Rozan e Zindaan  Episode 08

Writer: Raqs eBismil

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا

تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔

یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔

آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

Episode 08

شہزام  مسلسل ترچھی آنکھ سے اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا۔

گاڑی میں چونکہ خاموشی سی تھی تو قریب ہونے کی وجہ سے  شہزام  دوسری طرف سے ہلکی آواز سن رہا تھا۔

“تمہیں کہیں اور جاب کرنی چاہیئے یہ کام کافی ٹف ہے۔”  شہزام  کو یہ کام صحیح نہ لگا۔

وہ لب بھینچ کر افسردگی سے مسکرادی ۔

” یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ میں کس کمپنی کے لئے کام کررہی ہوں۔ ہر کام شروع میں ویسے بھی مشکل لگتا ہے۔”

اس کی بات پر  شہزام  نے  بناء جواب دیئے لب بھینچ کر، اسٹرئنگ وہیل پر انگلیوں سے تھپکانا شروع کردیا۔

اتفاق سے اس کی گاڑی ایک غیر معمولی نظر آنے والی عمارت کے سامنے گزری۔۔ یہ پہلے  شہزام  نے نہیں دیکھی تھی، شاید حال ہی میں تعمیراتی کام مکمل ہوا تھا،  شہزام  نے ایسے ہی پوچھ لیا۔

“یہ کون سی جگہ ہے؟” اس نے  سبرین  سے پوچھا۔

“میلبورین کلچر اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر۔”  سبرین  نے اس کے علم میں جیسے اضافہ کیا۔ “اس کی عمارت حال ہی میں مکمل ہوئی ہے۔اس کو ڈیزائن کرنے کا پروجیکٹ سمٹ کمپنی لینا چاہ رہی تھی، لیکن۔۔۔۔ اس نے یہ چانس کھودیا۔اور یہ پروجیکٹ کسی اور کمپنی کو مل گیا۔میں خود یہ پروجیکٹ ڈیزائن کرنا چاہ رہی تھی، لیکن اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔”

اس کی بات پر وہ حیران ہوا اور بے اختیار پوچھ بیٹھا۔

“کیوں؟”

“یہ اوپن بڈنگ پروسس کررہے، اور ہماری جیسی چھوٹی کمپنی بالکل بھی بڈنگ(بولی) پروسس میں شامل ہونے کی اہل نہیں۔”  سبرین  واقعی کافی کچھ جانتی تھی، وہ امپریس ہورہا تھا۔

“تمہاری موجودگی کے باوجود بھی،تمہاری کمپنی اس قابل نہیں کہ بڈنگ سنبھال سکے؟ “

“نہیں ایسا نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں اعتماد واضح تھا۔ “مجھے امریکہ میں AM ایوارڈ میں چیمپئن کا تاج پہنایا گیا تھا۔ بے شمار کمپنیوں نے مجھے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی۔ اس وقت مجھے یقین تھا کہ میں اپنے خاندانی کاروبار کی وارث ہوں، میں نے سب پیشکشوں کو مسترد کردیا اور سمٹ میں واپس آگئی تھی۔ میں یہ پراؤڈلی کہہ سکتی ہوں۔ کہ پورے میلبورن میں کوئی اور۔۔۔ڈیزائننگ میں مجھ سے بہتر نہیں ہے۔”ایک فخر سا تھا  سبرین  کو اپنی صلاحیتوں پر۔۔

شہزام  نے لب بھینچے  ناقابل یقین، تو یہ موٹی کھال کی عورت خود کی صلاحیتوں پر کافی کانفیڈنٹ تھی۔

“آل رائیٹ، میں تم کو بڈنگ میں شامل ہونے کا موقع دے سکتا ہوں۔”

سبرین  حیرت سے سیٹ پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔۔اس کی آنکھیں حیرت کے مارے کھلی رہ گئیں۔۔

اس کے جیلی نما رسیلے ہونٹ شاک سے کھل گئے جیسے اسے اپنے کانوں سنے پر یقین نہ آیا ہو۔

“کیا آپ واقعی سریس ہیں؟”

“اٹز اپ ٹو یو، اگر تم جیت کر ابھرتی ہو۔۔ مجھے ثابت کرکے دکھاؤ، تم واقعی اتنی ہی قابل ہو جتنا دعویٰ کرتی ہو۔” شہزام  نے ابرو اچکا کر کہا تھا جبکہ نظریں راستے پر جمی تھیں۔

“میں واقعی میں گھمنڈ نہیں کررہی، مجھے یقین ہے میں جیت جاؤں گی۔”  سبرین  کے ذہن میں جوش و خروش بڑھا تھا۔

“شانی۔۔۔ تم بہت بہت اچھے ہو۔۔۔” وہ اسے ہمیشہ اس نام سے پکارتی تھی۔۔۔۔۔ کبھی نرمی سے۔۔۔ کبھی خوشامندی انداز سے۔۔

تاہم، یہ پہلا موقع تھا جب وہ حقیقی طور پر خوش ہوئی تھی، اسکی آواز میں فلرٹ کرنے جیسا احساس بھی نہیں تھا۔

شہزام  خود کو اس کی ایک جھلک دیکھنے پر بالکل بھی روک نہ پایا،۔  سبرین  کی روشن گول آنکھوں میں چمک سی تھی، کھڑکی سے منعکس ہوتی سورج کی شعاعیں اس کے نرم نرم گالوں کے اوپر چمک رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر سحر اور دلکشی کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔ شہزام  دنگ ہوا۔۔

اپنی بےاختیاری پر حیران بھی، اس نے چونک کر اپنی نظریں اس کے خوبصورت رنگ بھرے چمکتے چہرے سے ہٹالیں۔

بے چینی سے اس نے اپنی شرٹ کے سامنے کے دو بٹن کھول دیئے۔اس کے پورے وجود سے جیسے آگ نکل رہی تھی۔۔

“اگر تم واقعی میں ایسا سمجھتی ہو، تو میرے لئے مزیدار سا کھانا پکانا۔”

“نو پرابلم ایٹ آل۔۔۔ آئی کین کک اینی تھینگ یو ریکویسٹ۔” وہ خوش تھی بہت خوش تھی۔۔ اور  شہزام  اسے دیکھے گیا۔۔

اس کے ساتھ رہنے کی وجہ سے وہ اچھے سے جان گیا تھا۔۔۔ کہ وہ کھانا پکانے میں بہت اچھی ہے۔ سوائے اس مخصوص ڈش کے جو اس نے پہلے بنائی تھی ،سوچ کر ہی تکلیف سے اس کا معدہ کراہا۔۔

اس کے باوجود بھی۔۔ اس سے ریکوئسٹ کرتے ہوئےاسے اپنے وقارکو  بچانے کی زیادہ پرواہ تھی۔

“یہاں کچھ دیر رکو۔۔ میں نے گوشت خریدنا ہے۔۔”اچانک ہی  سبرین  کو قریب ہی مارکیٹ نظر آئی تو اسے روکنے کا کہا۔

ایک روشنی سی  شہزام  کی کالی آنکھوں میں چھب دکھلا کر مدھم ہوئی لیکن  سبرین  نے یہ چمک کیچ کرلی۔

اس نے کار سے باہر نکلتے ہوئے مسکراہٹ دبانے کے لیے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔۔ ڈیول بھوکے بلی کے بچے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

ہممممم۔۔۔اس کے اور فدی کے بیچ میں بس تھوڑی سی مشابہت تھی، جب اس کی آنکھوں میں چمک آئی تھی۔۔ وہ اسے فدی جیسا لگا تھا۔۔ کتنا دلکش۔۔۔ !

شہزام  نے پہلے کبھی بھی ذکر نہیں کیا تھا کہ اسے کیا پسند ہے؟ لیکن  سبرین  اس کے بناء کہے ہی جان گئی تھی کہ اسے روسٹڈ بکرے کی ران کا گوشت پسند ہے۔

اس کے جاتے ہوئے وجود کو دیکھ کر جو قصائی کی دکان کی طرف جا رہا تھا ، ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ  شہزام  نے اپنا فون اٹھایا اور شیث کا نمبر ڈائل کیا۔

“میلبورین کلچر اینڈ ٹیکنالوجی کی ڈور کھینچو۔۔ تاکہ “امپیریل ڈیزائن” سے  سبرین  یزدانی “میلبورن کلچر اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر” کے بڈنگ ایونٹ میں حصہ لے سکے۔”

یہ سن کر دوسری طرف سے شیث کو جیسے کرنٹ لگا۔۔

“میں نے کبھی اس کمپنی کا نام نہیں سنا۔۔کیا تم  سبرین  کی مدد کرنا چاہتے ہو؟ یہ تو تمہاری طبیعت کے خلاف ہے۔”

