Rozan e Zindaan  Episode 09

Writer: Raqs eBismil

اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔

کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔

اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا

تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔

یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔

آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔

ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں

اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔

Episode 09

بڈنگ والے دن  سبرین  وہاں پہنچ چکی تھی۔

وہاں پہنچ کر اس نے آبش اور اس کی ٹیم کو کار سے نکلتے دیکھا۔

سبرین  نے اپنے گلے میں جیسے کچھ پھنسا محسوس کیا۔یہ کچھ عجیب سے احساسات تھے۔نئے باس کے ساتھ جانے پہچانے چہروں کو دیکھ کر۔

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے  سبرین  کے ساتھ عرصے سے کام کیا تھا اور اب وہ آبش کے آگے پیچھے خوشامدیوں کی طرح پھر رہے تھے۔جب یہ پاس سے گزرے تو آبش نے ناگوار نظروں سے اسے دیکھا۔

“ارے ، دیکھو، یہ عظیم ڈیزائنر   سبرین  یزدانی ہے۔ اس کو اپنے عہدے سے نکال دیا گیا تھا، لیکن پھر بھی بڈنگ کے لیے یہاں ہے؟ واہ بھئی کیا بات ہے۔ “جمشید نے طنزیہ انداز میں کہا۔

“میں یہاں اپنی کمپنی کی ریپریزنٹیٹو کے لئے ہوں۔”  سبرین  نے سرد لہجے میں جواب دیا۔”بھلے ہنس لو، لیکن میری قابلیت کو تم اچھے سے جانتے ہو۔”

“قابلیت؟”۔۔”وہ ھنسا۔”تم صرف یہاں باس کی وجہ سے ہو، ورنہ سمٹ گروپ چھوڑنے کے بعد کوئی تمہیں جانتا تک نہیں ۔”

“کزن۔۔ ایسا مت کہو۔۔، پھر بھی یہ میری بہن ہے۔۔” آبش نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ مزاحیہ طور پر کہا۔”سبی۔۔۔ کس کمپنی کی طرف سے تم ریپریزنٹ کررہی ہو؟ ہوسکتا ہے ہم حریف ہوں۔”

“کیا تم سمٹ کی طرف سے ڈیزائنر ہو؟”  سبرین  شاکڈ ہو گئی۔ جعفر صاحب نے واقعی اس بیٹی کو اتنی چھوٹ دی تھی کہ وہ اتنے بڑے منصوبے کو اس کے حوالے کر دے۔ آبش نے صرف ڈیڑھ سال پہلے ہی ڈیزائننگ سیکھنا شروع کی تھی۔ وہ اتنی قابل کیسے ہو سکتی تھی؟

“یہ درست ہے۔ میں نے سارا ڈیزائن خود بنایا ہے۔” آبش کے چہرے پر پھیلی معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر  سبرین  کو کچھ عجیب احساس ہوا۔۔ جیسے اس نے کوئی سازش آبش کے دماغ میں چلتی محسوس کرلی ہو۔۔ لیکن یہ سازش کیا تھی؟ وہ سمجھ نہیں پائی۔

“مجھے بالکل بھی یقین نہیں آیا۔”  سبرین  سمجھ گئی کہ آبش نے کسی سے ڈیزائن بنوایا ہے یا چرایا ہے۔

“سبی تم بہت جیلیس نظر آرہی ہو،لیکن تمہیں میری توہین کرنے کا حق نہیں ہے۔” آبش کے لہجے میں دکھ تھا۔

” سبرین ، تم واقعی قابل مذمت ہو۔”جمشید نے  سبرین  کی بے عزتی کی۔

“تم لوگ بیمار ذہنیت کے ہو۔”  سبرین  نے ان سے بحث میں وقت ضائع کرنا فضول جانا اور مڑ کر جانے لگی ۔۔

تبھی پیچھے سے جمشید پھنکارا۔

“وہیں رکو۔۔تم آبش سے معافی مانگے بغیر نہیں جاسکتی۔” وہ چیخا۔

“جانے دو جمی۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا۔۔” آبش نے جمشید کو روکا۔

