- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Rozan e Zindaan Episode 10
Writer: Raqs eBismil
اس ناول کے جملہ حقوق بحقِ مصنفہ اور ناولستان – اردو ناولز لائبریری کے پاس محفوظ ہیں۔
کسی بھی دوسری ویب سائٹ، گروپ، یا پیج پر اس ناول کو بغیر اجازت کے پوسٹ کرنا سختی سے منع ہے۔
اگر کوئی شخص بغیر اجازت کے اس مواد کو چوری کر کے پوسٹ کرے گا
تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اس ناول کو یوٹیوب پر بھی پوسٹ کرنا منع ہے۔
یہ ناول ہمارے یوٹیوب چینل Novelistan پر پہلے ہی پوسٹ کیا جا چکا ہے۔
آپ وہاں سے مکمل ناول کے تمام اقساط پڑھ یا سن سکتے ہیں۔
ہم تمام صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس کا احترام کریں
اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے اجتناب کریں۔
Episode 10
شام کے چھ بجے۔
شہزام اپنے کام سے گھر واپس آگیا۔
کچھ دن پہلے تک سبرین اپنی مصروفیت کے باوجود بھی اس جگہ پر موجود رہتی تھی۔
گھر مکمل روشن رہتا تھااور کھانے کی خوشبو پھیلی رہتی تھی۔اور کچن سے نظر آتے اس کے ڈنر کی تیاری میں ،مصروف وجود کو وہ دیکھ سکتا تھا جو بڑی تندہی کے ساتھ یہاں وہاں چکراتا اپنی موجودگی کا مکمل احساس دلاتا تھا۔
اور آج ۔۔ یہاں مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
اس نے بڑھ کر لائٹ آن کی تبھی سیدھی اس کی نظر صوفے پر سبرین کے وجود پر پڑی۔اس کے بال بکھرے اور الجھے ہوئے تھے۔آنکھیں ورم زدہ جن سے دکھ جھانک رہا تھا، جیسے وہ رو رو کر تھک چکی ہو ۔اس کی ٹھوڑی فدی کے سر پر ٹکی ہوئی تھی، آنکھیں یک ٹک ایک نامعلوم جگہ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔بلی اس کے مکمل حصار میں تھی ۔ سبرین اس وقت بالکل بے جان اور شکستہ دل نظر آرہی تھی۔
وہ ہمیشہ اس کے سامنے ترو تازہ ظاہر ہوتی تھی، اور آج اسے اس طرح دیکھ کر شہزام کو عجیب سا لگا۔
“کیا بڈنگ اچھی نہیں ہوئی؟” اس نے اپنا کوٹ اتار کر عادت کے مطابق صوفے پر اچھالا۔
“ایک بار فیل ہونا کوئی بڑی بات نہیں ،تم ابھی کم عمر ہو۔۔۔۔۔۔۔”
“میں کم عمر ہوں تبھی ہر ایک کو اجازت ہے کہ مجھے دھوکا دیتا رہے؟” سبرین نے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی۔”آپ جیسے بڑے لوگوں کے نزدیک ہماری فیلنگز کی کوئی ویلیو نہیں ہوتی۔درست؟”
وہ اس کی بات پر پریشان ہوا، اس نے سوچا سبرین اپنا غصہ اس پر نکال رہی تھی۔
“کیا تم اپنی ناکامی کا زمہ وار مجھے سمجھ رہی ہو؟”
“اور یہی سچ ہے۔۔” سبرین نے چباچبا کر کہا۔”میری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ تم پر یقین کرنا ہے۔”
سبرین نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا۔لیکن قانونی طور پر وہ اس کی بیوی تھی، پھر بھی وہ اسے بیوقوف بناگیا۔
“ان ہاتھوں کو مت کاٹو جس نے تمہیں کھلایا ہے۔” شہزام اس کے ریمارکس پر سخت بیزار ہوا۔
“تم اس بڈنگ میں حصہ کبھی نہ لے سکتی اگر میں نے درپردہ مدد نہ کی ہوتی۔۔۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم اس کے بعد ایسا بی ہیو کرو گی تو کبھی ایسا نہ کرتا۔”
“تھینک یو ویری مچ،میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں آئندہ میرے معاملات سے دور رہنا۔”اس نے ہاتھ جوڑےاور صوفے سے پیر نیچے رکھ کر طنز کیا، بلی اس کے اٹھتے ہی جمپ لگا کر نیچے کود گئی۔۔ وہ پریشان کن صورتحال کو جیسے بھانپ گئی تھی۔
وہ نہ صرف اس کے رویے پر غصہ تھا، بلکہ افسوس بھی محسوس کیا۔۔وہ اس سے اس طرح کے روئیے کی توقع نہیں رکھتا تھا۔
شروع میں اس کے ڈیزائن دیکھنے کے بعد اس نے سوچا کہ وہ واقعی باصلاحیت ہے۔
تاہم،اس دنیامیں بہت سارے لوگ خداداد صلاحیت لے کر پیدا ہوتے ہیں ،لیکن صرف کچھ لوگ ہی آگے آسکتے ہیں۔صرف ایک بار کی ناکامی کی وجہ سے وہ سبرین کے ٹرو کلر دیکھنے کے قابل ہوا تھا۔
سچی بات تو یہ تھی کہ اس نے ایسے لوگوں کو ہمیشہ حقیر سمجھا تھا۔
“یاد رکھنا۔۔ ” شہزام نے بھینچے لہجے میں کہا ۔”جو کچھ تم نے آج کہا ہے ۔ آج سے بلی کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے نہ ہی میرے لئے کھانا پکانے کی۔”
اس کے بعد اس نے غصے میں بلی کو گود میں اٹھایااور صوفہ پر پڑے کوٹ کو اٹھایا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
کمرے میں ایک خوفناک سی خاموشی چھا گئی۔ اس کے پاس پہلے اپنے دکھی دل کو تسلی دینے کے لیے ایک بلی تھی، لیکن اب وہ بھی چلی گئی۔
اس کا ذہن جیسے بالکل خالی ہوگیا تھا۔۔ کھڑکی سے باہر نظر آتا سورج آہستہ آہستہ اندھیرے کی چادر میں چھپ گیا تھا۔۔۔ اب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھاگیا تھا۔وہ کچھ سوچ کر گھر سے نکل آئی۔۔ اس کے قدم بے اختیار بار کی طرف بڑھے۔
سرور اس کے لئے بیئر کی کئی بوتلیں لے آیا۔ اس نے ان میں سے ایک پر سے کیپ ہٹادی اور بڑی بڑی گھونٹ لینے لگی۔
وہ اس سے پہلے پینا پسند نہیں کرتی تھی،لیکن اب اس نے یہ جانا کہ الکوحل پینے سے سارے دکھ کہیں دوربھاگ جاتے ہیں۔
وہ آدھ کھلی ہوئی آنکھوں سے اسٹیج پر ایک نوجوان جوڑے کو ڈانس کرتے دیکھنے لگی۔
ماضی میں اس کی زندگی کتنی آرام دہ تھی ۔۔ ہر فکر سے آزاد۔۔
آہستہ آہستہ اس کی نظر مدھم ہونے لگی۔۔
اس نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اسے ایک کونے میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے کسی کو فون کیا۔
“جنت اندازہ لگاؤ کہ میں نےابھی کس کو دیکھا ہے؟”
“کون؟” دوسری طرف سے جنت نے تجسس سے پوچھا۔