“کس قسم کی طبیعت کی بات کررہے ہو؟”  شہزام  کو سخت برا لگا۔

شیث کے لئے اب بہتر یہی تھا کہ خاموش رہے۔۔ لیکن خود یہ سوچے بناء رہ نہ سکا ۔۔”سرد مزاج اور بدتمیز آدمی کی نیچر۔”

لیکن یہ اور بات کہ شیث نے اپنے خیالات کو زبان نہیں دی ورنہ  شہزام  کے ہاتھوں اس کی اچھی خاصی بے عزتی ہوجاتی۔

“میری اس کمپنی کے انچارچ سے اچھی جان پہچان ہے، کیا تم چاہتے ہو میں ان کو فورس کروں، تاکہ پروجیکٹ بھابھی کو مل جائے؟میرے علم کے مطابق سمیٹ کمپنی کے علاوہ بھی بہت ساری بڑی کمپنیاں اس بولی میں حصہ لے رہی ہیں ،میرے خیال میں مقابلہ کافی سخت ہے”۔شیث نے اپنی رائے دی۔

“اس کی کوئی ضرورت نہیں،موقعہ اسے آلریڈی دیا جائے گا۔اگر وہ پروجیکٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوئی تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہوگا کہ وہ قابل نہیں ہے۔بس مقابلہ یقینی طور پر منصفانہ بناؤ۔” شہزام  کے لہجے میں قطعی نرمی نہیں تھی۔

شیث بہت متاثر ہوا۔

“یہ آدمی اپنی بیوی کے لئے بھی نرمی نہیں دکھاتا “

“ٹھیک ہے میں ایسا ہی کرتا ہوں جیسا تم نے کہا۔”

پانچ منٹ بعد  سبرین  سبزیوں اور گوشت کے تھیلوں کے ساتھ واپس آئی۔

اسکے بیٹھتے ہی  شہزام  کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔

“اب گھر چل کر گوشت روسٹ کرتے ہیں۔”

سبرین  نے اسے چڑایا۔

“لیکن میں تو روسٹ کی بجائے آلو ڈال کر شوربا بناؤں گی”۔

یہ سن کر وہ چپ رہ گیا۔

اس کے چہرے پر اچانک سے چھائی سنجیدگی دیکھ کر  سبرین  بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسی۔۔

“میں تم کو ایسے ہی تنگ کررہی تھی، میں واقعی میں روسٹ بنانے کا ارادہ رکھتی ہوں۔”

” سبرین  یزدانی” اس نے ہر لفظ کو چبا چبا کر ادا کیا، جیسے دانتوں کے بیچ میں  سبرین  ہو۔۔۔۔ اس عورت کی ہمت کیسے ہوئی اسے چھیڑنے کی! کیا وہ ،اس کے نرم روئیے سے فائدہ اٹھا رہی تھی ؟

یہ دیکھ کر کہ وہ اپ سیٹ ہوگیا ہے،  سبرین  نے زبان باہر نکال کر چنچل انداز میں اسے چڑایا۔

“کیا تم کو یہ ماننے میں مشکل ہورہی ہے کہ تم کو روسٹ پسند ہے؟ میرے خیال میں اس بات کو مان لینے میں کوئی شرم کی بات تو نہیں۔”

شہزام  نے، لب بھینچ کر اسے ناگوار نظر سے دیکھا۔

اس کی نظروں کو نظر انداز کرکے وہ مسکراتے اس سے سوال کرنے لگی۔

” کیا تم کو پتا ہے مجھے زیادہ کیا کھانا پسند ہے؟”

“کیٹ فوڈ”  شہزام  کے طرف سے فوراً جواب آیا۔۔ جس پر  سبرین  کا منہ ایسا بن گیا جیسے میٹھی گولی کھاتے کڑوا ذائقہ آگیا ہو۔

اسے سمجھ میں نہیں آیا کیا کہے۔۔

“واٹ دا ہیل؟ اسے واقعی اس کے لئے ککنگ نہیں کرنی چاہیئے۔”

“ہمممم۔۔ مجھے سب سے زیادہ تم کو کھانا پسند ہے۔”  سبرین  نے ہونٹ ایک ادا سے دانت تلے دبا کر اسے شرارت سے آنکھ ماری تھی۔

شہزام  کی سانس اوپر کی اوپر رہ گئی۔۔اس نے اسے ترچھی آنکھ سے بھنویں سکڑ کر گھورا، اور خبردار کیا۔۔

“کیا کسی نے تمہیں تمیز نہیں سکھائی کہ کار میں بیٹھے کسی مرد سے فلرٹ نہیں کرتے۔”

سبرین  کافی نروس ہوئی۔۔ کیا مطلب تھا اس کی بات کا۔۔ کار میں فلرٹ؟ کیا اس کا مطلب یہ چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔کف کف۔۔ آگے کا سوچتے ہی اس کے گال شرم سے سرخ ہوگئے۔وہ واقعی اتنی اوپن مائنڈڈ نہیں تھی۔

“اس کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہوسکتا ہے۔”  شہزام  نے اس کے خیالات کی جیسے نفی کی تھی۔۔

اس کا لہجہ بالکل برفیلے پانی جیسا سرد تھا۔

وہ بالکل چپ رہ گئی۔

وہ اسے یوں دیکھ کر، چپکے سے مسکرادیا۔۔ کیونکہ خفت اور شرمساری  سبرین  کے پورے چہرے پر لکھی ہوئی تھی۔

“ہم پہنچ گئے۔۔ ” شہزام  نے جیسے اسے خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا۔۔اور گاڑی فلیٹ کے آگے روک دی۔

گھر پہنچ کر  سبرین  نے اس کی پسند کا کھانا بنایا۔۔  شہزام  تب تک واپس کام پر نہیں گیا جب تک اس کا پیٹ مکمل بھر کر مطمئن نہیں ہوا۔

٭٭٭٭

میٹنگ روم۔

کمپنی کے صدر یاسین کریم کو یہ خبر پہلے ہی سے مل چکی تھی کہ ان کی کمپنی بھی بڈنگ میں حصہ لینے کے قابل ہے۔۔ وہ ایسے خوش ہورہا تھا جیسے کوئی بچہ لولی پاپ یا آئس کریم دیکھتے خوش ہوتا ہے۔ اس نے جلدی ہی ہنگامی میٹنگ بلائی۔

میٹنگ میں  سبرین  کے علاوہ، پروجیکٹ مینیجر یاسین کریم اور ایک دوسرا ڈیزائنر حنان بخاری موجود تھے۔

“مس یزدانی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ آپ اتنی قابل ہوسکتی ہیں۔آپ نے واقعی ہمیں بڈنگ میں حصہ لینے کا موقعہ فراہم کیا ہے۔

یہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے جسے پچھلے پانچ سالوں سے میلبورین بنارہا ہے۔یہ مستقبل میں میلبورین کے سنگ میل کی حیثیت رکھے گا۔” مینیجر یاسین کریم مسلسل  سبرین  کی تعریف کئے جارہا تھا۔

“یاسین صاحب ، مجھے یقین ہے ہم ایک بڑے تصور کے ساتھ یہ بڈنگ جیت سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہماری کمپنی چھوٹے پیمانے پر مشتمل ہے ، ہوسکتا ہے ہم دوسرے ڈیزائنرز سے ذیلی معاہدہ کر سکیں۔ حالانکہ یہ کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہوگا ، لیکن ہم اسے اپنی کوشش سے کر سکتے ہیں۔” سبرین  نے سنجیدگی سے کہا۔

” یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔”پروجیکٹ مینیجر نے اعلانیہ کہا۔”جہاں لاتعداد کمپنیاں حصہ کے رہی ہوں۔۔اور مقابلہ صرف دو کمپنیوں کے بیچ میں ہو۔۔میرے خیال میں۔۔سمٹ کمپنی یہ بڈنگ مقابلہ جیت جائے گی۔” اس کے چہرے پر تفکر تھا۔

سبرین  نے اپنے سینے پر بوجھ پڑتا محسوس کیا۔۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی کہ سمیٹ کمپنی حصہ لے رہی تھی، آفٹر آل اس طرح کے بڑے پروجیکٹ نہ صرف لامحدود پروفٹ دیتے ہیں۔۔۔بلکہ دنیا کے آگے وقار بھی بڑھتا ہے۔ سبرین  کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ سمٹ کی طرف سے کون سا ڈیزائنر پروجیکٹ ریپریزنٹ کرے گا۔۔۔تاہم اسے بالکل بھی اس کی فکر نہیں تھی۔بہرحال سمٹ کے ڈیزائنرز کو  سبرین  سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔سب کو اس سے زیادہ تجربہ ہوسکتا ہے لیکن کریٹوٹی میں  سبرین  سے مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔۔

کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد ، سبرین  نے کہا۔

“سر  ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ کلچر اینڈ ٹیکنالوجی سنٹر مستقبل میں عوام کے لیے کھلا رہے گا۔ میرے خیال میں ہم دونوں ثقافتی پہلوؤں اور سائنس کے تصورات کو ملا کر ڈیزائن میں جوڑ سکتے ہیں تاکہ صارفین کو مستقبل کی ترقی کا ایک مختلف تجربہ دیا جا سکے۔”

“گڈ پوائنٹ”۔۔ یاسین صاحب نے بے اختیار  سبرین  کے خیالات کو سراہا۔”آپ اور حنان بخاری اس پر ایک ساتھ کام کریں گے۔۔۔

ہمارے پاس صرف آدھا مہینہ رہتا ہے۔فی الحال دوسرے سارے پروجیکٹز کو ایک طرف رکھ دیں،صرف اسی ایک پر فوکس رکھیں۔”

یہ سن کر  سبرین  کچھ بے چین ہوئی۔

وہ اس مختصر عرصہ میں حنان بخاری کی طبعیت کو اچھے سے جان چکی تھی، اس سے سینئر ہونے کا فائدہ وہ اس پر حکم چلا کر اور اس کے ہر کام پر تنقید کرکے اٹھاتا تھا۔جبکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ اس جیسے کام کی اسے بالکل بھی نالج نہیں تھی۔ کیونکہ  سبرین  ایک کریٹیو مائنڈڈ لڑکی تھی۔

بڑی بات یہ کہ حنان نے اپنے ڈیزائین زیادہ تر دوسروں کی ڈیزائنز سے کاپی کیئے ہوئے تھے۔ اس طرح کا کام عام منصوبوں کے لئے مناسب بھلی ہو، لیکن اس طرح کے بڑے منصوبوں کے بالکل بھی قابل نہیں تھا۔۔۔کہ ڈیل کرسکے۔

” میرے خیال کے مطابق مجھے اور حنان بخاری کو آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیئے۔”کچھ دیر سوچنے کے بعد  سبرین  نے باس کو شائستگی سے مشورہ دیا۔”آفٹر آل، ہر ڈیزائنر کے اپنے الگ خیالات ہوتے ہیں۔مل کر کام کرنے سے اختلافات پیدا ہوسکتے ہیں۔جبکہ الگ کام کرنے سے ہماری صلاحیتیں متحرک ہونگی۔”

اس کی تجویز پر یاسین صاحب واقعی سوچ میں پڑگئے تھے۔ جیسے تجویز پر غور کر رہے ہوں۔ دوسری طرف حنان بخاری نے اسے ذاتی توہین کے طور پر لیا۔

“اس بات سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ آپ کو لگتا ہے کہ آپ مجھ سے بہتر ہیں۔”اس کی آنکھوں میں بغض صاف نظر آرہا تھا۔

“نہیں۔۔”  سبرین  نے نفی میں سر ہلایا۔” میں نے صرف فیئر کمپیٹیشن کا مشورہ دیا ہے۔”

“آپ مجھ سے صرف کچھ سال ہی چھوٹی ہونگی اور تجربہ میں بھی کم ہیں۔بجائے سینئرز سے سیکھنے کے آپ کا مقصد بہت اونچا دکھائی دے رہا ہے آپ اپنی صلاحیتوں پر کافی اوور کانفیڈینٹ لگ رہی ہو۔” حنان بخاری کا لہجہ کافی تلخ تھا۔

“اس جیسے بڑے پروجیکٹ کے لئے پندرہ دن بھی ناکافی ہیں۔آپ نے نا صرف مجھے اسسٹ کرنے سے انکار کیا بلکہ آپ خود الگ سے ڈیزائن بنانے کی خواہش کررہی ہیں۔کیا آپ کا یہ “شو آف” کمپنی کی کامیابی سے زیادہ اہم ہے؟”

یہ سن کر یاسین صاحب کے خیالات بھی  سبرین  کی تجویز سے ہٹ گئے۔۔وہ اسی نہج پر سوچنے لگا جو حنان بخاری نے بیان کیا۔

“یہ حقیقت ہے کہ میں آپ سے کچھ سال چھوٹی ہوں۔”  سبرین  نے ایک گہری سانس لی۔” لیکن میں نے اس جیسے کتنے ہی لارج اسکل پراجیکٹس میں حصہ لیا ہے۔باہر اسٹڈی حاصل کرنے کا ذکر نہیں کرتی۔”

حنان بخاری کے ہونٹوں کے کونے مسکراہٹ میں پھیلے۔

“تو کیا ہوا۔۔ اگر آپ نے باہر سے اسٹڈی کی ہے؟کیا ایک اضافی زبان بولنے سے آپ خود کو اسپیشل سمجھنے لگی ہو۔؟اتنی ہی آپ قابل ہوتی، جتنا دعویٰ کرتی ہیں، تو ہماری چھوٹی کمپنی میں جاب نہ کررہی ہوتیں۔باتیں بگھارنے کی بجائے ثبوت دکھائیں، اس طرح سے تو میں بھی یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میں نے ملکہ کا محل ڈیزائن کیا ہے۔”ایک طنزیہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک کے ساتھ وہ  سبرین  کو دیکھ رہا تھا۔

“میں کہہ چکی ہوں کہ یہ صلاحیتوں پر مشتمل ایک منصفانہ مقابلہ ہونا چاہیے۔” سبرین  نے ضبط کرکے اپنا رخ باس کے طرف موڑا۔

“یاسین صاحب ، میری کوشش سے ہی ہماری کمپنی بڈنگ میں حصہ لینے کے قابل ہوئی، ویسے بھی  15 دن بعد ، آپ اپنی پسند کا ڈیزائن اسکیچ چن سکتے ہیں۔ مجھے آپ کے فیصلے پر اعتماد ہے اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”

اسے اپنی صلاحیتوں پر مان تھا تو بے جا نہیں تھا۔۔ اسے خود کی قابلیت پر فخر تھا۔۔ اور یہی فخر اور اعتماد اس کی راہ میں مشکلات لے آتا تھا۔

“آل رائٹ۔۔”یاسین صاحب اس کے احترام سے اور اعتماد سے بات کرنے پر کافی خوش ہوئے۔۔ حنان کو دیکھ کر بولے۔” اپنے لہجے کو سنبھال کر بات کریں، مس یزدانی آپ کی اسسٹنٹ نہیں ہے۔”

میٹنگ اس بات پر متفق ہوکر ختم ہوگئی۔ یاسین صاحب مطمئن سے میٹنگ روم سے نکل گئے۔

٭٭٭٭

اس واقعے کے بعد حنان بخاری نے جیسے  سبرین  سے بغض باندھ لیا۔۔ جب دیکھو اس پر طنزیہ گفتگو کرتا نظر آتا۔۔

وہ اس کی طنزیہ باتوں سے بالکل بھی پریشان نہیں ہوتی تھی  کیونکہ اس کی صلاحیتوں اور اعتماد کا کروڑوں سال بعد بھی حنان کی صلاحیتوں سے موازنہ نہیں ہوسکتا تھا۔آنے والے ان پندرہ دنوں میں اس نے خود کو ڈیزائن بنانے میں مکمل مصروف کرلیا تھا۔

کس وقت ، شہزام  رات کے کسی پہر اٹھ جاتا تو اس کے کمرے کی لائٹ جل رہی ہوتی تھی،اور صبح کو اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے اس بات کی گواہی دیتے کہ وہ رات بھر جاگتی رہی ہے۔

وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا تھا بہرحال یہ اچھی بات تھی کہ اس لڑکی میں حالات سے لڑنے کی صلاحیت تھی۔

اور یہی وہ جذبہ تھا جس نے  شہزام  کو وہاں پہنچایا تھا جس مقام پر آج وہ کھڑا تھا۔

ڈیڈ لائین پلک جھپک میں قریب آگئی۔

شہزام  اس وقت سارا دن ایک مقدمہ بھگتا کر تھکا سا گھر آیا تھا۔

اس نے نوٹ کیا کہ ایک چمکیلی سی مسکراہٹ  سبرین  کے چہرے پر روشن ہوئی ہے۔

“کیا یہ ہوگیا؟” اس نے ابرو اٹھا کر پوچھا۔

“یپ۔۔۔” سبرین  نے مسکرا کر اسکے اگے اپنا لیپ ٹاپ کیا

“یپ،۔۔یہ رہے میرے اسکیچز” سبرین  نے جوش و خروش سے پاس بیٹھ کر لیپ ٹاپ اس کے سامنے کیا۔”اب میں جاننا چاہتی ہوں آپ نے کیا سمجھا ؟”

شہزام  کی نظروں کے سامنے گہرا نیلا رنگ پھیل گیا۔ پہلی نظر میں اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ خلائی سرنگ کے اندر سفر کررہا ہے۔جس کے چاروں طرف چمکتے ستاروں کی روشنی ہے۔

سبرین  نے ڈیزائن کے پیچھے تصور کی وضاحت شروع کی۔

“اس خاکے کا عنوان ہے “کاسمک آئی”۔ دیکھو ، کیا تمہیں نہیں لگتا کہ یہاں بے شمار نیبولا چمکتی آنکھوں کے پیئر سے مشابہت رکھتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مستقبل کے مشن کا مین فوکس اس کائنات میں ہے۔ یہاں چوتھی جہتی دنیا ہے، جسے ایسچر اسٹائل کا استعمال کرتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔”

وہ اسے مکمل توجہ کے ساتھ سن رہا تھا ،جبکہ آنکھیں مکمل ساکت تھی، لیکن اندر سے واقعی حیران ہورہا تھا۔

یہ تخلیقی صلاحیت ریسرچ کے ایک ٹچ کے ساتھ  ایک ٹیکنالوجی سینٹر کے اندرونی ڈیزائن کے لیے بالکل موزوں تھی۔

سچی بات یہ تھی، اس نے ماضی میں  سبرین  کو بہت کم سمجھا تھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والی یہ نوجوان لڑکی ڈیزائننگ کے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہوگی۔ پھر بھی اس کی کارکردگی اس کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ لاجواب ہوا۔

وہ متعدد مشہور ڈیزائنرز سے کافی بہتر تھی جن کے ساتھ  شہزام  نے کبھی کام کیا تھا۔یہ لڑکی اس شعبے میں کافی ٹیلنٹڈ تھی۔۔۔جب وہ کام میں مصروف نظر آتی تھی تب اس کا چارم ناقابلِ بیان ہوتا تھا۔

“کیا سوچ رہے؟” اسے مسلسل چپ دیکھ کر  سبرین  نے بے تابی سے پوچھا۔۔ ڈیزائن کے بارے میں تفصیل بتانے کے بعد وہ اب  شہزام  کے منہ سے تعریفی کلمات سننے کے لئے کافی پرجوش تھی۔

“تسلی بخش۔”  شہزام  نے سادگی سے دو لفظ کہے۔ایسا ظاہر کیا جیسے اس نے  سبرین  کی ایکسائیٹمنٹ دیکھی ہی نہ ہو۔

سبرین  نے اس کے ریمارکس پر بچوں کی طرح منہ بنالیا اس نے سوچا تھا اس کا آئڈیا کافی بریلینٹ ہوگا۔

“کیا تم کو لگتا ہے مجھے چانس ملے گا؟”

“خود پر اتنا بھروسہ مت کرو، وہاں تم سے زیادہ ٹیلینٹڈ ہونگے۔”اس نے  سبرین  کا جوش کم کیا۔

اپنی مرضی کے مطابق تعریف نہ ملنے پر وہ کافی فرسٹریٹڈ ہوئی۔۔

“میں یہ یقینی طور پر جیت کر دکھاؤں گی۔” ایک عزم سا تھا اس کے چہرے پر، اور آنکھوں میں جیت لینے کی چمک تھی، سر اثبات میں ہلا کر لیپ ٹاپ بند کرکے اٹھی اور اپنی پونی ٹیل لہراتی ہوئی روم کے طرف بڑھ گئی۔بناء یہ جانے کہ پیچھے اس آدمی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی ہے۔

٭٭٭٭

اگلے دن جب  سبرین  نے اپنے اسکیچز باس کو دکھائے تو وہ متاثر ہوا اور ایک تسلی بخش مسکراہٹ ہونٹوں پر پھیل گئی۔۔ اس نے  سبرین  کا یہ ڈیزائن آگے لانے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ دیکھ کر حنان بخاری کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا۔اس نے یکدم سر نیچے کرلیا۔ اسی لئے کوئی بھی اس کی آنکھوں میں ابھرا بغض نہ دیکھ سکا۔

٭٭٭٭

Next Episode 09

Prev Episode 07

We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚

Rozan e Zindaan Season 01 Complete Episodes on Youtube

Rozan e Zindaan Season 02 ongoing on Youtube

Watsapp channel Join Karen

Click to Join Watsapp Channel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *