Rozan e Zindaan  Episode 07

Writer: Raqs eBismil

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا

تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔

یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔

آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

Episode 07

” تو یہ تھی وہ پڈنگ ، جو تم نے جان بوجھ کر میرے لئے بنائی تھی، یہی ہے نا؟”

سبرین  تو جیسے یہ سن کر اپنی جگہ فریز ہوگئی۔

ایک کرنٹ سا  سبرین  کے وجود میں دوڑا۔وہ اس کی غیظ بھری نظروں سے کانپی ۔وہ بھول گئی تھی کہ اس نے کچھ دیر پہلے پڈنگ اس بک سے دیکھ کر ہی بلی کے لئے بنائی تھی۔

“آھھھ۔۔۔۔بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔ “وہ ہچکچا کر چپ ہوگئی۔

“تم ہر وہ چیز میرے لئے بناسکتی ہو، جو مجھے ٹیسٹی لگے۔” شہزام  نے اسے دیکھ کر تلخ لہجے میں کہا۔

اسے یہ سوچ کر ہی متلی ہورہی تھی کہ اس نے کچھ دیر پہلے جو مزیدار پڈنگ بڑے شوق سے منہ بھر کر کھائی تھی وہ اصل میں بلی کے لئے بنائی گئی تھی۔۔ اتنا بیوقوف کیسے بن سکتا تھا وہ؟

سبرین  بالکل بے بسی سی محسوس کرنے لگی کیا صفائی دے؟

“اصل میں ،میں نے فدی کے لئے بنائی تھی، لیکن تم نے بناء پوچھے کھالی، یہی نہیں بلکہ اسے مزیدار بھی کہتے رہے۔اس پل میں ۔۔۔ میں ڈر گئی کہ اگر تم کو سچ بتایا تو تم مجھ پر غصہ کرو گے،بس۔۔۔ اسی لئے خاموشی میں عافیت جانی۔” وہ مجرم کی طرح نظر جھکائے صفائی دیئے جارہی تھی۔

“آفریییین۔” شہزام  دانت پیس کر چیخا۔

اپنی زندگی کے اٹھائیس سالوں کے دوران یہ پہلی بار تھا، جب اس کا دل شدت سے چاہا کہ وہ ایک عورت کو بری طرح مار لگائے۔

اس کے اس طرح سے خود پر چیخنے سے  سبرین  نے گردن اٹھا کر چونک کر اسے دیکھا۔

“دیکھو۔۔۔ میں نے رسیپی کتاب سے بنا کر پڈنگ بنائی تھی جو کہ مکمل غذائیت سے بھرپور تھی، اس میں جانی نقصان بالکل نہیں ہے۔”  سبرین  کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے۔

“جب وہ کھانا اتنا ہی غذائیت بھرا تھا تو تم نے خود کیوں نہیں کھایا؟”  شہزام  نے اپنی خفت اس پر الٹنی شروع کردی۔

“آھھھھ، م مجھے وہ بالکل بھی ٹیسٹی نہیں لگی تھی۔” سبرین  نے منہ بنایا۔۔ کمال ہے ایک تو غلطی بھی خود کی اوپر سے غصہ بھی۔۔ حد ہے۔۔۔

“اچھا کیا ،  سبرین  ۔۔۔ویل ڈن”اس کے طرف اشارہ کرتے ہوئے  شہزام  نے جب یہ دہرایا کہ وہ کس طرح کھانے کی تعریف کررہی تھی ،وہ اتنا مشتعل ہوا کہ چہرے کا رنگ ہی سیاہ پڑگیا۔۔

سبرین  چاہ رہی تھی کہ اسے بات سمجھائے لیکن ۔۔  شہزام  بڑے بڑے قدم اٹھاتا غصہ میں تن فن کرتا اسٹڈی روم میں جاکر زوردار انداز سے دروازہ بند کردیا۔

“اوہ نو۔۔ وہ تو شدید ناراض ہوگیا۔”

سبرین  کے دماغ نے جیسے کام کرنا بند کردیا۔

وہ تو یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ اس بار یہاں رہتے ہوئے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرے گی۔

لیکن، وہ اسے انجانے میں بھی ناراض کرچکی تھی، جبکہ وہ ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر آیا تھا۔

ایزد کی مامی بننے کا مرحلہ اسے بہت دشوار لگنے لگا۔۔ یہ ایک طویل سفر تھا بہت طویل ۔۔ اس کی ضد نے اسے کہاں لاکھڑا کیا تھا؟؟ وہ واقعی صحیح معنوں میں پریشان ہوئی۔