سبرین  نے اپنے قدم تیز کیئے۔۔ وہ اس منافق عورت سے نمٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتی تھی۔ آبش کو اپنی اداکاری کی بدولت انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ اس نے یقینی طور پر غلط انڈسٹری میں قدم رکھا۔

پھر پورا وقت  سبرین  اپنے باس کے ساتھ رہی۔

کچھ دیر بعد ہی بڈنگ شروع ہوئی ان کا نمبر سمٹ گروپ کے بعد تھا۔

سب سے پہلے جس آدمی نے اپنا تصور ظاہر کیا وہ گھریلو فرینچر کمپنی کا نمائندہ تھا۔۔ آرگنائزنگ کمپنی کے صدر نے صرف سر ہلایا ۔زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔

اس کے بعد پانچ دوسرے انٹرئیر ڈیزائن کمپنیز نے پریزنٹیشن کی۔ان کے اسکیچز برے نہیں تھے، لیکن اٹریکٹو نہیں لگ رہے تھے۔

جلد ہی آبش کی باری سمٹ گروپ کے نمائندہ کی حیثیت سے آگئی۔ اس نے بھورے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ وہ اب تک کے نمائندوں میں سب سے کم عمر نمائندہ تھی۔جنہوں نے اپنے خیالات پیش کیئے تھے۔

سامعین کی نظروں میں اس کی کم عمری کی وجہ سے عجیب تاثرات ابھرے تھے۔لیکن جب اس نے اپنا ڈیزائن ظاہر کیا تو سب دنگ رہ گئے۔

سبرین  اپنی جگہ پر اچھل کر رہ گئی۔یہ اس کا وہ کام تھا جسے اس نے آدھے مہینے کی محنت سے جاگ جاگ کر بنایا تھا۔۔

یہ آبش کے ہاتھوں میں کیسے آیا؟

اس کی مٹھیاں بھینچ گئیں اور آنکھوں میں جیسے آگ بھر گئی۔

“ہائے۔۔۔سامنے سے ہٹ جاؤ اور پلیز بیٹھ جاؤ۔ ” پیچھے سے کسی سامعین نے اسے بیٹھنے کو کہا۔

لیکن  سبرین  تو جیسے کچھ سن ہی نہیں رہی تھی۔اس کی نظریں صرف آبش کے کام پر تھیں۔۔ جو سو پرسنٹ اس کا تھا۔۔ اپنی راتوں کی نیند قربان کرکے اس نے یہ اسکیچز بنائے تھے۔۔

آبش نے تصور کی وضاحت جاری رکھنے سے پہلے ڈائس سے اس پر طنزیہ مسکراہٹ پھینکی ۔

“یہ چوتھی جہتی دنیا ہے جسے میں نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ ایک پراسرار دریافت شدہ دنیا ہے… “

صدر کی آنکھیں اب اطمینان سے چمک رہی تھیں ، اور یہاں تک کہ سامعین میں سے دوسرے بھی ان کی تعریفیں کرنے لگے۔

“سمٹ کی یہ نوجوان ڈیزائنر کافی متاثر کن ہے۔ بری نہیں ہے۔”

“میں نے سنا ہے یہ جعفر یزدانی کی بیٹی ہے۔سمٹ گروپ کی وارث۔”

“واقعی۔۔؟ یہ تو کافی ٹیلنٹڈ اور ذہین لگ رہی ہے۔”

سبرین  نے اونچی آواز میں مداخلت کی، کیونکہ وہ اس سے زیادہ نہیں سن سکتی تھی۔

“کیا تم Cosmis Eye اور سمندر کے نیچے بیس ہزار لیگ کا ذکر کرنا چاہ رہی ہو ؟ نیز اکیڈمک ریسرچ ایریا اور آرٹسٹک ایکسچینج کی اسپیسز جو کہ اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجیز، جیسے کہ فوٹو الیکٹرک پردے کی دیواریں ، ٹھنڈے دریا کا پانی ، اور ایل ای ڈی کے نئے لائٹ سسٹم استعمال کرتی ہیں۔”

یہ سن کر ہال میں ایسی گہری خاموشی چھاگئی کہ اگر ایک سوئی بھی گرتی تو آواز سنائی دیتی۔ہر ایک کے چہرے پر حیرت تھی۔۔آبش نے اپنی اسپیچ روک کر شاک سے اس کو دیکھا۔۔

“تم میرے کنسیپٹ کی اتنی ڈیٹیل کیسے جانتی ہو؟” آبش کی اداکاری عروج پر تھی۔

سبرین  کا دل چاہا اس کی معصومیت پر دو لگائے۔۔ اس کا خون ابلنے لگا۔اس نے طنزیہ کہا ۔

“کیونکہ یہ میرے ڈیزائن اور تصورات ہیں۔ تم نے میرے خیالات کی ہر تفصیل کو حرف با حرف چرا لیا ہے۔ کیا اس طرح تمہاری بڑی کمپنی دوسرے لوگوں کا کام چوری کر کے انڈسٹری میں سرفہرست ہو جاتی ہے؟”

“تمہارا مطلب ہے ،اس نے تمہارے ڈیزائن چرائے ہیں؟” صدر حیران ہوا ۔

“یہ سچ ہے،میرے لیپ ٹاپ میں بھی یہ ثبوت موجود ہے۔۔۔۔میں نے دن رات کی محنت سے اپنے خیالات کو ڈیزائن کیا تھا ۔۔۔میرے لیپ ٹاپ میں رف ڈیزائنز محفوظ ہیں۔”

“دکھاو مجھے۔”صدر نے اس سے کہا۔

سبرین  نے یکدم سے اپنا لیپ ٹاپ کھولا۔۔ اور ڈیزائینز سرچ کرنے لگی لیکن کافی دیر سرچ کرنے کے بعد بھی اسے اپنے ڈیزائن نہیں ملے،وہ گہرے شاک میں چلی گئی۔۔ حیرانی کے ساتھ پریشانی نے بھی گھیر لیا۔۔ ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟؟لیپ ٹاپ سے اس کے اسکیچز کیسے غائب ہوسکتے ہیں؟ کون کرسکتا ہے؟

اچانک ہی اس کی آنکھوں میں روشنی سی چمکی۔۔اس نے سر گھما کر اپنے ساتھ بیٹھے حنان بخاری کو دیکھا۔

” تم نے میرے سارے ڈاکیومنٹس ڈیلیٹ کئے ہیں؟”

اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔ یہی شخص تھا جو اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔ وہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔

“کیا۔۔۔؟ تمہارا دماغ چل گیا ہے؟ میں تمہارا ساتھ ہوں۔” حنان تو جیسے آپے سے باہر ہوگیا۔۔

آبش جو اب بھی ڈائس پر کھڑی تھی۔۔تیکھے لہجے میں کہا۔

”  سبرین  بس کرو، ہم اپنے ذاتی ایشوز کو گھر میں نمٹا سکتے ہیں یہ کوئی جگہ نہیں ہے ایسی باتیں کرنے کے لئے۔اتنے سارے لوگوں کے بیچ میں کیا مجھے شرمندہ کرنا چاہ رہی ہو؟”

یاسین سر تو حیران رہ گئے۔

“تم دونوں ایک دوسرے کو جانتی ہو؟”

اس سے پہلے کہ  سبرین  جواب دیتی آبش نے فوراً کہا۔

“یہ میری چھوٹی بہن ہے۔کچھ پرسنل ایشوز کی وجہ سے ہم میں ان بن ہوگئی ہے۔”

جمشید نے ٹیبل پر غصہ سے مکا مارا۔

“آبش،تم کو اس کے ساتھ بالکل بھی نرمی نہیں کرنی چاہیئے۔یہ اپنی طرف سے یزدانی بزنس کو برباد کرنے کی پوری کوشش کرچکی ہے۔اب یہ چالباز عورت تمہارے ڈیزائن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔”

“میں نے نہیں۔”  سبرین  غصہ سے بڑھکی۔

“اگر نہیں ،تو پھر ہمیں اپنا ثبوت دکھاؤ۔ اب تم ٹھوس شواہد کے بغیر دوسروں پر الزام لگا رہی ہو۔ کیا تم جانتی ہو کہ آبش نے اس پروجیکٹ میں کتنا خون اور پسینہ صرف کیا ہے؟ پھر بھی تم اس پر الزام لگانے سے باز نہیں آئی۔”جمشید دھاڑا تھا۔

