوں کو خوشگوار لگے۔”
“میں تمہیں یہ بتانے کی کوشش کررہی ہوں کہ یہ آدمی ایزد کا ماموں ہے۔”
فریا کی بات سن کر سبرین ایک لمحہ کو جیسے دنگ رہ گئی۔
“کیا تمہیں یقین ہے؟”
ایزد نے اس سے اپنے پراسرار ماموں کا تذکرہ کئی بار کیا تھا۔
تاہم اس کے یہ پراسرار ماموں ایک فارن کنٹری میں اپنی دوائیوں کی کمپنی چلاتے تھے، اور سبرین نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ اس ملک میں نہیں رہتے تھے۔
کچھ دن پہلے اس نے سنا تھا کہ اس کے ماموں واپس آگئے ہیں۔
“بالکل۔۔۔مجھے یقین ہے۔۔میرے بھائی نے بتایا تھا جب اس نے ایک کاک ٹیل پارٹی اٹینڈ کی تھی۔میں نے سنا تھا وہ بڈھا نہیں ہے، اور چالیں چلنے میں بھی کافی چالاک ہے۔کوئی اس کا مقابل نہیں ہے۔”
سبرین کی آنکھیں جیسے یہ سن کر چمک اٹھیں۔اس کے ذہن میں ایک خیال دوڑنے لگا۔
“ویل۔۔۔ تم کیا سمجھتی ہو کیا ہوگا اگر میں ایزد کے ماموں سے شادی کروں؟”
“پففففف۔۔۔” فریا دنگ ہوئی، اور وائن کا گھونٹ منہ سے فوارے کی طرح باہر نکلا۔”دوبارہ سے کہنا۔”
سبرین کی نظریں اس وجیہہ اور جاذب نظر لمبے قد کے شخص کے وجود پر ٹھہر گئیں۔
“اگر میں ایزد کے ماموں سے شادی کروں تو ایزد کی رشتے میں مامی بن جاؤں گی، اور یہ جوڑا تو جیسے شرم سے مر جائے گا۔” سبرین کی آنکھیں کسی انہونی سے چمکنے لگیں۔
فریا تو اس کا پلان سن کر حیران ہوگئی۔۔پھر کچھ دیر بعد اس نے تعریفی انداز میں سبرین کو تھمبز اپ دکھایا۔
“میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سمجھتی ہوں یہ ایک طرح سے اچھا ہوگا، ایزد کسی طرح بھی اپنے ماموں سے میل نہیں کھاتا، ہم ایزد کے ماموں کی خوبصورتی اور دولت کا بھی ایزد سے موازنہ نہیں کرسکتے ۔”
سبرین دنگ رہ گئی۔فریا بہت اسٹریٹ فارورڈ تھی، لیکن جو بھی کہا تھا اس نے سچ کہا تھا۔
اگر آبش ایزد درانی سے شادی کرتی ہے، تو آبش کی بیک درانی خاندان کی وجہ سے مضبوط ہوجائے گی، اور یزدانی کارپوریشن میں خود اس کی پوزیشن ڈاؤن ہوجائے گی۔
“اوکے، میں ابھی اس آدمی کا دل جیتنے جاتی ہوں!”
سبرین نے فریا سے اس کا پرس جھپٹا اور اس میں،فاؤنڈیشن اور لپ اسٹک ڈھونڈھنے لگی۔
جلدی ہی اس کا خالص چہرہ میک اپ سے چمکنے لگا،
فریا نے آنکھیں جھپکیں۔
“کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اس سے نمٹ لو گی؟”
“یہ صرف ایک آدمی ہے، کیا نہیں ہے؟ھممممم!” سبرین نے اپنے بالوں کو کندھے کے آگے سیٹ کیا۔اور اپنا آدھا ریڈ وائن کا گلاس اٹھایا اور اپنی خوبصورت اور ہلکے سے نشے میں چور وجود کے ساتھ تفاخرانہ چال سے اس آدمی کے طرف بڑھنے لگی ۔
جیسے جیسے وہ اس کے قریب جارہی تھی ویسے ویسے اس آدمی کی خوبصورتی اس پر ظاہر ہورہی تھی،
اس کی خوبصورت ابرو،سیدھی ناک کی اٹھی ہوئی چوٹی، صاف رنگ، اس کی وجاہت میں اضافہ کررہے تھے۔
“ہائے۔معذرت کے ساتھ، کیا آپ مجھے وقت بتاسکتے ہیں کہ کیا ہوا ہے؟” سبرین نے اس کے کندھے پر انگلیوں سے دو بار ہلکا سا تھپکا۔
جب آدمی نے اپنی نشے سے چور آنکھیں ہلکی سی روشنی میں کھولی ںتو لفظ “ڈیول” سبرین کے ذہن میں چمکا۔
اس کا ذہن چند سکنڈ کے لئے جیسے کھوگیا۔
پھر جب وہ دوبارہ سے اپنے حواس میں واپس آئی، تو ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجا کر کہا۔
” میرے خیال میں ہماری پہلی ملاقات خوشگوار ہوگی۔”
ابرو اٹھا کر شہزام سوری نے سرد انداز میں کہا۔
” میں ڈاکٹر نہیں ہوں، میں علاج نہیں کرتا۔”
“کیا؟”
“تم خبطی ہو، ہے نا؟” اس آدمی کے سیکسی ہونٹ قدرے ہلے ۔ بہرحال اس کے منہ سے نکلے الفاظ انتہائی گھٹیا تھے۔
اس وقت سبرین کا دل چاہا وہ ایک نظر خود کو آئینے میں ضرور دیکھے کیا وہ واقعی خبطی نظر آرہی تھی؟
کیا وہ خوبصورت نہیں تھی؟ واقعی؟؟
ویسے بھی ، مردوں کے خیالات کو سمجھنا ناممکن تھا۔ ورنہ ایزد اس کے ساتھ دھوکہ نہ کرتا۔
“در حقیقت میں بیمار ہوں، میں خبطی نہیں ہوں مگر محبت کی بیمار ہوں۔۔۔” سبرین نے اس جھٹکے پر جلدی ہی قابو پالیا۔اور ایک شرمسار سی مسکراہٹ سجا کر بولی۔” جب میری پہلی نظر تم پر پڑی، تب سے محبت کی بیمار ہوگئی ہوں”۔
اس کی بات پر شہزام سوری نے اپنی ابرو ہلکی سی اٹھا کر اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
سبرین نے جلدی سے بات بڑھائی۔
” لوگ کہتے ہیں کہ جب وہ اپنی محبت سے ملتے ہیں تو ایک عجیب سی خوشگواریت محسوس کرتے ہیں، اور اس وقت میں بھی آپ سے مل کر کچھ ایسا ہی محسوس کررہی ہوں۔”
“آلرائٹ، میں سمجھ گیا، اب تم جاسکتی ہو۔”
آدمی نے لاپرواہی کے ساتھ اس سے نظریں ہٹالیں، اس کے چہرے کے تاثرات سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کو سبرین کی موجودگی ڈسٹرب کررہی ہو۔
اس کے روکھے انداز سے سبرین کو تکلیف ہوئی۔وہ سڈنی کی خوبصورت لڑکی تھی، آدمی کی اس قدر کھلی بے عزتی کرنے پر اس کا جی چاہا، دو حرف بھیج کر واپس چلی جائے لیکن ایزد کی مامی بننے کے جنون نے اسے بے شرمی سے اس آدمی سے پھر سے بات کرنے پر اکسایا۔
“خوبصورت لڑکے، کیا میں آپ کو واٹس ایپ پر ایڈ کرسکتی ہوں؟”
صوفے پر سست انداز میں آنکھیں بند کیے ، شہزام سوری اس وقت کافی خوبصورت لگ رہا تھا کہ ایک لمحہ کو سبرین کے دل کی دھڑکن بھی تھم گئی۔
“خوبصورت لڑکے، کیا اپنا نمبر دے سکتے ہو؟”
“خوبصورت لڑکے، کیا اپنا نام بتاسکتے ہو؟”
“خوبصورت لڑکے، تم آنکھیں بند کیئے بہت ہی وجیہہ لگ رہے ہو۔اتنے کہ عورتیں تمہیں دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لیں گی۔”
اتنی بے شرمی کے ساتھ مسلسل کمنٹمنٹ پر شہزام سوری سخت برہم ہوا،اور ناگواری سے آنکھیں کھول کر اسے گھورا ۔
” آخر تم چاہتی کیا ہو؟”
“میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔” سبرین نے دھندلائی نظروں سے اسے دیکھ کر جلدی سے بات بڑھائی۔
شہزام کے ہونٹوں کے کونے ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے۔
جبکہ مسکراتے ہوئے سبرین نے جلدی جلدی اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔
“اگرچہ واقعی میں تم سے شادی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی ، تو جو کچھ میں نے کہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ایک بری لڑکی ہوں۔ میں اس سال 22 کی ہونگی، اور میں نے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے۔ میں ایک قابل عورت ہوں جو گھر اور باہر دونوں جگہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ میں اپنے شوہر کا بہت خیال رکھوں گی۔ میں بھی اپنا پیسہ کمانے کے قابل ہوں۔ میں صحت مند ہوں اور مجھ میں کوئی بری عادت نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر، میں رلیشن میں سچی ہوں۔”
شہزام اسپیچ لیس کھڑا اسے بولتے دیکھتا رہا، پھر اس نے اپنی آنکھیں مسلیں اور اسے دوبارہ عجیب نظروں سے گھورا۔
سبرین نے ہاتھ بڑھایا۔
“میں قسم کھاتی ہوں، کہ آج سے، میں آپ کے ساتھ اچھا سلوک کروں گی،اس کا آپ سے وعدہ کرتی ہوں۔”
“بکواس بند کرو۔”
شہزام سوری اس کی بک بک سے اتنا تنگ آچکا تھا کہ وہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔
جب سبرین نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ وہ واقعی بہت لمبا ہے۔ وہ چھ فٹ اور دو انچ کے قریب تھا ، اور اس کے علاوہ ،اس کی شخصیت کافی حیرت انگیز تھی۔
” اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو تو اپنا برتھ سرٹیفکیٹ لے کر آؤ، اور کل صبح 10 بجے رجسٹری آفس میں مجھ سے ملو۔”
اس شخص نے اپنی جیب میں ایک ہاتھ ڈال کر اسے گھورا۔
سبرین گھبرا گئی۔ اس کے بعد وہ ہڑبڑا کر بولی۔
“کیا تم مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو؟”
“یہ تمہیں کل پتا چلے گا۔” شہزام سوری نے پیچھے مڑ کر کہا اور متکبرانہ چال چلتا پب سے باہر نکل گیا۔
کہانی اتنی جلدی موڑ کھائے گی سبرین کو بالکل بھی امید نہیں تھی،وہ ابھی تک کانوں سنے پر بے یقین کھڑی تھی کہ شاید اس نے کچھ زیادہ پی لی ہے۔
وہ تب تک کھڑی ہی رہتی اگر فریا آگے بڑھ کر اس کا کندھا نہ ہلاتی۔
اس نے ہمدردی سے کہا۔
“اتنی افسردہ مت ہو۔۔یہ آسان نہیں ہے کسی امیر، خوبصورت اور پرکشش آدمی کے دل پر قبضہ کرنا،کیپ اٹ اپ۔۔۔”
“نہیں میں اسی لئے بےیقین ہوں کہ اس نے مجھے کل صبح دس بجے رجسٹری آفیس میں آنے کو بولا ہے۔” سبرین نے چکراتے حواس یکجا کئے تھے۔
فریا پہلے تو ایک جگہ سن کھڑی رہ گئی پھر اس کے منہ سے ہنسی کا فوارہ سا پھوٹ نکلا۔
” مبارک ہو پھر تو ایزد کی مامی بننے پر ہاہاہاہا۔۔۔ “
سبرین نے اس کے ہنسی سے سرخ پڑتے چہرے کو حیرت سے دیکھا۔
“تمہیں اس کی بات پر یقین آرہا ہے؟”
فریا نے ہلکے سے سبرین کے نرم و ملائم گال پر پنچ مارا۔
“وائے ناٹ؟ پلیز تمہاری اس نیچرل بیوٹی کو دیکھ کر تو کوئی بھی دل ہار سکتا ہے۔اگر میں مرد ہوتی تو پہلی نظر میں ہی تم سے محبت کا شکار ہوجاتی چلو چل کر تمہاری کل ہونے والی شادی کی خوشی کو سیلیبریٹ کریں۔”
سبرین نے اسے تعجب سے دیکھا کتنے پیگ پیئے تھے فریا نے جب وہ دور تھی، اور اب بھی پینے کے لئے تیار تھی۔
تاہم سبرین نے اب بس کردی، کیونکہ اس کا سر اب مسلسل چکرا رہا تھا اور بھاری ہورہا تھا۔
٭٭٭٭
ایک بینٹلی مولسن آہستہ آہستہ چلتی پب کے داخلی دروازے پر رک گئی۔
ڈرائیور نے پچھلا دروازہ کھولا، شہزام جلدی سے پیچھے بیٹھ گیا۔اس نے اپنے سامنے کے دو بٹن کھول دیئے۔۔ اور سر سیٹ کی پشت سے لگادیا۔
“کیا میں نے تم کو ہدایت نہیں کی تھی کہ اسے چابی پر کم رکھا کرو۔”
ہادی نے شائستگی سے جواب دیا۔
“حقیقت میں یہ ثوری خاندان کی ایک بہت سستی کار ہے۔”
شہزام سوری تھوڑا حیران ہوا ۔
“کون کون جانتا ہے کہ میں اس وقت میلبورین میں ہوں؟”
” کوئی نہیں سوائے بڑی بیگم صاحبہ کے۔۔”
اس کی بات پر شہزام کی تنی ہوئی بھنویں ریلیکس حالت میں آئیں۔
اس کا مطلب تھا ابھی جو عورت اس کے سامنے آئی تھی وہ کسی منصوبے سے نہیں آئی تھی۔
“کل صبح ہونے سے پہلے مجھے اس لڑکی کے متعلق مکمل انفارمیشن چاہیئے۔”
٭٭٭٭
جاری ہے
Next Episode 02
“Your feedback matters to us! If you enjoyed reading our novels, please take a moment to share your thoughts in the comment section on our website. We can’t wait to hear from you!”
One thought on “Rozan e Zindaan Episode 01”