” سبرین ۔۔۔، اکیلی بار میں بیٹھی غم غلط کررہی، یہ تو آج بھی اتنی ہی خوبصورت ہے جتنی کالج کے زمانے میں تھی۔”یہ زین تھا۔۔ گندے ذہن کا مالک۔۔
جنت کو ریسٹورنٹ والا واقعہ نہیں بھولا تھا۔۔ وہ موقعے کی تلاش میں تھی کہ کس طرح سے سبرین سے اپنی اس بے عزتی کا بدلہ لے۔۔اور آج اسے قسمت سے موقعہ مل گیا تھا۔۔
وہ خوش تھی کہ سبرین آج بڈنگ ہار چکی ہے۔لیکن اس کے لئے یہ کافی نہیں تھا۔۔وہ اسے کوئی بڑا دھچکا دینا چاہتی تھی۔
“زین ،کیا تم اب بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہو؟” جنت نے اسے گویا تیار کرنا چاہا۔
“پہلے نہیں تھا۔۔ لیکن اب مجھے صرف اس کی ذات کو کھوجنے کا تجسس ہے۔۔اسکول ٹائم میں اس نے ہمیشہ میری بے عزتی کی۔۔اب میں چاہتا ہوں، وہ مجھ سے معافی مانگے۔”
“ٹھیک ہے یہ موقع تمہیں میں دیتی ہوں۔”
جنت نے اسے اپنا پلان بتایا۔۔جسے سن کر زین کی چھوٹی آنکھوں میں چمک لہرائی۔
“کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ۔۔۔۔۔”
“ڈرو مت۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں، اب سبرین کے ساتھ کوئی بھی موجود نہیں ہے۔اگر کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو یزدانی فیملی غصے میں آکر اس سے قطع تعلق کرلے گی۔”
“آل رائٹ، تو پھر میں آج رات ہی یہ عمل کرتا ہوں۔”زین کے ہونٹ شیطانی مسکراہٹ میں ڈھلے۔آنکھیں ایسی مدہوش ہوئیں جیسے وہ تصور میں ہی اس عورت کا وجود سامنے دیکھ رہا ہو۔
سبرین مکمل ہوش سے بے گانی ہوچکی تھی، اسے بمشکل یہ نظر آیا تھا کہ ایک سرور بیئر کی ایک اضافی بوتل لایا ہے۔
اسے یاد نہیں پڑا کہ اس نے یہ آرڈر کیا تھا؟ لیکن اس کا گلاس خالی تھا سو اس نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے یہ بوتل بھی اٹھا کر گلاس میں انڈیلی۔۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس کی آنکھیں مکمل بند ھوگئیں۔وہ ہوش سے بے گانہ ہوچکی تھی۔
٭٭٭٭
کلب کے اندر ایک طرف ۔۔
فدی اسٹول کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔
شہزام نے اس کا پیالہ چھوٹی مچھلیوں سے بھر کر اس کے آگے کیا۔
بلی نے سونگھ کر ناگواری سے منہ پرے کیا۔
“تمہاری بلی بہت ہی نخریلی لگتی ہے، یہ فش میرے کلب کی بہترین فش ہے” شیث نے طنزیہ کہا۔
“اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے کلب کا شیف اس کے معیار کا نہیں۔” شہزام نے چکن پیس بے دلی سے اٹھایا۔۔لیکن اس کی بھوک جیسے مرچکی تھی۔
وہ سبرین کے گھر میں پکے کھانے کھا کر عادی بن چکا تھا۔اب یہ سامنے پڑی ڈشز اس کو ردی جیسی لگ رہی تھیں۔۔ جب اس نے سبرین کے کھانوں سے اس کا موازنہ کیا۔