حنان اچانک اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔

“اوہ ، کوئی تعجب نہیں کہ آپ نے ہمیں جو ڈیزائنز دکھائے وہ میرے ڈیزائنز سے بہتر تھے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ نے کسی اور کا کام نقل کیا تھا۔۔۔ ایسا لگتا ہے ۔۔۔آپ ابھی بھی سمٹ گروپ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ صدر یاسین صاحب، یہ عورت ہمیں دھوکہ دے رہی ہے۔”

صدر یاسین، اس بات پر کافی ناراض نظر آرہا تھا۔

” سبرین  یزدانی، کیا یہ سب سچ کہہ رہے ہیں؟”

ایمانداری کی بات تو یہ تھی کہ وہ اندر سے واقعی  سبرین  کے کام کو لے کر بے یقین تھا کہ اتنی سی عمر میں یہ اتنا شاندار کام واقعی میں  کرسکتی ہے؟ اب شواہد بھی نہیں تھے۔۔لیپ ٹاپ سے اس کا کام غائب تھا۔۔ اصل کام آبش کے ہاتھوں میں ہونا چاہیئے تھا۔ کوئی کیسے یقین کرتا؟ کہ واقعی یہ لڑکی سچ کہہ رہی؟ جبکہ اسے یہ کمپنی جوائن کرتے کچھ مہینے ہوئے تھے۔۔اتنے کم عرصہ میں کوئی کسی کو کیسے جان سکتا ہے۔۔؟

“سر ، کیا آپ کو یہ نظر نہیں آرہا کہ حنان کو رشوت دی گئی ہے؟”  سبرین  نے بے بسی سے اپنا کمزور دفاع کیا۔

حنان نے یکدم سے اپنا دفاع کیا تھا۔

” میں سمیٹ گروپ میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا۔یاسین سر،میں آپ کے ساتھ سالوں سے کام کررہا ہوں،کیا آپ نہیں جانتے کہ میں کس قسم کا آدمی ہوں۔”

“آل رائیٹ، میں بھت کچھ سن چکا۔میں یہاں اپنی عزت اور نہیں کھونا چاہتا۔”صدر یاسین نے ناگوار لہجے میں کہا۔۔اور اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔

“ہم اب اس بڈنگ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہے۔ سبرین  یزدانی اب تم بھی ہماری ملازم نہیں رہی۔” یہ کہتے ساتھ ہی یاسین صاحب حنان بخاری کے ساتھ باہر نکل گئے۔

ایک ناگواری سی جمشید کی نگاہوں میں بھر گئی۔

“اب جبکہ تمہاری کمپنی کے لوگوں نے بھی تمہارا ساتھ نہیں دیا۔ تو تمہاری ریپوٹیشن کافی بری ہونی چاہیئے۔”

“جمشید، آبش ،میری ایک بات یاد رکھنا کہ جو کچھ بویا جائے وہی آگے چل کر کاٹنا پڑتا ہے۔” سبرین  جیسے اپنا کنٹرول کھوبیٹھی۔اس نے سامنے پڑی پانی کی بوتل اٹھائی اور جمشید کے طرف قوت سے پھینکی۔

صدر سچ میں کافی اپ سیٹ ہوا۔۔ اس کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ دونوں پارٹیوں میں سے سچا کون ہے،اب اس طرح کی جنگ اس کے وہم گمان میں بھی نہیں تھی۔۔ وہ اچانک دھاڑا۔۔

“نکل جاؤ باہر۔ کس طرح کے لوگوں نے اس سال بڈنگ میں حصہ لیا ہے؟”

جلد ہی دو سیکورٹی گارڈز نے  سبرین  کو دونوں طرف سے جکڑ لیا اور پوری طاقت سے اسے باہر گھسیٹنے لگے۔

باہر بارش ہورہی تھی،  سبرین  کو گارڈز نے پوری طاقت کے ساتھ باہر بارش میں پھینک دیا۔

بارش کی تیز پھوار نے اسے سر سے پیر تک مکمل بھگودیا تھا۔

اس کے اندر جلتی آگ سیکنڈوں میں بارش سے بجھ گئی۔ جس چیز نے اس کی جگہ لے لی وہ زندگی سے گلہ اور غم تھا۔

وہ سمجھ نہ پائی کہ اس نے آبش کے ساتھ کیا برا کیا تھا؟ کیا پچھلی زندگی میں  سبرین  نے اس کے ساتھ کچھ غلط کیا تھا؟

سبرین  نے سمٹ سے نکلنے کے بعد خود کو دوبارہ سے جوڑنے کے لئے کافی محنت کی تھی۔۔

تاہم آبش نے اسے بار بار نشانہ بنایا تھا ، یہاں تک کہ انٹیرئیر ڈیزائن انڈسٹری میں اس کی ساکھ کو بھی برباد کردیا۔ اب مستقبل میں اس کی خدمات کون لے گا؟اس وقت اسے ایسا لگا جیسے اس کی زندگی مکمل برباد ہوگئی ہے۔

اس وقت گیٹ کھلا۔۔ اور آبش چھتری سنبھالے خود کو بارش کی تیز پھوار سے بچاتی باہر آئی۔

ایک دھواں سا  سبرین  کے چہرے پر پھیلا۔۔

“سبی۔۔۔ تھینک یو لاٹ، تمہارے بنائے ہوئے ڈیزائنز بہت بہت اچھے تھے جس وجہ سے مجھے یہ پروجیکٹ مل گیا۔تم واقعی بہت ٹیلینٹڈ ہو۔”

سبرین  نے چہرہ دوسری طرف کرلیا۔۔ لب بھینچ لیئے، ایک آگ سی تھی جو اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر ابھری تھی۔

جبکہ دوسری عورت طنزیہ مسکرائی۔اور معصومیت سے بولی۔

“چہ چہ اتنی اپ سیٹ مت ہو۔۔یہ پروجیکٹ تمہارے ڈیزائنز کے بغیر بھی مجھے مل ہی جاتا کیونکہ ایزد نے سفارش کروائی تھی۔ شایدتمہیں یہ نہیں معلوم کہ ایزد کے ماموں کی پروجیکٹ کے صدر سے دوستی ہے۔تمہارے ڈیزائنز نے ہمارے منصوبے کوصرف سہارا دیا ہے۔”

“ماموں؟۔۔ شہزام ؟؟” سبرین  کو لگا۔۔۔جیسے کوئی جنگلی جانور اپنے لمبے ناخنوں سے اسکے دل کو چیر پھاڑ رہا ہو۔اس کا دل اس چیر پھاڑ سے، ٹکڑوں میں جیسے بٹ سا گیا ۔اس کی سانس بھاری ہونے لگی۔۔

اور وہ اس کی شکر گزار ہورہی تھی کہ اس نے اسے یہاں موقعہ فراہم کیا ہے۔۔مطلب وہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ ایسا ہوگا۔۔ تو پھر اس نے جھوٹ کیوں بولا؟ جبکہ وہ اچھے سے جانتا تھا کہ  سبرین  نے دن رات ایک کرکے ڈیزائنز بنائے ہیں۔

اس کی آنکھیں گیلی ہورہی تھیں۔۔آنسو بہہ رہے تھے،اس کا چہرہ مکمل آنسوؤں سے تر تھا۔۔لیکن یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ کونسا بارش کا پانی ہے ؟آنسو کون سے ہیں؟

آبش نے فطری طور پر  سبرین  کی تکلیف پر فخر محسوس کیا۔

“یہ بپت ہی شرم کی بات ہے ، کہ اب کوئی بھی انڈسٹری تمہیں رکھنا پسند نہیں کرے گی۔یہ جان کر کہ تم دھوکہ باز ہو۔ چہ چہ۔۔ بیچاری۔۔”آبش نے افسوس کیا۔۔”لیکن۔۔۔ پریشان مت ہو۔۔ میں اپنے والدین کا اچھے سے خیال رکھوں گی۔اب سمٹ اور ایزد کو مجھ پر چھوڑ دو۔” وہ ذرا سا  سبرین  کے طرف جھکی کچھ سوچنے کی اداکاری کرتے ہوئے۔۔ “ایمانداری کی بات تو یہ کہ ایزد تمہارے لئے بہت برا محسوس کرتا ہے۔۔ اسے بہت شرم آئی تھی جب تمہیں سڑکوں پر پمفلٹ بانٹتے دیکھا۔اس نے مجھے کہا ‘تم بالکل بھی اس کے میچ کی نہیں ہو۔”

سبرین  کا حوصلہ بس یہیں تک تھا وہ اور کتنا برداشت کرتی۔۔ اس نے یکدم سے اسے نیچے کھینچا اور گلے سے پکڑ لیا۔۔چیخ کر بولی۔

“آبش ۔۔ کیا میں نے تمہارا کچھ قرض لیا ہے؟ کیا میں نے کبھی تمہارا نقصان کیا ہے۔؟ بولو۔۔۔؟ “

آبش بالکل بھی پریشان نہیں ہوئی۔۔  سبرین  کو غصہ ہی تو دلانا اس کا مقصد تھا۔۔ اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوچکی تھی۔۔ ایک پراسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔

اس سے پہلے کہ  سبرین  اس کی مسکراہٹ کی معنی خیزی کو سمجھ پاتی ، کسی نے پوری قوت کے ساتھ اس کی پیٹھ کو زور سے کھینچا۔۔اور بارش کے گدلے پانی کے گڑھے میں پھینک دیا۔

وہ مکمل اس گڑھے میں غرق ہوئی۔۔ حواس جیسے سلب ہوگئے۔۔ کافی دیر بعد اس نے دیکھنا چاہا کہ کون تھا؟۔۔ اور یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ ایزد تھا جس نے اسے پیچھے سے کھینچ کر دور گڑھے میں پھینکا۔۔ اب وہ آبش کو اٹھنے میں مدد کررہا تھا اور جلدی سے اپنا کوٹ اتار کر آبش کو ڈھانپ رہا تھا۔

“میں ٹھیک ہوں، لیکن جلدی سے سبی کو دیکھو۔۔بڈنگ کمیٹیشن ہار کروہ تو دل ہار بیٹھی ہے۔”آبش نے ایزد کے حصار میں کانپتے ہوئے کہا۔

“تم کیوں اس عورت کا خیال کر رہی ہو؟” ایزد نے زمین پر گری  سبرین  کو گھور کر دانت پیسے۔

“دیکھ لو۔۔ کیا بن چکی ہو تم؟ تم کافی سنگدل ہو، اپنی ہی بہن پر دھونس جمارہی ہو۔۔ مجھے واقعی یقین نہیں آرہا کہ میں نے کبھی تم جیسی لڑکی کو چاہا تھا؟”

وہ رشتہ جو ان دونوں میں بچپن سے پروان چڑھا تھا آج مکمل غلط فہمی کے نذر ہوچکا تھا۔

سبرین  نے سخت نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ یہ نقوش اب اس کے لئے انجان تھے، اجنبی سے ۔

“یہ سچ ہے ، مجھے بھی افسوس ہے کہ میں نے تم جیسے شخص کو پسند کیا۔ میں واقعی اندھی ہوچکی تھی۔”

اس کی بات پر ایزد سخت غصہ ہوا ۔

“تمہاری ہمت کہ یہ دوبارہ کہو”

“نہ صرف تم نے بولی لگانے کے اصولوں کو توڑا ہے بلکہ تم صحیح کیا ہے؟ اور غلط کیا؟ یہ بھی نہیں بتا سکتے۔”  سبرین  نے پھیپھڑوں کے پورے زور پر چیخ کر کہا۔ “کیا تم کو لگتا ہے کہ یہ اپنی محدود صلاحیت کے بناء پر، اس طرح کے ڈیزائن بنا سکتی ہے؟ شاید تم اسے شروع سے جانتے تھے لیکن پھر بھی اسے بچانے کا فیصلہ کیا۔ اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ، لیکن کامیابی حاصل کرنے کے لیے تم نے مجھے ڈاؤن کیوں کیا؟ کیا ملا تم کو؟ تم دونوں واقعی ایک گھٹیا کپل ہو!”

“منہ سنبھال کر بات کرو۔”ایزد نے بڑھ کر بے اختیار اسے پورے زور سے تھپڑ مارا ۔۔اتنی شدت سے کہ وہ سہار نہ سکی اور دوبارہ گرگئی۔

سبرین  کے گال شدت توہین اور مار سے جلنے لگے تھے۔ بے اختیار جلتے گال پر ہاتھ رکھے نیچے گر گئی۔لیکن یہ درد۔۔۔۔ یہ تکلیف۔۔۔۔ اس تکلیف کے آگے کچھ بھی نہیں تھی۔۔جو تکلیف وہ دل کی گہرائی میں محسوس کررہی تھی۔

کہاں گیا وہ شخص جس نے اس سے ہمیشہ ساتھ نبھانے کے وعدے کئے تھے؟

کہاں گیا وہ شخص جس نے اسے یقین دلایا تھا کہ آبش کے لئے وہ کوئی فیلنگز نہیں رکھتا؟

کہاں گیا وہ شخص جس نے محض کچھ دن پہلے ہی اس سے منتیں کی تھیں کہ اس کا انتظار کرے؟

خوش قسمتی سے اس نے اس کی باتوں پر یقین نہیں کیا تھا، اب اس میں ہمت بھی نہیں رہی تھی۔

ایزد نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے گھورا اور تلخ لہجے میں کہا۔

“یہ مت سمجھو کہ ہر کوئی تمہاری طرح گھناؤنی سوچ کا مالک ہے۔میں اچھی طرح آبش کو جانتا ہوں کس طرح اس نے راتوں کو جاگ جاگ کر یہ ڈیزائنز بنائے ہیں۔ ہاں یہ سمجھتا ہوں ،وہ ابھی سیکھنے کی اسٹیج پر ہے،لیکن یہ ذہین ہے۔بدقسمتی سے آج جو کچھ ہوا وہ تم نے خود اپنے ساتھ کیا ہے۔اپنی غلطی کو تسلیم کرو،اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔۔”

ایزد آبش کے گرد حصار باندھے ۔۔ گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔۔

“اوہ بیچاری ۔۔۔” چہ چہ۔۔” پیچھے سے جمشید یزدانی اس کا کزن طنزیہ مسکراتا چھتری سنبھالے آیا۔”یزدانی خاندان کی وارث ، جو کبھی ہواؤں میں اڑان بھرتی تھی، آج کل اپنی ساری طاقت کھوچکی ہے۔۔افسوس ہوا۔”

گہری سانس بھر کر وہ چلتی رہی،  سبرین  نے اس کے گھٹیا ریمارکس پر کوئی جواب نہیں دیا۔۔اور گاڑی کے طرف بڑھتی رہی۔

اس کی مکروہ آواز پھر سے پیچھے سے گونجی۔

“انکل جعفر اور آنٹی صالحہ کو پہلے ہی سے آج کے واقعے کے متعلق بتادیا گیا ہے۔۔اور افسوس کہ وہ آبش کی طرف ہیں ۔اور تمہارے لئے۔۔۔ ان کے گھر کے دروازے مکمل ۔۔بند ہوگئے ہیں۔ وہاں جانے کے خواب مت دیکھنا۔۔” وہ مسلسل اسے تپا رہا تھا۔”کیونکہ وہاں اب کوئی تمہیں خوش آمدید نہیں کہنے والا”۔

سبرین  نے کار کا دروازہ زور سے بند کیااور گاڑی بھگا دی۔

حالانکہ اس کے الفاظ  سبرین  کے لئے نئے نہیں تھے۔لیکن یہ سچ تھا کہ اس کی زندگی اب پریشانیوں سے دوچار ہوگئی تھی۔کوئی بھی اب اس سے محبت، یا اس کا خیال رکھنے والا نہیں رہا تھا۔

٭٭٭٭

Next Episode 10

Prev Episode 08

We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚

Rozan e Zindaan Season 01 Complete Episodes on Youtube

Rozan e Zindaan Season 02 ongoing on Youtube

Watsapp channel Join Karen

Click to Join Watsapp Channel

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *