- Age Difference
- Army Based
- Cheat Based
- Class conflict
- Cousin Marriage Based
- Crime Thriller
- Digest Novel
- Drugs Based
- Family Rivelary Based
- Fantasy Novels
- Forced Marriage Based
- Friendship Based
- Gaddi Nasheen
- Gangster Based
- hacking
- Halala Based
- Haveli based novels
- Hidden Nikah Based
- Inspirational Fiction
- Jageer Dar Based
- Journalist Based
- Khoon Baha Based
- Khubsurat Muhabbat ki Kahani
- kidnapping Based
- Love Story Based
- Love Triangle
- Murder Mystery
- Mystery
- Past Story Based
- Politician Based
- Revenge Based
- Revenge Based Novels
- Robotics Fiction
- Romantic Fiction
- Romantic Urdu Novel
- Rude Hero Based
- Rural to Urban Transformation
- scam
- Science Fiction Based
- Second Marriage Based
- Social Engineering
- Social issues Based
- Step Brothers Rivelry
- Suspense Thriller
- Under Cover Agent
- University life
- Village Based
- Women’s Empowerment
Mere Dard Ki Tujhe Kya Khabar by Umme Abbas
Arrange Marriage | After Marriage | Age Difference | Family Drama | Family Politics | Romantic Novel
“آپ کبھی نہیں سمجھے گے فارس کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ ہی نہیں سکتے ۔۔آپ تو ہمیشہ سے بے خبر رہے ہیں ۔۔۔مجھ سے ۔۔میری ذات سے ۔۔میری ہر تکلیف ،ہر درد سے ۔آپ کبھی محسوس کر پائے ہیں نہ کبھی آپکو احساس ہوگا “۔اس پر نظریں گاڑھے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ پہلی بار بنا کسی خوف و خدشے کے بولی تھی تو اسکی دھیمی آواز میں اک ان دیکھا سا درد تھا ۔وہ بس یک ٹک حیرت زدہ سا اسے دیکھے گیا
“جانتے بھی ہیں کتنی تکلیف ہوتی ہے جب پوری رات اپنے چھوٹے سے معصوم بچے کو گود میں اٹھا کر اسکی مدھم پڑھتی سانسوں کو بار بار ناک کے قریب ایسے انگلیاں لے جا کر محسوس کرنا پڑے “۔اس نے مزمل کے ناک کے قریب اپنا ہاتھ کیا تھا ۔”وہ رات قیامت کی رات تھی فارس ۔میں نے کتنی بار جا کر امی کا دروازہ بجایا تھا میں گڑگڑائی تھی ان کے سامنے کہ اسے ہسپتال لے چلیں ۔لیکن انہوں نے کیا کہا صبح تک انتظار کرو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا ۔وہ رات کتنی طویل ہو گئی تھی ۔آپ کو کیا پتہ ؟۔میں ایک ایک لمحہ مری ہوں اس رات ۔۔۔اسکی ھر اکھڑ تی سانس مجھے بے جان کر رہی تھی ۔مگر آپ نہیں تھے “۔
اسکے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے ۔وہ مزمل کا چہرہ دیکھتی اک ٹرانس میں بولے جا رہی تھی۔اسکی آواز میں اک کرب کی سی کیفیت تھی ۔بے بسی تھی ،گزرے ماضی کی درد ناکی تھی ۔اس نے اسکو دیکھا تھا جو ششدر سا بیٹھا یک ٹک اسکو دیکھ رہا تھا ۔کچھ سمجھتا کچھ نا سمجھی کی سی حالت میں تھا ۔ اسکی کانپتی ٹھوڑی نے فارس کی دل کی دنیا میں طلاتم سا برپا کیا تھا ۔کچھ دیر کے توقف کے بعد وہ بولی تو آواز میں نا آسودہ حسرتوں کا اک جہاں آباد تھا ۔
“آپ کیوں نہیں تھے فارس ؟جب مجھے آپ کی ضرورت تھی ۔آپ کی اولاد کو آپ کی ضرورت تھی ۔آپ اتنے بے خبر کیوں تھے ؟اگر مزمل کو اس رات کچھ ہو جاتا تو خدا کی قسم میں نے آپکو روز محشر کسی صورت معاف نہیں کرنا تھا “۔اسکا گریبان اپنے ہاتھوں میں لیے وہ زکام زدہ بھیگی آواز میں چٹانوں سی سختی لیے بولی تھی مگر اس کی آواز کے بر عکس اس کا وجود کسی سوکھے پتے کا مانند کانپ رہا تھا ۔وہ اسکے سینے پہ دھرے اپنے ہاتھوں پر پیشانی رکھے بلک بلک کر رو دی تھی ۔اور فارس وہ تو جیسے زلزلوں کی زد میں آ گیا تھا ۔اسکو مبہم سی باتوں نے اسکو مضطرب کر دیا تھا ۔اسکے آنسو وہ اپنے دل پر گرتے محسوس کر رہا تھا ۔اسکا درد اس نے اپنے سینے میں محسوس کیا تھا ۔کتنی عجیب بات تھی وہ یہ بات سرے سے جانتا ہی نہیں تھا ۔وہ اپنی اولاد کی تکلیفوں سے نا واقف رہا تھا ۔اسکے چہرے کا رنگ متغیر ہوا تھا ۔اتنی سی آگاہی ہی اسے کرب کے سمندر کی اتھاہ گهرائیوں میں دھکیل گئی تھی ۔
اس میں اتنی ہمت نہیں رہی تھی کہ وہ ہاتھ بڑھا کر اسے دلاسا دے پاتا ،یا تسلی کا کوئی لفظ ادا کر پاتا ۔اس وقت اس کے سامنے اک ماں بیٹھی تھی ۔جس کے ایک ایک لفظ میں سچائی کی مہک تھی ۔وہ کسی صورت اسکی بات کو جھوٹ نہیں گردان سکا ۔پہلی بار ۔۔۔پہلی بار اسے احساس ہوا تھا وہ اس کے معاملے میں کوتاہی برت گیا تھا ۔وہ اسکی شریک حیات تھی مگر وہ کبھی اسکا شریک غم نہ بن سکا ۔اسے ان لمحوں میں پہلی بار اپنی بے اعتنائی پر ملال ہوا تھا ۔
بے شک وہ اسے ہر ماہ الگ سے اک اچھی خاصی رقم بھیجا کرتا تھا اور ساتھ امی کو تا کید بھی کرنا نہ بھولتا تھا اسکو دینے کی ۔مگر پیسا کبھی بھی حقیقی خوشیوں کی ضمانت نہیں ہوتا ۔وہ اسے مالی سہارا تو دے رہا تھا مگر جذباتی سہارا ۔۔۔اسکا کیا ؟؟؟
ندامت سے اس نے اپنا نچلا ہونٹ بری طرح کچلا تھا اسے اپنے منہ میں خون کے ذائقہ گھلتا محسوس ہوا تھا ۔دعا اب بھی اسکے سینے پر سر رکھے رو رہی تھی اسکا وجود ہولے ہولے ہچکو لے کھا رہا تھا ۔مگر شاید وہ پتھر کا ہو گیا تھا ۔اس نے تو کبھی کسی چیونٹی تک کو دانستہ ضرر نہ پہنچائی تھی یہاں تو سوال ایک جیتے جاگتے انسانی وجود کا تھا جس سے اسکا جسم و روح کا رشتہ تھا ۔
اور یہ احساس ہی اس کے لیے جان کنی کا باعث تھا کہ وہ اسے دو ہری اذیت میں مبتلا کر گیا تھا ۔پانچ سال پہلے وہ اسے دو انتہاؤں کے درمیان معلق کر گیا تھا جہاں وہ ادھر کی رہی نہ ادھر کی ۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔یا تو اسے چھوڑ دیتا یا پھر کھلے ظرف سے اپنا لیتا ۔جیسے دل میں اب گنجائش پیدا کی تھی تب ہی کر لیتا تو شاید اتنا عرصہ نہ خود تکلیف میں رہتا نہ اس کے لیے درد کا باعث بنتا ۔
اس کے ساتھ رہتے جتنا وہ اسے جان پایا تھا اس کے بعد دل پانچ سال پہلے گزری وہ رات ،اس کی ذات سے منسلک سنی ہر بات کو جھٹلا دینے پر تلا ہوا تھا ۔وہ بغاوت پر اتر آیا تھا ۔اور فارس نے جیسے اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے تھے ۔
“اس رات کیا ہوا تھا دعا ؟وہ لڑکا کون تھا ؟اسے اپنی آواز انجان سی لگی تھی ۔پانچ سال بعد بلا آخر وہ سوال اسکی زبان کی نوک تک آ ہی گیا تھا جسے وہ اپنے شعور میں داخل ہونے تک کی اجازت نہ دیتا تھا ۔مگر آج وہ جی کڑا کر کے سب سننا چاہتا تھا ۔اسکی زبان سے ۔۔۔۔۔۔اس نے پانچ سال انتظار کیا تھا اس کے منہ سے کچھ سننے کو ۔مگر ان ہونٹوں کا فقل نہ ٹوٹا مگر آج شاید اسکا ضبط ٹوٹ گیا تھا ۔دل آج اسکی طرف کی داستان سننے کا متمنی تھا ۔اسکی کہیں ہر بات کا یقین کرنے کو بے تاب تھا ۔بس وہ ایک بار بولے تو سہی ۔کچھ کہے تو سہی جو اس کے دل میں چھپا تھا ۔
سر سراتی رات کی خاموشی میں جہاں صرف اسکی دبی دبی سسکیاں گونج رہی تھیں ۔فارس کی کھوئی ہوئی آواز میں بولے گئے الفاظ اسے ساکت کر گئے تھے ۔
دعا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔اسکی حیراں آنکھوں میں پانی ٹھہر سا گیا تھا ۔یہ وہ آخری سوال تھا جسکی وہ اس سے اب کبھی توقع کر سکتی تھی ۔آخر پانچ سال کے طویل عرصے کے بعد اس شخص کو یاد آئی تھی یہ پوچھنے کی ؟۔اس کے نئے نئے مندمل ہوئے زخم پھر سے رسنے لگے تھے .وہ رات پوری جزیات کے ساتھ ذہن کے پردے پر نمودار ہوتی اسے ایک بار پھر سے اسی رنج و اذیت سے دوچار کر گئی تھی ۔اور زندگی میں پہلی بار دعا فارس بے رحم بنی تھی ۔اس نےاس قدر بے دردی سے اپنے چہرے کو رگڑ ڈالا تھا کہ اسکے گال ہلکے سرخی ما ئل ہوئے تھے ۔
“آپ نے کہا تھا اس رات کا ذکر کبھی ہمارے درمیان نہیں آئے گا “۔
اور جب وہ بولی تھی تو اسکا لہجہ بالکل سپاٹ تھا ۔ آنکھیں بے تاثر تھی اس نے نظریں اسکے چہرے سے پھیر لی تھیں ۔پتہ نہیں کیوں دل اس وقت اس کا چہرہ تک دیکھنے کا روادار نہ رہا تھا ۔کوئی طلسم سا تھا جو ٹوٹا تھا ۔اس کمرے کے در و دیوار جو آج دو ٹوٹے دلوں کے جڑنے کی آس لیے ہوئے ان دونوں کی دوریوں کے ختم ہونے کے لیے دعا گو تھے ان پر بھی افسردگی کی اک دبیز تہہ سی جم گئی تھی ۔فارس کی آنکھوں نے رنگ بدلہ تھا ۔سبکی و اہانت کے احساس سے اسکا چہرہ سرخ پڑا تھا ۔وہ اک سخت نگاہ اس کے چہرے پر ڈال کر سرعت سے اٹھا تھا ۔اورتیز ی سے چلتا بچوں کے کمرے میں کہیں گم ہو گیا تھا ۔پیچھے دروازہ قدرے زور سے بند کیا تھا جو اسکے غصے کی عکاسی کر رہا تھا ۔دعا نے اک نظر بچوں پر ڈالی تھی وہ پر سکون سو رہے تھے ۔بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر اس نے خالی خالی نظروں سے کمرے کا بند دروازہ دیکھا تھا ۔
(نہیں فارس احمد ۔وہ وقت گذر گیا ۔جب میں نے آپ سے آس لگائی تھی ۔آپ نے لمحوں میں میرا مان ریزہ ریزہ کیا تھا ۔اب کیوں بتاؤں میں ؟۔وہ کڑا وقت تو گذر گیا ۔یہ آپ کی میری طرف سے تجویز كرده سزا ہے فارس ۔آپ ہمیشہ اس سچ سے انجان رہیں گے۔جو تکلیف میرے حصے میں لکھی تھی آپ نے اسکا کچھ مزہ آپ بھی تو چکھیں )۔دل نے اسکی اس سنگدلی پر آہ و پکار کی تھی پر وہ کان لپیٹے بے حسی کی چادر اوڑھ کر اسکے ساتھ ساتھ خود کو بھی تکلیف دے رہی تھی ۔