“تمہیں رات کے کھانے کے لئے گھر جانا چاہیئے ۔ “شیث نے غصے سے تبصرہ کیا ۔”تمہارے لئے گھر سے پکا ہوا کھانا ہی بہترین ہے۔ گھر جاؤ اور بھابھی سبرین سے کہوتمہارے لئے کھانا بنائے۔”
“اس عورت کا تذکرہ مت کرو۔” شہزام کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔
“اب اس نے کیا کیا تمہارے ساتھ؟” شیث نے تعجب سے اسے دیکھا۔پھر جیسے اسے یاد آیا۔۔”آج تو بڈنگ تھی نا؟”
“میں نے کہا نا، اس بات کا ذکر مت کرو۔” شہزام نے وارن کیا۔
شیث نے بناء کچھ کہے لب بھینچے۔۔
اس نے تھوڑی دیر بعد فون پر بات کی اور پھر اسے بتایا۔
“وجاہت راؤ گولڈن کارپوریشن کا مالک اس کلب کے پرائیوٹ روم میں انتظار کررہا ہے۔وہ بزنس کے معاملات پر بات کرنا چاہتا ہے ،جسکا کچھ دیر پہلے میں نے ذکر کیا تھا۔”
“تم جاؤ، مجھے ایسے معاملات میں دلچسپی نہیں ہے۔جس میں ذہنی کام نہ ہو۔”
شیث کے پاس جیسے الفاظ کھوگئے۔۔وہ چپ رہ گیا۔
“آف کورس،تم سب سے بہتر ہو، کیونکہ تم ذہین ہو۔”شیث نے دل میں یہ ضرور سوچا تھا۔۔
وہ قریبی دروازے کے طرف بڑھا، جب وہ بیس منٹ بعد وہ واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ٹیبل پڑی ڈشز ایسے ان چھوئی پڑی تھیں۔
“اندازہ لگاؤ کہ اس کمرے میں کون تھا؟ ٹیکنالوجی سینٹر کا انچارج موجود تھا۔ساتھ میں ایزد۔۔ “
“مجھے اس ذکر سے دلچسپی نہیں، پلیز بند کرو۔” شہزام نے ناگواری سے کہا۔اس کا خون جیسے ابلنا شروع ہوگیا تھا۔
“سنو۔ ۔۔” شیث کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ “ایزد اور آبش کی اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے ، یہ ایک الگ بات ہے کہ ایزد وجاہت کا بھتیجا ہے۔۔ سمٹ گروپ نے آج کی بڈنگ سے اس پروجیکٹ کو باضابطہ طور پر حاصل کیا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے کہ کچھ عجیب ہے ،کچھ ایسا جو ہم سے چھپا ہوا ہے۔جب تم ان تینوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھو؟”
شہزام میلبورین کے نیٹ ورک سے نا واقف تھا لیکن یہ بات اسے سمجھ میں آگئی تھی کہ اندر ہی اندر منصوبہ سازی کی گئی ہے۔
“مطلب، سمٹ گندہ کھیل کھیلا ہے؟” شہزام کا لہجہ غصہ میں بھر گیا۔۔۔چبھتے ہوئے لہجے میں شیث کو دیکھ کر کہا۔”کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ بڈنگ کا عمل منصفانہ بناؤ؟”
شیث خود بھی اس بات پر شرمسار ہوا۔
“میں نے صدر ثروت جہانگیر کو یہی کہا تھا،کہ مقابلہ یقینی طور پر منصفانہ بنائے۔۔ لیکن وہ شاید میری بات کے الٹ سمجھا۔۔وہ سمجھا میں نے صرف اسے چھوٹی کمپنی کو مقابلہ میں حصہ لینے کا کہا ہے۔۔یہ نہیں سمجھا کہ میں نے بھابھی سبرین کی سفارش کی ہے۔” شیث واقعی الجھا تھا۔
شہزام نے پریشانی سے پیشانی کو دو انگلیوں سے مسلا ، یہ حیران کن بات تھی کہ سبرین کو اس کے اتنے شاندار ڈیزائنز کے باوجود بھی خارج کردیا گیا تھا۔اسے سبرین کا الجھا الجھا سا رویہ پریشان کررہا تھا۔۔ کوئی بات تھی جس سے وہ ناواقف تھا۔۔ورنہ وہ اس طرح ری ایکٹ بالکل نہ کرتی۔
کچھ سوچنے کے بعد اس نے فون اٹھا کر ھادی کو فون ملایا۔
“تفتیش کرو کہ آج کی بڈنگ کے دوران کیا واقعہ ہوا؟ میں ایک ایک بات جاننا چاہتا ہوں۔”
شیث نے کچھ سوچ کر کہا۔
“میں آسانی سے ارد گرد موجود لوگوں سے پوچھ کر اصلی حقیقت جان سکتا ہوں۔”
شہزام نے اس کی بات پر اسے طنزیہ دیکھا۔۔
“بہت خوب۔۔ مجھے تم پر یقین ہے۔”
شیث اس کے میٹھے طنز پر شرمسار ہوا۔۔ آخر کافی سوچنے کے بعد یہ بات اسے سمجھ میں آگئی کہ معاملہ اس کی لاپرواہی سے بگڑا ہے۔
اس وقت گروپ کے میسیجز سے سیل فون مسلسل وائبریٹ کرتا رہا۔
بالآخر شیث نے میسیجز چیک کرنے کے بعد ایک گہری سانس لی۔
“میلبورین کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری بےایمان لوگوں سے بھری پڑی ہے۔۔ایک بار اگر یہ واقعہ باہر آگیا تو پھر سبرین بھابھی کبھی بھی آگے نہ بڑھ سکیں گی۔”
شہزام شیث کی بات سن کر اچھی طرح اس کا مفہوم سمجھ رہا تھا۔۔اس نے بغور شیث کی نظروں کا تعاقب کرکے ادھر نگاہ دوڑائی ۔۔شیث بیڈ پر لیٹی ایک عورت کی تصویر دیکھ رہا تھا۔
اس عورت کی پیٹھ نظر آرہی تھی وائیٹ شرٹ اور بلیو جینز سے اس کے وجود کی اسمارٹینس کا پتا چل رہا رھا تھا کہ عورت کافی دلکش ہے۔
شہزام کو یاد آیا کہ سبرین نے شام میں یہی ڈریس پہنی ہوئی تھی۔وہ چونکا۔۔اس نے جلدی سے شیث کے ہاتھوں فون جھپٹا۔۔
“کہاں ہے یہ ؟”
“پتا نہیں ، شاید کوئی ہوٹل ہے۔۔لیکن کیوں؟”
شہزام نے نظر اٹھا کر شیث کو گھورا۔۔ پریشانی سے بولا۔۔
“یہ ۔۔یہ سبرین ہے۔”
اس کی بات سن کر شیث کا جیسے دماغ بھک سے اڑا۔۔
“ڈیم اٹ۔۔ اس پر اسٹیٹس ہے کہ یہ ویڈیو 7 بج کر 30 منٹ پر لائیو اپلوڈ ہوگی ۔۔اور اب پندرہ منٹ رہتے ہیں۔”
“پولیس کو کال کرو۔۔ جلدی کرو۔۔” شہزام نے اسے یکدم کہا۔۔اور جلدی سے پرائیویٹ روم کے کمپیوٹر کو آن کیا۔ صرف ایک منٹ کے اندر اندر اس نے آئی پی ایڈریس ٹریک کی ۔۔جہاں سے یہ ویڈیو اپ لوڈ ہونے والی تھی۔
خوش قسمتی سے یہ لوکیشن اس ہوٹل کے انتہائی قریب تھی۔
٭٭٭٭
ادھر ہوٹل کے روم میں ۔۔ سبرین ھوش سے بیگانی لیٹی ہوئی تھی۔
اس نے زبردستی اپنی آنکھیں کھول کر ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے کی کوشش کی، اس کے حواس کچھ کچھ سلامت تھے۔۔ خود کو ایک اجنبی کمرے اور بڑے سے بیڈ پر پڑا پا کر اسے بہت کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا، اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔اس کا ذہن جیسے ڈوب کر ابھر رہا تھا۔
وہ اٹھنا چاہتی تھی ، لیکن اسے یہ احساس ہوا کہ اس میں طاقت نہیں رہی ہے۔
“احتجاج کرنا بند کرو” ایک موٹی توند والا آدمی باتھ روم سے صرف ایک تولیہ لپیٹے باہر آیا۔
سبرین کو اسے دیکھ کر متلی سی ہوئی۔۔اس نے اسے پہچان لیا تھا۔۔
“ت۔۔۔ تم ۔۔زین ہو؟”
زین اس کے یوں پہچان لینے پر مکروہ ہنسی سے ہنسا۔۔ہنسنے سے اس کی موٹی توند ہلنے لگی تھی، اس کے پیلے دانت باہر نکلے۔۔دیکھنے والے کو ابکائی میں مبتلا کررہے تھے۔
“مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تم مجھے اتنی جلد پہچان لو گی۔۔ہی ہی۔۔”پیلے دانت باہر آئے۔
“تم اس وقت مجھ سے نفرت کرتی تھی، میں ایک عرصہ سے تمہیں برباد کرنے کے موقع میں تھا۔۔ اور آج۔۔ قسمت سے تم میرے پاس ھو۔۔ اب تمہیں بتاؤں گا کہ نفرت کسے کہتے ہیں؟ جب تم میرے آگے منتیں کرو گی۔۔ ہاہا۔۔ تمہاری میرے ساتھ ویڈیو لائیو جائے گی۔۔ تب تم میرے آگے ہاتھ جوڑو گی۔۔”
“دفعہ ہو جاؤ!” نفرت سے بھرے ہوئے لہجے میں سبرین نے بمشکل سے اپنی طاقت سنبھال کر ،اپنی ٹانگ اٹھا کر اسے لات ماری۔ بہرحال زین نے اسے آسانی سے ایک ہاتھ سے پکڑ لیا تھا۔
“ارے ، جلدی نہ کرو۔ تھوڑا صبر کرو . دیکھو کتنے سارے لوگ ہمیں لائیو دیکھ رہے ہیں۔”
زین نے اپنی پوری طاقت سے سبرین کی ٹانگوں کو پکڑ کر آگے کھینچا ۔۔
سبرین نے بستر کے کنارے لگائے گئے دو کیمروں کو اس وقت تک نوٹس نہیں کیا تھا۔۔زین کے بتانے پر وہ اس کی سازش سمجھ گئی۔
خوف و شرم سے سبرین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔۔
” نہیں۔۔ ایسا نہیں ھوسکتا۔ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔۔”
“یو باسٹرڈ۔ ” وہ چلائی۔۔ “مجھے جانے دو، میرے ڈیڈ اور مام تم کو نہیں چھوڑیں گے۔”
“بھول جاؤ، تمہارے والدین تمہیں اس طرح دیکھ کر صرف نفرت ہی کریں گے۔” اس نے سبرین کے کندھوں سے پکڑ کر زور سے نیچے دبایا اور اس کی قمیص بیچ سے پھاڑ دی۔
“ہیلپ۔۔۔۔۔” سبرین زور لگا کر چیخی ۔
سبرین بے بسی سے رو پڑی۔
“اللہ اس کے ساتھ ایسا کیوں کررہا ہے، وہ پہلے ہی کافی مشکلات سے گزر رہی تھی۔اس نے اپنے پیارے رشتے کھودیئے تھے۔اور اب اس کی آخری جمع پونجی عزت بھی خطرے میں تھی۔”
اچانک سے اس کی آنکھیں جیسے خوف سے پھٹ گئیں۔
“میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی۔۔ بھلے میں مرجاؤں۔” وہ چیخی۔۔
پھر اس نے اس کے بازو پر شدت سے دانتوں سے کاٹا۔۔
زین نے اسے زور سے تھپڑ مارا۔یہ اتنے زور کا تھپڑ تھا کہ سبرین کے حواس جامد ہوگئے ۔۔
اس کی آنکھیں رونے سے متورم ہوگئی تھیں۔۔ اسے لگا جیسے کسی نے اس کی روح کھینچ لی ہو۔
زین اس کی بے بسی کا مذاق اڑاتا قہقہہ لگاتا رہا۔
“اس وقت کوئی بھی تم کو بچانے نہیں آئے گا۔تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ میری بات مان لو۔”
ٹھیک اسی وقت۔۔۔ کسی نے زور زور سے دروازے پر ٹھوکریں رسید کرکے توڑنے کی کوشش کی۔۔
دروازہ دھڑام سے کھلا تھا۔۔۔
“کون ہو تم؟” زین گھبرا کر بیڈ سے کھڑا ہوگیا۔
شہزام نے اس کے موٹے جسم کو دیکھ کر متلی سی محسوس کی۔۔ جب اس کی نظر بیڈ پر پڑے بے بس وجود پر پڑی تب اس نے محسوس کیا کہ سبرین کی شرٹ ڈھیلی ہے۔۔ اور بیچ سے قدرے پھٹی ہوئی۔۔یہ دیکھ کر جیسے وہ پاگل ہوگیا۔۔۔بناءجواب دیئے اس نے دیوانہ وار تابڑ توڑ زین کے چہرے پر مکے برسائے تھے ۔۔
“میں وہ ہوں جو تمہیں جیل بھیجنے سے پہلے اوپر پہنچائے گا۔”اس کے مضبوط وجود کو دیکھ کر زین کے حواس گم ہوئے۔۔وہ زمین پر گرا شہزام کی مار کھاتا رہا۔۔
شہزام نے اس کے وجود سے اٹھ کر جلدی سے بیڈ پر لگے ہوئے کیمرے نکال کر زین پر اچھالے ۔اس کے بعد جلدی سے اپنی شرٹ اتار کر سبرین کے وجود کو ڈھانپا۔اور اسے اپنے حصار میں لیا۔۔
“سبی۔۔۔کیسی ہو؟؟ تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟؟” اس کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی کہ سبرین کے سوجے ہوئے چہرے کو چھوسکے۔صرف نرمی سے اس کی پیٹھ سہلاتا رہا۔۔
“نو۔۔۔ نو۔۔ ڈ۔۔ڈونٹ۔۔ ڈونٹ ٹچ می۔۔ ڈ۔۔ ڈونٹ۔۔”
سبرین کا ذہن ابھی تک مدہوشی میں تھا۔۔ اس کے سوجے ہوئے ہونٹ ڈر سے کانپ رہے تھے۔۔ مدھوشی میں اسے صرف یہ محسوس ہورہا تھا کہ کوئی اسے چھونے کی کوشش کررہا ہے۔۔اور احتجاجاً وہ روتے ہوئے کمزور ہاتھوں سے اسے خود سے پرے دھکیلنے کی کوشش میں ادھ موئی ہورہی تھی اور مسلسل بڑ بڑا رہی تھی۔۔
آج سے پہلے وہ اسے ہمیشہ مغرور، خوبصورت اور شرارت سے بھرپور نظر آتی تھی۔۔۔اسے اپنی شرارتوں سے اتنا تنگ کرتی تھی کہ بعض اوقات تو وہ دانت پیس کر رہ جاتا تھا۔۔ ۔لیکن آج ۔۔۔وہ اسے اس طرح مجروح حالت میں دیکھ کر خود پر لعنت بھیج کر رہ گیا۔۔ اس کی بیوقوفی کی وجہ سے ہی سبرین اس حالت میں پہنچی تھی۔ وہ شاید ہی خود کو معاف کرپاتا۔۔
“ڈرو مت۔۔ یہ میں ہوں۔۔کسی میں اتنی جرات نہیں کہ تم کو تکلیف پہنچا سکے۔” اس نے سبرین کا سر نرمی سے سہلایا۔۔
ایک جانی پہچانی سی خوشبو سونگھ کر سبرین کے حواس رلیکسڈ ہونے لگے۔۔
اس کی دھندھلی آنکھوں میں پہچان کے رنگ لہرائے۔اس نے یہ جانا کہ سامنے بیٹھا وجود اس کا اپنا ہے اس کا محرم۔۔
“شانی۔۔۔ کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟”
کسی نے واقعی خواب میں آکر اس کی عزت بچائی تھی۔
“یہ خواب نہیں ہے۔۔۔تم اب بالکل محفوظ ہو۔” شہزام نے نرمی سے اس کی آنکھ کے کنارے سے بہتے آنسو پونچھے۔
اچانک اسے اپنے پیچھے کافی ساری آوازیں سنائی دیں۔
جیسے ہی اس نے سر گھما کر دیکھا۔زین سیکورٹی گارڈز کی تحویل میں خود کو چھڑانے کی مسلسل مزاحمت کررہا تھا۔
“ٹہرو۔۔۔”اس نے سبرین کو اپنے حصار سے نرمی سے نکال کر بیڈ پر لٹایا۔اس کی آنکھیں سرد ہوئیں۔
“تم لوگ اب اس کے ساتھ کیا کرو گے؟”
زین کافی ڈرا ہوا تھا ۔۔اس کے جسم میں جیسے جان نہ رہی تھی، وہ بمشکل اپنی ٹانگوں کے سہارے پر کھڑا ہوا تھا۔وہ چاہ رہا تھا کہ یہاں سے بھاگ جائے۔۔ تبھی اس کے سر کے پچھلے حصے پر کس نے زور سے کرسی کھینچ ماری۔۔اور وہ وہیں فرش پر گرگیا۔۔۔
یہ دیکھ کر کہ ایک لمبا مضوط جسم کا مالک شخص اس کے طرف بڑھ رہا ہے۔۔ خوف سے اس کا جسم کانپا جیسے سردی لگ گئی ہو۔اسے بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ سبرین کے پیچھے اتنی مضبوط طاقت ہوگی۔
“قسم کھاتا ہوں۔۔ میں نے اسے نہیں چھوا۔۔۔ جب تم آئے۔۔ میں نےصرف اس کی قمیص پھاڑی تھی۔اور کچھ نہیں کیا۔۔ م۔۔ میرا یقین کرو۔” وہ ھاتھ جوڑ کر کپکپاتے ہوئے کہنے لگا۔
“تم نے اسے مارا، رائیٹ؟” شہزام کے لہجے میں آگ جیسی تپش تھی۔۔ جیسے بس ابھی اسے جلا کر خاک کردے گا۔
شہزام نے یہ کہتے ہی اسے گلے سے جکڑ کر اونچا اٹھایا۔پھر دوسرے ہاتھ سے پوری طاقت کے ساتھ تھپڑ مارا۔۔کہ آواز پورے کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر بازگشت سی پیدا کرگئی۔
جلد ہی زین کا چبی(گول مٹول) سا گال سوج کر بال جیسا پھول گیا۔
“یہ سبرین کی مہربانی ہے، جس کی وجہ سے مجھے زندگی میں پہلی بار کسی کو تھپڑ مارنے کا موقع ملا۔” شہزام نے اسے زور سے پیچھے کھڑے پولیس آفیسرز کے طرف دھکیلا۔پولیس نے یکدم اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈالی۔۔اور دھکیلتے اسی حال میں باہر لے گئے۔۔۔جس حال میں وہ تھا۔۔یعنی ایک تولیہ کے ساتھ۔۔
سبرین کمزوری کی وجہ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔۔اور سارا منظر اپنی دھندھلی آنکھوں سے دیکھا۔جب شہزام اس کے طرف مڑا تب زبردستی مسکرائی۔اس کے بعد اس کے ذہن پر تاریکی سی چھاگئی۔۔ وہ مکمل ہوش سے بیگانہ ہوکر بیڈ پر بے ہوش ہوکر لڑھک گئی۔
شہزام نے جلدی سے بڑھ کر اسے اپنے مضبوط بازووں میں اٹھا کر باہر نکلا۔
شیث جو کہ باہر ہی رک گیا تھا۔یہ سچویشن دیکھ کر شاکڈ رہ گیا۔۔
“یہ۔۔۔ یہ ۔۔ ٹھیک تو ہیں ؟”
“پتا کرواؤ۔۔کہ آج رات کے واقعے کے پیچھے کون تھا؟ ۔میں اس شخص کو زندہ دیکھنا نہیں چاہتا۔” شہزام نے بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کیا، اور شیث کو حکم دیا۔اس کے ساتھ ہی سبرین کو بازو میں اٹھائے۔۔ ہاسپٹل کی طرف دوڑا۔
٭٭٭٭
Prev Episode 09
We’d love to hear from you! 🌟 If our novels captivated your heart, please take a moment to share your thoughts in the comments on our website. Your feedback means the world to us, and we can’t wait to read your insights! Let’s keep the conversation going—your voice matters! ✨📚