دس منٹ بعد  سبرین  نے بے شرم بن کر اس کےاسٹڈی روم کا دروازہ ہولے سے کھٹکایا۔

“دفع ہوجاؤ” اندر سے  شہزام  کی گرج دار آواز دروازے کی جھریوں سے گزر کر  سبرین  کے دل کو کانپنے پر مجبور کیا۔اس نے سختی سے ڈر کر اپنی آنکھیں بند کیں۔

اب جب تک وہ غصہ میں ہے وہ بس انتظار کرسکتی تھی، تاکہ وہ اس سے دوبارہ بات کرسکے۔

وہ اپنے روم میں گئی۔۔ اور پہلے باتھ لیا، اور ایک پیارا سا ڈریس نکال کر پہنا۔اور اپنے لمبے کالے، سلکی بال کھول کر کندھے پر بکھیر دیئے۔

جب خود کو تیار ہوکر آئینے میں دیکھا تو شرارت سے  خود کو ایک آنکھ ماری، وہ کافی خوبصورت لگ رہی تھی، اسے اپنی خوبصورتی پر فخر سا ہوا۔۔

سفید، برف کی سی رنگت، ملائم اسکن۔ اور لمبی گہری آنکھیں،بڑی بڑی پلکیں جس پر سایہ فگن رہتی تھیں۔۔ اس نے پلکیں جھپکا جھپکا کر خود کو دیکھا۔۔ اسے خود پر یقین تھااس کی ظاہری خوبصورتی  شہزام  کو ضرور اپنا اسیر کرے گی۔۔۔

“یہ تم کیا کررہی ہو؟” اچانک پیچھے سے ایک آدمی کی بھاری آواز گونجی۔

سبرین  ڈر کر کانپی۔اور ۔ڈرتے ڈرتے جب دیکھا تو  شہزام  پیچھے کھڑا اسے طنزیہ نظروں سے گھور رہا تھا ۔اس کے ہاتھ میں کافی کا مگ تھا ۔۔شاید وہ اپنے لئے کافی بنانے باہر آیا تھا ۔

یہ کب آیا؟؟ اس نے اس کے قدموں کی آواز کیوں نہیں سنی؟؟

“وہ۔۔۔ م۔۔ میں”  سبرین  نے بمشکل تھوک نگلا۔۔ “دراصل میں پریکٹس کررہی تھی کہ تم سے فلرٹ کیسے کروں۔” میں نے خود کو آئینے میں دیکھا تو کافی اٹریکٹڈ پایا، “وہ شرمندگی سے سچی بات بتاگئی۔۔ آخر بیوی تھی۔۔ کیوں ڈرتی؟

یہ سن کر  شہزام  کے پاس جیسے الفاظ ہی نہ بچے۔۔ بے شک  اس کی بے شرمی ایک اور نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

اس کے باوجود،  شہزام  کو تسلیم کرنا پڑا کہ اس عورت کا بناء میک کے چہرہ واقعی فریش اور خوبصورت تھا۔ یہاں تک کہ خوبصورت خواتین سے بھرے ہوئے شہر کینبرا میں ، شاید ہی کوئی ایسی عورت ہوگی، جو قدرتی طور پر خوبصورت ہو، جیسی کہ  سبرین  تھی۔

“مجھے صرف تمہارا دکھاوا ہی نظر آتا ہے”  شہزام  طنزیہ کہتے ہوئے باہر مڑ گیا۔۔۔

سبرین  جلدی سے اس کے پیچھے بھاگی ۔

“کیا تم ابھی تک ناراض ہو؟ مجھے ایسا کیا کرنا چاہیئے جس سے تمہارا غصہ اتر جائے؟ دیکھو میں اس کے لئے بلی کی کھیر بھی کھالوں گی۔۔ ٹھیک ہے۔؟ “

وہ اس کی بات پر رکا۔۔۔اور کچن کے کیبنٹ سے بلی کے کھانے کا پیکٹ نکالا۔اور اس کے آگے کیا۔

“میرا غصہ تب تک نہیں اترے گا جب تک تم یہ سارا نہیں کھاتی۔”انداز سرد سا تھا۔

سبرین  تو جیسے یہ سن کر شاک میں چلی گئی۔اتنا ظالم کیسے ہوسکتاہے یہ آدمی ؟  سبرین  نے اسے پڈنگ جان کر نہیں کھلائی تھی۔ نہ ہی زور بھرا تھا۔۔ یہ  شہزام  کی اپنی غلطی تھی جو بناء پوچھے ۔۔ کھیر کھائی۔۔ اور اب اس کا الزام بھی  سبرین  کے کھاتے میں ڈالا۔۔ اب اس کی ضد تھی کہ  سبرین  بھی اس کی طرح کیٹ فوڈ کھائے تاکہ وہی کیفیت محسوس کرے۔۔ وہی تکلیف اسے ہو۔۔ جیسی  شہزام  کو ہوئی ۔۔

“یہ۔۔۔ یہ بہت مختلف ہے۔۔۔۔ میں نے پڈنگ میں مختلف اجزاء ملا کر اسے ٹیسٹی پکایا تھا۔۔ تم کو وہ ٹیسٹی ہی لگی تھی۔۔ جبکہ یہ۔۔۔۔”وہ ہچکچائی۔

“شٹ اپ۔”  شہزام  کا چہرہ، اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے تذکرے پر ڈارک ہوا۔

“ڈونٹ وری، مرو گی نہیں، اس میں گوشت، اور مچھلی کے اجزاء شامل ہیں۔”وہ اس پر مسلسل طنز کررہا تھا۔۔

“اوہ ،ہاں۔۔۔ ویسے ۔۔۔اس میں پری بائیوٹکس بھی ہیں، جو تمہارے ہاضمے کے نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ نیز ۔۔ اس میں، ٹورین ، کیلشیم ، آئرن اور زنک بھی، جو تمہارے جسم کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ واو۔۔ کتنا غذائیت بخش! “وہ اسے دیکھ کرمزے سے کیٹ فوڈ کے فوائد گنوا رہا تھا۔

اس کی بات پر  سبرین  دل ہی دل میں سخت غصہ ہوئی۔۔ اگر یہ اتنا ہی غذائیت بخش ہے تو میرے ساتھ تم کیوں نہیں کھاتے یہ کیٹ فوڈ؟ آخخخخ، کتنا بچگانہ آدمی ہے ۔

سبرین  کی مجبوری تھی کہ اس آدمی کے روئیے کو برداشت کرے، تاکہ وہ ایزد کی مامی بن سکے۔

سبرین  نے مرے مرے کانپتے ہاتھوں سے ڈبہ پکڑا اور خود ہی اسے پیالے میں ڈالا ۔۔اس نے چند نوالے بے دلی سے لئے۔۔ پھر اسے اس کا ذائقہ ناقابلِ بیان لگا۔۔

شہزام  بالکل بھی یہ توقع نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اتنی آسانی سے اور مزے سے کیٹ فوڈ کھائے گی۔

وہ واقعی اسے کھارہی تھی تاکہ  شہزام  کا غصہ اتر جائے۔

“ٹیسٹ کیسا ہے؟”  شہزام  حیرانی سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگا۔

“مکمل ۔۔ ٹیسٹی۔۔۔ کیا تم میرے ساتھ کھانا چاہو گے؟” اس نے برا مانے بغیر جواب دیا۔۔۔ ارد گرد کا ماحول اچانک ہی جیسے سرد ہوگیا۔ جیسے ہی اس نے بات ختم کی۔۔

شہزام  نے اس کے پیالے میں کیٹ فوڈ اور ڈالا۔۔ اور طنزیہ مسکراہٹ سے کہا۔

” واقعی۔۔ تو پھر اور کھاؤ۔جبکہ یہ تمہیں مزیدار لگ رہا ہے ۔۔ ایٹ مور”۔

آخخخ، کاش یہ آدمی برباد ہو۔۔  سبرین  دل میں اسے بددعائیں دینے لگی۔۔

بالآخر اس رات  سبرین  کو  شہزام  کی گھور کے اندر سارا کیٹ فوڈ کھانا پڑا۔

“گریٹ جاب۔۔”  شہزام  نے اپنے ہاتھ جھاڑ کر، پینٹ کی جیب میں ڈالے اور اطمینان سے اپنے کمرے کے طرف بڑھ گیا۔

کمرے میں داخل ہوکر اس نے یونہی جب اسے مڑ کر دیکھا،  سبرین  منہ پر ہاتھ رکھے ابکائیاں روکتی اپنے کمرے میں بھاگتی جارہی تھی۔

اس کی سیاہ آنکھیں طنز کے احساس سے چمکیں جب اس نے ابکائیوں کی آواز سنی، ساتھ ہی، دانت صاف کرنے کی آواز سنائی دی۔

بلی کے ناپسندہ کھانے کی وجہ سے  سبرین  پوری رات اچھی طرح سو نہیں سکی۔

جب اگلے دن وہ بیدار ہوئی تو اس کو اپنے منہ سے ابھی تک مچھلی کی بو آرہی تھی، اس کا جی بری طرح متلایا۔

بدقسمتی سے  اسے  شہزام  کے لیے ناشتہ تیار کرنے کے لیے جلدی اٹھنا پڑا۔

سبرین  نے جیسے خود سے قسم کھائی کہ وہ اس بدمعاش شخص کو خود سے محبت کرنے پر ضرور مجبور کرے گی۔جب وہ اس کی محبت میں ہار جائے گا تب وہ اسے اپنے قدموں تلے روند کر آگے بڑھ جائے گی، اس طرح وہ اس سے بدلہ لے گی۔۔

شہزام  جب روٹین کے مطابق مارننگ رن سے واپس آیا تو یہ دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا ،ٹیبل انواع و اقسام کی ڈشز سے بھری ہوئی تھی۔۔  سبرین  نے جیسے اس کی ناراضگی دور کرنے کے لئے ناشتے میں کافی اہتمام کیا تھا، ۔

“تم۔۔۔۔”  شہزام  حیرت سے بھری ہوئی ٹیبل دیکھ کر  سبرین  کو ناسمجھی سے دیکھ کر کہا۔

“شانی، مجھے بہت دکھ ہوا کہ تم نے رات کیٹ پڈنگ کھالی۔ اسی لئے میں نے یہ سب تمہارے لئے بنایا ہے۔”

سبرین  نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پورج اس کے آگے کی۔

شہزام  کے چہرے پر عجیب قسم کے تاثرات ابھر آئے۔

” کوئی بات نہیں ، اس کی سزا رات تم کو مل چکی ہے۔”

بولتے ہوئے سبرین  نے اپنے گلے میں کھنچاؤ محسوس کیا تھا، کیونکہ رات اس نے کافی الٹیاں کی تھیں۔۔ جس وجہ سے درد تھا۔

“کیٹ فوڈ کھاکر میں سچ میں کافی گھبراگئی تھی۔”

شہزام  نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔ نظر زمین پر جمائے کھڑا رہا۔

“کیا تم آج کام پر جاؤ گی؟ تو میں تم کو چھوڑتا جاؤں گا۔”ناشتے کے بعد کمرے کے طرف جاتے ہوئے  شہزام  نے خود ہی اس سے پوچھ لیا۔۔۔

سبرین  اس کی خود سے کی گئی آفر پر واقعی حیران ہوئی تھی۔ لیکن جلد ہی خود پر قابو پالیا۔

“نہیں ! ایکچوئلی۔۔۔ مجھے کمپنی سے نکال دیا گیا ہے۔”اس کی آواز میں افسردگی تھی۔۔

شہزام  کی پیشانی پر پڑنے والے بلوں سے صاف عیاں تھا کہ اسے یہ بات ناگوار گزری ہے۔۔  شہزام  کو یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اپنی خاندانی کمپنی میں کام کرتی ہے۔اس کے اور یزدانی فیملی کے تعلقات میں کشیدگی دکھائی دے رہی تھی۔

“آل رائیٹ ،تو پھر تم گھر پر رہ کر فدی پر توجہ دو”

افففف، وہ بالکل بھی گھر پر رہ کر اپنا وقت فدی پر ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔

” میں کہیں اور جاب کرنے کا فیصلہ کرچکی ہوں۔لیکن پریشان مت ہو،میری نوکری فدی کی دیکھ بھال کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔”

“واٹ ایور”  شہزام  بڑبڑاتا ہوا گھر سے نکل گیا۔

٭٭٭٭

اگلے کچھ دنوں تک ، سبرین  نوکری کی تلاش میں مصروف رہی۔

کافی ساری کمپنیاں تھیں۔ جہاں انٹیرئیر ڈیزائینز یا آرکیٹیکچر کی جگہیں خالی تھیں۔

تاہم  اپنے بیک گرائونڈ کو مدنظر رکھتے اس نے اپنا سابقہ تجربہ خفیہ ہی رکھا۔

جبکہ کافی کمپنیاں اس کی کم عمری کی وجہ سے اسے بطور اسسٹنٹ رکھنا چاہتی تھیں۔

آخر ایک غیر معروف “امپیرئیل ڈیزائینز ” نامی کمپنی میں اسے نوکری مل گئی۔

کمپنی چونکہ ابھی شروعاتی مرحلے میں تھی،اس کے دو دیزائینر تھے، تو ابھی وہ صرف معلوماتی کتابچے تقسیم کرنے کا کام کررہے تھے۔۔یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایسا کام کررہی تھی۔کچھ راہگیر اس کے پرچے قبول کر لیتے تھے لیکن اکثر نہیں کرتے تھے ، لوگ اس طرح گزرجاتے تھے جیسے وہ انہیں نظر ہی نہ آرہی ہو۔

کچھ گھنٹوں میں ہی کھڑے کھڑے گرمی سے اس کا پورا وجود پسینے میں نہا چکا تھا۔ دھوپ کی تپش سے گال سرخ اناری ہوچکے تھے۔

اگرچہ خزاں کا موسم تھا ،لیکن آج غیر معمولی طور پر حبس تھا۔

اس وقت ایک سیاہ لیمبورگنی اس کے سامنے رک گئی۔یہ اس کے لئے حیران کن تھا ،کیونکہ یہ گاڑی ایزد کی تھی۔

“سبی، تم یوں راستے پر کھڑی لیفلیٹس کیوں تقسیم کررہی ہو؟” آبش پسینجر سیٹ سے اتر کر اس کے پاس آئی۔

سبرین  کے دل میں گرہ لگ گئی۔۔ایزد نے ایک بار اس سے کہا تھا ،اس پیسینجر سیٹ پر صرف تمہارا حق ہے۔۔ اور آج۔۔ آبش اس کی جگہ کی حقدار بن بیٹھی تھی۔ “قسمت کی ستم ظریفی!”

“تو۔۔۔۔؟ مجھے کہاں ہونا چاہیئے؟” سمیٹ؟ ۔۔ سبرین  طنزیہ مسکرائی۔

آبش نے لب بھینچ لئے جیسے وہ کافی اپ سیٹ ہو۔

“میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔۔”

“یہ تم آبش سے کس لہجے میں بات کررہی ہو؟”ایزد گاڑی سے باہر نکل آیا اور غصے میں دروازہ زور سے بند کیا ۔۔۔”خود کو ایک نظر دیکھ لو ذرا۔۔۔ خاندانی ہوتے ہوئے تم سڑکوں پر کس طرح کا کام کررہی ہو؟ کیا خود پر شرم محسوس نہیں ہوتی؟”

سبرین  نے نظر اٹھا کر اس کے وجیہہ چہرے کے تاثرات دیکھے جہاں نفرت اور حقارت تھی، اس کا دل درد سے بھر گیا۔

“میں شرمساری محسوس کروں؟ میں نے دوسروں کے حق پر ڈاکہ تو نہیں ڈالا، ایمانداری کے ساتھ پمفلیٹ تقسیم کررہی ہوں۔” ایزد کی آنکھوں میں دیکھ کر  سبرین  نے چبا چبا کر ایک ایک لفظ ادا کیا ،اس کے الفاظ تیکھے تھے، کڑوے تھے، لیکن سچے تھے۔

“ایزد کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔”آبش نے جلدی سے ایزد کے طرف سے صفائی دی۔

“اس کا مطلب ہے کہ تم کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ سبی ، سمٹ کمپنی میں واپس آؤ، دیکھو ، ہم نے ابھی ایک پرتعیش اسٹوڈیوز کے حوالے سے مینڈارن گارڈن کے ڈویلپر کے ساتھ تزئین و آرائش کا معاہدہ کیا ہے۔ ہم ایک ہزار سے زائد سوئٹس کا معاہدہ کر رہے ہیں، اس کا منافع بھی لاکھوں سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ آؤ میری مدد کرو۔ کیا ہم بہنوں کو اپنی سمٹ کمپنی کو بہتر بنانے کے لئے مل کر کام نہیں کرنا چاہیے؟”آبش کی اداکاری عروج پر تھی۔جیسے اس سے بڑھ کر کوئی  سبرین  کا خیر خواہ نہ ہو۔

سبرین  جو پہلے ہی سے ایک گھنٹے تک تیز دھوپ میں کھڑی پریشان ہورہی تھی ، مزید پریشان ہو گئی۔

“کیا تم منٹ منٹ میں منافق بن کر نہیں تھکتی؟ کیا تم میری جان نہیں چھوڑ سکتی ؟ مجھ میں اب واقعی ،تمہارے ساتھ بحث کرنے کے لئے انرجی نہیں ۔”

“دیٹس انف۔۔۔۔” ایزد  سبرین  کی تلخ باتوں پر دھاڑا۔

“آبش تمہارے ساتھ، مہربانی کرکے مدد کے لئے ہاتھ بڑھا رہی ہے الٹا تم اسے غلط لے رہی ہو، مجھے یقین نہیں آرہا۔۔ سبی۔۔”

