Atash E Ishq By Wahiba Fatima 

Extreme Romantic | Ziddi |  Zalim Hero | Extreme Rude Hero | Strong Heroin | Haveli based  |Revenge based | Forced Marriage | University based | Wadera based

وہ لویزا کا ہاتھ تھامے کمرے میں آیا تھا۔ پیچھے مڑ کر ڈور لاک کیا۔ اور اپنی شرٹ اتار کر ایک سائیڈ رکھ دی۔
اب،، آ،،، آپ جائیں،، مم،، میں خیال رکھوں گی اپنا،، اب،،، ٹھیک ہوں،،
وہ توڑ توڑ کر لفظ ادا کرتی جھجھکتی بولی تو میر ہادی کے لبوں پر مسکان رینگی۔
آج میں ادھر ہی سوؤں گا کل ہم یہاں سے چلے جائیں گے،، میر ہادی نے کہا تو وہ پہلی بات پر شاکڈ ہوئی اور دوسری بات پر الجھی۔
آپ ادھر کیوں سوئیں گے،، وہ انگلیاں چٹخانے لگی۔
کیوں کون روک سکتا ہے مجھے ادھر سونے سے،، وہ بظاہر سنجیدگی سے بولا مگر آنکھوں میں بےحد شرارت کی چمک تھی۔
ہم کک،، کدھر جائیں گے،، اس نے سوال ہی بدل لیا۔
وہ صبح کو ہی بتاؤں گا،، وہ شرٹ لیس اس کے قریب چلا آیا۔ لویزا بےاختیار ہی پیچھے ہٹی۔
آخر پیچھے دیوار سے لگی تو قدم روکنے پڑے۔ وہ دلچسپی سے اسے دیکھے گیا۔ لویزا کے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوئے۔ سامنے والے کی نگاہوں میں ہی اتنی تپش تھی کہ وہ سلگ کر رہ گئی۔
مم،، مجھے آرام کرنا ہے،، وہ اس کے پہلو سے بچ کر نکلنے لگی جب میر ہادی کے ہاتھوں نے اسے کندھوں سے تھاما تھا۔ دہکتے لب ماتھے پر رکھے۔ لیزا کو لگا ماتھے پر جلتا انگارا رکھا گیا ہو۔
وہ یونہی اس کے وجود پر اپنی محبت کے پھول بکھیرتا اس کی گردن تک آیا تھا۔
ہا،،،،،،،،دی،،، اس کی سانس اکھڑی۔ اتھل پتھل ہوتی سانسوں کے بیچ وہ اس کی شدتیں اپنے وجود پر بمشکل برداشت کر رہی تھی۔ لیزا نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنا چاہا جب ہمیشہ کی طرح اس نے وہ ہاتھ تھام کر اپنے کندھوں پر رکھے تھے اور خود اس کے گداز، گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لبوں کو اپنے ہونٹوں کی مچلتی گرفت میں لیا تھا۔ ہاتھ کمر کے گرد لپیٹتا وہ اس پر مکمل دسترس حاصل کر گیا۔
کافی دیر وہ خود کو سیراب کرتا رہا تھا جب لیزا کی برداشت کی حد پار ہوئی تو اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پورا زور لگا کر خود سے دور کیا۔
لویزا سینے پر ہاتھ رکھے گہرے گہرے سانس بھرتی بے قابو ہوتی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی بیڈ پر آ کر لیٹ گئی تھی۔ وہ مسکراتا بیڈ پر آ کر اس کی پشت کے پیچھے اس کے پہلو میں لیٹ گیا تھا۔
کچھ دیر سکون رہا مگر،
لویزا کی سانس اٹکی جب کمر پر میر ہادی کے ہونٹ سفر کرتے محسوس ہوئے۔ پچھلے گلے کی ڈوری کھول کر کندھے سے شرٹ کھسکائی گئی تھی۔ دہکتے لب کندھے پر رکھے تو لویزا کو لگا اس کی روح فنا ہو چلی ہے۔ لویزا نے شیٹ مٹھیوں میں دبوچی تھی۔
ہا،،، ہادی،، ی،،،،، یہ،، کک،، کیا کر رہے ہیں آ،،، آپ،، لویزا بمشکل ہی بول پائی تھی۔
کچھ نیا تو نہیں ہے،، سکون سے دئیے گئے جواب نے اس کے چودہ طبق روشن کیے تھے۔ میر ہادی نے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
ہا،، دی،، مم،، میری طبیعت،، ٹھیک نہیں،، لویزا نے اس کے سینے میں منہ دے کر جائے فرار ڈھونڈنی چاہی۔
یہ بہانہ بھی نیا نہیں ہے،، کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود میں بھینچا۔
ہادی آپ یہاں کرنے کیا آئے تھے،، جھنجھلا کر بولی۔
تمھارے ہوش ٹھکانے لگانے آیا تھا، اور مجھے لگتا ہے میں کامیاب ہوا ہوں،،
مگر،،
میر ہادی نے اس کی بولتی بند کی تھی۔ کمفرٹر درست کرتا وہ لائٹ آف کر گیا تھا۔

Download Link

Direct Download

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *