- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Rozan e Zindaan Episode 06
Writer: Raqs eBismil
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا
تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔
یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
Episode 06
سبرین مسلسل ایزد کے ہلتے ہونٹ دیکھ رہی تھی۔
سبرین نے ان سجیلے ہونٹوں سے، ماضی میں بارہا اپنے لئے پیار بھری سرگوشیاں اور مدھ بھری میٹھی باتیں سنی تھیں۔
لیکن افسوس کہ اس بار ان مدھ بھرے ہونٹوں سے کڑوے، حقارت بھرے الفاظ اس کے لئے آگ کے شعلوں کی طرح نکل رہے تھے۔
وہ کافی رنجیدہ ہوئی۔۔وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھی،کوئی اپنا پیارا، عزیز اس طرح بھی راہیں بدل سکتا ہے؟کیا کوئی خودغرضی میں اس قدر آگے بڑھ سکتا ہے کہ پچھلے وعدے اور قسمیں بھلا کر ایک کونے میں پھینک دے؟
ہوسکتا ہے۔۔! کیوں نہیں ہوسکتا۔۔یہ دنیا دورنگی ہے۔۔جہاں لوگ پل پل چہرے بدل لیتے ہیں۔اپنی کہی باتوں سے مکر جاتے ہیں۔
سالوں کے رشتے لمحے میں توڑ دیتے ہیں ۔
قسموں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔۔
وعدوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
اس کا ذہن سوچے جارہا تھا ۔ اسے واقعی ایزد کے الفاظ نے سخت تکلیف سے دوچار کیا تھا۔۔ اتنا کہ اس کی ضبط کی طنابیں اس کے ھاتھ سے چھوٹ گئیں۔۔وہ چٹخ پڑی۔۔ ہلکی چیخ سے بول پڑی۔
” ہاں ۔۔ ہوں میں بھیانک ، تو کیا تم اب اپنی منگیتر کی طرف سے مجھ سے بدلہ لینے آئے ہو؟”وہ کرلائی۔
“افسوس! سبی۔۔تم اب بھی اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہو!”ایزد کو تو وہ کوئی اور ہی سبرین لگی ۔۔ اس کی سبرین تو نہیں تھی جس سے اس نے محبت کی تھی۔
“دیکھو سبی۔۔۔ تمہارے مام اور ڈیڈ تمہاری وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں۔تم کو اپنا رویہ بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔۔لوگ تم کو اس وجہ سے چھوٹی ذہنیت کی بلا رہے ہیں۔”ایزد نے اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔
“ہاں ۔۔ ہوں میں چھوٹی ذہنیت کی۔” سبرین نے اس کی یہ بات مان لی کہ وہ چھوٹا ذہن رکھتی ہے۔”بہرحال میں کوئی ولی نہیں ہوں” اس نے بازو سینے پر باندھ کر اسے دیکھا۔
“آفریییییین۔۔۔” ایزد اس کے ضدی انداز پر غصہ میں آکر کار کے بونٹ پر مکہ مار کر دھاڑا۔۔ پھر جیسے بے بس ہوا تھا۔۔بالکل بے بس۔۔
“تم نے آج واقعی مجھے بری طرح مایوس کیا ہےبہت۔۔ میں اپنے اور تمہارے بہتر مستقبل کے لئے کیا کچھ برداشت نہیں کررہا۔۔چاہتا تھا تم بھی محنت کرو۔ مجھے تین سال۔۔ فقط تین سال کی مہلت دو،تاکہ میں آبش کی مدد سے اپنا بزنس آگے بڑھا سکوں ۔۔ لیکن تم ۔۔ تم نے جلد بازی میں پانسہ پلٹ دیا۔۔ گھر سے نکل آئی۔ سمیٹ گروپ سے نکل آئی۔ اور اب نوکری سے فارغ دربدر پھر رہی ہو۔۔ کیا تم نہیں سمجھتی کہ تم نے خود کو پریشانیوں میں دھکیل دیا ہے؟” وہ واقعی اس کے روئیے سے پریشان ہوا تھا۔۔
