- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Dilon Ke Bandhan by Umme Mariyam Sheikh
Forced Marriage | Rude Hero | Romantic Novel
ارادہ تو میرا تمھیں پوری عزت سے اپنانے کا تھا مگر تمھارے گاؤں کے سردار نے تم سے یہ حق چھیننے پر مجھے مجبور کر دیا ہے ۔اس نے میرے خاندان کی عزت پر ہاتھ ڈالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔میری بہن کو اغوا کرنے جیسا گناہ کیا ہے۔
اب میں اسے بتاؤں گا کہ عزت کو پامال کرنا کسے کہتے ہیں ۔جب تم اپنی لٹی پٹی عزت کے ساتھ گاؤں پہنچوگی تب اس کے ہوش ٹھکانے آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تب اسے پتا چلے گا کہ میر سجاول کے ساتھ کھیل کھیلنے کا کیا نتیجہ نکلاہے ۔میرے خلاف کی گئی سازش اسے کتنی مہنگی پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔یہ بات اسے آنے والا وقت اچھی طرح سمجھا دے گا ۔آئیندہ وہ میرسجاول سے ٹکرانے سے پہلے سو بار سوچے گا۔
اپنے گاؤں کی ہر لڑکی کی عزت کو وہ اپنی عزت سمجھتا ہے ،اب دیکھتا ہوں کیسے وہ میر سجاول سے اپنی عزت بچاتا ہے ۔۔۔۔میرا بدلہ یہیں پر ختم نہیں ہو جائے گا ۔۔۔۔اس کا غرور توڑنے کے بعد اس کو قبر تک پہنچا کر ہی دم لوں گا ۔میر کے لہجے میں اس وقت ایک درندہ بول رہا تھا ،اس کے اندر کا عاشق جیسے مر چکا تھا ۔انتقام کی آگ میں وہ اندھا ہوگیا تھا ۔
زرتاج اس کی باتیں سن کر پتھر ہوگئی تھی وہ اپنا رونا بھول کر ٹکر ٹکر میر کو دیکھ رہی تھی ۔اس کی آنکھوں سےبیک وقت حیرت ،بے یقینی اور نا امیدی چھلک رہی تھی مگر میر سجاول نے انہیں پڑھتے ہوئے بھی نظر چرانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا ۔ زرتاج یکدم ہوش میں آکر میر کے قدموں سے لپٹ گئی ۔
میر سائیں ! اپنی محبت کو اس دشمنی کی بھینٹ مت چڑھائیں ۔مت بھولیں کے آپ نے مجھ سے بے حد پیار کیا ہے ،مجھ سے ان گنت وعدے کئے ہیں ،قسمیں کھائی ہیں ،پلیز !مجھے برباد مت کریں ۔وہ اس کے پاؤں پکڑے پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔
نہیں کی میں نے تم سے کبھی محبت ،کوئی وعدہ نہیں کیا ،کوئی قسم مجھے یاد نہیں ۔اس وقت مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ تم معظم شاہ کی عزت ہو ،اس کے گاؤں کی عزت ہو ۔میر سجاول نے دہاڑتے ہوئے کہا ۔
ابھی آپ بہت غصے میں ہیں ۔۔۔۔۔دماغ کو ٹھنڈا کر کے سوچیں ، اس میں ہم دونوں کی بربادی ہے ۔۔۔۔۔آپ کا یہ جذباتی پن ہم دونوں کو جدا کر دے گا ۔وہ اب تحمل سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
برباد تو میں ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں تمھارے عشق میں دنیا بھلائے بیٹھا تھا، نہ مجھے دشمنی کی کوئی فکر تھی نا اس (گالی) کی کوئی پرواہ ۔۔۔۔وہ مجھے زک پر زک پہنچاتا رہا اور میں تمھاری محبت کے خمار میں گم اسے ڈھیل دیتا گیا ۔۔۔۔۔مگراب مجھے ہوش آگیا ہے ۔وہ درشتگی سے کہتا اسے اپنے قدموں سے اٹھا کر کھینچتا ہوا بیڈ تک لے آیا ۔
زرتاج نے روتے ہوئے بیڈ سے اٹھنے کی کوشش کی مگر میر سجاول نے اس کے سر سے چادر کھینچ لی ۔
زرتاج نے دونوں ہاتھوں سے خود کو چھپالیا ۔وہ سر جھکائے بیٹھی تھی مگر اس کے سامنے اس کا محبوب نہیں ایک وحشی درندہ کھڑا تھا ۔جس نے اس دن اپنی وحشت اور درندگی دکھانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔
زرتاج تڑپ تڑپ کر روتی رہی ،اس کی چیخ و پکار ،سسکیوں نے بھی میر سجاول کے اندر سوئے ہوئے انسان کو نہیں جگایا ۔زرتاج کی بھر پور مزاحمت بھی اس کی درندگی کے سامنے دم توڑ چکی تھی کیونکہ وہ میر سجاول کی مضبوط گرفت میں تھی ۔
آج اسے محبت اور احترام سے چھونے والے ہاتھ نوچ کھسوٹ رہے تھے ۔ بس صرف گھٹی گھٹی سی سسکیاں باقی رہ گئی تھیں۔
میر سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا ۔۔۔۔۔جب طبیعت حد سے ذیادہ بوجھل ہوگئی تو اس نے کروٹ لے کر سونے کی ناکام سی کوشش کی
مگر دل پر پڑے بوجھ نے اسے ایک پل کی بھی نیند نہیں لینے دی ۔