- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Ishq E Zulmat By Sumyia Baloch
Wani base | Fedual Base | Revenge Base | Romantic Novel
“ہلوں مت بیوی۔”
رات کی تاریکی کی وجہ سے کیوان یاٹ کو سمندر کے بیچ میں رُوک کر باہر نکلا تو اُسے سمندر کے پرسکون لہروں کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا۔
نزدیک پہنچتے ہی یکدم سے اُسے کل رات کا منظر یاد آیا تو وہ مسکرایا اور اُسکے قریب پہنچ کر اُسکے آگے کھڑا ہوگیا اور اُسے متوجہ کرتے ہوئے پیچھے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اُسے ہلنے سے منع کرنے لگا۔
“کیوں۔”
نازلی اُسکے آکر اپنے سامنے کھڑے ہونے پر اور پیچھے کی طرف اشارہ کرنے پر وہ تیکھی نظروں سے اُسے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔
“کیونکہ تُمھارے پیچھے ایک بڑا سا سانپ ہیں۔”
کیوان نے سنجیدگی سے کہا۔
تو نازلی اپنے پیچھے سانپ کا سُن کر دھنگ رہ گئیں۔
“وہاٹ سانپ۔”
پھٹی آنکھوں سے اُسے دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی۔
“ہاں سانپ۔”
کیوان نے اُسی سنجیدگی سے کہا۔
“تُم میرے ساتھ کھیل رہے ہوں ناں۔؟؟؟
وہ تیوریاں چڑھا کر اُس سے پوچھنے لگی۔تو کیوان سرمئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہنسا۔
“ہاہاہاہاہاہاہا بیوی تُم ہاتھ لگانے نہیں دیتی ہو۔”
گھمبیرانہ لہجے میں کہتا وہ اُسے دیکھنے لگا جو اب سخت نظروں سے اُسے گھور رہی تھیں۔
“شٹ اپ سچ بتاؤ کیا سچ میں میرے پیچھے سانپ ہیں۔؟
نازلی نے آنکھوں کو ترچھی کرتے ہوئے اُسکے چہرے کو دیکھا جو کافی سنجیدہ لگ رہا تھا۔
“بیوی کیا تُم ڈر رہی ہوں۔؟
اُسکے سوال پر وہ اچانک چہرے پر شرارت سجا کر پوچھنے لگا۔
“ڈر مائے فٹ میں تُمھیں اُس سانپ کو گردن سے پکڑ کر ابھی دیکھاتی ہو۔”
وہ شدید غصے سے کہتی اُسے کہنے لگی۔
اس وقت بلکل بھی ڈر اُسکے چہرے پر رقم نہیں تھا اُسکی جگہ اگر کوئی کمزور لڑکی ہوتی تو سانپ کا نام سُن کر اسی وقت بہیوش ہو جاتی لیکن وہ آفیسر نازلی تھی۔
ایک خطرناک گینگسٹر کی ضدی اور خونخوار بہادر بہن۔
“ہاں پھر دیکھاؤ نا بیوی کھڑی کیوں ہو۔”
کیوان کآردال نے اُسے اُکساتے ہوئے کہا۔
تو اسکی بات پر وہ جھٹکے سے پیچھے مڑی اور نیچے دیکھنے لگی تو وہاں اُسے صرف یاٹ کا چمکدار سفید فرش نظر آیا۔
“کہاں ہے یہاں سانپ جھوٹے انسان۔”
وہ پوری جگہ ڈھونڈتی ہوئی کہنے لگی۔
“سرمئی آنکھوں والی حسینہ کو دیکھ کر بھاگ گیا ڈارلنگ۔”
کیوان اُسے نیچے جھکے دیکھ کہتے ہوئے آگے بڑھا اور ایک سیاہ پٹی جیب سے نکال کر جو اُسے اس یاٹ کے ایک روم سے ملا تھا اور ایک پتلی مگر مضبوط رسی بھی جسے وہ پیچھے سے نازلی کو پکڑ کر وہ پہلے اُسکے ہاتھ باندھنے لگا پھر آنکھوں پر پٹی نازلی جو نیچے جھکی سانپ کو ڈھونڈ رہی تھی اس اچانک افحاد پر وہ اُسکی مضبوط باہوں میں دولنے لگی۔
“مسٹر تُم یہ میری آنکھوں پر پٹی اور ہاتھوں کو کیوں رسیوں سے باندھ رہے ہو چھ۔چھوڑوں مجھے۔؟
وہ اپنی آنکھیں پٹی کی قید میں محسوس کرتی خود کو اس وقت اندھی تصور کرنے لگی تو اُسکی مضبوط باہوں میں بُری طرح سے محترک ہوگئی۔
“بیوی تُم کُھلی آنکھوں اور بغیر بندھے ہاتھ پیروں سے مجھے کچھ کرنے ہی نہیں دیتی ہوں۔تو میں یہ سب
کرنے میں مجبور ہوگیا ہوں۔”
وہ اُسے باندھنے کے بعد اُسکا رُخ اپنی جانب کرتا بھاری لہجے میں کہنے لگا۔
“م۔مطلب کک۔کیا کرنے نہیں دیتی ہو میں تُمھیں۔؟
اُسکی مضبوط باہوں کی سخت گرفت میں وہ سمٹی پھاڑ کھانے والے انداز میں پوچھنے لگی۔
“بہت کچھ۔”
بوجھل لہجے میں کہتا اچانک اُسے باہوں میں بھر کر لیے سامنے چھوٹے سے بنے پول کی جانب بڑھا۔
نازلی خود کو اُسکی باہوں میں محسوس کرتی لرز اٹھیں۔
“ی۔یہ تُم نے مجھے اوپر کیوں اٹھا رہے ہو۔؟
وہ کپکپاتی آواز میں اُس سے پوچھنے لگی۔
“بیوی سمندری پانی میں کھودنے کی وجہ سے تُم پوری نمک کی کان بن گئی ہوں۔جب کل رات تین بجے تُم سو رہی تھیں تو میں نے تُمھاری بے خبری کا فائدہ اٹھایا اور مجھے بدلے میں مجھے سزا کے طور پر تُمھارے گال پیشانی نمکین ملے۔”
پول کے پاس پہنچ کر نظریں اُسکے غصے سے ٹمٹماتے چہرے پر مرکوز کرنا معنی خیزی سے کہنے لگا۔
“کیا تُم نے میری نیند کا فائدہ اٹھایا اتنی ہمت تُمھاری۔”
وہ اُسکی گستاخیوں کی داستان سُن کر سخت سُلگتی ہوئی شدید غصے سے بولی۔
“بیوی ہمت دیکھانے کیلئے۔مجھے پہلے تُمھیں نمک کے کان سے شوگر فیکٹری میں تبدیل کرنا پڑیں گا پھر میں تُمھیں اچھے سے اپنی ہمت سے ملواؤں گا۔”
معنی خیز نظروں سے اُسکے سفید ڈریس میں چھپے نازک سراپے کو دیکھتے ہوئے اچانک سے اُسے سوئمنگ پول میں اُسنے اُسے پھینک دیا تو آنکھیں پٹی میں جکڑنے اور ہاتھ رسیوں سے باندھنے کی وجہ سے وہ سوئمنگ پول میں ڈوبنے لگی۔
“ہوں شٹ اپ اور یہ تُم نے مجھے پول میں کیوں پھینکا مجھے باہر نکالوں ۔”
بمشکل اپنا سر باہر نکالنے میں کامیاب ہو کر وہ غصے سے چیختی ہوئی اُسے حکم دینے لگی۔
“بیوی تُم کہوں تو میں ابھی اس سوئمنگ پول میں آکر تُمھیں شوگر فیکٹری بننے میں ہلیپ کرتا ہوں۔”
کیوان نے معنی خیزی سے کہا۔
تو وہ اُسکی بات پر سلگ کر رہ گئیں۔
“جاہل بدتمیز میری آنکھیں کھولوں مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا میں ڈوب جاؤں گی۔”
وہ ڈوبنے لگی تو سر باہر نکال کر اُس سے کہنے لگی جو اُسے ڈوبتے اور مشکل سے سانسیں لیتے ہوئے دیکھ سوئمنگ پول کے اندر گیا اور اُسکے پیچھے جاکر اُسکی بھیگی نازک کمر کو پکڑ کر اوپر اٹھا کر اُسکا رخ اپنی جانب کرتا اُسکے سردی کی وجہ سے کپکپاتے بدن اور لبوں کو اپنی گستاخ نظروں سے دیکھنے لگا۔
“فکر ناٹ بیوی میں ہو نا تُمھیں ڈوبنے نہیں دوں گا۔”
گھمبیرانہ لہجے میں کہتا وہ اُسکی سردی کے باعث کانپتے لبوں پہ جھکا اور اپنے لبوں کی حرارت شدت سے محسوس کراتا اُسے اب شرم کے مارے کپکپانے پر مجبور کرنے لگا۔
“ڈونٹ ٹچ می اپنے ہاتھوں کو کنٹرول کروں ورنہ میں اُنہیں کاٹ کر شارک کو کھلا دوں گی۔”
وہ اُسکے چہرے کے دور ہٹتے ہی خونخوار لہجے میں بولی۔
“بیوی یہ ہاتھ تُمھاری نزدیکی پر خودبخود آؤٹ آف کنٹرول ہو جاتے ہیں تو کنٹرول کرنے کا کوئی فائدہ نہیں یہ تُمھارے مامعلے میں بے لگام ہیں۔”
کیوان نے جھٹکے سے اُسے کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرایا
اور اُسکی نم پیشانی کو چھونے کے بعد سفر نیچے رخساروں کی جانب کرتا بوجھل لہجے میں کہنے لگا نازلی شدید سردی کے باعث اُسکی گرم باہوں میں سمٹی اُسکے سہارے کھڑی تھیں۔