اس کی بات پر سبرین طنزیہ مسکرائی۔
“محنت ہی تو کررہی میں۔۔ محنت کررہی میں تمہارے ماموں کی بیوی بننے کی تاکہ تم کو وہی جلن اور تکلیف محسوس کرواسکوں جو مجھے تمہیں آبش کے ساتھ دیکھ کر ہوتی ہے۔”
ایزد کی آنکھوں میں جیسے لہو اتر آیا۔
“تم نہ صرف خود کو برباد کررہی ہو بلکہ ہم سب کو پریشان کررہی ہو۔۔ اگر ایسا ہی کرتی رہی نا۔۔ تو سب کچھ کھودو گی سب کچھ۔۔ جس آبش کو تم کم تعلیم یافتہ سمجھ رہی ہو۔۔وہ تم سے آگے جائے گی۔بھلے وہ سالوں تک دیہی علاقوں میں پلی بڑھی ہو۔۔لیکن اس میں قابلیت ہے ،ذہین ہے۔۔۔ اپنی ذہانت سے دیکھ لینا وہ تم کو پچھاڑ دے گی۔۔”ایزد نے اسے حقیقت کا منہ دکھایا تھا۔۔
“اوہ۔۔۔ لگتاہے ۔۔ کچھ ہی دنوں کی وابستگی کی وجہ سے آبش کو کچھ زیادہ ہی جان گئے ہو۔” سبرین نے اس پر طنز کسا۔۔ وہ واقعی جل بھن گئی تھی۔۔
اس کی احمقانہ بات پر ایزد کو سچ میں افسوس ہوا۔۔ وہ اچھے سے سمجھ رہا تھا کہ سبرین آبش سے حسد کرتی ہے۔۔ لیکن کس وجہ سے کرتی ہے؟ یہ اسے نظر نہیں آرہا تھا۔
ہوتا ہے ایسا ۔۔۔ بالکل ہوتا ہے۔۔ کبھی کبھی ہم صرف سامنے کی چیز کو ہی دھیان میں رکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے کی وجوہات کو ہماری سامنے کی آنکھ نہیں دیکھ پاتی جب تک ہماری اندر کی آنکھ نہ کھلے۔۔تب تک غلط فہمی میں مبتلا رہتے ہیں۔۔ اور یہ اندر کی آنکھ تب کھلتی ہے جب کوئی بڑا دھچکا لگتا ہے۔۔ بہت سی باتیں انسانی آنکھ سے چھپی ہوتی ہیں ، بہت سے راز کہیں دفن ہوتے ہیں۔۔ جن کے ظہور کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں پس پردہ حقائق اور منصوبوں سے لاعلم تھے۔۔ تبھی ایک دوسرے کے خلاف غلط فہمی میں مبتلا ہورہے تھے۔۔یوں کہنا چاہیئے کہ دوسروں کا کیا برداشت کررہے تھے یا دوسروں کی چالوں میں آچکے تھے۔۔ اور لاعلم تھے۔۔
ایزد کو اس وقت سبرین کے ڈھیٹ پن پر سخت تاؤ تھا۔۔
“یہ وقت جیلس ہونے کا نہیں۔۔تم کو کچھوے اور خرگوش کا کنسیپیٹ سمجھنا چاہیئے۔۔” وہ اسے آبش اور خود کے بیچ موازنہ کرنے کا کہہ رہا تھا۔۔
“جیلیس۔۔؟ جیلیس ہوتی ہے میری جوتی۔ ” سبرین کو تپ چڑھ گئی جب مسلسل ایزد اسے جیلسی کے طعنے دینے لگا۔۔
“یہ تم ہی تھے ایزد۔۔ جس نے مجھے کسی اور کے لئے چھوڑا۔۔ اور منگنی کرلی، پھر بھی کہتے ہو میں جیلیس ہورہی ہوں؟ اور یہ تم ہی ہو جس نے مجھے اپنے لئے تین سال انتظار کی سولی پر لٹکنے کا فیصلہ سنا دیا۔۔ بناء میری مرضی جانے، کہ میں کیا چاہتی ہوں؟ میں کیا سوچتی ہوں؟ تمہیں صرف اور صرف اپنا مفاد عزیز رہا۔۔ تمہیں صرف آبش جیسی دوسروں کی چیزیں ہتھیانے والی عورت چاہیئے تھی، جو تمہارے بزنس کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوسکے۔مجھے جیلیسی کا طعنہ دینا بند کردو۔۔” سبرین نے واقعی اسے آئینہ دکھایا تھا۔۔ سچ ہی تھا کہ آبش کے طرف وہ مفاد کی وجہ سے ہی بڑھا تھا۔۔ تاکہ اس کا بزنس آگے جائے۔۔
“کچھ بھی سمجھ لو۔۔ سبی یہ میری مجبوری بھی ہے۔۔ابھی تم یہ بات نہیں سمجھوگی۔۔ یہ میں تمہیں پہلے بھی بتاچکا ہوں۔” وہ جیسے بے بس ہوا۔۔ “میں تم سے بحث کرنے نہیں آیا تھا۔۔ صرف اتنا کہنے آیا ہوں۔۔ اپنے گھر جاؤ۔۔ اپنے ڈیڈ، مام کے ساتھ آبش سے بھی معافی مانگو۔۔۔ تاکہ تم سمیٹ گروپ میں واپس آسکو۔”ایزد نے نرمی کی راہ چنی۔۔ شاید وہ سبرین کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔ ایک طرف آبش اس کے بزنس کی ضرورت تھی تو دوسری طرف سبرین تھی۔۔ اس کی محبت۔۔ اور یقیناً۔۔ محبت کا پلڑا نیچے جھک گیا تھا۔۔ مفاد کا پلڑا بھاری تھا۔۔
“میرے کمپنی میں واپس آنے سے کیا فائدہ ہوگا؟؟” چاہے میں کتنی بھی محنت کرلوں ۔۔ میری ہر محنت، ہر کامیابی آبش کے کھاتے میں جائے گی۔۔ وہ میری کامیابیوں کو تباہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔” سبرین کے لہجے میں کیا نہیں تھا!! دکھ کے ساتھ افسردگی۔۔ اپنے ساتھ ہوئی ناانصافیوں کی تکلیف رقم تھی۔۔
ایزد اس کی بات پر تحقیر سے بول اٹھا۔
“کون سی کامیابیوں کا تذکرہ کررہی تم ؟ ہر کامیابی کے پیچھے اگر میرا ہاتھ نہ ہوتا تب میں پوچھتا کہ کون سی کامیابی تم نے اپنے بل پر حاصل کی؟ یہ ہوٹل والا گرینڈ پروجیکٹ بھی تمہیں میری وجہ سے ہی ملا تھا۔۔” طنز کے تیر تھے جو وہ برسائے جارہاتھا۔۔
“اور اب وہ پروجیکٹ آبش کے ہاتھ بھی میں نے ہی دیا تھا۔۔ خود کی قابلیت پر اتنا غرور مت کرو سبرین یزدانی۔۔” وہ طنزیہ اس کی ہنسی اڑانے لگا۔۔
سبرین کو دل میں اس کی نیچ ذہنیت پر یقیناً سخت تاسف ہوتا۔۔ اگر وہ یہ نہ جانتی کہ یہ سب اعجاز آبش کی صحبت کا نتیجہ ہے۔۔۔
“مجھے تمہاری اس قدر گھٹیا سوچ پر واقعی بھی افسوس نہیں ہوا۔۔ نہ میں اپنے الفاظ تم جیسے کم ظرف پر ضائع کرنا چاہتی ہوں۔۔ اسی لئے بہتر ہے مجھ سے سو قدم کے فاصلے پر رہو۔۔ میں بالکل بھی تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی۔۔ اور اپنی قابلیت کو میں اچھے سے جانتی ہوں۔۔مجھے کسی ایرے غیرے نتھو خیرے سے جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ ” یہ کہتے ہی کار کا دروازہ جھٹکے سے کھول کر بناء اسے کوئی موقع دیئے کار بڑھا لے گئی۔۔
پیچھے وہ خود کو ایرا غیرا اور نتھو خیرا کہے جانے پر سخت اشتعال میں آیا ہوا تھا۔۔ اتنا کہ قریبی درخت کو غصہ میں لات رسید کردی۔۔
ٹھیک اسی وقت اس کی سیل فون پر آبش کی کال آنے لگی۔۔
اس نے کچھ دیر ٹھہر کر خود کو ریلیکس کیا اور کال پک کی۔۔ دوسری طرف سے آبش کی اداکاری عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔پریشان کن آواز میں وہ کہہ رہی تھی۔
“ایزد ۔۔ تم سبی سے ملنے گئے تھے نا۔۔ پلیز اس سے سختی سے بات مت کرنا۔۔ اسے نرمی سے سمجھانا۔۔”
ادھر ایزد اس کی بات سن کر شاک میں چلا گیا ۔۔ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس قدر بدسلوکی کے باوجود بھی آبش سبرین کے لئے اس قدر فکرمند کیوں ہے؟
سبرین کی خود کے ساتھ بدتہذیبی کے بعد اس نے یہ جانا کہ آبش اس کے لئے بہترین انتخاب تھی۔۔
“مجھے حیرت ہے۔۔ اس قدر بدسلوکی کے باوجود بھی تم اس کے لئے فکرمند ہورہی ہو۔۔ وہ اس قابل بالکل بھی نہیں ہے آبش۔” بالآخر ایزد نے اپنے ذہن میں اٹھتے خیالات کو الفاظ کا روپ دے دیا۔
“وہ بہن ہے میری۔۔ میں جانتی ہوں، وہ ناراض ہے۔۔ اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔۔ اس سب کی وجہ بھی میں ہوں۔۔ نہ میں واپس آتی نہ اس کے ساتھ کچھ برا ہوتا۔۔ اب وہ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ میں نے اس کی چیزیں ہتھیا لی ہیں۔۔ لیکن تمہاری بات الگ ہے ایزد ۔۔ میں نے سچ میں تم سے محبت کی ہے۔۔میں جانتی تھی۔۔ کہ تمہارے سارے جذبے صرف سبی کے لئے ہیں۔۔ اس کے باوجود بھی میں نے خود کو مجبور پایا۔۔ کیا تم بھی مجھے سبی کی طرح خود غرض سمجھتے ہو؟”
نرم نرم آواز ایزد کے ذہن پر سحر طاری کرنے لگی۔۔
سچ تو یہ تھا کہ اگر یہ سب باتیں آبش پہلے کہتی تو وہ کچھ سوچتا ضرور۔۔ لیکن اب اپنی آنکھوں سے سبرین کا برا رویہ دیکھ کر۔۔ اس سے بات کرکے ،اس کا ذہن اور دل مکمل آبش کے طرف پلٹ گیا تھا۔۔
اب ایزد پر لازم تھا کہ آبش کی محبت کا جواب اسی محبت سے دے۔۔ لوگ کہتے ہیں ۔۔ محبت صرف ایک بار ہوتی ہے۔۔ لیکن ۔۔ کچھ لوگوں پر یہ کنسیپٹ سوٹ نہیں کرتا۔۔ وہ دوبار۔۔ سہہ بار محبت کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔۔ لیکن ۔۔ سچ تو یہ ہے کہ محبت بس ایک بار ہی ہوتی۔۔باقی جو ہوتی ہے۔۔ وہ غرض ہوتی ہے۔۔ مفاد ہوتا ہے۔۔ حرص ہوتی ہے۔۔ اور یہ بات ایزد کو آگے وقت خود ہی سمجھادے گا۔۔ کیونکہ وقت سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا۔۔
“نہیں ۔۔ آبی۔۔ خود کو الزام مت دو۔ “وہ اپنے خیالات سے چونکا تھا۔۔ “زیادہ مت سوچا کرو” ایزد نے اسے تسلی دی تھی۔۔
“تھینک یو ایزد ،مجھے سمجھنے کے لئے۔۔”آبش نے لفظوں کا طلسم پھونکا ۔۔۔
٭٭٭٭
دورانِ سفر گاڑی ڈرائیو کرتی سبرین کے ذہن میںمسلسل اپنے اور ایزد کے تلخ و ترش مکالمے گردش کرتے رہے تھے۔۔ بار بار رپیٹ ہورہے تھے۔۔ وہ سخت عاجز آگئی تھی۔۔ آخر تھک کر گاڑی روک کر اسٹیئرنگ وہیل پر سر ٹکادیا اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔۔ پیشانی پر پسینہ کی ننھی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں۔۔
کافی دیر بعد خود کو پرسکون کیا۔۔ ابھی گاڑی اسٹارٹ کرکے ارادہ سپر مارکیٹ تک جانے کا تھا۔۔ تبھی اس کی سیل پر بیل ہونے لگی۔۔ اٹھا کر دیکھا تو صالحہ یزدانی کا نام چمک رہا تھا۔اتنے سارے دنوں میں یہ پہلی بار تھا کہ اس نے خود سے فون کی تھی۔۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ کال کا مقصد اسے واپس گھر بلانا قطعی نہیں ہے۔۔پھر بھی اس نے کال پک کی۔۔
“جی مام۔۔” اس نے نرمی سے کہا تھا
لیکن خلافِ توقع دوسری طرف سے زبردست گرجتی آواز تھی۔
“خبردار۔۔! جو مجھے ماں بلایا۔۔ میں تم جیسی ظالم بیٹی کی ماں نہیں ہوسکتی۔” صالحہ گرج کر بولی اور آرڈر دیا۔۔ “فوراً گھر آؤ۔۔ اور اپنی بہن آبش سے معافی مانگو!”
سبرین یہ سن کر دکھ سے کراہی۔
“آپ نے آبش سے کیوں نہیں پوچھا مام کہ اس نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے۔۔۔”لیکن اس کی بات آدھے سے صالحہ کی تیز چنگھاڑ نے کاٹ دی۔
“تمہاری بہن بہت نرم دل کی ہے ،تمہاری طرح سنگدل نہیں ہے، تم نے کافی برا سلوک کیا ہے آبش اور اس کی سہیلیوں کے ساتھ، جانتی ہو، جنت کیمپبل کے ساتھ ہمارے کاروباری تعلقات ہیں، جانتی ہو،کتنے دولت مند لوگ ہیں وہ؟ تم نے سچ میں ہمارے لئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ مجھے یقین نہیں آتا میری تم جیسی جاہل بیٹی ہوسکتی ہے؟”صالحہ نے اس کی بات مکمل سنے بغیر کاٹ کر جھاڑ پلادی۔”تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ واپس آکر بہن سے معافی مانگو”
صالحہ کی تیز آواز موبائل سے گذر کر جیسے سبرین کے ذہن میں چابک رسید کررہی تھی۔۔
اس نے بے اختیار دانت پیسے ۔
“آپ کی بھول ہے کہ معافی مانگوں گی ،جب میں نے کچھ غلط کیا ہی نہیں،اگر میری واپسی اس معافی کی شرط پر طے ہے۔۔۔تو بہتر ہے میں گھر نہ آؤں”
صالحہ اس کی بات پر چراغ پا ہوکر چیخنے لگی۔
“تو پھر زندگی میں کبھی ہمارے سامنے مت آنا۔آج سے،میں تمہیں بیٹی نہیں سمجھوں گی۔” سیل ڈس کنیکٹ ہوگیا۔۔
سبرین نے آہستہ آہستہ گہری گہری سانس لے کر،جیسے خود کو رلیکس کرنا چاہا، لیکن پھر بھی آنسو بے اختیار رواں ہوگئے۔۔
کئی لمحے گذر گئے۔۔۔ آس پاس گاڑیاں گذرتی جارہی تھیں۔۔ ان کے شور میں خود اس کی سسکیاں دب سی گئی تھیں۔۔ جب دل کھول کر روچکی تو۔۔۔ الٹے ہاتھ سے گال رگڑے،،اور خود کو خود ہی سمیٹا۔۔ پھر گاڑی چلا کر قریبی مارکیٹ تک گئی۔۔ کار ایک پیٹ شاپ پر روک کر وہ بیگ اٹھا کر شاپ کے اندر گئی۔۔
شاپ کیپر سے پوچھا کہ “بلی کے ہاضمے کے لئے بہتر کھانا کون سا ہوسکتاہے؟” شاپ کیپر نے اسے حیرت سے دیکھا،یہ پہلی بار تھا کہ کوئی بلی کا مالک ،بلی کے ہاضمے کے لئے بہتر فوڈ کی معلومات لے رہا تھا۔ اس نے اس کی مشکل آسان کرنے کے لئے ایک معلوماتی کتابچہ دیا، جس میں حاملہ بلیوں کے لئے بہترین غذائیت سے بھرپور فوڈ رسیپیز درج تھیں۔
“یہ تراکیب ہر بلی کے ہاضمے کے لئے بہترین ہیں،آپ بناء کسی ڈر کے اپنی بلی کو بناکر کھلاسکتی ہیں۔”شاپ کیپر نے پیشہ ورانہ انداز میں سر خم کیا۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد سبرین نے یہ بک خرید لی، اس کے بعد سپر مارکیٹ سے کچھ کھانے کے اجزاء اور سبزیاں خریدیں۔ اور گاڑی واپس فلیٹ کے طرف دوڑائی۔
٭٭٭٭
شام کے 4 بجے وہ فلیٹ پر واپس پہنچ چکی تھی۔
اس نے جیسے ہی اندر داخل ہوکر فدی کو ڈھونڈھنے کے لئے نظر گھمائی۔۔ فدی ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی، اسے دیکھ کر کمزور سی آواز میں “میاؤں ں “کی اور واپس دم دبا کر بیٹھ گئی۔
یہ دیکھ کر جیسے سبرین کو دلی دکھ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کی ڈائیٹ کا مکمل خیال رکھے گی،تاکہ فدی پھر سے صحت مند ہوجائے۔
یہ سوچ کر وہ سارا سامان اٹھائے کچن کے طرف بڑھی۔
اس نے بلی کے لئے فش کے کوفتے بنائے،اس میں گاجریں، اور ابلی ہوئی سبزیاں مکس کیں۔ اس کے بعد اس نے بطور بلی کے سنک کے لئے کچھ پڈنگ بنائی ۔
شہزام کام سے فارغ ہوکر شام تک واپس گھر پہنچ چکا تھا۔
کچن میں شیشے کا سلائیڈ ڈور تھا، جس کے دوسری طرف سے سبرین کھانا پکانے میں مصروف نظر آرہی تھی۔۔پہلی بار اسے گھر بھرا بھرا سا لگا۔۔ خالی پن کا احساس جو اس سے پہلے اگر اس کے اندر جاگا بھی تھا تب بھی اس نے ظاہر نہیں کیا تھا، لیکن آج۔۔۔ کچن سے آتی کھانے کی خوشبوئیں اسے واقعی یہ ماننے پر مجبور کررہی تھیں۔۔ کہ گھر صرف عورت کے وجود سے مکمل ہوتا ہے۔۔
وہ اسے بناء پلک جھپکائے تکے جا رہا تھا۔ ایک پل کو وہ سبزیاں کاٹ رہی ہوتی ،تو دوسرے پل وہ اسے پکارہی تھی، وہ واقعی اس وقت ماہر شیف لگ رہی تھی، وہ دل سے یہ مان رہا تھا کہ یہ لڑکی کھانا پکانے میں ماہر ہے۔
شیشے کچن ڈور کی جھری سے آتی کھانے کی مزیدار خوشبو اس کی بھوک کو مزید بڑھارہی تھی۔
شہزام نے نظر گھمائی جب اتفاقاً اس کی نظر ڈائننگ ٹیبل پر پڑی، جہاں چینی کے باؤل میں پڈنگ تھی، جس کے اوپر فوڈ کلر سے “ہیلو کٹی” لکھا ہوا تھا، جو یقیناً بلی کے لئے ہی بنائی گئی تھی، لیکن شہزام کی مت ماری گئی۔۔ اس وقت بھوک کی وجہ سے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مکمل سلب ہوچکی تھی۔ اس نے بناء سوچے سمجھے پیالا اٹھایا اور ایک اسپون بھر کر منہ تک لایا۔۔۔۔ مزیدار خوشبو کے ساتھ ساتھ ذائقہ بھی نہایت اعلیٰ تھا۔ جیسے جیسے وہ کھاتا گیا طلب بڑھتی گئی۔۔ اس نے یہ جانا کہ پڈنگ میں چکن اور دوسرے نامعلوم اجزاء شامل ہیں۔
یہ آج تک کے ویسٹرن ریسٹورنٹ میں کھائی گئی تمام پڈنگز سے یکسر مختلف تھی،
بڑی بات یہ کہ اس میں چکنائی کی مقدار بھی کافی کم تھی۔ جو کہ مکمل حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق تھی۔۔
اس نے منہ بھر بھر کر چمچ لئے۔۔ اور کچھ منٹ میں ہی پیالہ خالی کردیا۔۔
ٹھیک اس وقت سبرین باقی کھانے کی پلیٹز لئے کچن سے باہر آئی۔
اسے دیکھ کر اس کی آنکھیں سرپرائیزنگ انداز میں کھلیں اور پیاری سی مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کرلیا۔
“تم واپس آگئے ۔۔ شانی۔۔”
پھر یکدم سے اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی رہ گئیں۔۔ جب اس نے شہزام کے ہاتھ میں بلی کے لئے بنائی گئی پڈنگ کا پیالا دیکھا۔۔
شہزام نے ساری کھیر کھالی تھی۔
“اوہ گاڈ !، یہ تو بلی کا کھانا تھا۔۔۔!”
سبرین کی مسلسل نظروں نے شہزام کو تھوڑا سا پزل کیا، وہ دل میں یہ سمجھا کہ سبرین اسکے اپنی بنائی گئی چیز کھانے کی وجہ سے خوش ہے۔یہ سوچ آتے ہی اس نے ہلکا سا کھانس کر گلا صاف کیا۔
“تم نے جو پڈنگ بنائی تھی بہت ٹیسٹی تھی۔۔”
سبرین بالکل فریز ہوگئی تھی، وہ اس تذبذب میں کھڑی تھی کہ اگر وہ سچ بتائے گی کہ یہ شہزام کے لئے نہیں بلکہ بلی کے لئے تھی، تو یقیناً وہ اسے غصہ میں قتل ہی کرلے گا۔۔
آخر کافی دیر تک حساب کتاب کرتے سبرین زبردستی مسکرائی۔۔
“ہممم ، یہ یہ میں نے، اصل میں تمہارے لئے بنائی تھی۔مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ تم کو پسند آئی۔”
شہزام نے اس کے کھلتے چہرے اور مسکراتے لب دیکھے تو ناگواری سے کہا ۔
“تم کو صرف بلی پر توجہ رکھنی چاہئیے” اس نے سبرین کی خوش فہمی کو اپنی طرف سے جیسے دبانا چاہا تھا۔
“جی ہاں، جی ہاں،بالکل ۔۔ میں جانتی ہوں”اس نے جلدی سے پیارے تاثرات کے ساتھ سر ہلادیا۔
“میں بس خود کو روک نہیں پائی”
اس کی بات پر شہزام بس اسے سرد انداز میں دیکھ کر رہ گیا۔
سبرین بمشکل اپنے پیارے تاثرات برقرار رکھ پائی۔ کیسا آدمی ہے یہ ۔۔ کیا یہ واقعی انسان ہے؟
خوش قسمتی سے اس وقت فدی شہزام کے پاس آکر اس کی ٹانگوں سے دم لپیٹ کر اس کے گرد گھومنے لگی۔۔
شہزام نے جھک کر اسے پیار سے اٹھایا۔۔۔اور بات بدل کر پوچھا۔
“آج اس نے کیا کھایا تھا؟”
“فش کے کوفتے بناکر دیئے تھے۔ یہ سبزیاں پسند نہیں کرتی تو میں نے کچھ گاجریں ڈال کر بنائے ،اور اس نے پورے 6 کوفتے کھالئیے۔۔”
جیسے ہی سبرین نے بات پوری کی، ساتھ ہی اس کے ذہن میں یہ سوچ آئی ، کہ فدی کی کھانے کی طلب عام دنوں سے بڑھی ہے ، جبکہ عام دنوں میں وہ کم کھاتی تھی۔
“آل رائٹ۔” شہزام نے جلدی سے کہا مبادا وہ تجسس میں نہ پڑجائے کہ فدی کی کھانے کی طلب عام دنوں سے کیوں بڑھی ہے؟
“میں نے کھانا تیار کرلیا ہے، آپ شروع کریں۔” سبرین نے مڑ کر ٹیبل پر چمچ کانٹے رکھے۔اور خود بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔
اس نے سلاد، بوائل ایگز، مکھن ملے کراؤٹنس بنائے تھے۔(یہ بریڈ کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو تلے جاتے ہیں، کرسپی سے، اور سوپ کے ساتھ کھاتے ہیں) ساتھ میں وجیٹیبل سوپ۔
سلاد کی ڈریسنگ دیکھ کر شہزام نےلاشعوری طور پر، آج تک کے کھائے گئے ریسٹورنٹ کے سلاد سے اس کا موازنہ کیا ،تو یہ بات کھلی کہ سبرین کا سلاد دیکھنے میں کافی حد تک سب سے بہترین ہے۔
“یہ بہتر ہے کہ رات کو ہلکا پھلکا کھانا کھانا چاہیئے،اور گوشت چاول سے پرہیز کرنی چاہیئے۔” سبرین نے اس کی حیران نظروں کا مفہوم کچھ اور سمجھ کر جیسے وضاحت دی۔
شہزام سرپرائز ہوا۔
“تم اتنی سی ایج میں ہیلتھ کانسشئس کیسے ہو؟”
“میرے ڈیڈ کو گیسٹرک پرابلم تھی ،کیونکہ وہ بزنس کی مصروفیات میں اپنی ڈائیٹ کا خیال نہیں رکھ سکتے تھے، سو میں ہمیشہ ان کے لئے ہلکا پھلکا زودہضم کھانا بناتی تھی۔” باپ کا تذکرہ کرتے ہی اس کے لہجے میں افسردگی اتر آئی۔۔