“میں۔۔۔؟”  سبرین  کو لگا اس کے کانوں نے غلط سنا۔۔۔ چیخ کر بولی۔ “کیا تم اندھے ہو؟ یہ نہیں دیکھ پا رہے کہ کس قسم کی عورت ہے یہ ؟ کیا ہم دونوں اس عورت کی وجہ سے الگ نہیں ہوئے؟”

“اس کی بات پر ایزد بھی تیز ہوا۔

“آبش مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرتی ہے جبکہ تم صرف الزامات لگاتی ہو، ہر بات کا غلط مطلب لیتی ہو۔”

“آل رائیٹ۔۔ مائے لو ڈز ناٹ کمپیئر ٹو ہرز، گیٹ آؤٹ آف مائے سائیٹ رائٹ ناؤ۔”  سبرین  کی برداشت ختم ہوگئی ۔۔اس نے لیف لیٹزلیٹز (کتابچے) غصے میں ان دونوں پر پھینک دیئے۔

“پاگل عورت!”۔۔ ایزد نے ناگواری اور حقارت سے اسے دیکھ کر کہا اور آبش کے آگے آکر اسے تحفظ دیا۔۔۔اور  سبرین  کو دھکا دے کر آبش سے دور کیا۔۔ جس وجہ سے  سبرین  سنبھل نہ پائی اور نیچے روڈ پر گر گئی۔ سارے کتابچے ۔۔ ادھر ادھر گر کر بکھر گئے۔

سبرین  نے آنسو بھری آنکھوں سے سر اوپر اٹھایا۔۔ ایزد آبش کو کمر سے تھام کر گاڑی میں بیٹھا رہا تھا۔۔ آبش نے بیٹھ جانے کے بعد  سبرین  کو طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا۔

وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایزد آبش کے طرف سے اس طرح اسٹینڈ لے گا ۔۔

اس سے صاف ظاہر تھا کہ ان دونوں کے بیچ فاصلےحد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ سبرین  نے اس سے پہلے،کبھی شکست محسوس نہیں کی تھی ، لیکن اس وقت اسے ایسا لگا جیسے اس نے سب کچھ کھو دیا ہو۔

شہزام  اس وقت کورٹ سے فارغ ہوا تھا اور اب راستے پر کھڑا ٹریفک لائٹ سبز ہونے کا انتظار کررہا تھا جب یونہی بے ارادہ اس کی نظر سائیڈ پر گئی۔۔ ایک عورت سفید شرٹ میں نیچے جھکی کتابچے سمیٹ رہی تھی۔وہ اسے دور سے پہچان چکا تھا۔۔وہ حیران تھا۔۔ کیونکہ  سبرین  نے صبح یہی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ لائٹ سبز ہوئی اس نے فوراً گاڑی یو ٹرن کی۔۔اور روڈ سائیڈ پر کھڑی کردی۔

وہ اس کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔اور جھک کر اس کی کتابچے سمیٹنے میں مدد کرنے لگا۔۔  سبرین  سمجھی ایزد واپس آیا ہے۔۔بھاری آواز میں بڑبڑائی۔

“مجھے تنہا چھوڑدو، میں بالکل بھی تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتی۔”

اس نے نظریں اٹھا ئیں۔ اگرچہ اس کی نظر آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے دھندلا گئی تھی ، لیکن اس نے اس کے نقوش سے پہچان لیا کہ  شہزام  ہے۔ اس کے چہرے پر حیرت کے رنگ چھاگئے۔

” شہزام ۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔”اس کے ہونٹ حیرانگی سے ہلے تھے۔

شہزام  کے بھنویں سکڑ گئیں۔۔آج سے پہلے وہ اسے پیار سے “شانی” بلاتی تھی۔اور آج اس نے اسے مکمل نام سے بلایا تھا۔۔اسے واقعی عجیب لگا۔

“کس نے رلایا ہے تمہیں؟”  شہزام  اس کی سوجی ہوئی خوبصورت آنکھیں دیکھ کر حیران ہوا۔۔ آنکھوں کی سوجن اس کے رونے کی گواہ تھی

آج سے پہلے اس عورت نے اس سے بدتمیزی سے ہی بات کی تھی لیکن آج اسے روتے دیکھ کر وہ عجیب سے احساسات میں گھر چکا تھا۔

سبرین  نے دل ہی دل میں دانت پیس کر  شہزام  کو برا بھلا کہا تھا۔

” یہ سب تمہارے بدتمیز بھانجے ایزد کی وجہ سے ہے۔ کیا اس کو کسی نے تمیز نہیں سکھائی؟ وہ خودغرض اور بے وفا ہے، اور اس کا دماغ بھوسے سے بھرا ہوا ہے۔”