جعفر یزدانی نے اگر اسے محبت نہیں دی تھی تو نفرت سے دھتکارا بھی نہیں تھا۔
شہزام کو اس کے ذاتی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اسی لئے خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔
کھانا بہترین تھا،اور اس نے طلب سے بڑھ کر کھالیا۔
کھانے کے بعد بے اختیار اس کے منہ سے تعریفی کلمات نکل گئے۔
“زبردست کھانا “
“تھینک یو” سبرین نے شرمانے کی ایکٹنگ کی۔
“میں نے چھوٹی عمر سے ہی کھانا بنانا سیکھ لیا تھا تاکہ اپنے ہونے والے شوہر کو اچھا کھانا پکا کر کھلاسکوں، جب وہ شام کو تھکا ہارا گھر آئے۔۔”ساتھ ہی چور نظر سے اسے دیکھا لیکن شہزام نیچے جھکا گود میں بیٹھی بلی کو پیار سے سہلارہا تھا۔۔بناء سبرین کی بات پر توجہ دیئے۔۔
یہ دیکھ کر سبرین کافی نروس ہوئی۔
اچانک شہزام نے لاپرواہی سے نظر اٹھا کر اسے گم سم بیٹھے دیکھا تو ٹیبل بجا کر اسے متوجہ کیا۔
“کس بات کا انتظار کررہی ہو؟ برتن اٹھاؤ”
“آخر یہ جنگلی ضدی آدمی کہاں سے آیا ہے؟” سبرین کچن میں برتن واش کرتے مسلسل زچ ہوتی ،دانت پیس کر سوچ رہی تھی۔۔ اس وقت اسے اپنی خوبصورتی پر بھی شک ہوا۔۔ وہ کچن سے فارغ ہوکر آئینے میں خود کو ایک نظر ضرور دیکھنا چاہتی تھی۔
شہزام نے ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کر، اسٹیڈی روم میں جانے کے ارادے سے قدم بڑھائے۔ تبھی اس کی نظر لیونگ روم کے صوفے پر الٹے پڑے ریسیپی بک پر پڑی جس پر ٹائٹل صاف نظر آرہا تھا۔ ” فوڈ رسیپیز فار پریگننٹ کیٹس” ۔وہ پریشان ہوا، تو کیا سبرین جان گئی کہ فدی پریگننٹ بلی ہے؟
اتفاقی طور پر سبرین کچن سے برتن واش کرکے واپس آگئی۔جب اس نے شہزام کو کتابچہ تھامے اسکے اوراق پلٹتے دیکھا۔۔ ایک پل اس کی سانس تھم سی گئی۔۔’اگر اس نے پڈنگ والی رسیپی دیکھ لی تو۔۔۔
وہ جلدی سے آگے آئی۔۔اور یکدم جیسے وضاحت دی۔
“ایکچوئیلی ۔۔۔ وہ میں آج پیٹ شاپ پر گئی تھی، تاکہ بلیوں کے ہاضمے کے لئے بہتر فوڈ کی معلومات لے سکوں، شاپ کیپر نے یہ بک دیا،کہ اس میں غذائیت سے بھرپور رسیپیز ہیں،جو ایک پریگننٹ بلی کے معدے کے لئے بھی مفید ہوسکتیں۔۔ تبھی میں یہ لے آئی۔”
شہزام کی آنکھوں کے تاثرات رلیکسڈ ہوگئے، اس کا مطلب ابھی سبرین کو کچھ نہیں معلوم ہوا کہ فدی پریگننٹ بلی ہے۔۔۔۔
وہ جیسے ہی،عادت کے مطابق کتابچہ کے اوراق پلٹتا جارہا تھا، ایک جگہ پر اس کی نگاہیں جیسے چپک گئیں۔جانی پہچانی سی تصویر، اور ساتھ ہی اس کی ترکیب، اچانک ہی اس کے وجیہہ تاثرات عجیب سے ہوئے۔چہرہ رنگ بدلتا جارہا تھا۔
کچھ لمحے بعد شہزام نے کتاب کا ایک ورق فولڈ کیا اور سبرین کی پرتجسس نظروں کے آگے کیا۔
” تو یہ تھی وہ پڈنگ ، جو تم نے جان بوجھ کر میرے لئے بنائی تھی، یہی ہے نا؟”
سبرین تو جیسے یہ سن کر اپنی جگہ فریز ہوگئی۔
ایک کرنٹ سا سبرین کے وجود میں دوڑا۔وہ اس کی غیظ بھری نظروں سے کانپی ۔وہ بھول گئی تھی کہ اس نے کچھ دیر پہلے پڈنگ اس بک سے دیکھ کر ہی بلی کے لئے بنائی تھی۔
Prev Episode 05
We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