تاہم  وہ سچ کو خود اچھی طرح جانتی تھی۔

” میں۔۔۔۔ وہ ۔۔کسی نے میرے پمفلٹ نیچے گرادیئے تھے۔” سبرین  نے آنکھ چراتے ہوئے جیسے اصل بات چھپائی۔

اسے توقع نہیں تھی کہ وہ آج ایک نئے روپ میں، اسے سڑک پر کھڑے ہوکر کتابچے تقسیم کرتے دیکھے گا۔ اسے اپنی تفتیش سے یہی معلوم ہوا تھا کہ یہ لڑکی لاڈ پیار جیسے ماحول میں پروان چڑھی ہے۔

“تم نے نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن اب تم یہ کس قسم کا کام کررہی ہو؟”

اس کی بات پر  سبرین  شرمسار ہوگئی۔

“میں میلبورن تھیٹر اور ہوائی اڈے کی ڈیزائننگ میں شامل تھی۔اس کے علاوہ مجھے پروجیکٹ مینجمنٹ کا بھی تجربہ ہے ، لیکن لوگ میری کم عمری کی وجہ سے مجھ پر یقین نہیں کرتے ۔میں خود بھی اپنی پہچان یزدانی خاندان کی حیثیت سے نہیں چاہتی۔یہی وجہ ہے کہ میں یا تو صرف ایک بڑی کمپنی میں اسسٹنٹ کے طور، یا کسی چھوٹی کمپنی میں ڈیزائنر کی جاب کا ہی انتخاب کرسکتی ہوں۔”وہ بولتے ساتھ ساتھ کتابچے بھی سمیٹ رہی تھی جو ادھر ادھر پھیل چکے تھے۔۔

“کیا تم سمٹ گروپ میں واپس نہیں جانا چاہتی؟”  شہزام  نے جیسے جاننا چاہا۔

سبرین  نے سر نفی میں ہلایا۔

“دوسروں کی مدد پر انحصار نہیں کرنا چاہتی، میں خود اپنی مدد آپ کے اصولوں پر یقین رکھتی ہوں۔”

شہزام  سوری اس کی بات سن کر واقعی حیران ہوا۔ جس ماحول میں وہ پروان چڑھا تھا ، اس نے بہت سے لوگوں کو شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگتے اور لڑتے دیکھا تھا۔اس نے آج پہلی بار  سبرین  کے منہ سے سب سے الگ زندگی جینے کا نظریہ سنا تھا۔۔ اسے وہ سب سے منفرد لگی تھی۔۔

شہزام  نے گہری نظر سے اس عورت کی طرف دیکھا۔۔۔ جو کتابچے سمیٹنے کے لیے جھکی ہوئی تھی۔ پہلی بار۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار ، اس نے اس کے لئے بالکل نئے زوائیے سے سوچا۔۔دل کے کسی کونے میں اس عورت کے لئے احترام جاگا تھا۔

“ان کو یہیں رہنے دو۔۔”  شہزام  نے اسے کتابچے سمیٹنے سے روکا۔

“میں نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔ “اس نے اپنا سر نفی میں بائیں سے دائیں ہلایا۔

ٹھیک اسی وقت، ایک خوبصورت ہاتھ نے پتلی انگلیوں کے ساتھ اس کے سامنے ایک پرچہ اٹھایا۔

“چلو میں بھی تمہاری مدد کرتا ہوں۔”  شہزام  نے پیشکش کی اور جھکا۔ پمفلٹ اٹھانے کے لیئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس کی آستین سے گھڑی جھانک رہی تھی۔ یہ ایک ایسا برانڈ تھا جو  سبرین  نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

ایسی گھڑیاں صرف مشہور شخصیات ہی پہن سکتی تھیں۔

اس نے ایک اور نظر اس پر ڈالی نگاہ اس کی لمبی ٹانگوں پر پڑی، نیوی بلیو پینٹ، اس کے جھکنے سے کھینچ سی گئی تھی جس سے اس کی ٹانگیں خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں۔اس کی ٹانگوں پر نظر پڑنے کے ساتھ ہی اس کے تصور میں وہ رات چلی آئی جب غلطی سے ٹاول اس کے ہاتھ میں آگیا تھا۔۔ شرم سے اس کے رخسار سلگنے لگے۔۔افففف وہ یہ کیا سوچ رہی ہے؟اسے اپنی سوچ پر سخت شرمندگی ہوئی۔

اچانک ہی  شہزام  کی نظریں اس کے سرخ رخساروں پر پڑی تو وہ حیران ہوا۔

“کیا ہوا؟ یہ تمہارے گال اتنے سرخ کیوں ہورہےہیں؟ “

“میں۔۔۔۔میں۔۔۔اوہ ۔۔۔ہاں!۔۔ گرمی بہت ہے۔۔ ہوسکتا ہے سورج کی تپش کی وجہ سے ہو۔” سبرین  ہچکچائی تھی۔جلدی سے اپنی نظر پھیر لی۔

“جاکر وہاں سائے میں کھڑی ہوجاؤ۔” شہزام  نے سامنے شیڈ کے طرف اشارہ کیا۔

“اٹز فائن۔”  سبرین  نے یکدم سر ہلایا۔

یہ اس کی توقع کے الٹ تھا ، شہزام  جیسا ڈیول اتنا مہربان کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے لئے فکرمند ہو۔

سبرین  نے محسوس کیا کہ اس کا سر چکرا رہا ہے ،ابھی اس نے ایک قدم ہی اٹھایا تھا کہ اپنے وجود کو چکرا کر گرنے سے روک نہ سکی۔

اس سے پہلے کہ زمین بوس ہوتی ، شہزام  نے جلدی سے اپنے بازوؤں میں تھام کر گرنے سے بچالیا۔وہ لڑکھڑائی تھی، پھر سنبھل گئی۔۔ نظریں بے اختیار اس کی متجسس نظروں سے مل گئیں۔.

“شایدکافی دیر تک جھک کر پمفلٹ سمیٹنے کی وجہ سے بلڈ پریشر لو ہوگیا ہے۔”اس نے پیشانی سے پیسینہ پونچھا۔” گرمی کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔”

“گاڑی میں چل کر بیٹھو۔”  شہزام  اسے تھامتا کار کے پاس آیا،اور گھوم کر کار کا دروازہ کھولا۔”میں تمہیں گھر بھیجتا ہوں۔”

“نہیں۔۔ نہیں، میں نے ابھی اپنا کام مکمل نہیں کیا، ابھی یہ کتابچے تقسیم کرنے باقی ہیں۔میں بس تھوڑی دیر آرام کروں گی تو بہتر ہوجاؤں گی۔”پریشانی  سبرین  کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی،  شہزام  کو ناگوار لگا۔

“کیا یہ عورت چاہتی ہے کہ اسے سن اسٹروک ہوجائے؟’

“یہ ٹائیم فدی کے لنچ کا ہے، تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم اپنے کام کو اس کے کھانے کے بیچ آنے نہیں دو گی۔”  شہزام  نے اسے یاد دلایا۔

“میں اس کا لنچ بناکر آئی تھی۔”  سبرین  نے بات سنبھالی۔

شہزام  نے ایک ابرو اٹھا کر اسے گھورا ۔

“تم اسے ایسا کھانا کیسے دے سکتی ہو؟ جو اب تک ٹھنڈا ہوچکا ہوگا۔”

سبرین  اس کی بات پر چپ رہ گئی۔

کیا یہ غلط تھا اگر بلی ٹھنڈا کھانا کھالے؟ کیا وہ بلی ہے یا اس کی بیٹی جو وہ اس کی اتنی کیئر کررہاہے؟

سبرین  کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کی بات مان لینے کے۔۔ وہ خاموشی سے کار میں بیٹھ گئی۔

ابھی آدھے راستے میں تھی کہ اس کے باس کا فون آگیا۔

“وہاں ٹریفک زیادہ نہیں تھی،سو میں نے جگہ چینج کرلی ہے”۔ سبرین  نے جھوٹ بولا۔

“ٹھیک ہے،اپنے کام کو جاری رکھئے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد شاید ٹریفک بڑھ جائے گا۔ جتنی جلدی ہو سکے آج ہی کتابچے تقسیم کرلیں۔ میں آپ کو جاب پر رکھنے کے لئےاسی لئے راضی ہوا تھا، کیونکہ مجھے لگا  کہ آپ کی خوبصورتی گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ آپ کو سخت محنت کرنی چاہیے۔ ایک بڑے سے بڑا ڈیزائنر تب تک بیکار ہے جب تک وہ کوئی کامیاب ڈیل نہیں کر سکتا۔”دوسری طرف سے باس کی ہدایات جاری تھیں۔

“جی ۔۔۔ میں کرلوں گی۔”  سبرین  نے لب بھینچ لئےاور خاموشی سے کال بند کردی۔

Next Episode 08

Prev Episode 06

We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚

Rozan e Zindaan Season 01 Complete Episodes on Youtube

Rozan e Zindaan Season 02 ongoing on Youtube

Watsapp channel Join Karen

Click to Join Watsapp Channel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *